حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی
حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
برہان العاشقین،شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی ابن حضرت خواجہ محمد یار ابن میاں محمد شیف ابن میاں بر خوردارابن میاں تاج محمود ابن میاں شیر کرم علی (قدست اسرارہم)۱۲۱۴ھ/۱۷۹۹ء میں سیال شریف ضلع سر گودھا میں پیدا ہوئے ۔ ااپ کے آباء واجد ادکئی پشوں سے دنیاوی عزو جاہ اور علم و تقویٰ میں ممتاز تھے ۔آپ کے جد اعلیٰ حضرت موسیٰ پاک شہید ملتانی قدس سرہ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب پچاس واسطوں سے حضرت عباس علمدار شہید کر بلا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا ملتا ہے[1]
حضور اعلیٰ سیالوی قدس سرہ ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن کی تعلیم کے لئے مکتب میں بٹھائے گئے ، سات سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا، علم دین کی تحصیل کے لئے علاقہ پنڈی بھیپ کے ایک گائو ں میکی ڈھوک میں گئے ، ابھی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں کہ استاذ گرامی کا وصال ہو گیا اس لئے وہاں سے حضرت مولانا سے گزارش کی کہ میں تجارتی مقاصد کے لئے افغانستان جارہا ہوں اس لئے آپ کسی قسی صفات شاگرد کومیرے ساتھ روانہ کریں تاکہ اس کی معیت باعث برکت ہو۔استاد کامل کی نگاہ انتخاب حضور خوجاہ سیالیو پر پری چنانچہ آپ اس تاجر کے ساتھ تشریف لے گئے ، تاجر موصوف کو وہاں کافی عرصہ رکنا پڑا،اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فاضل یگانہ مولانا حافظ دراز قدس سرہ سے فقہ و حدیث کا درس لیا ۔ ہدایہ شریف مکمل پڑھااور سند ھ حدیث حاصل کی ،واپس آکر پھر استاد مشفق مولانا محمد علی حمہ اللہ تعالیٰ سے تعلیم حاصل کرنے لگے [2]
(۲)حضرت خواجہ شمس العافین سیالوی قدس سرہ کے اکثر و بیشت سوانح نگاہ حضرات (خلیق احمد نظامی ، تاریخ مشائخ حیثیت ص ۷۰۳، مولانا سلطان احمد فاروقی ،تذکرہ اولیائے حیثیت ص ۲۱۶ ۔ پیر محمد کرم شہا زید مجدہ ، ماہنامہ ضیائے حرم مارچ ۱۹۷۳ئ۔ انوار شمسیہ ص ۲۴ سے بی بہ ظاہر یہی معلوم ہتا ہے) کا کہنا ہے کہ ااپنے مولانا حافظدراز رحمہ اللہ تعالیٰ کابل میں علمی استفادہ کیا حالانکہ مولانا حافظ دراز خوشاب ، پنجاب کے رہنے والے تھے اور پشاور میں مستقل قیام پزیر ہو گئے تھے، کتب تاریخ و تذکرہ سے ان کا کامل میں درس دینا ثابت نہیں ہوتا تذکرہ علماء و مشائخ سرحد جلد اول ص ۱۲۲ پر پیر امیر زید مجدہ لکھتے ہیں ’’ آپ موضع خوشاب (پنجاب ) کے رہنے والے تھے مگر مستقل طور پر پشاور شہر کو اپنی قیام گاہ بنالیا تھا۔‘‘ مولانا فقیر محمد جہملی(حدائق الحنفیہ ص ۴۷۵) اور مولانا رحمن علی (تذکرہ علمائے ہند اردو ترجمہ ص ۱۸۵)نے آپ کا نام اس طرح لکھا ہے ’’ محمد احسن واعظ المعروف بہ حافظ دراز بن حافظ محمد صدیق واعظ بن حافظ محمد اشرف خوشابی ، پشاوری ، اس لئے قرین قیاس یہی ہے کہ حضرت شمس العارفین نے پشاور ہی میں ان سے استفادہ کیا ہوگا
حضرت مولانا محمد علی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے دور کے متجر فاضل اور صاحب دل بزر تھے بایں ہمہ انہیں ایسے رسیر کامل کی تلاش تھی جو ایک ہی نگاہ میں دل کی دنیا کو دولت سکون سے مالامال کردے ۔ ایک دنکسی راہر شوق نے پر پٹھان حضرت خواجہ محمد سلیمان تونسوی قدس سرہ کا ذکر خیر کچھ اس اندزے سے کیا کہ آپ کا دل اس بارگاہ کی حاضری کے لئے بے قرار ہو گیا اپنے شاگرد ارشد حضرت خوجہ سیالوی کو ساتھ لے کر بارگاہ سلیمانی میں حاضر ہوئے اور اسفادہ شاگردو شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضر ت مولانا چھ ماہ تک دربار مرشد میں رہے اور باطنی تو جہات سے مستفیض ہوئے، بعد ازاں خرقئہ خلافت سے سر فراز ہو کر شیخ کامل کے ایماء پر واپس مکھڈا شریف تشرف لائے۔
حضرت مولانا محمد علی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہوں کوئی اولادنر نیہ نہ تھی ، انہیں خیال ہو ا کہ حضر ت خواجہ سیالوی قدس سرہ کو اپنا جانشین بنالیں ، ویسے بھی آپ کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے ، والدین کو جب اس ارادے کا علم ہوا تو بیقرار ہو گئے اور ملجائے بیکساں حضرت خواجہ محمد سلیمان قدس سرہ کی خدمت میں ماجرا عرض کیا، حضرت پیر پٹھان قدس سرہ نے مولانا کو لکھا:۔
’’آپ نے اس فقری کو اسیر بنا رکھا ہے اس کو باپ کے پاس بھیجدو اور ساتھ ہی حضرت خواجہ شمس العارفین کو فرمایا،وہ والدین کے پاس جائیں اور فریضۂ نکاح ادا کریں[3]۔‘‘
۳۴ سال کی عمر میں حضرت خواجہ شمس العارفین کا نکاح ان کے چچا میاں احمد یار ی دختر نیک اختر سے پـرھا یا گیا،ان حالات میں آپ نے سیال شریف میں قیام کا ارادہ فرمایا اور ارشاد مرشد کے مطابق تمام اور ادو اذکار ادا کرنیت کے ساتھ درس وتدریس سلسلہ شروع کیا،سال میں کئی دفعہ پا پیا دہ مرشد کامل کے دربار میں حاضری دیتے اور کم و بیش چالیسن دن تک وہاں قیام کرتے ۔چودہ مرتبہ حضرت پیر پٹھان کی معیت میں تونسہ شریف سے مہار شریف کا سفر اس اس شان نیاز سے کیا کہ مرشد کامل گھوڑی پر سوار ہوتے اور آپ آ نحضو ر کا قرآن مجید،رحل اور دیگر وظائف سر پر رکھے ، پانی کا کوزہ دائیں ہاتھ میں ، مصلّٰی اوع عصا بغل میں دبائے ساتھ ساتھ دوڑ تے جاتے تھے، دیکھنے والے اس پیکر حسن و جمال کی جفا کشی اور عقیدت کیشی کو دیکھ کر محو حیرت رہ جاتے اور اہل نظر اس شہباز معرفت کی قوت پر واز کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے۔
۳۶ سال کی عمر میں جب ااپ کا قلب انور عبادت در یاضت اور پیر کامل کی نگاہ کیمیا اثر کی برکت سے رشک شمس و قمر بن چکا تھا۔حضرت پیر پٹھان سلیمان زماں حضرت خواجہ محمد لسیمان تونسوی قدس سرہ نے خرقہ خلافت عطا کیا اور فرمایا:۔
’’جو شخص بیعت کی تمنا لے کر حاضر ہو،اس کی مراد بر لائی جائے[4]
اور اپنے اشغال میں مصروف ہو کر اسے نظر اندزنہ کر دینا۔‘‘
سب سے پہلے آپ کے دست اقدس پر والدین کریمین بیعت ہوئے ، اس کے بعد میاں چھٹہ کسب دار ، شیخ عبد الجلیل قریشی، عبداللہ دین دار اور میاں فضل احمد قریشی مرید ہوئے[5]
مرشد اکمل سے عقیدت و محب کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک نورانی پیکر بزرگ حضرت پٹھان قدس سرہ کے پاس تشریف لائے اور کچھ دیر محو گفتگو ہو کر رخصت ہو گئے ۔ ان کے جانے کے بعد حضرت نے فرمایا:’’یہ حضرت خضر تھے ، جو شخص ان کی زیارت کرنا چاہتا ہے جائے اور زیارت کرے ‘‘ تمام حاضرین دیوانہ وار ان کے پیچھے چلے گئے مگر حضرت خواجہ شمس العافین وہیں بیٹھے رہے ۔ حضرت خواجہ نے فرمایا:’’ مولوی ! تمہیں حضرت خضر کی زیارت کا شتیاق نہیں‘‘ عر ض کی میرے لئے اسی کی زیارت کافی ہے جس کی ملاقات کے لئے حضرت خضر چل کر تشریف لائے ہیں ؎
ہمہ شہر پر ز خواباںمنم و جمال م اہے
چہ کنم کہ چشم خوش میں نکند بہ کس نگا ہے
اس خلوص و محبت پر حضرت پیر پٹھان بہت خوش ہوئے اور دعاکی‘‘ اللہ سائیں میرے سیال کو رنگ لائیں ۔‘‘ اس دعا کا یہ اثر ہو ا کی چار دانگ عالم سے جام عرفان کے متلاشی پروانہ وار آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تسکین دل و جاں اور منزل مراد حاصل کرتے [6]
آپ ملکوت صفات اور قدسی اخلاق کے پیکر تھے،آپ کے قائم کردہ لنگر سے ہر مسافر مفلس اور مسکین بہرہ ور ہوتا اور آپ ہر در مند کی دکھ بھری داستان سنتے اور حسب حال اس کا مداوا فرماتے ، شریعت مقدسہ کی اتباع اور پیروی میں اپنی مثال آپ تھے، نماز جماعت ادا کرتے اور مریدین کو بھی اتباع سنت مطہرہ کا سختی سے حکم دیتے ، آپ نے رشد و ہدایت کا پیغام اعلیٰ پیمانے پر عوام و خواص تک پہنچا یا اور بے شمار مریدین کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ تاریخ مشائخ چشت میں آپ کے ۳۵ خلفاء کے نام درج ہیں ،آپ کے خلفاء میں مندرجہ زیل حضرات آسمان علم و عرفان پر مہر ماہ بن کر چمکے جن کے ذکر اور فیض سے قیامت تک دلوں کی دنیا مستینر ہوتی رہے گی[7]
۱۔ حضرت خوجہ محمد الدین سیالوی (فرزند اجمند)
۲۔ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی ۔
۳۔ حضرت پیر غلام حیدر شاہ جلا لپوری۔
۴۔ حضرت پیر معظم الدین مر ولوی ( وغیر ہم قدس اسرارہم)
حضور خواجہ شمس العارفین قدس سرہ کا وصال ۶۴صفر ، جنوری
( ۱۳۰۰ھ/ ۱۸۸۳ئ) بروز جمعہ صبح صادق کے وقت ہوا ۔ ہر سال آپ کا عرس مبارک ۲۲، ۲۳ ، ۲۴ صفر المظر کوآستانہ عالیہ سیال شریف پر موجودہ سجادہ نشین حضرت شیخ الاسلام والمسلمین الحاج علامہ حافظ محمد قمر الدین دامت بر کاتہم العالیہ کے زیر اہتمام منعقد ہوتا ہے جس میں ہزاروں ارادت مند حاضر ہو کر فیضیاب ہوتے ہیں ،یہ ایک حقیقت ہے کہ مزار مقدس پر حاضر ہونے والا اپنے دل میں جلال و جمال کی ملی جلی کیفیت محسوس کرتا ہے ۔
مفتی غلام سر ور لاہور ی نے تاریخ وصال کہی ؎
دریغا صد در یغا صد ریغا
کہ شمس الدین امام العارفین رفت
ہزار افسوس کیں مہر جہاں تاب
بہ اوج عرش از میں رفت
چو سرور جست تاریخش زہاتف
بگفتا ’’شمس اوج علم و دیں رفت‘‘[8]
نوٹ:۔ انوار شمسیہ اور تاریخ مشائخ چشت میں علم اور دین کے درمیان دائو نیں ہے حالانکہ اس کے بغیر تیرہ سو کا عدد پورا نہیں ۱۲ مرتب
[1] محمد کرم شاہ الا زہری ، مولان اپیر : ماہنامہ ضیائے حرم، مارچ ۱۹۷۳ئ،ص ۳۷۔۳۹
[2] امیر بخش ، مولانا : انوار شمسیہ المعروف بہ خطبہ چشتیہ ، مطبوعہ عام پریس ، لاہور ۱۳۳۵ھ/۱۹۱۶ء ، ص ۲۰۔ ۲۴
[3] خلیق احمد نظامی : تاریخ مشائخ چشت ، ص ۴۔ ۷۰۳
[4] محمد کرم شاہ ، مولانا پیر ماہنامہ ضیائے حرم ، مارچ ۱۹۷۳ئ، ص ۴۲
[5] خلیق احمد نظامی پروفیسر : تاریخ مشائخ چشت ، ص۷۰۴
[6] محمد سیالوی ، مولانا: ماہنامہ سلسبیل ، خاص ایدیشن (جنوری فروری ۱۹۷۳، ص ۵، ۱۵۴
[7] خلیق احمد نظامی : تاریخ مشائخ چشت ، ص۷۰۶
[8] امیربخش ، مولانا : انوار شمسیہ ، ص ۸۲۔
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)