حضرت خواجہ محمدﷺ بابا سماسی
حضرت خواجہ محمدﷺ بابا سماسی علیہ الرحمۃ
آپ حضرت عزیزان کے خلیفہ ہیں اور حضرت خواجہ بہاؤ الدین ؒ کو فرزندی کی نظر سے قبول فرمایاتھا۔یہ وہی ہیں کہ بار ہاہندو ان کے محل پر گزرتے تھےاور فرماتے تھے کہ اس زمین سے مردی کی خوشبو آتی ہے اور جلد ہوگا کہ محل ہند ان محل عارفان ہو جائے۔یہاں تک کہ ایک دن امیر سید کلالؒ کے مکان سے کہ آپ کے خلیفہ ہیں۔قصر عارفان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ وہ خوشبو بڑھ گئی ہے۔شاید کہ وہ مرد پیدا ہو چکا ہے۔جب اترے تو خواجہ بہاؤ الدین ؒ کی ولادت کے تین دن گزر چکے تھے۔ان کے دادا نے اس معاملہ کو ان کے سینہ پر چھوڑا" اور بڑی نیاز کے ساتھ خواجہ محمدﷺ بابا کی خدمت میں لے گئے۔آپ نے فرمایا"کہ یہ ہمارا فرزند ہے ہم نے اس کو قبول کیا۔اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ یہ وہ مرد ہے کہ جس کی ہم نے خوشبو سونگی تھی۔یہ زمانہ کا پیشوا ہوگا"اور امیر سید کلال سے فرمایا کہ میرے فرزند بہاؤ الدین کے حق میں تربیت و شفقت کا فرق نہ کرنا۔اگر تم نے اس میں قصور کیا تو میں معاف نہیں کروں گا۔امیر نے فرمایا کہ میں مرد نہ ہوں گا۔اگر خواجہ کی وصیت میں قصور کروں گا۔حضرت خواجہ بہاؤ الدین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا کہ قبیلدار بنوں۔میرے دادا نے مجھ کو حضرت خواجہ محمدﷺ بابا کی خدمت میں بھیجااور یہ التماس کی کہ آپ کے قدم کی برکت سے ان مرتبوں تک پہنچے۔جب آپ کی زیارت سے مشرف ہوا"تو پہلی کرامت یہ دیکھی کہ اس رات مجھ پر نیاز اور عاجزی ظاہر ہوئی۔میں حضرت کی مسجد میں آیا"اور دو رکعت نماز پڑھی۔سر سجدے میں رکھا اور بڑے خضوع خشوع سے نماز پوری کی۔اس وقت میری زبان پر گزرا کہ الٰہی مجھ کو اپنی بلا کے اٹھانے کی قوت اور اپنی محبت کی محنت کہ برداشت نصیب کر۔جب صبح کو حضرت خواجہ کی خدمت میں پہنچا "تو فرمایا کہ اے فرزند دعا ایسی مانگنی چاہیئے کہ الٰہی جو کچھ تیری رضا ہے۔اس ضعیف بندہ کو اس پر اپنے فضل وکرم سے قائم رکھ۔اگر خدائے تعالٰی اپنی حکمت سے اپنےکسی دوست کو بلا بھیجے تو اپنی عنایت سے اس دوست کو اس بوجھ کے اٹھانے کی قوت دیتا ہےاور اس کی حکمت اس پر ظاہر کر دیتا ہے۔ورنہ اپنے اختیار سے بلا کی طلب مشکل ہے۔گستاخی نہیں کرنی چاہیئے۔اس کے بعد کھانا حاضر ہوا۔جب ہم کھا چکے تو مجھ کو ایک ٹکیادی ۔میرے دل میں گزرا کہ یہاں تو ہم نے پیٹ بھر کر کھا لیا ہے اور ابھی مکان پر چلے جائیں گے۔یہ روٹی میرے کس کام آئےگی۔جب چلے "تو میں حضرت کے رکاب میں پوری نیاز کے ساتھ جاتا تھا۔اگر میرے دل میں کچھ تفرقہ آتا تو فرماتے کہ دل کو نگاہ رکھناچاہیئے۔راستہ میں ایک دوست کے مکان پر پہنچے وہ خندہ پیشانی اور پورے نیاز سے پیش آیا۔جب آپ وہاں اترے تو اس فقیر میں اضطراب کا اثر معلوم ہوا۔آپ نے فرمایا کہ کیا حال ہے؟سچ بتلاؤ۔کہا دودھ تو حاضر ہے"مگر روٹی نہیں ہے۔خواجہ نے میری طرف توجہ فرمائی کہ وہ روٹی لاؤ کہ آخر کام آئی۔مجھ کو اس کا حٓل کے مشاہدہ سے حضرت کی نسبت پر بہت یقین ہوگیا۔
(نفحاتُ الاُنس)