حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی

حضرت خواجہ نظام الدین صابری تھانیسری بلخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آن نسیم صبح وصال، آن قیم مقام رجال، مخصوص بعنایت رسول عربی، متصرف ولایت شرقی وغربی، متعلم مکتب خانہ ام الکتاب، معلم مدرسہ ی ہدی اللہ من اناب، بدانش ملک شریعت  را انتظام، قطب دائرہ کائنات شیخ مشائخ حضرت نظام الدین قدس سرہٗ بحر اسرار ومعدن حقائق و معارف تھے۔ آپ عشق کامل، شوق وافر، وجد صادق، حال قوی اور ہمت بلند میں مشہور تھے۔ اس قسم کے تصرفات ظاہری وباطنی جو آپکو حاصل تھے انبیاء علیہم السلام کے بعد کسی کو کم حاصل ہونگے۔ آپکے اقوال وافعال تمام اولیاء واقطاب کیلئے حجت قاطع  اور برہان ساطع (روشن) ہیں۔ آپ ریاضات و مجاہدات اور کشف و کرامات   میں عجوبۂ روزگار اور تکمیل وارشاد یگانۂ عصر تھے۔ چنانچہ آپکی ایک نظر سے  طالب صادق کا کام بن جاتا تھا اور تھوڑی سی توجہ سے سالک مستعد کو جمال حضرت لاکیف نصیب ہوجاتا تھا۔ آپکا مذہب حنفی اور مشرب چشتی تھا۔ آپ فاروقی النسب تھے اور قطب الاقطاب حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کے  برادر زادہ داماد، مرید، خلیفہ وا جانشین تھے اور انکے  وصال کے بعد انکی مسند ارشاد پر متمکن ہوئے آپ کے والد  کا اسم گرامی حضرت شیخ عبدالشکور تھا اور مسکن تھانیسر تھا۔ آپکے والد ماجد  کو اسم  بھی حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ  سے خلافت تھی۔ چشمۂ علم لدنی حضرت شیخ نظام الدین  کے قلب میں اس قدر موجزن تھا کہ ہر وقت آپکی زبان مبارک سے حقائق و معارف  نکلتے تھے۔

تصانیف

 اگر چہ آپ نے علم ظاہری جو وقال کے نام سے مشہور ہے کسی ظاہری استاد سے نہیں پڑھا تھا لیکن  دفتر وعندہ ام الکتاب اور مکتب اَدَّبَنِی رَبِّیْ (میرے رب نے مجھے تعلیم و تربیت دی) میں سے ایسے علوم و نکات آپ بیان فرماتے تھے کہ جنکا احاطہ قلم الٰہی کے بغیر نا ممکن ہے اور آپکی تصانیف مثل شرح لمعات، مکی ومدنی، رسالۂ حقیہ در بیان ہفت بواطن، جودِ قرآن، ریاض القدس، تفسیر قرآن (آخری دو پارے) وغیرہ میں سے ہر ایک  مشکوٰۃ شریف اور مصباح ولایت کےمعارف کا خزانہ ہے۔

آپکے اور ابن عرب کے معارف میں فرق

 آپ سے اس قدر  حقائق و معارف کا اظہار ہوا کہ اگر شیخ محی الدین ابن عربی آپکے وقت میں ہوتے تو سکوت وعجز کے سوا انکو چارہ نہ ہوتا۔ اور آپکے کلام معجز نظام کے آفتاب کے سامنے ستاروں کی  طرح انکے نکات گم ہوجاتے۔ البتہ حضرت شیخ  نظام الدین اور شیخ ابن عربی کے بیان کردہ حقائق ومعارف میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس وجہ سے حضرت اقدس  کے حقائق ومعارف کمالات نبوت کی پیدا  وار ہیں اور حضرت ابن عربی کے حقائق  ومعارف کمالات ولایت کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ  حضرت اقدس کے  معارف اصل ہیں اور حضرت ابن عربی کے معارف ظل وفرع ہیں۔ فہم من فہم۔

شرح لمعات مکی و مدنی

اس فقیر نے تواتر سے اپنے مشائخ کی زبانی  سنا ہے کہ جب حضرت شیخ نظام الدین  قدس  سرہٗ مکہ معظمہ اور مدینہ کی زیارت کیلئے گئے تو  لمعات کی ایک  شرح  مکہ معظمہ میں لکھی جسکا نام شرح مکی رکھا  اوردوسری مدینہ منورہ میں تصنیف کی جسکا نام آپ نے شرح مدنی رکھا۔ ان دونوں شرحین کے لکھتے  وقت  آپ خلوت نشین ہوتے تھے اور خلوت خانہ کے دروازہ پر خادم بٹھادیتے تھے تاکہ کوئی شخص اندر نہ آسکے۔ اس وقت  حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت تشریف لاکر آپکو  لمعات  تعلیم کرتی تھی اور اسکے اسرار وموز کی وضاحت کرتی تھی۔ چنانچہ آپ نے آنحضرتﷺ کے بیان کردہ حقائق و معارف جمع کر کے دو کتابیں  تالیف فرمائیں۔ کہتے ہیں کہ لمعات میں ایک سطر ایسی تھی کہ جسکی طرف رسول اکرمﷺ نے بطور خاص اشارہ فرمایا اور حضرت شیخ نظام الدین نے اسکے گرد آبِ زر سے حلقہ لگادیا۔ وہ لمعات آج تک  حضرت اقدس کے خاندان میں موجود ہیں۔ اور اس فقیر نے بھی آپکی بعض کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ آپ کے ایک مرید کہتے ہیں کہ حضرت شیخ نظام الدین آنحضرتﷺ کی طرح امی تھے اور زبانِ مبارک سے جو حقائق و معارف سرزد ہوتے تھے۔ مریدن وخلفاء انکو  لکھ ل یتے تھے اور کتابیں مرتب کرتے تھے۔ معنی آپکو استغراق اس قدر تھا کہ حرف نہیں پہچان سکتے تھے۔ جب مریدین آپکے سامنے آپ ہی کے بیان کردہ اسرار ورموز پڑھ کر سناتے تھے تو آپ کاغز انکے ہاتھ سے لیکر انگلی کے اشارے سے فرماتے تھے کہ اس  سطر سے اس سطر تک قلمذن کردو اور باقی پڑھو۔ جب مریدین بقیہ کلام پڑھتے تو اول سے آخر تک عبارت میں پورا بطِ ہوتا تھا اور قلم زدہ عبادت  بے ربط معلوم ہوتی تھی۔ آپ بڑے صاحب ذوق تھے اور جو شخص آپکے   ساتھ محفل سماع میں شریک ہوتا  اُسے اپنی استعداد کے مطابق فیض ملتا تھا۔ بلکہ عروج[1] کے زمانہ مین  حضرت اقدس پر مشاہدۂ ذات میں ایسی حالت طاری ہوتی تھی کہ جو شخص آپ کا منظورِ نظر ہوجاتا تھا ابتدئای مراحل میں شہود ذات سے فیضیاب ہوجاتا تھا  اس  وجہ سے حضرت اقدس لوگوں میں ’’شیخ ولی تراش‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ اس لقب کی وجہ یہ  تھی کہ جب آپکی روح کے تعین کا قطرہ کثرت کی قید سے نکل کر اطلاق ذات اور وحدت میں گم ہوجاتا تھا تو حضرت اقدس اپنی حقیقت کو کل اور اصل اور حقائق عالم کو ظل  وفرع محسوس کرتے تھے جو آپکی ذات سے قائم ہوں جب آپ مقید کو گم کر کے مطلق وبے نشان ہوجاتے تو ان الفاظ سے ملقت ہوتے تھے۔ جس  دن سے آپ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری کی خدمت میں ھاضر ہوکر ذکر نفی واثبات اور اسم ذات میں مشغول ہوئے  روز بروز حجابات ظلمانی ونورانی[2] جس سے مراد تعینات روحیہ وجسد یہ میں آپکی نظروں کے سامنے سے اٹھنے لگے اور  انواع  واقسام کے انوار آپکے قلب پر وارد ہونے لگے۔

مجاہدہ میں مشاہدہ

لیکن چونکہ حضرت اقدس بہت عالی ہمت اور سینہ مبارک اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ کے بمصداق ارض اللہ واسعۃ وسیع وعریض ہوچکا تھا مَازاغ البصرو ما طغیٰ کے مطابق آپ ان چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور ہر آن و ہر لحظ  مرتبہ لا تعین ولاکیف کےمتلاشی رہے اور کشف و کرامات سے خوش نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپ نے اپنے پیر دستگیر  کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی متابعت میں حجرہ کا دروازہ چنواکر چھ ماہ کی خلوت اختیار کروں تاکہ یہ اسکے اندر مرجاؤں یا مطلوب حقیقی کو حاصل کروں۔ جیسا کہ  خواجہ  حافظ شیرازی نے فرمایا ہے؎

دست ازطلب ندارم تاکام من بر آید
یاتن رسد بجا نانا یا جاں زتن بر آید

(جب تک میری مراد حاصل  نہ ہوگی جدو جہد سے با نہ آؤنگا اس میں خواہ میری جان چلی جائے یا جانانِ مل جائے) یہ سنکر حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ بہت خوش ہوئے اور شاباش دیکر فرمایا کہ طابلا کا کام یہی ہونا چاہیے۔ چنانچہ آپ نے انکو شغل بہونکم اور شغل سہ پایہ تلقین  فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ اس خلوت میں یہی شغل کرتے  رہو۔ اسکا طریقہ   یہ ہے کہ نور بار اسم ذات (اللہ) کا ذکر کر کے تسبیح کا ایک دانہ پھیرو اور اسی طرح ایک سانسن میں زیادہ  نہ ہوسکے تو کم از کم دو سو  بار ذکر کرو۔ اسکے بعد آپ نے خلوت میں داخل ہوکر اسکا دروازہ چنوادیا اور  رات دن اسی شغل میں مشغول ہوگئے۔ رفتہ رفتہ آپ نے تین سو تک پہنچادیا۔ دوسری روایت  یہ  کہ ایک سانس میں چار  سو تک پہنچادیا۔  خلوت میں جانے سے قبل آپ نے حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ سے دریافت کیا کہ خلوت میں  میری نماز باجماعت فوت ہوجائیگی۔  حضرت اقدس  نےجواب دیا کہ ہر  فرض نماز کے وقت تکبیر کہہ کر نماز پڑھایا کرو جماعت میسر آجائیگی۔ چنانچہ جب آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرتے تو ملائکہ آدمیوں کی شکل اختیار  کر کے  آپکی اقتدا کرتےتھے۔ اور سلام کے وقت آپ انکو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے۔ اسکے بعد نظر سے غیب ہوجاتے تھے۔ اس مجاہدہ میں ایک ماہ کے بعد آپکی یہ حالت ہوگئی کہ گویا آپکا   سینہ پھٹ گیا ہے اور صحائے لا مکان کا پتہ دیتا ہے اور  وہ صحرا نور سرخ سے  پُر تھا اور اسکی سرخی نہایت گہری تھی۔ اسکے بعد اس نور سرخ لا محدود میں سے چودہ سالہ خوبصورت بے ریشی نو جوان (اَمْرد) ملیح وصبیح جلوہ گر ہوا۔ اسکے سر پر لمبی سیاہ زلفیں تھیں۔ وہ نوجوان آتے  ہی آپکے دائیں شانہ پر بیٹھ گیا اور  کہنے لگا کہ تجھے کس نے حکم دیا ہے کہ اس مجاہدے  میں پڑ کر اپنی جان گنواے میں نے  یا تمہارے شیخ نے؟ وہ نوجوان  کیا تھا رَاَیتُ ربی علی صورۃ امردٍ شاب (میں نے شب معراج اپنے رب کو ایک نوجون لڑکے  کی صورت میں دیکھا) کا پیکر تھا۔ نیز حسن و جمال کا وہ پیکر تھا کہ جس کے جلوں کی تاب نہ لاکر حضرت اقدس گیارہ دن بیخودی کے عالم میں اس معنوی معراج کا لطف اٹھاتے رہے۔ آپکے اس مشہادہ میں تین دن کے بعد امرد کی صورت نورِ لاتعین اور لاکیف میں مبدل ہوگئی۔ یہ حالت ایک دن تک قائم رہی اسکے بعد آپ ذاتِ لاکیف میں داخل ہوئے اور عالم بے رنگی واطلاق یک رنگ ہوکر محبوبِ حقیقی سے ہم آغوش ہوگئے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎

من ست مئے عشقم ہشیار نخواہم شد
خفتہ بر معشوقم بیدار نخواھم شد

(میں شراب  عشق میں مست ہوں ہوشیاری مجھے نا پسند ہے۔ میں محبوب سے ہمکنار  ہوں اس نیند  سے بیدار نہیں ہونگا) جب پندرہ دن کے بعد افاقہ ہوا تو آپ نے خادم سے کہا کہ میرے پیر دستگیر کو حجرہ کے دروازہ پر لے آؤ۔ خادم اس پیغام رسانی کی خاطر ہر وقت موجود رہتا تھا۔ چنانچہ اس نے جاکر پیغام دیا اور حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ تشریف لے آئے۔ جب آپ نے سارا ماجرا حضرت شیخ کی خدمت میں عرض کیا تو سنتے ہی حضرت اقدس پر بیخودی طاری ہوگئی  اور ایک پہر یہی حالت رہی جب افاقہ ہوا تو دریافت  کیا کہ شیخ نظام الدین تیرے رب نے تیرے کندھے پر سوار ہوکر کیا بات کہی  تھی کہو۔  جب آپ نے پھر اس بات  کو دہرایا تو حضرت شیخ   بے ہوش ہوگئے ایک پہر کے بعد ہوش میں آکر پھر بے ہوش ہوگئے غرضیکہ تین مرتبہ یہی ہوا۔ اسکے بعد حضرت شیخ نظام الدین کو خلوت سے باہر  نکال کر فرمایا کہ تمہارا کام بن گیا ہے اور تم شہودِ حضرت لاکیف میں واصل ہوکر منتہائے عرفان کو پہنچ گئے ہو۔ اب تجھے خلوت  کی ضرورت نہیں ہے۔ اسکے بعد مشائخ کی امانت و نعمت مع اسم اعطم وخرقۂ خلافت انکے  سپرد کیا اور اپنی نیابت  مطلق پر تعینات فرماکر مریدین کی تربیت  پر مامور فرمایا چنانچہ جس طرح آپ کی تربیت ہوئی تھی آپ نے حسنِ اہتمام سے مریدین کی تربیت فرمائی اور بیشمار طالبان حقِ کو مرتبۂ تکمیل وارشاد   تک پہنچایا اور وہ لوگ ہر شہر ہر مقام اور ہر قصبہ میں پہنچ کر ہدایت خلق میں مشغول ہوئے انکا مختصر تذکرہ حضرت اقدس کے ذکر کے ضمن میں  بیان کیا جائیگا۔

یاد رہے کہ آمرد کی صورت میں تجلی حضرت اقدس کا ابتدائی مشاہدہ تھا اور آخری مشاہدہ لا تعین اور بے رنگی تھا۔  نیز حق تعالیٰ کا امرد کی صورت میں نظر آنا معمولی بات نہیں ہے۔ یہ مشاہدہ ہے کہ سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی قدس سرہٗ کو  اس پر ناز ہے اور فرماتے ہیں کہ رایت اللہ علی صورۃ امردٍ۔ اس قول کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ وہ بے رتیش  نو جوانوں کی صورت میں جمال حق کا مشاہدہ کرتے تھے دوسرا یہ کہ حق تعالیٰ نے امرد کی صورت میں مشکل ہوکر اپنا مشاہدہ کرایا۔ اس آخری معنی کے اثبات میں صاحب مراۃ الاسرار ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا جلال الدین رومی کے فرزند سلطان ولد  فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ  شمس الدین تبریزی کی ایک بیوی تھی جنکا نام کیمیا خاتون تھا۔ ایک دن اُن کے ناراض ہوکر شمس تبریز باغ کی طرف چلے گئے۔ مولانا  روم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جاو کیمیا کو لے آؤ۔ مولانا شمس الدین کو اُن سے عظیم لگاؤ  ہے۔ یہ کہہ کر مولانا روم خود شاہ شمس تبریز کی تلاش میں باغ کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ شاہ شمس تبریز ایک خیمہ میں بیٹھے  کیمیا خاتون سے باتیں کر رہے ہیں اور دست بازی کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر مولانائے روم حیران ہوکر واپس مڑنے  لگے تاکہ انکے  ذوق میں مخل نہ ہوں  لیکن شاہ شمس تبریز نے آواز دی کہ ان در آجاؤ۔ جب اندر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شاہ شمس  کے سوا  خیمہ میں کوئی نہیں ہے۔ اُن سے دریافت کیا کہ کیمیا کہاں چلی گئی ہیں۔ شاہ شمس الدین تبریز نے جواب دیا کہ حق تعالیٰ کی مجھ سے اس قدر محبت ہے کہ جس صورت  میں چاہوں مجھے دیدار کرادیتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت وہ کیمیا کی صورت میں آئے ہوئے تھے۔ شاید حضرت  بایزید بسطامی کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔

حدیث ‘‘اول ما خلق اللہ العلم’’ کے معنی

ایک دن کسی نے حضرت شیخ نظام الدین  قدس سرہٗ سے دریافت کیا کہ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللہ القلم (اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے  قلم کو پیدا کیا  حدیث) کے  کیا معنی ہیں۔ آپ نے اشارۃ جواب دیا کہ ایک دن مولانائے روم قدس سرہٗ حدیث اول ماخلق اللہ القلم کے اسرار ورموز یوں بیان  فرمارہے تھے کہ ایک دن حضرت محمدﷺ نے رضوان الصفاء کے اسرار حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سامنے خلوت میں بیان فرمائے اور وصیت فرمائی کہ یہ اسرار ورموز عظیم کسی  نا محرم کے سامنے بیان فرمائے اور وصیت فرمائی کہ یہ اسرار ورموز عظیم کسی نا محرم کے سامنے بیان نہ کرنا۔  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چالیس دن تحمل کیا لیکن اسکے بعد بیقرار ہوگئے حتیٰ کہ سانس بند  ہونے لگا۔ آخر بیخود ہوکر صحرا کی طرف نکل گئے۔ وہاں  ایک کنواں تھا۔ آپ نے سر نیچے کر کے ایک ایک کر کے وہ تمام  اسرار بیان کرنا شروع کیے۔ غایت استغراق میں آپ کےمنہ سے جھاگ بہہ رہی تھی اور آبِ دہن  لمعد جھاگ  کنویں میں گر رہی تھی۔ اسکے بعد آپکی حالت میں افاقہ ہوا اور  سکوں میسر ہوا۔ چند دنوں کے بعد اس کنویں  پر ایک  نے کالودا اگ آبا اور روز پروز بڑا ہونے لگا۔ شاید ایک چرواہا اس راز سے واقف ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے وہ ن ے )بانسری کا پودا) کاٹ لیا اور اسکے اندر سوراخ نکال کر بانسری بنالی۔ اس بانسری  کو وہ شب و روز بجاتا تھا اور شبانی کرتا تھا۔ حتیٰ کہ قبائل میں وہ بہترین نے نواز مشہور ہوگیا۔  انسان تو بجائے خود   حیوان  بھی اسکے نغامات سنکر مست ہوجاتے اور بعض مرجاتے تھ ے۔ اسکا سارے عرب میں چرچا ہوا اور لوگ نغمات سنکر مست اور بے خود ہوجاتے تھے۔ جب یہ بات حضرت رسالت پناہﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ چرواہے کو بلایا جائے۔ جب چرواہا  نے حاضرِ خدمت ہوکر بانسری بجائی تو صحابہ کرام سنکر مدہوش ہوگئے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ نغمات ان اسرار ورموز کی شرح ہیں جو میں نے علی کو خلوت میں بتائے تھے۔ اسی طرح اہل صفا میں سے کوئی شخص  ایسا نہ ہوگا جو ان اخوان الصفا کے اسرار ورموز نے میں سنکر مست نہ ہو اس وجہ سے کہ الایمان کلہ ذوق شوق (ایمان ذوق ومستی کا نام ہے)

آہ وردت را ندارم محر مے

 

چوں علی آہے کنم در قعر چاہ

چہ بجوشدنے بہ روید از بش

 

نے بنالد راز من گردو تبا

(افسوس اے محبوب  تیرا درد کس سے بیان کروں کوئی محرم راز ہی نہیں ملتا۔ علی کی طرح کوئیں  کے اندر دل کی آگ نکالتا ہوں۔ جس سے  کنویں میں جوش آتا ہے اور اسکے اندر نے پیدا ہوتی ہے۔  جب نے گریہ کرتی ہے تو میرا راز فاش ہوجاتا ہے)

آیاتِ قرآن سے حبس دم کا ثبوت

روایت ہے کہ ایک دفعہ  آپ کے ایک محرم راز مرید نے آپ سے سورۃ وَالنَّازعات کی ابتدائی آیات کے عارفانہ معانی دریافت کیے تو آپ نے فرمایا  ان آیات سے کیفیات حبس دم نکالی جاتی ہیں اور انکے معنی آنحضرتﷺ سے سینہ بسینہ یہی پہنچے۔ ہیں۔ والنازعات کا مطلب ہے قسم ہے دم یا سانس کھینچنے والوں کی۔ غرقاً کے معنی ہیں سختی اور قوت سے سانس کھینچنا۔ یعنی قسم ہے انکی جو ہر سانس میں ھوکہہ کر  نیچے سے اوپر لے جاتے ہیں[3]۔ والناشطات نشطاً[4] کے معنی ہیں قسم ہے سانس باہر لانے ولوں کی جو نرمی سے سانس پکڑ کر آہستہ آہستہ منہ سے نکالتے ہیں تاکہ جو گرمی  حبس دم سے پید اہو آہستہ آہستہ خارج ہو[5]۔  وَالسَّابحَات سبحاً کا مطلب یہ ہے کہ قسم ہے حبس دم کرنے والوں کی  جو حق تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اللہ اللہ کہہ کر سبحاً کامطلب ہے تیزی سے یعنی۔ تیزی سے اس لیے اللہ اللہ کرتے ہیں تاکہ ذکر میں ترقی کریں اور پانچ  سور سے ہزار تک پہنچادیں۔ فاالسبقات سبقاً[6] کا مطلب ہے  اس عمل یعنی حبس دم سے وہ سبقت حاصل کرنا چاہیے یعنی روحانی ترقی کے خواہشمند ہیں تاکہ  سبحین سے نکل کر علیین تک پہنچ جائیں۔ فالمد برات امراً کا مطلب ہے  قسم  ہے انکی جو تدبیریا (جدو جہد) کرتے ہیں تاکہ قرب الی اللہ  کے حصول کا کام بخوبی انجام کو پہونچے لیکن اس میں بھی ایک  نکتہ  ہے مطلب یہ ہے کہ عروج دم (یعنی سانس کا اوپر لطیفہ خفی واخفیٰ میں  لے جانا) مسافر ہے (یعنی ترقی پذیر ہے) اور تدبیر سے مراد یہ کام  ہے کہ سانس کھنچنے کے بعد سینہ میں مضبوط کیا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ گردن کو تین بار  ہلایا جاتا ہے تاکہ دل کو گرمی پہنچے اور گرمی سے کھل جائے اور حرارت غزیزی باہرنکلے اور گرمئ حبس دم باہم ملکر دل نیلو فر کو کھول دے جس سے دل مقیم چل پڑے۔ اس کام کو تدبیر کہتے ہیں اور جو شخص  اس کام کو بخوبی انجام دیتا ہے السابقون اولئک المقربون میں سے ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ اگر چہ دم مسافر (یعنی نیچے  سے اوپر سفر کرنے والا سانس) نیچے سے عروج کر کے علیین  میں پہنچتا ہے لیکن سبحین[7] جو درمیان میں حائل ہے اس سے خلاصی ضروری ہے لہذا دم مسافر پر پورا بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دم مقیم کے اوپر جانے اور دم مسافر بننے کا راستہ شمس الیمنی (ناک کا داماں  سوراخ) اور قمر السیری (ناک کا بایاں سوراخ) کے ذریعے ہے۔ لیکن دم مسافر کے نیچے آنے اور دم مقیم بننے کا راستہ سلطان العروق (ناف یعنی لطیفہ نفس) ہے۔ چنانچہ فالمدبرات امراً سے مراد دم مقیم کی تدبیر ہے جو  سلطان العروق (نفس) ہے پر منتج ہوتا ہے۔ سبحین بھی اسی کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سبحین (نفس) سے خلاصی پائے اس وجہ سے کہ مسافر کی کیلئے سبحین جس سے مراد مقفل ہے راست نہیں آتا۔ لیکن ہر شخص کا معاملہ اُسکےحوصلہ کے مطابق علیٰحد ہوتا ہے۔

نیز منقول ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے تمام مریدین اور خلفاء کو حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کے سپرد فرمادیا تھا چنانچہ ہر شخص اپنے واقعات حضرت  اقدس کے سامنےپیش کرتا تھا اور آپ مناسب طریقہ پر انکے مسائل حل فرمایا کرتے تھے اگر اتفاقاً کوئی واقعات حضرت شیخ جلال الدین خود سن لیتے تب بھی اپ حضرت شیخ نظام الدین کو بلاکر وہ معاملہ اُن سے حل کراتے تھے لیکن ایک مرید ایسا تھا جسکو حضرت شیخ نظام الدین سے تعصب تھا۔ ایک دفعہ وہ سیدھا حضرت شیخ جلال الدین کی خدمت میں جاکر اپنا حال بیان کررہا تھا کہ اتفاقاً حضرت شیخ نظام الدین بھی وہاں پہنچ گئے۔ چنانچہ اس مرید نے حضرت شیخ جلال الدین کےسامنے اپنی سیر سلوک کی کیفیت بیان کی جو مقام جبروت تک تھی۔ اسکے بعد حضرت شیخ نظام الدین نے دریافت کیا کہ اس سے آگے کی بات کرو کہ کیا دیکھا یہاں پہنچ کر کیوں ٹھہر گئے ہو اس مرید نےکہا کہ سالک کیلئے اس  مقام سے اوپر جانا ممکن نہیں ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تجھے وہ مقام حاصل نہیں ہے۔ سالک کی رسائی اس سے اوپر ہوسکتی ہے۔ اس پر حضرت شیخ جلال الدین نے فرمایا کہ شیخ نظام صحیح کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ اس مقام پر جوکہ تنزیہہ محض ہے پہنچ چکے ہیں اور تم نہیں پہنچے  اس لیے اسکا انکار کر رہے ہو۔

ترک وطن

حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ کے تھانیسر سے ترک سکونت کر کے بلخ جانے کا سبب جو مشائخ عظام نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جب حضرت اقدس  کی ولایت کا ظہور ہوا اور آپکے کمالات  کا اطراف عالم میں چرچا ہوا تو نور الدین محمد جہانگیر بادشاہ آپکا بیحد معتقد ہوگیا اور جب جہانگیر کے بیٹے سلطان خسرو نے بیس ماہ ذی الحجہ ۱۰۱۴؁ھ کو جو جہانگیر کی تخت نشینی کا پہلا سال تھا علم بغاوت بلند کیا اور اکبر آباد کی طرف فرار کرتے ہوئے تھانیسر سے گذرا تو حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوا  اس پر بعض مفسدین نے بادشاہ کےپاس جاکر شکایت کی کہ حضرت اقدس نے اسکو سلطنت کی خوشخبری دی ہے اس وجہ سے جہانگیر بادشاہ جو در اصل کفر والحاد کی طرف مائل تھا اور تمام اولیاء کرام سے صدق دل سے پیش نہیں آتا تھا  اپنی بدبختی کی بنا پر حضرت اقدس سے بھی منحرف ہوگیا بلکہ آپ سے  ناراض ہوگیا اس وجہ سے حضرت اقدس کو باہر جانا پڑا۔ لیکن حضرت رسالت پناہﷺ کی ہجرت کی طرح حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ کے ترک وطن کا اصل صبب بلخ کے لوگوں کی ہدایت وتکمیل  تھا اس وجہ سے کہ وہاں کے لوگ طویل مسافت کی وجہ سے حضرت  اقدس کے فیضان سے محروم تھے۔ چنانچہ آپ تھانیسر سے روانہ ہوکر پہلے مکہ معظمہ  پہنچے اور حج بیت اللہ ادا کیا اسکے بعد  مدینہ منورہ  حاضر  ہوکر زیارت روضۂ اطہر سے مشرف ہوئے۔ ان دونوں متبرک مقامات پر آپ نے کافی عرصہ تک قیام فرمایا اور اسی قیام کے دوران  لمعات کی دونوں شرحیں تصنیف فرمائیں۔ جسکا ذکر پہلے ہوچکا ہے اسکے بعد بلخ تشریف لے گئے۔ ایک  روایت  یہ ہے کہ حجاز مقدس کے  سفر کے بعد آپ تھانیسر  تشریف لےگئے اور جہانگیر  کی ناراضگی کیوجہ سے بلخ تشریف لے گئ ے۔ بہر حال تھانیسر سے بلخ کے سفر کے دوران ان دونوں مقامات کے  درمیانی علاقے کے لوگ کثرت سے آپکی ذات بابرکات سےمستفیض ہوئے اور قریب سات سو مریدین مرتبہ ارشاد وتکمیل کو پہنچے۔ جن میں سے ہر ایک کو حضرت اقدس نے خلافت دیکر اپنےاپنے علاقے میں ہدایت خلق پر مامور فرمایا۔

ایک کرامت

غرضیکہ جس روز حضرت اقدس بلخ میں داخل ہوئے وہاں کے بادشاہ کے طرف سے ایک سرکاری ملازم آپکی خدمت گذاری کیلئے مقرر کیا گیا راستے م یں جب اس ملازم کو اتفاق سے حضرت اقدس کے فرزند کے گھوڑے کا   دھکہ لگا تو چونکہ وہ مست شراب اور مخمور تھا اس نے صاحبزادہ کی پیٹھ پر چابک مارا جس سے صاحبزادہ کو غصہ لگا۔ اور حضرت شیخ کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ حضور آپکا تحمل ہمیں ہندوستان سے بلخ لایا ہے اور معلوم نہیں یہاں سے کہاں لے جائیگا۔ جب  حضرت اقدس نے ماجرا دریافت کیا  اور چابک کا حال سنا تو آپکو جلال آگیا اور فرمایا کہ اس ملازم کی گردن کیوں نہیں ٹوٹتی۔ یہ کہنا تھا کہ اسکا گھوڑا بدک گیا اور ملازم کو نیچے گرادیا  جس سے اسکی گردن ٹوٹ گئی اور مرگیا۔ اس واقعہ سے  آپکی شہرت بڑھ گئی اور ارد گرد کے علاقے کے لوگ حاضر خدمت  ہوکر بیعت سے   مشرف ہونے لگے حتیٰ کہ  ماورالنہر کے لوگ بھی کثرت سے آکر بیعت ہوئے اور آپکے حسن تربیت سے مرتبۂ  تکمیل وارشاد کو پہنچے۔ اور خلافت سے مشرف ہوکر  ہدایت خلق پر مامور ہوئے۔ غرضیکہ بلخ میں حضرت اقدس کے بے حد عزت وتکریم ہوئی حالانکہ آپ نے ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی تھی  لیکن آپکے علم لدنی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ آپ ایسے حقائق و معارف بیان فرماتے تھے کہ بڑے بڑے علماء کو بھی انکار کی مجال نہ تھی۔

جب آپ کی ولایت کا شہرہ بلند  اور بلخ کا بادشاہ  امام قلی خان  اذبک اور دوسری روایت کے مطابق نظر محمد خان  آپکا مرید ہوا اور ہفتہ میں ایک بار حاضر  خدمت ہوکر شرف  باریابی حاصل کرنے لگا تو شہر کے بعض علما کے دل میں حس کی آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ انہوں نے چند مسخروں کو جمع کر کے مال ودولت کی لالچ دی اور اس بات  پر آمادہ کیا کہ حضرت اقدس کی خدمت میں جاکر ایسی حرکت کریں جس سے آپکی  خفت ہو اور لوگ بدظن ہوجائیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ تجویز نکالی ک ہ اپنے سرادار کو مردوں کی طرح چارپائی پر لٹاکر حضرت اقدس کی خانقاہ  میں لے گئے اور یہ سکیم بنائی کہ جب حضرت اقدس  جنازہ کی امامت کی نیت باندھیں تو وہ چارپائی سے اٹھ کر آپکا مذاق اڑائے تاکہ آپکی خٖت ہو۔ جب وہ لوگ جنازہ اٹھاکر حضرت کی خانقاہ میں پہنچے اور عرض کیا کہ شہر کے علماء  میں سے کوئی شخص ہمارے پیشہ سے نفرت کی وجہ سے ہمارے سردار کا جنازل نہیں پڑھاتا  آپکے خلق کی ہم نے بہت تعریف  سنی ہے آپ مہربانی فراکر اسکا جنازہ پڑھائیں یا اپنے کسی  مرید کو  حکم دیں کہ جنازہ پڑھادے عند اللہ اجر عظیم ہوگا۔ حضرت اقدس کو روشن ضمیری سے انکی شرارت کا علم ہوگیا اور فرمایا کہ میرے سوا اسکا جنازہ کوئی نہیں پڑھا سکتا۔ میں خود اسکا جنازہ پڑھاؤنگا۔ یہ سنکر مسخرے  خوش ہوے اور کہنے لگے کہ حضور ہماری خواہش بھی یہی تھی کہ آپ  خود جنازہ پڑھاتے تاکہ متوفی  ک و نجاتب ابدی اور سعادت سرمدی حاصل  ہو۔ اسکے بعد  حضرت اقدس باہر تشریف لائے اور نماز جنازہ  کی نیت باندھی۔ اللہ اکبر کہنا تھا کہ ان کے سردار کی روح نکل گئ ی اور وہ مردہ ہوکر رہ گیا۔ لیکن وہ مسخرے ابھی انتظار کر رہے تھے کہ ہمارا سردار کب اٹھتا ہے  اور کس طرح حضرت اقدس کا مذاق اڑاتا ہے تاکہ ہمیں مال و دولت کے ڈھیر  مل جائیں۔ نیز اسکو اارے بھی کر رہے تھے کہ نماز جنازہ ہوچکی ہےا ٹھو اور اپنا کام کرو لیکن وہ بدبخت تو کسی اور جگہ پہنچ چکا تھا انکے اشاروں کو کیا  سمجھتا۔ آخر حضرت نے فرمایا اسکو اٹھاؤ اور جاکر دفنکردو۔ جب انہوں نے اسکے منہ سے چادر اٹھائی تو کیا دیکھتے ہیں و ہ فی الواقع  مردہ ہے۔ اب وہ بیھد نادم ہوئے اور حضرت  اقدس کی خدمت میں  واویلا کی ااور قدموں میں گر کر عرض کرنے لگے ک ہ چند حاسد لوگوں کے کہنے پر ہم نے یہ حرکت کی تھی ہم بے کسوں کے ح الِ زار پر رحم فرمادیں۔ ہماری خطا  معاف فرمادیں اور اسکو زندگی بخشیں کیونکہ وہ ہمارا سردار تھا اور ہماری روزی اُسی کے دم سے تھی۔ اسکی موت سے ہم سب برباد ہوجائینگے۔ حضرت شیخ نے جواب دیا کہ اب تیر نشانے پر بیٹھ چکا ہے اور تم لوگوں کو اپنی حرکت کی سزا مل چی ہے۔ اب اسکا علاج سوائےدفن کے کوئی نہیں ہے چنانچہ انہوں نے مایوس ہوکر اسے دفن کردیا اور روتے ہوئے گھروں کو چلے گئے۔ اس کے بعد اُن حاسد علماء  کو ب ھی بہت ندامت حاصل ہوئی۔ مخفی نہ رہے کہ چونکہ حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کی ذات بابرکات جامع کمالات نبوی تھ ی۔ جس طرح آنحضرتﷺ  کے ساتھ تمسخر کرنے والے کفار کے فرد کردرار کو پہنچے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ فرمان ہوا اللہ یستھزءُبھم ومدھم فی طغیانھم یعمھون اور اس معجزہ کے ظہور کے بعدمبصداق آیۂ پاک یدخلون فی دین اللہ  افواجاً خلق خدا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگی۔ بعینہٖ حضرت شیخ کی اس کرامت سے وہاں کے لوگ پہلے سے بھی زیادہ حضرت شیخ کے معتقد ہوگئے اور زیادہ سے تعداد  میں شرف  بیعت حاصل کرنے لگے۔ اس سے حاسدین کے دل میں بھی آتش حسد کے شعلے پہلے سے  بھی زیادہ بھڑکنے لگے۔ آخر انہوں نے ایک جادو گر کو زرِ کثیر دیکر  اس بات پر آمادہ کیا کہ حضرت اقدس کو جادو کے ذریعے جان سے ماردے۔ جب جادو گرنے اپنا کام شروع کیا تو حضرت اقدس کو اسکا علم  ہوگیا اور اپنے بڑے  بیٹے شیخ محمد سعید  سے فرمایا کہ اس جادو گر کے پاس جاکر کہو کہ اس حرکت سے باز آجائے۔ جب انہوں نے  جادو گر کے پاس  جاکر حضرت اقدس کا  پیغام تو اس نے ہنس کر کہا کہ وہ  تو اپنے آپکو بڑا شیخ سمجھتے ہیں  اب کیوں گھبرارہے ہیں۔ شیخ محمد سید نے  والد ماجد کے پاس جاکر عرض کیا کہ جادو گر یہ کہتا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا اسکے پاس دوبارہ جاؤ اور وہی پیغام دو غرضیکہ حضرت اقدس نے تین دن اپنے بیٹے کو جادو گر کے پاس بھیجا اور  اپنی حرکت سے باز آنے کو کہا لیکن ہرمرتبہ وہ یہی جواب دیتا رہا۔ چوتھے دن حضرت اقدس نے شیخ محمد سعید  سے فرمایا کہ جادو گھر کے گھر جاکر  دیکھو اسکا کیا حال ہے۔ انہوں نے ح کم کی تعمیل کی اور اسکے گھر  جاکر دیکھا کہ وہ فوت ہوگیا ہے اور لوگ اسکی تجہیز وتکفین میں مصروف ہیں۔ انہوں نے واپس آکر  حضرت اقدس کی خدمت میں  ماجرا بیان کیا اور راز معلوم کرنا چاہا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ جب اس نے مجھ پر جادو شروع کیاتو اسکا اثر یوں  ظاہر ہوا کہ پہلی رات میں نے عالم معاملہ میں دیکھا کہ بہشت میں ایک خوبصورت محل تیار ہورہا ہے۔ میں نے محل تعمیر کرنے  والوں سے پوچھا کہ یہ محل کس کے واسطے تیار کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے لیے۔ آپ فلاں شخص کے جادو کی وجہ سے یہاں آئینگے۔ نیز انہوں نے مجھے اس جادو گر کا پتہ نشان بھی بتایا۔ میں نے تین دن تک یہی حال دیکھا اور تجھے اس  کے پاس بھیجتا رہا تاکہ وہ اس کام سے باز آئے۔ لیکن میرے بطون کی تلوار نے  اپنا کام کیا اور اسکا سر کاٹ کر رکھ دیا۔ اس وجہ سے کہ جو شخص کسی عارف کو ضرر  پہنچانا چاہتا ہے وہ خود ہلاک ہوتا ہے اور عارف کامل جو حق تعالیٰ کے اسماء وصفات سے متصف ہوچکا ہے بالکل  محفوظ رہتا ہے۔ چنانچہ تیسری رات جب میں بہشت پہنچا تو محل کے تعمیر کندگان سے کہا کہ اب میرے دل میں اسمحل کی خواہش نہیں ہے اور میں یہاں نہیں آؤں گا کیونکہ  مجھے باغات اور محلات کا شوق نہیں ہے۔ میں ذات حق کا طالب ہوں۔ میں اپنے وقت پر بہشت میں آؤنگا۔ اور یہ قصر جنت میں نے اس جادو گر کو بخشا۔ وہ کل یہاں آئیگا۔ اس لیے میں نے تجھ سے کہا جاکر دیکھو اس جادو گر کا کیا  حال ہے۔ آیا میرے بطون کی تلوار نے اُسے  قتل کردیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مرچکا ہوگا۔ لیکن حضرت  اقدس کی اس کرامت کے بعد  علماء  کے حسد کی آگ اور بھی تیز ہوگئی اور روز بروز زیادہ ہونے لگی۔

حاسدین کی بغاوت اور حضرت شیخ کی کرامت

آخر نوبت احتساب تک پہنچ گئی اور ان لوگوں نے بادشاہ  کو درخواست دی کہ شیخ نظام الدین کو جمعہ نماز جامع مسجد میں ادا کرنی چاہیے جہاں بادشاہ سلامت نماز اداکرتے ہیں۔ جب  بادشاہ حسبِ معمول حضرت اقدس کی ملاقات کیلئے حاضر ہوا تو اس نے یہ عرض بھی کردیا کہ اس بندہ کی خواہش ہے کہ حضور آئندہ نماز جمعہ ہمارے ساتھ جامع مسجد میں ادا کریں تاکہ نمازیوں کی نماز قبول ہو اور حاسدین کی زبان بھی بند ہوجائے اس وجہ سے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ امام ابو  حنیفہ کے نزدیک نماز جمعہ صرف   جامع مسجد میں  جائزہ ہے۔ جہاں بادشاہ  کا ہونا ضروری ہے۔ باقی شہر کی کسی مسجد میں جائز نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لوگ آپکی   نماز جمعہ جو جامع مسجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد میں ادا کی گئی ہو جائز نہیں سمجھتے۔ حالانکہ حقیقی نماز حضور والا کی ہوتی ہے جہاں بھی ادا فرمادی۔ لہذا اگر کرم فرماکر  نماز جمعہ کیلئے بادشاہی مسجد میں تشریف لایا کریں تو بڑا احسان ہوگا۔ نیز  حاسدین کی شکایت بھی ختم ہوجائیگی۔ حضرت اقدس نے بادشاہ کو جواب دیا کہ    میں نماز جمعہ بادشاہی مسجد میں اس لیے نہیں ادا کرتا  کہ آپکا پیش امام رافقی ہے۔ بادشاہ نے حضرت اقدس کا یہ جواب علماء کو سنایا اور کہا کہ حضرت شیخ  کے جامع مسجد میں  نماز  پڑھنے نہیں آتے دوسرے ہمارے متقی اور پرہیزگار امام پر جوتیس سال سے یہاں نماز پڑھا رہے ہیں رفض کی تہمت بھی لگاتے ہیں۔ یہ بات سنکر امام مسجد بھی آگ بگولاہوگیا۔ آخر امام مسجد اور علماء حاسدین اور مسجد کے دیگر مقتدی لوگوں نے جنی تعداد تقریباً بارہ ہزار تھی سب نے متفق ہوکر بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپکے پیر شیخ  نظام الدین پیش امام کو رافضی ثابت کر سکتے ہیں تو درست ورنہ ہم تم دونوں کو قتل کردینگے۔ کیونکہ توران وعرب میں یہی دستور ہے جب وہاں  کے لوگ بادشاہ سے رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں  تو اسے قتل کردیتے ہیں یا قید کرکے کسی اور شخص کو تخت پر بٹھادیتے ہیں۔ یہ سنکر بادشاہ ڈر گیا اور دوسرے دن  حضرت اقدس کی خدمت میں آ سارا ماجرا بیان کیا اور کہنے لگا کہ آپکی اس بات سے پیش امام رافضی ہے دس بارہزار آدمیوں نے  متفق ہوکر ہمارے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ حضرت اقدس کو اور مجھے نقصان پہچائیں یا قتل کردیں۔ اب آپ ایسی کرامت دکھائیں کہ امام کا رفض ثابت ہوجائے ابھی بادشاہ یہ بات کر رہا تھا کہ وہی امام دس ہزار آدمی لیکر اس حالت میں  وہاں پہنچ گیا  کہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ننگی تلوار  تھی اور انکا ارادہ یہ تھا کہ اگر حضرت   شیخ نے پیش امام کو رافضی ثابت نہ کیا تو آپکو اُسی جگہ قتل کردینگے۔ پیش امام نے آتے ہی سختی سے کہا کہ اگر آپ  میرا رفض ثابت نہیں کر سکتے تو ابھی ہم تمہیں اور بادشاہ کو قتل کردینگے۔ یہ سنکر حضرت اقدس نے فوراً مراقبہ کیا۔ اور کچھ دیر کے بعد فرمایا کہ  حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت یہاں موجود تھی اور مجھے حکم  دیا کہ ان لوگوں سے کہو کہ پیش امام کےموزے نکالیں۔ اور ان موزوں کے دونوں تلووں کو دیکھیں حقیقت حال معلوم ہوجائیگی۔ یہ بات سنتے ہی لوگوں نے پیش امام کے موزے نکال لیے اور کیا دیکھتے ہیں کہ موزوں کے تلوں پر شیخین (حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر) کے اسمائے گرامی لکھے ہوئے ہیں۔ جب لوگوں نے یہ حال دیکھا تو بادشاہ  کے ح کم دیئے بغیر امام اور اسکے   بھائی کو اسی جگہ قتل کردیا۔ اور علمائے حاسدین سمیت تمام لوگ دل  وجان سے حضرت اقدس کے مرید ہوگئے۔ بلکہ بلخ کا سارا ملک آپکا حلقہ بگوش  ہوگیا اور حسد و مخالفت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوگیا۔

علم کیمیا کو ٹھکراکر علم توحید عطا کیا

روایت ہے کہ بلخ میں ایک درویش رہتے تھے جنکی عمر سو سال تھ ی اور خلوت  سے باہر انہوں نے کبھی  قدم نہیں رکھا تھا۔ وہ درویش علوم کیمیا اور ریمیا وغیرہ میں  مہارت تامہ رکھتے تھے جب انکے انتقال کا قت قریب آیا تو حضرت شیخ نظام الدن کی خدمت میں ایک خادم کے ذریعے کہلا بھیجا کہ اگر آپ یہاں قدم رنجہ فرمادیں تو میں آپکو نعمت عظمیٰ دونگا۔ دوسرا کوئی شخص اس قابل نہیں ہے کہ یہ  نعمت حاصل کر سکے۔ حضرت اقدس نے خادم سے پوچھا کہ آیا تمہارے شیخ ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم بھی جانتے ہیں جو سالکین راہ طریقت کا مطلوب ہیں۔ خادم نے جواب دیا کہ میرا ااعتقاد یہ ہے کہ ہمارے شیخ تمام علوم کے جامع ہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ مجھے تمہاری بات  کا اعتبار نہیں ہے واپس جاکر اپنے شیخ سے دریافت کرو کہ اگر آپکو علم توحید ہے تو درست ورنہ  دوسرے  علوم بیکار ہیں۔ اس لیے وقت  کو غنیمت سمجھیں اور مرنے سے پہلے میرے پاس آؤ اور  علم توحید حاصل کر کے دوئی سے نجات حاصل کرو اور ایک رنگی میں  پہنچ کر اس جہان  سے مومن ومحد بن کرجاؤ۔ جب خادم نے جاکر حضرت اقدس کا پیغام دیا تو چونکہ وہ طالب صادق تھا فوراً کہلا بھیجا کہ میں اور کسی علم کو نہیں جانتا ور نہ علم توحید سے واقف  ہوں۔ چنانچہ وہ حضرت کی خدمت میں آیا۔  آپ نے اُسے دو تین گھنٹوں میں  نور توحید ذاتی سے مشرف فرمایا  اور رخصت کردیا بعض کہتے ہیں اس شیخ نے بھی  اپنی طرف سے وہ علوم  حضرت اقدس کو بطور تحفہ وہدیہ پیش  کیے اور آپ نے قبول فرمالیے۔  لیکن روایت  اول زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔

مردہ زندہ ہوگیا

اس فقیر نے تواتر سے اپنےمشائخ عظام سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس کا گذر ایک بیا بان سے  ہوا اور وہاں  ایک مردہ پڑاپایا۔ جب آپ نے اسکے حالات پر نظر ڈالی اور ام الکتاب (لوح محفوظ) کو بھی دیکھا تو معلوم ہوا  کہ ابھی اسکی عمر کے تیس سال باقی ہیں۔ چنانچہ آپ نے اُسے مخاطب کر کے فرمایا قم باذن اللہ (اللہ کے حکم سے اٹھو) یہ کہنا تھا کہ مردہ اسی وقت زندہہوگیا اور اٹھ بیٹھا۔ حضرت اقدس نے اسے اپنے پاس رکھا اور تربیت دیکر مرتبہ کمال کو پہنچایا اور ہدایت خلق  پر مامور فرمایا۔ انکی وجہ سے ہزاروں لوگ منزل مقصود کو پہنچے۔

چروا ہے کو ولایت دیکر مقدائے علماء کردیا

روایت ہے کہ ایک دفوہ بلخ کے نواح میں ایک چواہا رہتا تھا جو حضرت اقدس کے کمالات  کی شہرت سنکر حاضرِ خدمت ہوا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس لیے آئے ہو۔ اس نے جواب دیا   کہ حضور کی توجہ سے بہت لوگ مرتبۂ ولایت کو پہنچ چکے ہیں۔ میری بھی خواہش ہے  کہ یہ مقام  حاصل ہوا۔ حضرت اقدس نے اُسے  ذکر نفی اثبات واسم ذات بطریق جہر تلقین فرمایا اور اس پر  ہمیشہ کاربند رہنے کی وصیت فرمائی۔ اس نے  حکم کی تعمیل کی اور سات سال تک ریاضت ومجاہدہ کیا جس سے اسکے باطنی کان ک ھل گئ ے اور ح یوانات کا کلام سننے او ر سمجھنے لگا۔ نیز ملائک بھی اُسے نظر آنے لگے۔ اسکے بعد آپ نے ذکر جہری بند کرادیا اور حبس دم کے ساتھ نفی اثبات [8] کا حکم دیا۔ چنانچہ اس نے مزید ایک سال تک حبس دم کے ساتھ نفی اثبات کیا۔ ایک دن شغل سےفارغ ہوکر وہ مراقبہ میں بیٹھا تھا کہ ایک نہایت سُرخ  نور دیکھا جو اسکے دانتوں کے جبڑوں سے نکل کر بکلی کی طرح چمک رہا تھا اسکے بعد وہ نور پھیل گیا۔ یہاں تک کہ وہ نور کائنات کے تمام ذرات  میں طاری وساری  ہوکر ان پر جلوہ گر ہوا۔ یہ مشاہدہ کرتے ہی وہ بیہوش ہوگیا اور سات روز محیوت اور بیخودی  کے عالم میں مستغرق رہا۔ اسکے بعد اُسے  افاقہ ہوا۔ اسکے چودہ دن بعد وہ شغل باطن میں مشغول تھا کہ اس پر نورِ بے خودی جلوہ گر ہوا اور ن دن تک مدہوش رہا جب اس نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ واقعات  بیان کیے تو آپ بہت خوش ہوئےاور فرمایا کہ تمہارا مطلب حاصل ہوگیا ہے۔ اسکے بعد اُسے خرقۂ خلافت عطا کیا اور اپنے وطن بھ یج کر وہاں کا صاحب ولایت مقرر فرمایا اور عارف باللہ نام رکھا۔ جب وہ وہاں پہنچا اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ حضرت شیخ نظام الدین ن ے ایک چرواہے کو خرقۂ خلافت دیکر اس علاقے کا صاحب ولایت مقرر فرمایا ہے اور عارف باللہ نام رکھا ہے تو وہاں کے علماء جمع ہوکر انکے پاس آئے تاکہ دیکھیں کہ صاحب  ولایت کیسا ہے اور اس کے علم وعرفان کا امتحان لیا جائےکہ کہاں تک   ہے۔ چنانچہ علماء نے انکے پاس جاکر علمی مسائل پر گفتگو شروع کردی اور اُن سےمشکل سوال کیے۔ چونکہ وہ امی تھ ے ان کے سوالات  کےجوابات  ن ہ دے سکے۔ یہ دیکھ کر علماء نے کہا کہ آپ نے یہی عرفان اور ولایت حاصل کی ہے کہ مسائل شریعت بھی  اچھی طرح نہیں جانتے۔ غرضیکہ ان لوگوں نے آپ کا  کافی مذاق اڑایا۔ جب وہاں کے با اثر علما نے آپکے ساتھ یہ سلوک کیا تو عام لوگوں نے بھی آپ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ حالت دیکھ کر وہ حضرت شیخ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرہ بیان کیا آپ نے انکو کشف ارواح کا شغل تلقین فرمایا اور حکم دیا کہ خلوت میں بیٹھ کر یہ شغل کرو اس سے سراج امت حضرت امام ابو  حنیفہ کی روحانیت پہن چجائے گی اور آئندی جس وقت تم ان کی روح کی طرف متوجہ ہوگے انکو موجود پاؤ گے اُن سے جتنے  علمی مسائل دریافت کروگے انکا حل بتادینگے۔ اسکے بعد جب کوئی عالم کوئی مسئلہ لیکر آئے تو حضرت امام صاحب کی روح سے دریافت کر کے اسکو جواب دیدیا کرو۔ چنانچہ  انہوں نے اس شغل پر عمل کیا  جس سے حضرت امام ابو حنیفہ کی روحانیت ظاہری ہوئی اور فرمایاکہ میں حاضر ہوں جس وقت میری طرف متوجہ ہوگے میں پہنچ جاؤنگا اور جو مسئلہ دریافت کروگے اسکا جواب بتادونگا۔ جب انہوں نےمعاملہ حضرت شیخ نظام الدین سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب جاؤ وہاں کے تمام علماء تمہارے کفس بردار (جوتا اٹھانے والے)ہوجائینگے چنانچہ حضرت شیخ سے رخصت ہوکر جب وہ اپنے وطن پہنچے تو علماء  دوبارہ آپکے گرد ہوگئے اور امتحان کی خاطر علمی مسائل دریافت کرنے لگے۔ اب چونکہ وہ بحر علوم بن چکے تھے۔ انکے ایک ایک سوال کے سات سات جواب دینے لگے۔ وہ  لوگ جو سوال کرتےتھے آپ  امام ابو حنیفہ کی روح سے پوچھ کر جواب دیدیتے تھے۔ جب علماء نے یہ حالت دیکھی تو  سب انکے مرید ہوگئے۔ اسکے بعد اس علاقے کےلوگ بھی رفتہ رفتہ مرید ہوگئے اور آپ سے  فیض حاصل کر کے کافی لوگ مرتبہ تکمیل وارشاد کو  پہنچے۔

شغل جبرائیلیہ کی تلقین

بعض کہتے  ہیں کہ عارف باللہ جب علما کے سوالات سے عاجز آکر حضرت  شیخ کی خدمت میں پہنچے اور کیفیت بیان کی تو حضرت اقدس نے انکو شغل جبرائیلیہ تلقین کر کے فرمایا کہ اس شغل کے ذریعے ملائک جبرائیلیہ آکر تمہارے د ل میں  علوم القاکر کرینگے اور وہ لوگ جو مسئلہ کہ تم سے دریافت کرینگے انکا حل ملائکہ تمہارےقلب پر القا کردیگنے۔ فرکر مت کرو تمام لوگ تمہارے ان غیبی علوم کو دیکھ کر معتقد اورمرید ہوجائینگے۔ چنانچہ وہاں سے رخصت ہوکر شیخ عارف باللہ اپنے وطن پہنچے اور اپنے گھر  میں بیٹھ کر چند روز شغل کرتے رہے۔ جب ملائک نے آکر وہ علوم آپکے دل پر القا کیے  تو آپ خلوت سے باہر آئے۔ جب علماء  کو اس بات کی اطلاع ہوئی  کہ وہ اپنےپیر سے ہوکر واپس آگئے ہیں تو انہوں نے اپ نےد ل میں کہا کہ اب جاکر دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کمال  اور علوم حاصل کر کے آئے ہیں اور ہمارے مسائل کاکیا جواب لائے ہیں۔ چنانچہ جب انہوںن ےشیخ عارف باللہ کےپاس جاکر اپنےمسائل حل کردیئے۔ آپکی یہ کرامت دیکھ کر سب علماء معتقد اورمرید ہوگئے اور عارف باللہ ہوئے۔

اس فقیر نے ثقہ راویوں سے سنا ہے  کہ حضرت شیخ نظام الدین بلخی اور حضرت شیخ نظام الدین نارنولی ہم عصر تھے اور ایک دوسرے انکی ملاقات بھی ہوئی  ہے نیز  یہ بھی سناہے کہ حضرت شیخ نظام الدین بلخی حضرت شیخ نظام الدین نارنولی کو نیم مسلمان کہتے تھے۔ شاید آپکامطلب یہ تھا کہ اس وقت تک حضرت شیخ نارنولی کو مشاہدہ ذات حق تجلیات صوری اورتمثلات نوری میں ہوا ہوگا اور کشف حضرت  لاکیف (لاتعین) تک رسائی نہ ہوئی ہوگی اور یقیناً یہ کشف انکو آخری عمر میں ہوا ہوگا۔ یاد رہے کہ حضرت شیخ نظام  نارنولی قدس سرہٗ  حضڑت خواجہ خانوں گوالیاری کےاعظم خلفاء میں سے تھے جنکا سلسلۂ طریقت چند  واسطوں سے حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی تک جا پہنچتا ہے۔ آپ شانِ عظیم اور مقام بلند کے مالک تھے اور تربیت مریدین میں ید طولیٰ رکھتے تھے چنانچہ مشہور ہے کہ آپ کے ایک ہزار چار سو خلفائے باکمال تھے۔ ایک دفعہ آپ پر حضرت عین القضات ہمدانی کی سی حالت طاری ہوگئی اور آپکی زبان سے یہ بات نکلی کہ قیامت تک ہمارے بچوں میں سے ایک مرد عارف اور صاحب  حال پیدا ہوتا رہے گا۔ بعینہٖ اُسی طرح ہوا جیسا کہ فرمایا تھا۔ آپکےفزندان میں سے جہانگیر بادشاہ کے عہد  میں حضرت محمد صادق بڑے  صاحب حال اور صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئےاور اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ نظام  نارنولی کے پیر حضرت خواجہ خانون قدس سرہٗ نے آخر عمر میں ضعیفی کیوجہ سے ترک تعظیم اختیار کرلی تھی اور تعظیم کیلئے اٹھنا بند کردیا تھا اس وجہ سے کہ ایک تو آپ ضعیفی کی وجہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے دوسرے یہ کہ ہر کس وناکس کے سامنے اٹھنا درویشوں  کےشایاں حال نہیں۔ یہی وجہ  ہے کہ اب تک آپکے مریدین میں ترک تعظیم کا طریقہ چلا آرہا ہے۔ حضرت شیخ نظام نارنولی کے کمالات اس قدر ہیں کہ دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔

یاد رہے کہ حضرت شیخ نظام الدین بلخی نے سالہا سال بلخ میں مسندِ خلافت پر متمکن ہوکر ایک جہان کو نورِ ہدایت سے منور فرمایا اور اپنی زندگی  میں  امانت مشائخ مع اسم اعظم وخرقۂ خلافت حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کے پوتے حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی قدس سرہٗ کے   کے پوتے حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی قدس سرہٗ کے حوالہ کر کے قصبۂ گنگوہ  کی طرف رخصت فرمایا اسکے بعد  دوسرےلوگوں کو فیض تربیت سےمستفیض کر کے اس جہان سے پردہ پوشی فرمائی۔

وصال

حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کا وصال بتاریخ اٹھائیس رجب بروز جمعہ ۱۰۳۵؁ھ اور دوسری روایت  کےمطابق ۱۰۳۶؁ھ میں ہوا۔ آپکا مزار مبارک بلخ میں حاجت روا اور پشت پناہ خلائق ہے۔

اولاد

آپ کثیر الاولاد تھے۔ اور آپکے تمام بیٹے بزرگ وصالح تھے۔ سب سے بڑے بیٹے شیخ محمد سعید اور اُنکے بھائی شیخ عبدالحق دونوں کسی تقریب کے سلسلے میں بلخ سے ہندوستان آئے حضرت شیخ محمد سعید نے اپنے آبائی شہر تھانیسر میں اقامت اختیار کرلی۔ چنانچہ  آپکی اولاد آج تک وہاں موجود ہے۔ آپکا مزار بھی  تھانیسر میں ہے۔ حضرت عبدالحق نے کرنال میں سکونت اختیار کی۔ آپکا مزار  بھی کرنال میں ہے، اور آپ کی اولاد آجت ک وہاں موجود ہے۔ حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ کی باقی اولاد بلخ میں مقیم رہی اور آج تک وہاں روضہ اقدس کے قرب وجوار میں سکونت پذیر ہے۔

خلفاء

حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کے خلفا کی تعداد بہت زیادہ ہے ان میں سے بعض  کےمزارات ہندوستان میں ہیں جن کے حالات اپنے مقام پر بیان ہورہے ہیں اور بعض کا دکمز اس سے پہلے  ہوچکا ہے۔ حضرت اقدس کے خلیفہ اول واعظم اور جانشین مطلق حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی ہیں جسکا حال اپنے مقام پر آرہا ہے آپکے دوسرے  خلیفہ مردِ میدان دین قدوۃ المحققین حضرت شیخ حسین بھوری ہیں۔ اگر چہ شیخ حسین بھوری کی بیعت حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری سے تھی لیکن تربیت وخلافت  آپ کو حضرت شیخ نظام  الدین بلخی سے حاصل ہوئی۔

ذات احدیت میں کب فنا حاصل ہوتی ہے

روایت ہے کہ ایک دفعہ قطب العالم ومحبوب بنی آدم، محو ذات حق حضرت شیخ محمد صادق الحنفی گنگوہی قدس سرہٗ نے حضرت شیخ ح سین بھوری سے پوچھا کہ آپکو ذات احدیت میں فنا کب میسری آتی ہے آپ نے جواب دیا کہ جب نماز کی نیت باندھ کر تکبیر تحریمہ کہتا ہوں تو میں باقی نہیں رہتا اور الصلوٰۃ معراج المومنین  کا مقام حاصل ہوجاتا ہے اس کے بعد حضرت شیخ حسین نے حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی  سے دریافت کیا کہ آپ کو  محویت ذات لا کیف کب حاصل ہوتی ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ  جب نغمۂ سرود جو فاذ نفح فی اصلور فصعق من فی السموت ومن الارض (جب  صور پھونکا جائیگا  تو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے محو  بے خود ہوجائیگا) کا نمونہ ہے میرے کانوں میں پہنچتا ہے تو  صادق نہیں رہتا خدا ہوتا ہے چنانچہ محویت ، فنا، دید وشہود و معارج و عروج کا قصہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔

 

[1]۔ عروج کا زمانہ وسطِ سلوک کا زمانہ ہوتا ہے جب سالک بحر ذات میں غواصی کرتا ہے اور شہودات ذات سے بہرہ وہر ہوتا ہے۔

[2]۔ حجابات کے تین اقسام  ہیں اول حجابات ظلمانی جو معصیت کی و جہ سے بندہ آور مولا کے درمیان حائل ہوتے ہیں۔ دوم حجابات نورانی جو کشف و کرامات کی وجہ سے  حائل ہوجاتے ہیں۔  سوم حجابات کیفی جو قرب حق کی لذت کی وہ جو پیدا ہوتے ہیں کیونکہ سالک جب لذت  کا طالب ہوتا ہے تو اخلاص  کم ہوجاتے ہیں۔ سوم حجابات کیفی  جو قرب حق کی لذت کی وجہ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ سالک جب لذت  کا طالب ہوتا ہے تو اخلاص کم ہوجاتا  اور  پردہ حائل ہو جاتا ہے۔ بہت نزاکت کا مقام ہے۔

[3]۔ نازعات کے معنی مفسرین نے بھی گھسیٹ کر یا سختی سے نکالنے کے کیے ہیں اور غرقا کے معنی غوط لگاکر کیے ہیں لیکن علمائے ظاہر نے اس سے  مراد وہ فرشتے لیے ہیں جو کافروں کا دم سختی سے نکالتے ہیں

[4]۔ ناشطات سے مراد مفسرین نے نکالنا ورکھولنا لنالی ہے اور نشطاً کے معنی بھی آسانی کیلئے ہیں علمائے ظاہران سے وہ فرشتے مراد لیتے ہیں جو نیک آدمی کی روح آسانی سے نکالتے ہیں لیکن عرفا اس سے سانس باہر نکالنا مراد  لیتےہیں۔

[5]۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ  اگر حبس دم کے بعد سانس ایک دم پورا کھول دیا جائے تو دانتوں کے گرجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

[6]۔ مفسرین نے سابھات سے مراد تیرنے والے (فرشتے) لیے ہیں اور سبحاً کے معنی مفسرین نے بھی تیزی کیلئے  ہیں۔ علمائے ظاہر اس آیت کا مطلب یہ  لیتے ہیں کہ وہ فرشتے جو نیکوں کی روح  لیکر آسمان کی طرف تیزی  سے لے اڑجاتے ہیں۔

[7]۔ سبحیّن سے مراد مقفل

[8]۔نفی اثبات سے مراد ذکر  لَا اِلاٰہَ اِلاَّ اللہ ہے۔ لا الہ کو نفی  اور الا اللہ کو اثبات کہا جاتا ہے۔ ذکر اسم ذات سے مراد ذکر اسم پاک اللہ اللہ ہے۔

(اقتباس الانوار)

تجویزوآراء