پیرِ طریقت حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول للہی

پیرِ طریقت حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول للہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

پیر طریقت حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول ابن حضرت خواجہ عبد الرسول للّٰہی قدس سرہ ۱۳۲۲ھ؍۱۹۰۴ء میں پیدا ہوئے۔ااپ کے مورث اعلیٰ حضرت خواجہ غلام نبی للّٰہی خلیفۂ حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری،دائم الحضوری اپنے دور کے مقتدر عالم دین اور بلند پایہ شیخ طریقت تھے۔آپ کے والد ماجد حضرت خواجہ عبد الرسول نے آپ کو حضرت خواجہ غلام حسن(ڈھنڈیاں ضلع جہلم) خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ غلام نبی رحمہم اللہ تعالیٰ سپرد کیا اور فرمایا’’ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ان کی تعلیم و تربیت ادھوری رہ جائے لہٰذ آپ انہیںباطنی علوم و فیوض سے نوازیں۔‘‘ کچھ دن بعد ہی حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول کی تربیت فرمائی اور برسوں کا کام مہینوں میں مکمل فرمادیا۔خواجہ صاحب اردو فارسی پرکامل عبور رکھتے تھے،دونوں زبانوں میں بلا تکلف تحریر و تقریری قادر تھے۔

حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول بڑے خلیق،ملنسار اور سادگی پسند تھے۔علماء کی تعظیم،غرباء سے محبت اور امراء سے بے نیازی آپ کے امتیازی اوصاف تھے، تواضع وانکسار کے پیکر تھے،متعلقین کو بھی ہی درس دیتے تھے۔ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا کہ سالک کس فعل یا عمل سے جلد منزل مراد تک پہچن سکتا ہے،فرمایا ؎

یکے آنکہ بر خویشتن بیں مباش

دگر آنہ بر غیر بد بیں مباش

کوئی عقیدت مند خوشی اور اخلاص سے تحفہ پیش کرتا تو قبول فرما لیتے ورنہ قیمت دئے بغیر لینا پسند نہ فرمایت ۔اتباع سنت مبارکہ کی پوری سیع فرماتے اور متبعین کو بھی سنت مطہرہ پر عمل پیا ہونے کی تلقین فرماتے۔

قیام پاکستان کی تحریک میں کارہوئے نمایاں اجنام دئے مسلم لیگ کے نمائندوں کو کامیاب کرانے کے لئے زبانی او خطوط کے ذریعے رغبت دلاتے رہے، اگر کسی مرید نے انتخابات میں مخالف پارٹی کو ووٹ دیا تو اس پر سخت ناراض ہوئے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے آپ نے میں کامل دین کو بلایا اور فرمایا: ’’قائد اعظم آزادیٔ ملک کی خاطراپنے آرام کو چھوڑ کر ظاہری کوشش میں مصروف ہیں،ہمیں چاہئے کہ باطنی طور پر کوشش کریں لہٰذا تم ہر روز درود پاک استغفار،لاحول ولا قوۃ اور یا حیّ یا قیوم تین تین ہزار بار اور سورئہ مزمل چالیس بار پڑھ کر آزادی کے لئے دعا کرو۔‘‘ میں کامل دین نے ایک سال تک یہ معمول جاری رکھا،بعد ازاں آپ انہیں ایک خط لکھا کہ پاکستان کی بنیاد تحت الثریٰ تک چلی گئی ہے۔اس خط کے ایک ماہ بعد پاکستان کا اعلان ہو گیا جس سے آپ بہت مسرورہوئے لیکن ابھی چند ماہ ہی گزرنے پائے تھے کہ قائد اعظم کا انتقال ہوگیا،ہندوستان نے کشمیر پر بھایر حملہ کردیا،ادھر حیدر آباد پر ہندوستانکا تسلط ہو گیا ان تمام واقعات سے آپ بڑے مغمو م اور پریشان ہوئے لیکن یہ بات باعث اطمینان تھی کہ یہ واقعات مسلمانوںکے لئے تازیۂ نہ عبرت ہیں،چنانچہ ایک مکتوب میںلکھتے ہیں:

’’ قائد اعظم صاحب کے انتقال سے جو مسلمانان پاکستان و مسلمانان عالم کو رنج والم ہوا وہ محتاج بیان نہیں،للہ جیسے بے حس شہر میں چار چار پانچ پانچ سال کے بچوں نے بھی دو تین دن تک کچھ نہ کھایا اور دھاڑیں مار کر روے،اس سے اندازہ ہو سکتا ہے، اوپرسے حیدر آباد کا معاملہ پیش آیا،اس سے تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ گئی مگر بقول شخصے خدا شرے بر انگیز دکہ خیر ما دراں باشد ان صدموں نے جو ایک ساتھ آئے ہیں،مسلمانوں کی آنکھیں کھول دی ہیں،جو لوگ سستی سے کام لے رہے تھے وہ بہت چوکنے ہو گئے ہیں اور بھاری زمہ داری محسوس کرنے لگے ہیں گویا تازیانۂ عبرت ثابت ہوا[1]۔‘‘

حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول صاحب کرامت بزرگ تھے۔منشی کرم داد (بہاولپور) کا بیان ہے کہ :

’’میرے گھر اولاد نہیں ہوتی تھی۔آپ نے مورخہ ۲۰دسمبر ۱۹۴۷ء کو ایک خط لکھا جس میں لڑکے کی بشارت او مبارک لکھی ہوئی تھی حالانکہ اس وقت حمل کا نشان بھی نہیں تھا،خدا کی شان اس خوش خبری کو اللہ تعالیٰ نے نومبر ۱۹۴۸ء میں خوبصورت فرزند عطا فرماکر پورا کردیا لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامت اتباع شریعت پر استقامت اور تبلیغ دین تھی۔‘‘

ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’چاہئے کہنماز پنجگانہ با وقات مسنونہ،اور اد طریقۂ عالی نقشبندیہ قادریہ ہر گز قضا نہ کریں،خصوصاً بوقت شام سجرہ شریف مروجہ اور بوقت سحر شجرہ شریف ذہبیہ پڑھیں،اشد تاکید ہے،امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا خیال ہر وقت رکھنا اشد ضروری ہے کاراین است دیگر ہمہ،ہیچ‘‘

آپ نے دو قدس مسنون کئے پہلے عقد سے کوئی نرنیہ اولاد نہ تھی اس لئے دوسرا عقد مولانا مفتی عطا محمد (رتہ شریف ،چکوال کے ہاں کیا جس سے تین صاحبزادیاں اور پاچن صاحبزادے پیدا ہوئے۔صاحبزادگان کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔

۱۔ حضرت الھاج ھافظ محمد مطلوب الرسول سجادہ نشین للہ شریف،آپ بلند اخلاق کے مالک اور تبلیغ دین کا بے پناہ جذبہ رکھتے ہیں۔

۲۔ صاحبزادہ محمد مقصود الرسول۔

۳۔ صاحبزادہ محمد صبغۃ اللہ۔

۴۔ حافظ محد حجۃ اللہ۔

۵۔ صاحبزادہ محمد انوار

۱۴ ربیع الثانی،۱۳فروری (۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۹ئ) کو حضرت خواجہ محمد مقبول الرسول رحمہ اللہ تعالیی کا میو ہسپتال لاہور میں وصال ہوا،دسرے روز آپ کو للہ شریف میں اپنے جد امجد حضرت خواجہ غلام نبی للّٰہی قدس سرہ العزیزکے قدموں میں دفن کیا گیا۔آپ کے مرید صادق ڈاکٹر ممد شیرف لائل پوری مدطلہ نے المقبول کے نام سے آپ کے مرید صادق ڈاکٹر محمد شریف لائل پوری مدظلہ نے المقبول کے نام سے آپ کے سوانح حیات مرتب کی ہے[2]

 

 

 

 

 

[1] (پیج نمبر ۵۳۱ حاشیہ)

 

[2] یہ تمام حالات اسی کتاب سے لئے گے ہیں۔

(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

تجویزوآراء