حضرت سید محمد گیسو دراز

آپ یوسف الحسنی  دہلوی کے بیٹے اور شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے خلیفہ تھے آپ سیادت اور علم و ولایت کے جامع اور بڑے رفیع الدرجہ عظیم البرکت اور قادرالکلام بزرگ تھے، آپ مشائخ چشت کا طریقہ رکھتے تھے اور اسرار طریقت میں خاص مہارت رکھتے تھے شروع میں دہلی رہا کرتے تھے  لیکن شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی وفات کے بعد گلبرگہ چلے گئے اور وہاں شہرت عامہ حاصل کی وہاں کے تقریباً تمام لوگ آپ کے فرمانبردار ہوگئے اور وہیں آپ کی وفات ہوئی۔

آپ گیسو دراز کے لقب سے مشہور تھے، اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی پالکی جس طرح دوسرے مرید اٹھاتے تھے اسی طرح سید محمد بھی اٹھایا کرتے تھے، ایک دن آپ اپنے شیخ کی پالکی اٹھانے لگے تو اس کے ایک حصہ میں آپ کے بال  الجھ گئے اگر نکالتے تو دیر لگتی اور اس سے شیخ کے کبیدہ خاطر ہونے کا خطرہ محسوس کرتے تھے اس لیے شیخ کے عشق و محبت میں اسی کیفیت سے چلتے رہے بہت فاصلہ طے کر جانے کے بعد جب شیخ کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور آپ کی اس سچی محبت اور پکی عقیدت پر آفریں کی اور یہ شعر پڑھا۔

ہر کہ مرید سید گیسودراز شد
واللہ خلافت نیست کہ او عشقبازشد

 

ترجمہ: (جو کوئی سید گیسو دراز کا مرید ہوگیا بخدا بلا تخلف وہ عشقباز بن گیا)

آپ کے ملفوظات بھی ہیں جو جوامع الکلم کے نام سے مشہور ہیں جن کو آپ کے ایک مرید بنام محمد نے جمع کیا تھا جس میں لکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام نصیرالدین مجھ پر شفقت فرمایا کرتے تھے، میرا اولاً یہ خیال تھا  کہ شیخ کی خدمت میں جلدی جلدی حاضری دیا کروں مگر میں پیر کی خدمت میں حاضری کے آداب نہ جانتا تھا اس لیے حاضر نہ ہوتا تھا اور یہ بات میں نے اپنے والد سے جو شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید تھے شیخ نظام الدین کی خدمت میں حاضری کے وقت سنی تھی ، ایک بار میں مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ محمد! تم ہمیشہ بے وقت آتے ہو، اور جب آتے ہو تو میں کبیدہ خاطر ہوجاتا ہوں اس لیے چاہتا ہوں کہ تم سے مفصل گفتگو کروں اور اس وقت میری عمر پندرہ سال کی تھی کم سنی  کی وجہ سے شیخ  کی یہ بات سن کر میں متحیر ہوگیا پھر میں نے عرض کیا کہ سبحان اللہ! اس سے بڑھ کر میرے لیے اور کیا خوش قسمتی کی بات ہوگی کہ شیخ کی خواہش مجھ سے گفتگو کرنے کی ہے۔ ایک دن میں نماز اشراق کے بعد شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا  فرمایا کیا آپ کو صبح کی نماز کا وضو اشراق تک رہتا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں شیخ کی برکت سے باقی رہ جاتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اسی وضو سے اِشراق کی دو رکعت بھی پڑھ لیا کریں! میں نے عرض کیا کہ آپ کی برکت سے یہ بھی  پڑھتا ہوں پھر فرمایا کہ اسی وضو سے دن کے شکرانہ اور طلب خیر کی بھی دو رکعت پڑھ لیا کریں کچھ روز میں نے اس کا بھی اہتمام کیا، ایک روز فرمایا کہ اِشراق پڑھتے ہو، میں نے عرض کی جی ہاں، آپ نے فرمایا کہ اسی وضو، سے چاشت کی چار رکعت بھی پڑھ لیا کرو تو ادا ہوجائیں گی اور اِشراق کے فوراً بعد انہیں پڑھ لیا کرو۔ میں رجب میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا، فرمایا کہ رجب کے روزے رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں تو آپ نے فرمایا کہ شعبان کے روزے بھی رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ شعبان کے تو صرف نو روزے رکھتا ہوں مگر اگر اکیس روزے اور رکھ لیا کرو تو تین  ماہ کے  روزے مسلسل ہوجایا کریں گے، میں نے عرض کیا کہ آپ کی برکت سے انہیں بھی رکھا کروں گا، چنانچہ میرے والد محترم ابھی تک آپ سے بیعت نہیں ہوتے تھے میں نے یہ واقعہ  ان سے بیان کیا تو وہ سن کر مجھ پر ناراض ہوئے، میں نے عرض کیا کہ ابا جی آپ کو اختیار ہے آپ جو چاہیں کریں لیکن میں اپنے مرشد کے حکم کی خلاف ورزی کیسے کرسکتا ہوں، میں رمضان کے بعد عید کے بھی چھ روزے رکھا کرتا تھا، اسی دوران میں ایک دن  اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ ہمارے بزرگ داؤدی روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ مسلسل روزے رکھا کرتے تھے اب تم بھی ہمیشہ روزے رکھا کرو، آپ کے ملفوظات میں یہ بھی  لکھا ہے کہ ایک دن خواجہ محمود  بقاء جو مولانا برہان الدین غریب کے دوستوں میں سے تھے اس وقت میری عمر بہت کم تھی۔ اتفاق سے اس وقت خواجہ راجہ بزاق تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ اس وقت ہمارے زیر بحث یہ بات تھی کہ حاتم اصم نے فرمایا کہ جب تک آدمی تین بار موت کا مزہ نہ چکھ  لے اس وقت تک مراتب عالیہ نہیں حاصل کرسکتا، یہ درست ہے اور وہ تین موتیں یہ ہیں (1)سفید (2) سرخ (3)سیاہ

سفید موت کے معنی یہ ہیں کہ فقیر اور درویش بھوکا رہے۔ سرخ موت کے معنی یہ ہیں کہ اپنے اندر تحمل اور برداشت کا مادہ پیدا کرے۔ سیاہ موت کے معنی ہیں مفلس ہوجانا۔ خواجہ راجہ نے برائے امتحان  مجھ سے دریافت کیا کہ بتاؤ ان تین موتوں کو کس سبب سے سفید، سرخ، سیاہ قرار دیا گیا ہے میں نے عرض کیا کہ بھوک کا تعلق پاکیزگی اور طہارت سے اور ہر اچھی  چیز کو سفید کہتے ہیں اس لیے ایسی موت کو سفید موت کہتے ہیں اور تحمل و برداشت کرنے میں چونکہ خون جگر پینا پڑتا ہے کیونکہ غصہ کی حالت میں بوقت انتقام خون کھولتا ہے  اور بردباری اور تحمل سے غصہ دور ہوجاتا ہے اس لیے اس موت کو سُرخ کہتے ہیں، رہا افلاس سو اس کے متعلق پیغمبر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

افلاس دو عالم میں باعث رو سیاہی ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ لوگ اپنے اندر ذلیل و عاجز اور مجسمہ خجالت فقیروں ہی کو جانتے ہیں اس لیے اس کو موت سیاہ کہتے ہیں۔

ایک دن فرمایا کہ شیخ فریدالدین کے پوتے شیخ منور فضل اللہ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ شیخ کے گنبد میں اکثر لوگوں  نے آپ  کے جسم کو سات حصوں میں جُدا جُدا پڑا ہوا دیکھا ہے، بتائیے! اس میں کیاراز ہے؟  میں نے کہا سبحان اللہ! مجھے کس نے دیکھا اور کون کہتا ہے، جو کہتا ہے وہ جھوٹ کہتا ہے، اور اگر آپ نے اس کے متعلق دریافت ہی فرمایا ہے تو اس کے متعلق جو صوفیاء کی کتب میں لکھا ہے وہ یہ ہے کہ پروردگار کی تجلی طالب پر اس طرح پڑتی ہے  کہ اگر اس وقت اس تجلی کے سامنے بڑے بڑے پہاڑ بھی آجائیں تو وہ بھی ریت کے ذرے بن جائیں، اور اگر وہ تجلی آگ پر پڑے تو اس  میں جلانے کی طاقت نہ رہے۔ خلاصہ یہ کہ اسی تجلی کے اثرات ہی آدمی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، سات ٹکڑے کیا انسان کے لاکھوں ٹکڑے ہوجاتے ہیں، اس تجلی کے اس مرد خدا پر ہزارہا پہاڑ اور آگ کے شعلے نمودار ہوتے ہیں جس کو وہ مشاہدہ کرتا اور دیکھتا ہے اور وہ اسے اس وقت بہت اچھے اور لطیف نظر آتے ہیں، وہی تجلی اس آدمی کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور پھر بدن کے تمام اعضا اس کی جانب کھینچ کر چلے  جاتے ہیں پھر ان اعضاء کو دست  قدرت، قوی، مکمل اور لطیف بنادیتا ہے۔

ایک مرتبہ فرمایا کہ  وہ سفر جس سے باطن پر برے اثرات مرتب نہ ہوں تو وہ مبارک سفر ہے اس لیے کہ صوفیائے کرام کی دولت و ثروت تو صرف دل جمعی کے ساتھ اللہ کے حضور حاضری دی جائے تو وہ ایسی جنت ہے کہ جس پر ہزار (حقیقی) جنتیں قربان کی جاسکتی ہیں، ایسا کوئی لمحہ ضرور حاصل کرنا چاہیے، ابھی تک تو تمام وقت بے کار اور ضائع ہی ہوتا رہا اور کوئی کام نہ ہوسکا۔

بفراغ دل زمانے نظرے بخوبروئے
بہازانکہ چتر شاہی ہمہ عمر ہائے ہوئے

 

فرماتے ہیں کہ جب کبھی صحابہ کرام کی فضیلت اور افضلیت کا قصہ چھڑا تو میں نے کبھی اس بحث میں حصہ نہیں لیا، البتہ گفتگو کے دوران اللہ کی قسم میں نے اپنے مخلص دوستوں سے یہ ضرور کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور آپ کے بعد حضرت عمر بن الخطاب بعد حضرت عثمان غنی اور ان کے بعد حضرت علی تھے، البتہ بوقت ضرورت لفظی بحث ضرور کی جاتی ہے اور میں اصحاب کبار اور خلفائے عظام کے کارناموں کی برکت سے لوگوں کو کیسے نا آشنا رکھ سکتا ہوں۔ علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مسلمانوں کے لیے زندگی بہتر ہے یا موت؟ سو بعض زندگی کو بہتر کہتے ہیں اور کچھ موت کو، لیکن میری رائے یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور آپ کی حیات میں زندگی بہتر تھی اور آپ کے بعد موت بہتر ہے۔

اس کے بعد فرمایا کہ ایک شخص نے حضرت علی سے کہا کہ آپ اپنے دوستوں میں عمار بن یاسر کے اوصاف بیان کیجیے! تو حضرت علی نے فرمایا کہ وہ پختہ مومن ہیں اور ان میں اتنا ایمان بھرا ہوا ہے کہ بہہ رہا ہے، پھر اس نے حضرت سلمان فارسی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کے پاس اگلے اور پچھلے لوگوں کی معلومات کے خزانے ہیں، اسی طرح حضرت حذیفہ کے بارے میں فرمایا کہ حضرت حذیفہ حضور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب اَسرار تھے اور ان میں ایک یہ صفت بھی تھی کہ وہ منافقین کے حالات سے باخبر رہتے تھے، سائل نے کہا کہ اے علی! آپ اپنے بارے میں بھی تو فرمائیں، آپ نے فرمایا اچھا میرے متعلق دریافت کرتے ہو تو سنو میری حالت یہ ہے (میں جو مانگتا ہوں دیا جاتا ہوں اور اگر میں خاموش رہتا ہوں تو وہ مجھ سے کلام کرنے میں ابتدا کرتا ہے)

قوت القلوب میں ہے کہ یہ مقام محبوبوں کا ہے جن کی مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ ایک بار فرمایا کہ ہمارے مشائخ  عاشق منش صوفی گزرے ہیں لیکن شیخ شہاب الدین اور اُن کی جماعت تمام کے تمام بڑے بزرگ واصل باللہ اور عارف تھے اور عشق تو ایک دنیا ہی دوسری ہے۔

ایک مرتبہ صوفیا اور علماء کے اختلاف کا ذکر آگیا، تو فرمایا کہ صوفیوں اور عالموں میں اس کے علاوہ کوئی اختلاف نہیں کہ صوفیائے کرام اللہ کی ذات میں فنا ہوکر اپنے وجود سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ جو مشہور ہے کہ علم سب سے بڑا حجاب ہے اس کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں وہ سب حجاب ہیں اور حجاب جتنے ہیں وہ سب قبیح، کثیف اور بہت ہی برے ہوتے ہیں لیکن ایک لطیف حجاب ہے جس کا اٹھانا اور جس کو دور پھینک دینا بہت اچھا اور ضروری ہے۔ علم سے مراد اصول حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ علوم شرعیہ مراد نہیں بلکہ علم سے مراد وہ علم ہے جو اللہ کی ذات اور صفات سے متعلق ہے کیونکہ وہ دلائل سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کے لیے تو مشاہدہ درکار ہے۔ ایک مقام پر لکھتے  ہیں کہ مسلمانوں کے اندر دو چیزیں بڑی تیزی  سے بدعت کو پیدا کر رہی ہیں۔ ایک قلندرانہ صورت اور دوسری یہ کہ جو لوگ کلمہ توحید کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے ہیں انہیں تکلیف دی جاتی ہے اور انہیں بد نام کیا جاتا ہے اور ان کے اہل و عیال کو قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان کے بچوں کو ذلیل اور اغوا کیا جاتا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اس قسم کی حرکات شنیعہ کرنے والے اپنے کو مسلمان بھی کہتے ہیں یہ تو بڑا اچھا ایمان اور دین ہے۔

ایک مرتبہ کسی نے دریافت کیا کہ لاھو الا ھو کے معنی کیا ہیں تو فرمایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ماہیت اس کی ذات سے زائد نہیں بلکہ اس کی ماہیت عین ذات ہے اور مصنف لطائف قشیری کا یہ کہنا کہ پورا عالم اس کے وجود پر گواہی دے رہا ہے اس کے بھی یہی معنی  ہیں کہ اللہ کی ذات مع صفات تمام عالم میں کار فرما ہے صوفیائے کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی کو حرام چیزوں کی خواہش باقی رہے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی تو اس کو چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرے اس لیے کہ طالب کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے اختیار کے بغیر اس کے دل میں کوئی خواہش پیدا نہ ہوسکے بلکہ تمام تر خواہشات اس کے دل سے مٹ جائیں اگر تمام اہل عقل اس مقام کے حاصل کرنے کے ناممکن اور محال ہونے پر اتفاق کرلیں تب بھی صوفیا اس کی جانب توجہ نہیں کرتے کیونکہ انسان کی طبیعت  احکام کے تجسس اور مقاصد کے حصول کے لیے متردد اور متامل رہتی ہے مگر جو اس کے دل میں اللہ عزوجل نے آفتیں ڈال دی ہیں وہ لوگوں کے کہنے سننے سے کب ختم ہوسکتی ہیں۔ فرمایا کہ ہر چیز میں کوئی نہ کوئی آفت اور مصیبت ہوتی ہے مگر عشق  میں دو آفتیں ہیں۔ ایک ابتداء میں ایک اور ایک انتہا میں۔ا بتدائی آفت تو یہ ہے کہ عاشق پر عشق اور معشوق کی جستجو کا غم سوار رہتا ہے اور جب تک اس کے لیے وصال کی کوئی راہ نہیں کھلتی وہ برابر اسی غم میں مبتلا رہتا ہے اور غم کا خوگر ہوجاتا ہے  اور اسی غم میں زندگی بسر کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس کی سوزش اور غم میں کمی آتی رہتی ہے اور وہ اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے اور انجام کار محروم اور مایوس ہوکر خسارے میں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس آفت سے بچائے اور محفوظ رکھے۔ اور انتہائی آفت یہ ہے کہ جب معشوق کا عاشق کو وصل ہوجاتا ہے اور وصال کی لذتوں میں مشغول ہوجاتا ہے تو دردِ غم اور الم و فِراق کی سوزش اس سے ختم ہوجاتی ہے اور وصال کو علی سبیل التابید والدوام ہوتے رہنے  سے کبھی اس کے اندر بھی ذوق و شوق ختم ہوجاتا ہے اور جو ذوق و شوق اس کو اول و ہلہ میں تھا وہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہےا ورعشق کی سوزش ختم ہوجاتی ہے اور محبوب کے جمال کے ذوق و شوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے ، اللہ ہم کو اس سے بھی محفوظ رکھے اس لیے کہ اس آدمی کو اگرچہ وصال ہوچکا ہے مگر ذوق کہاں ہے اور پھر آرام و راحت سے رہتا ہے تو وہ وصال کس کام کا!

بخلاف اس آدمی کے جو عشق خوردہ اور عِشق کا مارا ہو اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں ابتداً فِراق، جدائی ذوق و شوق کی زیادتی ہوتی ہے اس کو جس قدر وصال ہوتا جاتا ہے اس کے ذوق شوق میں اسی قدر اضافہ  ہوتا جاتا ہے اور طلب بڑھتی جاتی ہے، جس عاشق کا درد غم بڑھتا رہے اور ذوق و شوق میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے ایسے ہی عاشق کے لیے  کہا جاتا ہے کہ اس کا انجام بھی اچھا ہوتا ہے یہ اپنے عشق کا پھل پاتا اور پورا  حصہ حاصل کرلیتا ہے اگرچہ عارف لوگ ایسی صورت کو نقصان سے صرف نظر کرتے ہوئے محبوب کی طلب میں کوشش کی جائے۔

آ پ فرماتے ہیں کہ عوارف میں لکھا ہے کہ جب آدمی کامل فقیر بن جاتا ہے تو اس کو سماع کا شوق نہیں رہتا اور یہ عشق کے کمال کی دلیل ہے یعنی اب اس پر عشق کی انتہائی صورت وارد ہوچکی ہے جو اس کو ایسی باتوں سے دور رکھنا چاہتی ہے جو لوگ سماع سننے کے عادی بن جاتے ہیں ان کا ذوق ٹھنڈا پڑجاتا ہے ممدوح کی انتہائی حالت جس پر کوئی آفت نہ پڑی ہو وہ یہ ہے جس کا اس شعر میں اشارہ کیا گیا ہے۔

عجبے نیست ایں ا کہ سر گشتہ بود طالب دوست
عجب ایں ست کہ من واصل و سرگردانم

 

ترجمہ: (طالب کا حیران و پریشان ہونا تعجب کی بات نہیں، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ میں واصل بھی ہوں اور حیران بھی)

سماع میں فقیر و درویش کی یہ حالت ہونی چاہیے کہ وہ از خود رفتہ نہ ہو بلکہ اپنی خودی میں رہے، جو کچھ کہے اس پر عمل بھی کرے اور اس کو سمجھے بھی کہ میں کیا کہہ رہا اور کر رہا ہوں اور اس وقت فقیر کی گھٹیا حالت ہوتی ہے کہ وہ سماع سننے کے بعد از خود رفتہ ہوجائے اور اسے اپنی حرکات و سکنات تک کا علم نہیں ہوتا، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی غصہ کی حالت میں اپنے حرکات و سکنات پر قابو نہیں پاسکتا اسی طرح اس فقیر کی کیفیت ہے یہ دونوں احوال و حالات میں برابر ہیں۔ سماع کوئی اتنی اہمیت کی بات نہیں فقیر اور صاحب حال لوگوں کا مقصود سماع سے فقط اتنا ہوتا ہے کہ ان کے تمام پراگندہ خیالات مجتمع  ہوجائیں اور تمام ماسوی اللہ سے الگ ہوجائیں، لیکن جو شخص سماع میں بےخود  ہوکر اپنی سوجھ بوجھ اور ہوش و ہواس ختم کردیتا ہے تو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی تعریف کی جاسکے۔

فرمایا کہ مولانا جمال الدین مغربی نگینہ جات کے بڑے ماہر تھے، آپ بڑے سیاح حکیم جہاندیدہ اور معمر بزرگ تھے، بڑے بڑے بزرگوں سے ملے مگر کسی سے عقیدت نہ تھی، بڑے زبردست عارف تھے اور نگینہ جات کے خواص جاننے میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی اور اس کا اعتقاد رکھتے  تھے انہوں نے اس کے خواص خصوص میں ایک بہت عمدہ کتاب بھی لکھی ہے۔

فرمایا کہ میں اور یہ مولانا صاحب ایک برس تک ایک جگہ رہے مجھے جو احادیث و آیات قرآنیہ اس کی تائید میں یاد تھیں سناتا رہتا تھا۔ ایک دن باتوں ہی باتوں میں میں نے ایک شرعی مسئلہ میں لطیف اشارہ سے اپنی رائے کے اختلاف کا اظہار کیا تو وہ اس طرح چونک اٹھے جیسے کوئی نیند سے بیدار ہوتا ہے اور کہنے لگے میرے  آقا! میں آپ کا معتقد ہوں آپ ایسی بات کیوں کہتے ہیں۔ ابتدا میں میں اپنی بات کو عقلاً اور نقلاً اس طرح ثابت کرتا رہا ہوں کہ اس میں چھ ماہ تک آپ نے اختلاف رائے کا اظہار نہیں کیا، پھر روزانہ  آپ میرے دلائل کی نفی میں بحث کرتے ہیں اور میں  ان ہی دلائل  سے ثابت  کرتا ہوں، اس کے بعد مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ میر سید محمد!  درود شریف پڑھیے، کیونکہ اہل عرب کا قاعدہ ہے کہ جب متکلم اپنی بات کو اچھی دلیل سے واضح اور ثابت نہیں کرسکتا تو سننے والا اسے کہتا ہے کہ درود شریف پڑھیے، جس کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ اپنی بات کی کوئی توجیہہ اور وضاحت نہ کرو، بلکہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر درود شریف پڑھو۔ ایک دن مولانا سے بڑی زور دار بحث ہو رہی تھی اثنائے گفتگو میں مولانا  نے مجھ سے فرمایا کہ میر سید محمد ذرا میری طرح دو زانو ہوکر تھوڑی دیر مراقبہ کرو اس وقت مولانا کی عمر اسی برس اور میں بیس سال کا نو عمر اور نوجوان تھا، چنانچہ میں بھی دو زانو بیٹھ گیا اور ہم نے مراقبہ شروع کردیا، مراقبہ ختم کرنے پر مولانا  نے مجھ سے فرمایا کہ سید محمد! تم ایک ایسے درویش ہو جنہوں نے ہم کو مسلمان بنادیا، پھر انہوں نے اپنے کان پکڑے او ر سر کو جھکادیا اور فرمایا کہ جو شخص بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتا ہے اس کو کسی نہ کسی چیز میں اختصاص نصیب ہوتا ہے اور وہ اپنی اس خاص صفت میں کمال مہارت حاصل کرلیتا ہے چنانچہ میں گفتگو کے فن میں ماہر ہوں، اللہ نے مجھے اپنے اَسرار بیان کرنے کی طاقت عطا فرمائی ہے میں جتنی بھی کوشش کرلوں کہ اپنے بیان میں لغزش کروں مگر اللہ کے فضل و کرم سے ذرہ برابر بھی لغزش نہیں ہوتی اس لیے کہ میری تمام توجہ اپنی گفتگو  پر ہوتی ہے اور اس وجہ سے میں دائماً متفکر رہتا ہوں کہ میرے اندر وہ حالت پیدا نہ ہو جس سے میں دلائل اور ثبات مدعی سے عاجز و لاچار ہوجاؤں۔

 اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ تفسیر ام المعانی میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر کسی مصلحت سے حضرت علی کو باہر بھیجا تھا جب حضرت علی واپس تشریف لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی آپ کو معلوم ہے کہ  کل رات اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا فرمایا، حضرت علی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معلوم نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ کل میں نے اپنے والدین اور چچا ابو طالب کی مغفرت کی دعا مانگی تو اللہ نے فرمایا کہ اے میرے پیارے حبیب ہم اس بات کا فیصلہ کرچکے ہیں کہ جو شخص آپ پر ایمان نہ لائے اور اپنے باطل معبودوں  سے کنارہ کش نہ ہو ہم اس کو جنت میں ہرگز داخل نہ کریں گے، اچھا اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو فلاں گھاٹی پہ چلے جائیے اور وہاں اپنے والدین اور چچا کو آواز دے کر بلائیے وہ زندہ ہوکر آپ کے پاس آئیں گے  آپ انہیں اسلام کی دعوت دیں وہ اس کو  تسلیم کرکے اس پر ایمان لائیں گے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا تو وہ تینوں اپنی قبروں سے زندہ اٹھ کر مجھ پر ایمان لائے اور اس طرح ان تینوں نے عذاب سے نجات پائی۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد سید محمد گیسو دراز بیان کرتے ہیں کہ یہ واقعہ میں نے صرف تفسیر ام المعانی میں دیکھا ہے اس کے علاوہ اور دوسری کتابوں میں یہ بات کہیں نظر سے نہیں گزری (مطلب یہ تھا کہ یہ بات اور یہ قصہ درست نہیں) سید محمد گیسو دراز کی ایک مشہور کتاب بنام ’’کتاب الاسماء‘‘ ہے جس میں آپ نے اشارتاً اور کنایتاً حقائق و معارف لکھے ہیں اس میں کا خواب کا ایک قصہ یہ ہے۔

انچاسواں قصہ

ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ ایک لمبے چوڑے دریا میں جس کی گہرائی کمر سے زیادہ نہ ہوگی بہت سے لوگ گئے اور ان لوگوں میں ایک میں بھی تھا، اور ایک دوشیزہ جس کی عمر پندرہ برس کے قریب ہوگی وہ بھی اس پانی میں تھی، عجوبہ یہ تھا کہ ہم سب ہی لوگ برہنہ تھے، اور وہ دوشیزہ اتنی خوبرو اور خوبصورت تھی کہ اس کے عکس اور حُسن کے پرتو سے کئی حوران جنت پیدا ہوسکتی تھیں اور جو اس کے حسن سے پیدا ہوتیں وہ بھی اتنی خوبصورت ہوتیں کہ بہت ممکن ہے کہ وہ اپنے حسن کی وجہ سے خُدائی کا  دعویٰ کرتیں، اس دوشیزہ کے رخساروں کا رنگ و روپ نہایت ہی دلکش و دلفریب تھا اور اس کا قد ایک نوجوان لڑکے کی مانند تھا، اور  اس کا حُسن میرے دل کو موہ رہا تھا، میرے اور اس کے درمیان تقریباً ایک میل کا فاصلہ تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف بلایا، میں اس کی جانب اس طرح جا رہا تھا جیسے ایک بادشاہ شب عروسی میں اپنی دُلہن کی طرف جاتا ہے میرے اور اس کے درمیان ایک فرلانگ کا فاصلہ تھا کہ یکایک ایک غیبی شخص آگیا اس نے ہمارے اوپر کپڑا ڈالا اور ہمیں وہ کپڑے اس طرح پہنائے جیسے کوئی کسی کو پہناتا ہے چنانچہ اس کے بعد میں نے اس دوشیزہ کو خوب مزے سے دیکھا، چنانچہ وہ میری اور میں اس کا عاشق ہوگیا۔ اسی دوران میرے اور اس کے درمیان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوئے اور فرمانے لگے کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں، چنانچہ ہر دونوں فریق میں اختلاف ہوگیا، میں کہتا تھا کہ یہ میرے بیٹے ہیں اور وہ دوشیزہ  کہتی تھی کہ یہ میرے بیٹے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہم دونوں کا بیٹا ہونے سے انکار کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ نہ میں آپ سے ہوں اور نہ ہی اس عورت سے  میں تو خود بخود  آیا ہوں اور جس پانی کا میں نے ذکر کیا وہ تمام میں ہی ہوں۔ واللہ اعلم۔

اخبار الاخیار

تجویزوآراء