حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی
حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی علیہ الرحمۃ
ولی کام،مرشد خلائق حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی (باواجی)رحمہ اللہ تعالیٰ کا سجرئہ نسب سلاطین ایران کے کیانی خاندان سے ملتا ہے۔آپ کے جد امجد عہد عالمگیر (رحمہ اللہ تعالیٰ) میں وارد ہندوستان ہوئے۔آپ کے جد امجد اور والد گرامی کا معمول تھا کہ پنجاب سے سامان تجارت لے کر کشمیر جاتے اور راستے میں پہاڑی علاقوں میں تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرتے رہتے۔حضرت خواجہ صاحب کے والد ماجد بچپن میں ہی داغ مفارقت دے گئے۔ہوش سنبھالنے پر والدہ ماجدہ نے تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے ہندوستان بھیجا جہاں آپ نے اس دور کے مشہور فضلاء سے استفادہ کیا اور تقریباً۷۔۱۲۷۶ھ؍۱۸۶۰ء میں تکمیل علوم کے بعد واپس تشریف لائے اور راولپنڈی کے قریب موضع جگیوٹ میں دینی مدرسہ قائم کر کے تشنگان علوم دینیہ کو سیراب کرنے لگے،اس کے باوجود آپ کو کسی مرد کامل کی تلاش بے چین کئے رکھتی تھی جس سے اسرار معرفت اور فیوض و برکات کا استفادہ کیا جاتا۔
علاقۂ مری کی جنوبی جانب سسی قوم آباد تھی ان میں ایک دفعہ سنّی شیعہ بنیاد پر نزاع پیدا ہوگیا اور نوبت خو نر بزی تک جاپہنچی،فریقین کے اہل دانش نے اس بات پراتفاق کیا کہ کسی متجر عالم دین کو بلا کر تصفیہ کرایا جائے اور ان کے فیصلے کو دونوں فریق تسلیم کریں،نگاہ انتخاب حضرت خواجہ موہڑوی قدس سرہ پر پڑی،آپ نے فریقین کے بیانات سن کر اہل سنت کے حق میں فیصلہ دیا،فریق مخالف نے سازش کے تحت آپ کے کھانے میں زہر ملادیا جسے کھاکر آپ بیہوش ہو گئے اور ایک رات دن تک یہی کیفیت رہی اسی حالت میں آپ کو حضرت خواجہ نظام الدین کیاں شریف(کشمیر) کے دربار عالیہ کا نقشہ دکھا کر حاضری کا حکم دیا گیاچنانچہ آپ ہوش میں آنے کے بعد دشوار گزر راستوں کو طے کرتے ہوئے کیاں شریف پہنچ گئے اور مرجع عالم حضرت خواجہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست مقدس پر سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔آپ کا سلسلۂ طریقت بارہ واسطوں سے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہ تک پہنچتا ہے۔
مرشد کامل نے بیعت کے بعد خلافت سے نوازا اور موہڑہ شریف ایسے گنجان اور دشوار گزر پہاڑی علاقہ میں قیام کا حکم دیا۔حضرت خواجہ محمد قاسم موہڑوی قدس سرہ نے شیخ کے ارشاد کی تعمیل اس طرح کی ستر سال کا طویل دور اسی جگہ عبادت و ریاضت اور خلق خدا کی رہنمائی میں بسر کیا اور سال م یں ایک دفعہ مرشد کی خدمت میں حاضری دینے کے علاوہ کسی طرف رخ نہ کیا۔دور افتادہ مقام میں قیام کے باوجود ہزاروں افراد آپ کی خدمت میں حاضری دیتے ار مقصد ولی حاصل کر کے واپس ہوتے سینکڑوں راہ طریقت کے سالک رتبۂ کمال کو پہنچے،خلعت خلافت سے مشرف ہوئے اور پھر پاک و ہند کے مختلف مقامات پر تبلیغ دین اور رشد و ہدایت کے کام پر مامور ہوئے۔آج بھی لاکھوں افراد آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہو رہے ہیں۔
آپ کے اخلاق عادات سنت نبوی علیٰ صاجہا الصلوٰۃ والسلام کے مظہر تھے۔سینکڑوں ہند وا ور سکھ آپ کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہا کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور بے شمارفسق و فجور میں مبتلا افراد آپ کے فیض صحبت سے تقویٰ و پرہیز گاری کے پیکر بن گئے۔
آپ ہر وقت یہاں تک کہ رات کو بھی جب زیب تن رکھتے تھے کسی نے اس کا سبب پوچھا تو فرمای:
’’جس طرح ایک ملازم باوردی ڈیوٹی پر حاضر ہوتا ہے میں چاہتا ہوں کہ میرا ہر لمحہ یاد خدا اور مخلوق خدا کی ہدایت میں باوردی لکھا جاے۔‘‘
تقریباً ایک سو بیس سال کی عمر میں ۱۳ ذیقعدہ ، ۲۱ نومبر (۱۳۶۲گ؍۱۹۴۳ئ) بروز جمعۃ المبارکہ عارف باللہ حضرت خواجہ محمد قسم موہڑوی قدس سرہ کا وصال ہوا۔آپ کا مزار اقدس موہڑہ شریف تحصیل مری(ضلع راولپنڈی) میں مرجع خلائق ہے۔ آپ نے اپنی حیات ظاہری اپنے فرزند اجمند حضرت خواجہ پیر نظیراحمد قدس سرہ (م۲۸؍ محرم، ۲۱جولائی ۱۳۸۰ھ؍۱۹۶۰ء بروز جمعہ) خلیفۂ حضرت خواجہ نظام الدین قدس سرہ (کیاں شریف) کو جانشین بنادیا تھااور وصال کے وقت ووصیت فرمائی تھی کہ جو امانت میں نے آپ کو دی ہے اس کی حفاظت کرنا،امیر اور غریب دونوں آپ کے پاس آئیں گے،اگر غریبوں کو باہر نکال دیا ار امیروں کو ترجیھ دی تو میرا دل دُکھے گا، دونوں سے برابر سلوک کرنا۔
ان دنوں حضرت الحاج خواجہ پیر ہارون الرشید مدظلہ موہڑوہ شریف مین عوام خواص کو فیج و برکت سے مستفید فرمارہے ہیں[1]
[1] محمد عبد الخالق مجددی،مولانا: ماہنامہ سلسبیل ،جولائی ۱۹۷۳ء ایضاً،اگست ۱۹۷۳ء
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)