خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ

 

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ

حالات

آپ مشائخ چشت کے اعلیٰ مشائخ اور اولیاء میں مانے جاتے ہیں، ریاضت اور کرامت میں شہرۂ آفاق ہوئے اور ولایت کے اوصاف میں موصوف تھے عظیم الشان اور رفیع المقام تھے۔ صحیح النسب سادات میں سے تھے ۔ آپ کو حضرت خواجہ عثمانی ہارونی قدس سرہ سے خرقہ خلافت ملا تھا اور سلسلۂ چشتیہ کو برصغیر پاک و ہند میں امام الطریقت کی حیثیت سے رائج کیا، آپ کی تشریف آوری  سے اس ملک میں اسلام  کی اشاعت ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بعض مفکرین اسلام نے ہند النبی اور ہند الولی کے خطابات سے یاد کیا۔  تذکروں میں لکھا ہے کہ آپ ہمیشہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کیا کرتے تھے، چنانچہ ساٹھ سال تک یہی معلوم رہا۔ آپ کی جس پر نگاہ لطف پڑتی خدا رسیدہ بنادیتی تھی۔ سات دن بعد خشک روٹی کوپانی میں بھگو  کو افطار فرمایا کرتے تھے اور اپنا لباس ددہرا نجیہ شدہ پہنا کرتے تھے۔ اگر پھٹ جاتا تو پیوند لگالیتے تھے۔

ولادت

حضرت خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کی ولادت ؁۵۳۷ھ میں ہوئی تھی۔

وطن

 آپ کا اصلی  وطن سجستان تھا۔

نام و نسب

 آپ کا سلسلہ نسب پدری یوں ہے خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن سید کمال الدین بن سید احمد حسین بن سید طاہر بن سید عبدالعزیز بن سید ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن سید الکونین امام حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

 

والدین

 آپ کے والد گرامی سید غیاث الدین رحمۃ اللہ علیہ عراق میں فوت ہوئے تھے اور ان کا مزار وہاں ہی ہے۔

 آپ کی والدہ کا اسم گرامی خاص المکہ تھا، جو اصفہان کی رہنے والی تھیں۔ مگر آپ نے خراسان میں پرورش پائی۔ جب آپ کی عمر گیارہ سال ہوئی تو آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔

وراثت میں ملا باغ

سیّد غیاث الدین قدس سرہ کے تین بیٹے تھے تینوں کو والد کا ورثہ ملا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہ کو ورثہ میں ایک وسیع باغ ملا تھا، آپ باغ میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس قلندر ابراہیم نامی مجذوب آپہنچا، حضرت خواجہ نے اس کی بڑی تعظیم کی اور اُٹھ کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ اور ایک درخت کے سایہ میں بٹھایا انگور کا ایک خوشہ پیش کیا قلندر نے انگور کی طرف تو رغبت نہیں کی مگر اس نے اپنے  تھیلے سے تھوڑا کنجارہ نکال کر اپنے ہاتھ پر رکھا اور دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ کے منہ میں رکھا، حضرت خواجہ نے اسے چکھا ہی تھا کہ آپ کے دل میں انوار الہٰیہ اترنے لگے اور دنیا کی خواہشات دل سے ختم ہونے لگیں تھوڑے دنوں میں باغ کو بیچا، اور رقم غریبوں میں تقسیم کردی ۔

تحصیل علم

طلب ِخداوندی کے لیے اپنے شہر(سجستان) کو چھوڑ کر سفر پر روانہ ہوئے اور سمر قند جا پہنچے۔ وہاں قرآن پاک حفظ کیا ظاہری علوم حاصل کیے۔

بیعت،طریقت و روحانی سفر

 فراغت علوم کے لیے عراق کو روانہ ہوئے اور قصبۂ ہارون میں جا پہنچے۔ یہ قصبہ نیشاپور  کے قریب تھا، ان دنوں وہاں خواجہ عثمان قدس سرہ روحانی تربیت میں مشغول تھے آپ مرید ہوئے اور کئی سال تک آپ کی خدمت میں رہے۔ اور خدمت روحانی سر انجام دیتے رہے۔ باطنی امور کی تکمیل کے بعد خرقہ خلافت حاصل کیا اور پھر بغداد کو روانہ ہوئے۔ راستہ میں قصبۂ سنجان آتا ہے۔ ان دنوں وہاں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ قدس سرہ تشریف  فرما تھے۔ ان کی صحبت سے فیض یاب ہوکر کوۂ جودی (جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی) پر گئے۔ کوہ جودی سے بغداد جاتے ہوئے جیلان کا قصبہ آتا ہے ان دنوں جیلان میں حضرت  سیّدنا عبدالقادر جیلانی جلوہ فرما تھے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کچھ دن حضرت غوث الاعظم کی مجالس میں رہے۔ پھر آپ کے ہم رکاب بغداد پہنچے ان دنوں بغداد میں حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی کے پیر و مرشد شیخ ضیاء الدین قدس سرہ موجود تھے۔ حضرت خواجہ نے ان کی مجالس میں کچھ وقت گزارا۔ اسی مقام پر شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے ملاقات ہوئی اسی سفر میں حضرت خواجہ محبوب سبحانی خواجہ واحدالدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات ہوا۔ پھر خرقۂ خلافت بھی ملا۔ وہاں سے رخصت ہوکر ہمدان آئے۔ ہمدان میں حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی قدس سرہ سے استفادہ کیا۔ ہمدان سے نکل کر آپ نے تبریز کا رخ کیا، تبریز میں ان دنوں حضرت ابوسعید تبریزی رحمۃ اللہ علیہ جو شیخ جلال الدین تبریزی کے پیر و مرشد تھے، جلوہ فرما تھے، حضرت خواجہ نے ان کی صحبت سے فائدہ حاصل کیا، وہاں سے اصفہان پہنچے کچھ عرصہ حضرت محمود اصفہانی قدس سرہ کی صحبت سے استفادہ کرتے رہے، اس روحانی سفر اور نورانی بزرگوں کی ملاقات کے بعد آپ کو ہندوستان کی طرف جانے کا خیال آیا، راستہ میں آپ کی ملاقات خواجہ ابوسعید مہمندی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی، وہاں سے استرآباد آکر حضرت خواجہ ناصرالدین استر آبادی کی مجالس میں قیام فرماتے رہے۔ خواجہ ناصرالدین اپنے وقت کے عظیم القدر شیخ اور کامل الولایت بزرگ تھے۔ آپ خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ ان دنوں آپ کی عمر ایک سو ستائیس سال ہوچکی تھی یہ وہ بزرگ  تھے۔ جن کی صحبت میں حضرت ابوسعید ابوالخیر اور شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہما جیسے نامدار بزرگ بھی استفادہ کرتے رہے تھے وہاں سے چل کر غزنین میں تشریف لائے، وہاں شیخ العارفین شیخ عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجالس سے استفادہ کیا۔ شیخ عبدالواحد غزنوی پیر شیخ نظام الدین ابوالموید کی صحبت سے مستفیض ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین ان سفروں میں مختلف اولیاء وقت سے استفادہ کرتےرہے۔ ان ممالک کے اولیائے کبار کی مجالس سے مستفیض ہونے کے بعد آپ نے ہندوستان کا رُخ کیا۔

 حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر اجودہنی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جن دنوں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اصفہان میں تشریف لائے، تو خواجہ محمود اصفہانی کو ملے۔ انہی دنوں قطب الاقطاب بختیار اوشی رحمۃ اللہ علیہ وہاں پہنچے ہوئے تھے، حضرت قطب الاقطاب کی خواہش تھی کہ خواجہ محمود اصفہانی سے بیعت ہوں، مگر جب خواجہ معین الدین کو دیکھا، تو بیعت کے لیے استدعا کی اور مرید بن گئے،

کرامت ۱

اصفہان سے دونوں بزرگ ہرات پہنچے، ہرات میں ان دنوں  محمد یادگار نامی حاکم حکومت کر رہا تھا وہ اعتقادی طور پر امامیہ شیعہ تھا وہ نہایت اہتمام کے ساتھ صحابۂ رسول کو گالیاں دیا کرتا تھا، وہ یہاں  تک سخت شیعہ تھا کہ اس کی رعایا میں اگر کوئی شخص اپنے بیٹے  کا نام ابوبکر یا عثمان یا عمر رکھ لیتا تو وہ اُسے قتل کردیتا تھا، حضرت خواجہ وہاں  پہنچے تو اتفاق سے محمد یادگار کے خاص باغ میں قیام پذیر ہوئے اندر ایک حوض تھا، آپ اس حوض کے کنارے رہنے لگے۔ ایک دن محمد یادگار اپنی سیر کو آیا، تو حضرت خواجہ کو حوض کے کنارے دیکھ کر غضب ناک ہوگیا، ابھی وہ آپ کو وہاں سے نکالنا  ہی چاہتا تھا کہ حضرت خواجہ کی نگاہیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ فوراً ہی آپ کے پاؤں پر آگرا اور بے ہوش ہوکر تڑپنے لگا، حضرت خواجہ نے اُسے اِس حالت میں دیکھا تو حوض سے پانی لے کر اس کے چہرے پر چھینٹیں ماریں تو وہ ہوش میں آگیا،  حضرت خواجہ کی نگاہ اور پانی کی چھینٹوں  کا یہ اثر ہوا کہ اُس کے دل سے صحابۂ کرام کے بغض دھل گئے اور مذہب شیعہ کے عقیدے سے تائب ہوگیا اور اپنے دربار کے امراء اور اراکین کو لے کر حضرت خواجہ کا مرید بن گیا اپنا تمام مال اور خزانہ حضرت خواجہ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے فرمایا یہ سارا مال تمہارا ہے بلکہ ان لوگوں کا ہے جن سے تم نے ظلم و ستم کرکے چھینا ہے۔ بہتر یہی  ہے یہ سارا مال ان کو واپس کردیا جائے اپنے ملک  کو غلاموں اور کنیزوں کو آزاد کردو، تاکہ تمہیں خدا شناسی کا موقع ملے وہ کچھ دنوں حضرت خواجہ کے زیر تربیت رہا اور خرقہ خلافت حاصل کیا آپ نے اسے ہرات کی ظاہری اور باطنی خلافت پر مامور فرمادیا۔

کرامت ۲

 ہرات سے چل کر حضرت خواجہ بلخ پہنچے ۔چند دن شیخ احمد خضرویہ کے پاس ٹھہرے وہاں ایک ضیاء الدین نامی حکیم تھا جو بڑا ہی مغرور اور حکمت میں مشہور تھا۔ وہ اولیاء اللہ اور دریشوں کا منکر تھا ۔ایک دن حضرت خواجہ دامنِ کوہ کی اک وادی میں جا پہنچےا ور ایک کلنک کو  اپنے تیر کا نشانہ بناکر آگ میں کباب بنا رہے تھے کہ حکیم ضیاء الدین بھی اتفاقاً ادھر آنکلا وہ حضرت خواجہ کے پاس بیٹھ گیا،  حضرت خواجہ نے بھنے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا حکیم کو بھی دیا وہ کھاتے ہی زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا اور ہوش میں آنے کے بعد نہایت اخلاص کے ساتھ مرید ہوگیا اور حکمت کی ساری کتابیں دریا میں پھینک دیں بلخ سے دو بار غزنین آئے۔

کرامت ۳

 ہم اس سے پہلے شمس العارفین کی شہرت کا ذکر کرچکے ہیں۔ آپ وہاں سے چلے تو لاہور پہنچے ۔لاہو رمیں دس ماہ تک مخدوم علی ہجویری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر اعتکاف فرمایا آپ کے مزار سے آپ نے بے پناہ باطنی فوائد حاصل کیے ۔ لاہور سے روانہ ہوکر دہلی پہنچے کچھ دن دہلی قیام فرماکر۱۰ محرم  ۵۶۱؁ھ کو درالخیر اجمیر میں رونق افزاء ہوئے۔ اجمیر میں سب سے پہلے جس شخص نے شرفِ ارادت حاصل کیا وہ  میر سید حسین خنگ سوار تھے آپ پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے لیکن بعد میں تائب ہوکر آپ کے مرید ہوگئے اور اعلیٰ  مراتب پر پہنچے۔ میر سید حسین کے مرید ہونے کے بعد ہزاروں چھوٹے بڑے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر مرید ہونے لگے۔ ان میں سے اکثر لوگ غیر مسلم تھے جو اسلام سے مشرف ہوکر حضور کے مرید بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ سر زمین ہندوستان میں اسلام کی شمع اسی خاندانِ عالی شان کے طفیل روشن ہوئی۔

کرامت ۴

 اجمیر میں ایک شخص حضرت خواجہ معین الدین کی خدمت میں رہتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اس علاقے کے ظالم حاکم نے میرے بیٹے کو بغیر کسی گناہ اور جرم کے قتل کردیا ہے میں آپ سے امداد کا خواستگار ہوں اور انصاف کا امیدوار ہوں حضرت خواجہ نے جب یہ بات سنی تو آپ اپنی جگہ سے اُٹھے اورمقتول کی لاش کے پاس پہنچےاور فرمایا کہ اے نوجوان !اگر ظالم حاکم نے تجھے ناحق قتل کردیا ہے تو اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاؤ۔ مقتول نے اُسی وقت حرکت کی اور زندہ ہوکر اُٹھ بیٹھا۔

کرامت ۵

 حضرت خواجہ  معین الدین پہلی بار اجمیر پہنچے  تو شہر کے باہر ایک ایسے درخت کے نیچے قیام فرما ہوئے جہاں اجمیر کے راجہ کے اونٹ بیٹھا کرتے تھے۔ رات کو اجمیر کے راجہ کے اونٹ آئے سار بانوں نے حضرت خواجہ کو بتایا کہ یہ جگہ راجہ کے سرکاری اونٹوں کے لیے مقرر ہے۔ آپ کہیں اور تشریف لے جائیں ۔آپ نے فرمایا ہم تو چلے جاتے ہیں تم لوگ اونٹوں کو بٹھالو، آپ وہاں سے اُٹھ کر آنا ساگر کے حوض کے کنارے جا بیٹھے، اس حوض کے اردگرد کئی بت خانے بنائے گئے تھے۔ رات گزر گئی، صبح سار بانوں نے کوشش کی کہ اونٹوں کو اٹھائیں، مگر کوئی اونٹ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُ ن کے سینے زمین کے ساتھ پیوست ہوچکے تھے ۔سارا بانوں نے جان لیا کہ یہ اُس فقیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے جسے ہم نے اٹھا دیا ہے ۔

چنانچہ  تمام حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا آپ نے فرمایا کہ جاؤ اب اللہ تعالیٰ نے اونٹوں کا حکم دے دیا ہے۔ساربان جب واپس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سارے اونٹ اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ اسلام کے دشمن جمع ہوئے اور اجمیر کے راجہ کے پاس شکایت کی اور کہا یہ ایک بیگانہ آدمی ہمارے بت خانے کے پاس سکونت بنائے بیٹھا ہے چونکہ اس کا مذہب غیر مذہب ہے ہم وہاں نہیں جا سکتے اُس کو وہاں سے جانے کا حکم صادر فرمائیں۔

 اجمیر کے راجہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس فقیر  کو تالاب کے کنارے سے اُٹھ کر ملک سے باہر کردیا جائے راجہ کے سپاہی خاصی تعداد میں پہنچے۔ حضرت خواجہ کے ساتھ جھگڑنا شروع کردیا۔ حضرت خواجہ نے مٹی کی مٹھی اٹھائی اور آیت الکرسی پڑھ کر ان کی طرف پھینکی، اُن لوگوں کے جسم خشک ہوگئے اور  جہاں جہاں وہ تھے وہاں ہی پتھر بن گئے جو دور تھے وہ  دیکھ کر بھاگ گئے۔

 دوسرے دن اجمیر کے ہندو اپنے بت خانے کی پوجا کے لیے تالاب کے کنارے پر پہنچے ان کا مہنت رام دیو بڑی تعداد لے کر وہاں پہنچا اور حضرت خواجہ  کی طرف آگے بڑھا یونہی وہ نزدیک آیاتو  کا پنے لگا، اس کے دل میں اتنی دہشت پھیلی کہ وہ اپنی زبان سے کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے آپ کا مرید ہوگیا۔ اُس کے ہاتھ میں جو لکڑی یا پتھر آیا اُسے اُٹھا کر ہندوؤں کی طرف پھینکا اور انہیں پریشان کرکےبھگادیا۔

پھر  حضرت خواجہ نے رام دیو کی یہ خدمت دیکھی تو پانی کا ایک پیالہ بھر کر اُسے پینے کو کہا۔ پانی پیتے ہی اُس کے دل کا شیشہ صاف ہوگیا اور اس کا چہرہ چمکنے لگا اور صدقِ دل سے آپ کا مرید بن گیا۔ حضرت خواجہ نے اُس کا نام شادی دیو رکھا اور اپنی تربیت میں لے لیا۔ شادی دیو ہندی زبان میں مسرت بخش کو کہتے ہیں۔

ہندوستان کے جادو گر اور خواجہ معین الدین

اس کرامت کے واقعہ ہونے کے بعد اجمیر کے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ شخص بہت بڑا جادو گر ہے اور اس کے مقابلے میں کسی بڑے جادوگر کو بلانا چاہیے ۔راجہ اجمیر نے جوگی جے پال (جو جادوگری کے فن میں سارے ہندوستان میں  اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا)کو  بلا اور حکم دیا کہ اپنے جادو کے زور سے اس شخص کو شکست دی جائے۔ جے پال ایک ہزار پانچ سو جادوگروں کو لے کر اجمیر پہنچا۔ اور راجہ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ اب ہم اُس سے مقابلہ کریں گے جے پال کی قیادت میں اتنے  جادوگر حضرت خواجہ معین الدین کے پاس پہنچے۔ آپ اٹھے۔ تازہ وضو کیا اپنی لاٹھی کے ساتھ اپنے تمام ساتھیوں کے اردگرد ایک لکیرکھینچی اور اعلان کیا کہ ان شاء اللہ اس لکیر کے اندر ہمارے کسی دشمن کو آنے کی جرأت نہ ہوگی۔ چنانچہ جونہی کسی نے اُس لکیر سے آگے بڑھنے کی جرأت کی وہ منہ کے بل گر پڑا ۔ناچار وہ لوگ واپس ہوگئے اور آنا ساگر کے حوض کے کنارے پر بیٹھ گئے اُن کی اس حرکت کا مطلب  یہ تھا کہ حضرت خواجہ کا کوئی ساتھی حوض سے پانی نہ لے سکے۔ چنانچہ پانی کو بند کردیا گیا حضرت خواجہ نے شادی دیو نو مسلم کو حکم دیا کہ وہ آگے جاکر کسی طرح حوض کے پانی سے ایک پیالہ بھر لائے۔ وہ اٹھا، اور حوض کے پانی سے ایک پیالہ بھر لایا اس پانی کے پیالے میں سارے حوض کا پا نی سمٹ  گیا اور حوض خالی ہوگیا ۔یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس حوض میں کبھی پانی تھا ہی نہیں حضرت خواجہ کے تمام مرید  اسی پیالے سے پانی پیتے وضو کرتے لیکن پانی کم نہ ہوتا۔ دوسری  طرف حوض کو پانی سے خالی پاکر تمام جادو گر تنگ آگئے۔ بعض تو پیاس کی وجہ سے ہلکان ہوگئے ۔

جے پال خود اٹھا اور اس لکیر کے کنارے  پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے  کہنے لگا کہ اللہ کی مخلوق پیاس سے مر رہی ہے تم اپنے آپ کو فقیر کہتے ہو، فقیر تو رحم دل اور سخی ہوتا ہے۔ اب داد رسی کا تقاضا ہے کہ بندوں کے لیے پانی کھول دیا جائے۔ حضرت خواجہ نے جے پال کی یہ بات سنی اور شادی دیو کو حکم دیا کہ یہ پانی کا پیالہ تالاب میں انڈیل دیا جائے۔ جونہی پیالہ تالاب میں ڈالا زمین  میں جوش آیا اور تالاب لبالب بھر گیا۔

 اب جادوگروں نے اکٹھے ہوکر جادو گری کا آغاز کردیا۔ خواجہ صاحب کے ساتھیوں کو یوں دکھائی دیتا تھا کہ پہاڑ کی چوٹیوں سے ہزاروں اور لاکھوں سانپ اُس  لکیر کی طرف بڑھ رہے ہیں جونہی کوئی سانپ لکیر تک پہنچتا تو اپنا سر لکیر پر رکھ دیتا۔ جے پال یہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوا۔  اب اُس نے جادوگروں کو کہا کہ آسمانوں سے آگ برسادو۔ دیکھتے ہی دیکھتے اتنی آگ برسی کہ سارا جنگل انگاروں اور شعلوں سے بھر گیا ہزاروں درخت آگ میں جلنے لگے لیکن اللہ کی مہربانی  سے اس دائرے کے اندر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جادوگروں  نے جب یہ بات دیکھی کہ اُن کے اردگرد کا سارا علاقہ جل گیا ہے مگر حضرت خواجہ کے دوستوں کو آنچ تک نہیں آئی تو جے پال کو کہنے لگے کوئی اور کام کرنا چاہیے ۔ جے پال کے سر پر ہرن کے چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔اس نے  ہوا میں پھینکا اور چھلانگ لگا کر اُس میں سوار ہوگیا اور آسمان کی طرف پرواز کرتا نظر آنے لگا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوگیا۔ حضرت خواجہ  نے جے پال کو اس طرح اُڑتے ہوئے دیکھا تو فورًا اپنے جوتوں کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ جاؤ اور جے پال کو بدترین حالت میں واپس لاؤ، دونوں جوتے ہوا میں اُڑے اور جے پال کے سر پر کھڑکنے لگے۔ جے پال کو مجبورًا واپس آنا پڑا۔ نڈھال ہوکر رونے لگا اور اپنا سر حضرت خواجہ کے قدموں میں رکھ دیا اور کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ اور مرید  ہوگیا۔

اس نے التجا کی کہ میں قیامت تک زندہ رہنا چاہتا ہوں، آپ نے دعا کی اور فرمایا جاؤ تمہیں دائمی زندگی مل گئی ہے لیکن لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہو گے۔ یہ بات مشہور ہے کہ جے پال ابھی تک اجمیر کے پہاڑوں میں چھپا ہوا ہے اور وہ (جے پال) ہر جمعرات حضرت خواجہ کے روضے کی زیارت کو آتا ہے۔

 اجمیر کے راجہ نے جے پال کو شکست خوردہ دیکھ کر شادی دیو کی طرح اس  سے بھی مایوس ہوگیا تو شہر میں واپس چلا آیا اور دل میں عہد کرلیا کہ اب حضرت خواجہ کی مخالفت نہیں کروں گا ، کچھ دنوں بعد حضرت خواجہ بھی اجمیر شہر کے اندر تشریف لے آئے اور ایک مکان میں رہنے لگے ۔یہ مکان اسی جگہ واقع تھا جہاں ان دنوں آپ کا مزار ہے۔

ایک دن خواجہ اجمیری نے اجمیرکے راجہ کو پند و نصائح کی اور ترغیب دی کہ راجہ اسلام قبول کرلے مگر اس نے انکار کردیا اس کے اسلام لانےسے مایوس ہوکر فرمایا!

     ؎ کلیم بخت کسے را کہ با فتند سیاہ بہ آب کوثر ہرگز سفید نتواں کرد

 آپ نے اعلان  کیا کہ تم نے اسلام قبول نہیں کیا، اب لشکر اسلام آئے گا اور اجمیر پر حملہ  کرے گا کچھ دن گزرے ہی تھے کہ سلطان شہاب الدین غوری لشکر لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا، اس نے اجمیر پر زبردست یلغار کی اور اس جنگ  میں راجہ اجمیر کو قتول کردیا گیا۔ مگر راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرلیا۔ راجہ  پتھورا ان دنوں دہلی کا حکمران تھا اور راجہ اجمیر اس کے ماتحت اجمیر کا حکمران تھا۔

 یہ بات عام مشہور ہے کہ جن  دنوں لشکر اسلام کی ہندوستان میں آمد ہوئی تو ان دنوں راجہ پتھورا اجمیر میں آیا ہوا تھا راجہ  پتھورا کے ملازموں نے ایک مسلمان کو تنگ کیا۔ یہ مسلمان حضرت معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مرید خاص تھا۔وہ فریادی بن کر حضرت خواجہ کے حضور آیا حضرت خواجہ نے راجہ پتھورا کو سفارش کی اس غریب کی داد رسی کی جائے۔ مگر راجہ نے کوئی پرواہ نہ کی۔ حضرت خواجہ اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ہم نے راجہ پتھورا کو زندہ گرفتار کرادیا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

 سلطان قطب الدین بیگ ؁۶۰۲ھ میں دہلی کے تخت پر بیٹھا تھا۔ اور اسی سال راجہ پتھورا  کو زندہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ایک دن حضرت خواجہ اجمیر کے نواح میں جا رہے تھے۔ شیخ علی نامی مرید آپ کے ہمرکاب تھا وہاں ایک شخص آیا، اس نے آتے ہی شیخ علی کو پکڑ لیا اور کہا کہ میرا قرضہ ادا کرو، ورنہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا یہ صورتِ حال  دیکھی تو حضرت خواجہ نے بڑی انکساری اور نرمی سے قرض خواہ کو کہا کہ تم اسے تھوڑی سی مہلت دے دو۔ یہ قرض ادا کردے گا حضرت خواجہ کی اس نرمی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ شخص نہایت بے ادبی سے بولا اگر اس کی سفارش اتنی ہی اچھی لگتی ہے تو مجھے اپنی جیب سے قرض دے دو اس کی یہ بات سن کر حضرت خواجہ کو غصہ آگیا اور اپنی چاد رزمین پر بچھا دی دیکھتے ہی دیکھتے  اس چادر پر درہم و دینار برسنے لگے۔ آپ نے اس بے ادب قرض خواہ کو کہا  تم اپنا قرضہ اٹھالو، مگر اپنے حق سے زیادہ نہ لینا، وہ شخص آگے بڑھا اور لالچ کرتے ہوئے اپنے حق سے مزید رقم اٹھانے لگا مگر اس کا ہاتھ اسی وقت خشک ہوگیا اب چلانے لگا توبہ کرکے حضرت  خواجہ کے قدموں میں گر پڑا۔ حضرت نے دست شفقت پھیرتے ہوئے اسے معاف کردیا اور اس کا ہاتھ تندرست ہوگیا۔

آپ کی ازواج وا ولاد

یہ بات ازروئے تحقیق درست قرار دی گئی ہے کہ حضرت خواجہ کی دو اہلیہ تھیں۔ ایک تو سید وجیہہ الدین جو حضرت خنگ سوار کے ماموں  کی بیٹی تھیں ان کے والد بزرگوار نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کے باطنی حکم سے آپ  سے نکاح کردیا تھا۔ اس بی بی کا اسم گرامی بی بی عصمت تھا۔ ان کے بطن سے تین بیٹے ہوئے تھے۔

۱۔ خواجہ ابوسعید ۲۔خواجہ فخرالدین  ۳۔خواجہ حسام الدین قدس سرہم،

 جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حضرت لاولد تھے۔ ان کی بات قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ حضرت سلطان التارکین شیخ حمیدالدین صوفی ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے شیخ فرید قدس سرہ اپنے دادا کی زبانی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ نے اس غلام کو مخاطب کرکے فرمایا حمیدالدین جن دنوں میں جوان اور توانا تھا اور ابھی میری اولاد نہیں تھی، میں اپنے اللہ سے جو کچھ طلب کیا کرتا تھا بلا تکلف مل جایا کرتا تھا اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور مجھے اللہ نے اولاد (فرزند) بھی عطا فرمائے ہیں ۔میرا مقصد دعاؤں اور نداؤں سے حاصل ہوجاتا ہے حمیدالدین نے عرض کیا، حضور آپ پر یہ بات تو واضح  ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم کے بطن سے پیدا نہیں ہوئے تھے آپ کو بے موسم میوے میسر آیا کرتے تھے۔ یہ میوے بے تکلف اور بلا استدعا ملا کرتے تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت مریم رزق کا انتظار فرمایا کرتی تھیں اورحکم ہوتا تھا کہ ان کھجوروں کی شاخوں کو ہلائیں تاکہ تازہ کھجوریں گریں، تو آپ شاخوں کو ہلاتیں تو تازہ کھجوریں گرتی تھیں ۔آپ کے ساتھ بھی سابقہ ایام زندگی اور آج کے حالات میں اتنا فرق ہے

حضرت خواجہ معین الدین نے یہ جواب سن کر بڑی مسرت کا اظہار فرمایا۔

تذکروں میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے بیٹے ابوسعید کی عمر پچاس سال ہوئی تھی کہ اللہ نے انہیں دو بیٹے عنایت فرمائے آپ کے دوسرے بیٹے فخرالدین بڑے بزرگ اور صاحب نعمت بزرگ تھے وہ  حضرت خواجہ معین الدین سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے بیس سال بعد تک زندہ رہے اور ستر سال کی عمر میں انتقال فرمایا ۔ان کے پانچ بیٹے تھے (وہ قصبہ سروار جو اجمیر سے سولہ میل کے فاصلہ پر ہے۔) قصبہ سروارمیں فوت ہوئے تھے۔ آپ کا مزار بھی وہاں ہی ہے۔

خواجہ حسام الدین  حضرت خواجہ کے بیٹے کہیں گم ہوگئے تھے۔ وہ ابدالوں کی مجالس میں مل گئے تھے اس وقت آپ کی عمر پنتالیس سال تھی، ان کے سات بیٹے تھے ان میں سے خواجہ حسام الدین سوختہ بڑے صاحبِ کرامت بزرگ ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ء بدایونی آپ کے احباب میں سے تھے۔ آپ کی قبر اجمیر سے مغرب کی طرف قصبۂ سائرہ میں ہے۔

حضرت خواجہ کی دوسری بیوی ہندوستان کے راجاؤں میں سے ایک راجہ کی بیٹی تھی۔ قلعہ پٹیلی کا حاکم جس کا نام ""ملک خطاب ""تھا۔اس نے ہندؤں کے ایک علاقہ پر حملہ کیا، بہت سے ہندو مارے گئے اور راجہ کی بیٹی کو گرفتار کرلیا او رحضرت خواجہ معین الدین اجمیری کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کی، آپ نے اسے قبول فرماتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا اور اس کا اسلامی نام ""امۃ اللہ""رکھا۔ اس غفلتِ مآب بی بی کے بطن سے ایک بیٹی پید اہوئی جس کا نام ""حافظہ جمال ""تھا ۔یہ بڑی عابدہ ،زاہدہ اور پارسا تھی۔ آپ کو اپنے والد سے بڑی ارادت تھی آپ نے اسے روحانی تربیت دی اور خرقہ خلافت سے بھی نوازا۔ اور اسے مستورات کی ہدایت اور تبلیغ کے لیے وقف کردیا چنانچہ ہندوستان میں ہزاروں عورتیں آپ کی کوششوں سے قرب الٰہی کے درجہ کو پہنچیں۔

 حافظہ جمال کے خاوند کا اسم گرامی شیخ نقی الدین تھا۔ بی بی حافظہ جمال کا مزار حضرت خواجہ کے مزار کے پہلو میں ہے۔ اس بیٹی کے علاوہ آپ کی اس بیوی امۃ اللہ کے دو بیٹے بھی پیدا ہوئے مگر دونوں شیر خوارگی کی حالت میں فوت ہوگئے۔

آپ کے خلفاء

 یاد رہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بے شمار خلفاء  تھے اور لاکھوں لوگ فیض یاب ہوئے ہم تبرکاً چند خلفائے معروف کے اسمائے گرمی لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

  1. قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحمۃ اللہ علیہ۔
  2. خواجہ فخرالدین (حضرت خواجہ کےبیٹے)
  3. شیخ حمیدالدین ناگوری صوفی،
  4. شیخ وجیہ الدین
  5. شیخ حمیدالدین صوفی (آپ کا لقب سعد بن ز ید تھا اور آپ کا نسب عشر ہ مبشرہ سے جا ملتا ہے)
  6. خواجہ برہان الدین عرف بدو
  7. شیخ احمد
  8. شیخ محسن
  9. خواجہ سلیمان غازی،
  10. شیخ شمس الدین
  11. خواجہ حسن خیاط
  12. جے پال جوگی المعروف عبیداللہ (آپ کو حضرت خواجہ کی دعا سے جاودانی زندگی ملی تھی)
  13. شیخ صدرالدین کرمانی
  14. بی بی حافظہ جمال (حضرت کی خواجہ کی بیٹی)
  15. شیخ محمد ترک نارسومی
  16. شیخ علی سنجری
  17. خواجہ یادگار سبزواری
  18. خواجہ عبداللہ بیابانی
  19. شیخ متا (حضرت خواجہ نے آپ کے لیے دعا فرمائی تو آپ لوگوں کے لیے ہر دلعزیز بن گئے۔ عام لوگ آپ کا بول وبراز بطور تبرک لے جایا کرتے تھے ان سے عطر اور عنبر کی خوشبو آیا کرتی تھی)
  20. شیخ  وحید برادر شیخ احمد
  21. سلطان مسعود غازی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ۔

یاد رہے کہ یہ سلطان مسعود غازی سلطان سالاور مسعود غازی شہید کو آپ کے خلفاء میں لکھا ہے انہیں غلطی ہوئی ہے۔ حضرت خواجہ کی وفات اور سالار شہید  کی وفات میں دو سو سال کا فاصلہ ہے۔

وصال پر ملال

سیرالاقطاب کے مولف لکھتے ہیں کہ جس دن حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا آپ نے نماز عشاء کے بعد اپنے حجرے کا دروازہ بند کردیا اور اپنے خاص احباب کو بھی اندر آنے سے روک دیا، حجرے کے دروازے پر بیٹھنے والے ہم راز ساری رات آنے جانے والوں کے قدموں کی آوازیں سنتے رہے۔ انہوں نے سوچا حضرت خواجہ وجد میں ہیں۔ مگر علی الصبح آوازیں رک گئیں، نماز کا وقت ہوا دروازے پر دستک دی گئی، آوازیں دیں، مگر کوئی جواب نہیں آیا، دروازہ کھولا گیا، دیکھا کہ حضرت خواجہ فوت ہوچکے ہیں، آپ کی پیشانی پر نور کی روشنائی سے لکھا ہوا دکھائی دیتا تھا ۔
حَبِیۡبُ اللّٰہِ مَاتَ فیِ ۡحُبِّ اللّٰہ (یہ اللہ کے حبیب تھے، وہ اللہ کی محبت میں فوت ہوئے)۔

 اور تمام تذکرہ نگاروں کا اس پر اتفاق ہے آپ کا وصال پیر ششم ماہ رجب المرجب ؁۶۳۳ھ میں ہوا۔

مزار پُر انوار

یہ سلطان شمس الدین التمش کا عہد حکومت تھا۔ آپ کا روضہ منورہ دارالخیر اجمیر شریف میں ہے پہلے  آپ کا مزار سادہ اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد پتھروں سے عمارت بنائی گئی، آپ کا مزار ایک عرصہ تک عام قبروں کی طرح رہا۔

 سب سے پہلے خواجہ حسین ناگوری نے مزار کی تعمیر کی تھی اس کے بعد بادشاہانِ ہندوستان آتے رہے اور آپ کے مزار کو شاندار عمارت کی صورت میں تعمیر کراتے رہے خصوصاً شہاب الدین محمد شاہجہان بادشاہ غازی نے آپ کے روضہ کی عمارت کو بنای اور ساتھ ہی ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی، اس مزار پر انوار کے فیض و برکت کے آثار آج تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت اور حاجات برآری کے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیں۔

اجمیر کی وجہ تسمیہ

 اجمیر شہر کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے جسے اخبارالاخیار کے مصنف نے لکھا ہے کہ پرانے زمانہ میں ہندوستان پر ایک راجہ حکمران تھا۔ جس کی سلطنت برہما سے لے کر غزنی تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس راجہ  کا نام"" آجا"" تھا جسے ہندی زبان میں آفتاب کہا جاتا ہے ۔""میر"" کو پہاڑ کے معنوں میں لکھا جاتا ہے۔ اس طرح اس شہر کا نام "اجامیر" رکھا گیا، چنانچہ ہندی میں اس شہر کا نام "آج میر"یا" آجا میر" رکھا گیا مگر مرو ر زمانہ کے ساتھ ساتھ زبان میں تبدیلی آئی تو اسے اجمیر مشہور کردیا گیا ۔

لاہور کا پرانا نام "لوہو پور" تھا پھر ایک وقت آیا تو مسلمانوں نے اسے "لوہاور" اور" لہانور" کہنا شروع کردیا، آہستہ آہستہ یہ نام لاہور کے نام سے مشہور ہوگیا۔

تاریخ وفات

 حضرت کی وفات پر سب سے پہلے کہی جانے والی تاریخ وفات یہ ہے

[۱]۔ خواجہ والا معین الدین کہ ازانواراو گشت روشن در دو عالم ماہتاب ملک ہند محو شد در نور حق چوں آں مہِ چرخ نشیں شد ندا از چرخ چارم آفتاب ملک ہند ۶۳۳ھ [۱۔ فاضل مولف مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ نے ان الفاظ میں تاریخ ہائے ولادت و وصال کہی ہیں: امام مجتبی (۵۳۷ھ) نیر اکبر معلی (۶۳۳ھ) بدرالمنیر (۵۳۷) عارف صوفی (۵۳۷ھ) عمدۂ دین زندہ دل بدرالدجیٰ (۵۳۷ھ) قطب الواصلین (۵۳۷ھ) قطب الاصفیا میر جہاں (۶۳۳ھ) میر مکرم زیب دل (۶۳۳ھ)] -----------------------

""خواجہ ہند"" وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا                  کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا   س(ذوقِ نعت)

 آپ برصغیر ہندوپاک میں بڑے بڑے بزرگوں کے سر حلقہ اور سلسلہ چشتیہ کے بانی ہیں، بیس سال تک سفر و حضر میں خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں رہے اور آپ کے سونے کے لباس کی نگرانی فرماتے تھے، خواجہ عثمان نے اس کے بعد نعمت خلافت سے آپ کو نوازا۔ آپ راجہ  پتھورارائے کے دورِ حکومت میں اجمیر (ہندوستان) تشریف لائے اور عبادت الٰہی میں مشغول ہوگئے۔راجہ  پتھورا رائے اس زمانہ میں اجمیر میں ہی مقیم تھا، ایک روز اس نے آپ کے ایک مسلمان عقیدت مند کو کسی وجہ سے ستایا، وہ بیچارا آپ کے پاس فریاد لے کر پہنچا، آپ نے اس کی سفارش میں پتھورا رائے کے پاس ایک پیغام بھیجا، لیکن اس نے آپ کی سفارش قبول نہ کی اور کہنے لگا کہ یہ شخص یہاں آکر بیٹھ گیا ہے اور غیب کی باتیں کرتا ہے، جب خواجہ اجمیری کو یہ بات معلوم ہوئی، تو ارشاد فرمایا کہ ہم نے پتھورا کو زندہ گرفتار کرکے حوالہ کردیا، اسی زمانہ میں سلطان معزالدین سام عرف شہاب الدین غورف کی فوج غزنی سے پہنچی، پتھورا لشکر اسلام سے مقابلہ کے لیے آیا اور سلطان معزالدین کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا، اسی تاریخ سے اس ملک میں اسلام پھیلا اور کفر کی جڑیں کٹ گئیں، مشہور ہے کہ خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی پر یہ نقش ظاہر ہوا کہ حَبِیۡبُ اللّٰہِ مَاتَ فیِ ۡحُبِّ اللّٰہ (یہ اللہ کے حبیب تھے، وہ اللہ کی محبت میں فوت ہوئے)۔

تاریخ وفات کی روایت:

بعض کے نزدیک حضرت خواجہ کی وفات 6؍رجب633ہجری۔

 اور بعض کے نزدیک ماہ ذی الحجہ میں ہوئی لیکن پہلا قول صحیح ہے۔

مزار مبارک کی کیفیت

اور اجمیر میں جہاں آپ کی رہائش تھی وہیں مزار شریف بنایا گیا آپ کا مزار مبارک ابتداًاینٹوں سے بنایا گیا، پھر اس کو علیٰ حالہٖ باقی رکھ کر پتھرکا ایک صندوق اس کے اوپر بنایا، اسی وجہ سے آپ کے مزار میں بلندی پیدا ہوگئی، سب سے پہلے آپ کے مزار کی عمارت خواجہ حسین ناگوری نے بنوائی، اس کے بعد دروازہ اور خانقاہ مندر کے کسی بادشاہ نے تعمیر کرائے۔

ملفوظات خواجہ غریبِ نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ کے کلام و ملفوظات "دلیل العارفین"  میں حضرت خواجہ بختیار کاکی اوشی نے جمع کردیے ہیں۔

 اس میں تحریر ہے کہ آپ نے فرمایا!

 عاشق کا دل محبت کی آگ میں جلتا رہتا ہے، لہٰذا جو کچھ بھی اس دل میں آئے گا جل جائے گا اور نابود ہوجائے گا۔ کیونکہ آتشِ محبت سے زیادہ تیزی کسی آگ میں نہیں ۔

ارشاد فرمایا بہتی ندیوں کا شور سنو، کس طرح شور کرتی ہیں، لیکن جب سمندر میں پہنچتی ہیں، بالکل خاموش ہوجاتی ہیں۔

 ارشاد فرمایا!              میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبان سے خود سنا ہے:

فرماتے تھے !           کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے اولیاء بھی ہیں کہ اگر اس دنیا میں ایک لمحہ بھی اس سے حجاب میں آجائیں تو نیست و نابود ہوجائیں۔

ارشاد فرمایا ! میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زَبان سے سنا ہے:

 فرماتے تھے!           کہ جس شخص میں تین باتیں ہوں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے،

 اول:۔ سمندروں جیسی سخاوت،

دوم :۔آفتاب جیسی شفقت،

 سوم "۔زمین جیسی تواضع

 ارشاد فرمایا!  نیک لوگوں کی صحبت نیکی کرنے سے بہتر اور برے لوگوں کی صحبت بدی کرنے سے بدتر ہے۔

 ارشاد فرمایا ! مُرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائے گا جب کہ اس کی بائیں طرف والے فرشتہ نے بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھا ہو۔

 راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ بات اکابر متقدمین سے بھی منقول ہے، اور بعض متاخرین صوفیاء نے اس بات کی حقیقت اس طرح بیان فرمائی ہے کہ مرید کے لیے ہر وقت توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے، اور توبہ و استغفار کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں لکھا جاتا، یہ مطلب نہیں کہ گناہ اس سے بالکل سرزد ہی نہ ہو، اسی وجہ سے مشائخ کرام اپنے مریدوں کو سوتے وقت استغفار کی تاکید کرتے ہیں تاکہ دن بھر کے وہ گناہ جو ابھی تک رحمتِ الٰہی کی وجہ سے نہیں لکھے گئے ہیں، کتابت  و ظہور میں نہ آئیں۔

 ارشاد فرمایا!   میں نے خواجہ عثمان ہارونی کی زبانی سنا،

 فرماتے تھے !           کہ انسان مستحقِ فقرا ءاس وقت ہوتا ہے جب کہ اس عالم فانی میں اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے،

 محبت کی علامت یہ ہے کہ فرمانبردار رہتے ہوئے اس بات سے ڈرتے رہو کہ محبوب تمہیں دوستی سے جدا نہ کردے۔

ارشاد فرمایا!  عارفوں کا بڑا بلند مقام ہے، جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام دنیاومافیہا کو اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔

 ارشاد فرمایا ! عارف وہ ہے کہ جو کچھ چاہے وہ فوراً اس کے سامنے آجائے، اور جو کچھ بات کرے تو فوراً اس کی جانب سے اس کا جواب سن لیے۔

 ارشاد فرمایا ! محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ صفاتِ حق اس کے اندر پیدا ہوجائیں، اور محبت میں عارف کا درجہ کامل یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلہ پر دعویٰ کرکے آئے تو وہ(عارف) اپنی قوتِ کرامت سے اسے گرفتار کرلے۔

ارشاد فرمایا!  ہم برسوں یہ کام کرتے رہے لیکن آخر میں ہیبت کے علاوہ  کچھ ہاتھ نہ آیا،

 فرمایا کہ تمہارا کوئی گناہ اتنا نقصان نہیں پہنچائے گا جتنا کسی مسلمان کی بے عزتی کرنے سے پہنچے گا۔

 ارشاد فرمایا ! پاس انفاس اہل معرفت کی عبادت ہے، اور معرفت خدا وندی کی علامت یہ ہے کہ مخلوق سے بھاگے اور معرفت میں خاموش رہے۔

 ارشاد فرمایا!  ولی کو ولایت اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک وہ معارف کو یاد نہ کرے، اور ولی وہ ہے جو اپنے دل سے غیر اللہ کو نکال باہر کرے تاکہ وہ بھی اسی طرح اکیلا ہوجائے جیسے اس کا محبوب یکتا ہے۔

ارشاد فرمایا!  بدبختی کی علامت یہ ہے کہ  گناہ کرتا رہے پھر اس کے باجود اللہ عزوجل کی بارگاہ میں خود کو مقبول سمجھے

اور ولی کی علامت یہ ہے کہ خاموش اور غمگین ہو ۔

ارشاد فرمایا!  جس نے بھی نعمت پائی وہ سخاوت  کی وجہ سے پائی۔

 ارشاد فرمایا!  درویش وہ ہے کہ جس کے پاس جو بھی حاجت لے کر آئے تو اسے خالی ہاتھ اور معدوم واپس نہ کرے،

اور ولی محبت میں ایسا شخص ہے جو دوعالم سے دل ہٹالے۔

ارشاد فرمایا!  اس دنیا میں درویشوں کا درویشوں کے ساتھ بیٹھنا عزیز ترین چیز ہے، اور درویشوں کا درویشوں سے جدا ہونا بدترین چیز ہے، کیونکہ یہ جدائی علت سے خالی نہیں۔

ارشاد فرمایا ! در حقیقت صبر کرنے والا وہ ہے جس کو مخلوق سے تکلیف و اذیت پہنچے لیکن نہ وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے ذکر کرے، اور سب سے بڑا ولی وہ ہے جو سب سے زیادہ حیران ہو۔

ارشاد فرمایا ! ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے، عیش و راحت کو چھوڑ دے اور اللہ عزوجل کی یاد سے محبت رکھے۔

ارشاد فرمایا!  جب اللہ تعالیٰ اپنے محبت کرنے والوں کو اپنے انوار سے زندہ فرمائے تو یہی روئیت ہے۔

ارشاد فرمایا!  اہلِ محبت وہ ہیں جو استاد کے بغیر دوست کی باتیں سنیں،

ارشاد فرمایا!  ولی وہ ہے جو صبح اٹھے تو رات کی یاد اسے نہ آئے،

ارشاد فرمایا ! سب سے بہتر وقت وہ ہے جب دل وسوسوں سے پاک ہو۔

 ارشاد فرمایا!  علم ایک بے پناہ سمندر ہے اور معرفت اس کی ایک نالی، سو کہاں اللہ، کہاں بندہ، علم اللہ کے لیے ہے اور معرفت بندہ کے لیے۔

 ارشاد فرمایا!  اہل معرفت ایسے آفتاب ہیں جو تمام عالم پر درخشاں ہیں، اور تمام عالم ان کے نور سے روشن ہے۔

ارشادفرمایا!  لوگ اللہ عزوجل کا قرب صرف اس وقت حاصل کر سکتے ہیں جب نماز خشوع و خضوع کے ساتھ اداکریں، کیونکہ نماز مومن کی معراج ہے۔

اجمیر کی وجہ تسمیہ۲

 مشہور ہے کہ ’’اجمیر‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک ہندو راجہ کا نام جس کی حکومت حد غزنیں تک تھی ’’آجا‘‘ ہندی میں آفتاب کو بھی کہتے ہیں اور ’’میر‘‘ ہندی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں، ہندوؤں کی تاریخ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں پہاڑوں پر تعمیر ہونے والی دیواروں میں سب سے پہلے یہی دیوار تعمیر ہوئی، جو اجمیر کے پہاڑ کے اوپر ہے۔

 اسی طرح سرزمین ہند میں جو سب سے پہلا حوض  بنایا گیا وہ ’’پھکر‘‘ کا حوض ہے جو اجمیر سے آٹھ میل کے فاصلےپر  ہے ۔اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں اور ہر سال چھ روز کے لیے ’’تحویل عقرب‘‘ کے وقت وہاں جمع ہوکر غسل کرتے ہیں، اپنی عمر عزیز اور اولاد کو ایک باطل مذہب کی بدولت برباد کرتے ہیں۔

 ان میں سے جو قیامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قیامت بھی اسی حوض سے شروع ہوگی۔

 اور ’’آجا‘‘ نام جو اس ملک میں ہندو تھے وہ اس نام کو  پہلے سے رکھتے تھے۔

 پتھورا سب سے آخری راجہ ہے جس سے مسلمانوں نے ملک ہند حاصل کیا، ’’ناگور‘‘ کا اکثر حصہ پتھورا کا آباد کردہ ہے جس کا قصہ یہ ہے کہ پتھورا نے اپنے ایک افسر سے( جو جانوروں کے گھاس دانہ کی نگرانی کرتا تھا) کہا کہ گھوڑوں کے طویلہ(اسطبل) کے لیے کوئی مناسب اور اچھا مقام تلاش کرو، وہاں میں شہر  آباد کروں گا۔

 وہ افسر بہت گھوما پھرا، جب وہ اس جگہ پہنچا( جہاں اب شہر ناگور ہے )تو اس نےایک دنبی کو دیکھا کہ اس کا بچہ پیدا ہوا ہے ۔اور ایک بھیڑیا اس بچہ پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو دنبی نے اپنے بچہ کو پیچھے کرکے اس بھیڑیے پر حملہ کی تیاری شروع کی۔

اس نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا یہ مردانہ جگہ ہے اور اس جنگل کا آب و گیاہ گھوڑوں کے لیے مفید ہے،

چنانچہ وہاں ایک شہر آباد کرکے اس کا نام ’’نوانگر‘‘ یعنی نیا شہر رکھا، سلطان شہاب الدین غوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب یہاں پہنچے اور پتھورا مارا گیا تو ان کی ترک فوجوں کے زمانہ میں یہ لفظ ’’ناگور‘‘ بن گیا،

 واللہ اعلم بالصواب۔                                                                                       

                                    بحوالہ:۔   اخبار الاخیار  (شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)

 

تجویزوآراء