حضرت خواجہ عثمان ہارونی
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کی ابو نور کنیت تھی، طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے اشراف اقطاب اور مقتدائے اقطاب مانے جاتے تھے، آپ کو خواجہ حاجی شریف زندنی سے فقر و خلافت کا خرقہ پہنچا۔ آپ ہارون کے رہنے والے تھے، یہ گاؤں نیاپور کے نزدیک ہے آپ نے اپنی زندگی کے ستر سال ریاضت میں گزارے۔ ساری عمر طعام اور پانی پیٹ بھر کر نہ پیا، کئی کئی راتیں نہ سوتے ان کی دعابارگاہِ رب العزت سے کبھی رد نہ ہوئی تھی، کلامِ ربانی کے حافظ تھے، ہر روز ایک بار قرآنِ پاک ختم کرتے، اور سماع ذوق و شوق سے سنتے۔
جس دن حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کو خرقۂ خلافت ملا، تو آپ کے پیرو مرشد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ نے کلاہ چارترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کرنا ہے۔ پہلے ترک دینا دوسرے ترک عقبیٰ (اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہوگا) تیسرے ترک کھانا اور سونا (مگر اتنا جس سے زندگی باقی رہے) چوتھا ترکِ خواہشِ نفس (یعنی جو کچھ نفس کہے اُس کے خلاف کیا جائے) جو شخص ان چار چیزوں کو ترک کردیتا ہے اُسے ہی چار تر کی کلاہ پہننا ترتیب دیتا ہے۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اپنے پیر کی اجازت سے دنیا کی بڑی سیر و سیاحت کی۔ ایک دن ایسے علاقے میں جا پہنچے جہاں کے تمام لوگ آتش پرست تھے، اُنہوں نے ایک بہت بڑا آتش کدہ روشن کیا ہوا تھا، آپ اُسی شہر میں ٹھہر گئے اور اپنےخادم فخرالدین کو کہا کہ کہیں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ کھانا پکالیں، فخرالدین آتش پرستوں کے پاس گیا اور تھوڑی سی آگ مانگی لیکن انہوں نے آگ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ آتش تو ہمارا معبود ہے۔ اس آگ سے آگ دینا ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ خادم نے وہیں آکر حضرت خواجہ کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی۔ حضرت خواجہ بذاتِ خود تشریف لے گئے، اور آتش پرستوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ معبود حقیقی تو اللہ کی ذات ہے آگ اس کی مخلوق ہے اور اُسی نے بنائی ہے اس کی عبادت کرنا درست نہیں۔ اگر تم آتش پرستی سے توبہ کرلو تو دوزخ کی آگ سے رہائی پاؤ گے، انہوں نے کہا اگر آتش پرستی سے توبہ کرنا آگ سے رہائی کی دلیل ہے تو پہلے تم آگ میں چلے آؤ، اگر آگ نے تم پر اثر نہ کیا تو ہم توبہ کرلیں گے، حضرت خواجہ نے یہ بات سن کر وضو کیا دو رکعت نماز ادا کی اور آتش پرستوں کا ایک سات سالہ بچا اٹھاکر بڑی تیزی سے آگ میں داخل ہوگئے، دو گھنٹے تک آگ میں رہے لیکن آگ نے حضرت خواجہ اور اُس چھوٹے بچے پر اثر نہ کیا اور صحیح سلامت باہر آگئے آتش پرستوں نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور حضرت خواجہ کے مرید بن گئے حضرت خواجہ نے ان آتش پرستوں کے سردار کا نام عبداللہ رکھا اور چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اُنہیں مدارج اعلیٰ تک پہنچا دیا۔
ایک بار بادشاہِ وقت نے حضرت خواجہ کو سماع سننے سے منع کردیا بلکہ شہر کے تمام قوالوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی قوال کسی مجلس میں سماع کرے گا، اسے قتل کردیا جائے گا، حضرت خواجہ نے بادشاہ کو کہا کہ سماع ایسی چیز ہے جو ہمارے پیروں کی سنت ہے ہمیں سماع سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سلطان نے کہا کہ پہلے سماع کے جواز میں علماء کرام کے ساتھ مناظرہ کریں، پھر دیکھا جائے گا، چنانچہ شہر کے علماء کی ایک مجلس برپا کی گئی جس میں بادشاہ بھی شریک ہوا، حضرت خواجہ اُس محفل میں تشریف لائے، علماء نے چاہا کہ سماع کے متعلق حضرت خواجہ سے بات کریں، مگر وہ تمام کے تمام اپنے آپ کو بے علم محسوس کرنے لگے جو کچھ وہ جانتے تھے ان کے حافظے سے محو ہو چکا تھا حتی کہ الف سے لے کر یا تک تمام حروف بھول گئے۔ بادشاہ نے بڑا زور لگایا کہ علماء بات کریں مگر وہ گفتگو سے عاجز نظر آتے تھے آخر اس کے بغیر چارۂ کار نہ تھا انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا، وہ آہ و زاری کرنے لگے۔ خدارا ہماری عمر کا حاصل شدہ علم برباد نہ کیا جائے آپ بزرگ ہیں اور سخی ہیں ہمارے حال پر رحم کریں اور اپنی نظرِ عنایت سے ہمارے علوم کو زندہ کردیں، حضرت خواجہ نے ان کے گم شدہ علوم کو تو لوٹا دیا بلکہ ان پر باطنی علوم کے دروازے کھول دیے اس واقعہ کو دیکھ کر تمام علماء حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے، بادشاہ بھی پشیماں ہوا اور معذرت کرنے لگا اور اُس کے بعد کبھی سماع کی ممانعت نہ کی۔
خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دن اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ہمرقاب ہوکر دریا کے کنارے پہنچا۔ اتفاقاً اس وقت کوئی کشتی نہ تھی۔ حضرت خواجہ نے مجھے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو۔ پھر ایک لحظے کے بعد فرمایا کہ اب کھول لو، جب میں نے آنکھیں کھولیں میں اور حضرت خواجہ دریا کے دوسرے کنارے کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اتنا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا گم ہوگیا ہے مجھے کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے مہربانی فرماکر توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ نے یہ بات سنی اور مراقبے میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ تمہارا لڑکا گھر پہنچ گیا ہے، وہ شخص گھر گیا لڑکے کو گھر پر موجود پایا وہ خوشی میں لڑکے کو ساتھ لے کر اُسی وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ ادا کیا حاضرین نے لڑکے سے دریافت کیا کہ تم کیسے گھر پہنچ گئے، اس نے کہا میں جزائر الہند کے ایک جزیرے میں موجود تھے۔ آج ایک ایسے بزرگ جن کی صورت حضرت خواجہ سے ملتی جلتی ہے میرے پاس تشریف لائے مجھے کہا اُٹھو، میرے پاؤں پر پاؤں رکھو اور آنکھیں بند کرلو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میری آنکھیں کھلیں میں گھر میں موجود تھا۔
ایک دن آدھی رات کے وقت شہر کے جاہل آدمی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور خواجہ عثمان ہارونی کی کرامت کا ذکر کر رہے تھے۔ سب یہ کہنے لگے کہ ہم ابھی خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جاتے ہیں اور کسی کرامت کا مطالبہ کرتے ہیں اگر انہوں نے کرامت دکھادی تو ہم مرید ہوجائیں گے چلتے وقت ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ کھانے کی خواہش دل میں رکھی جو رات کےو قت تیار نہ ہوسکے۔ حضرت خواجہ کی مجلس میں جا پہنچے آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ۔ راہ راست کی ہدایت دیتا ہے تمام کو اپنے سامنے بٹھا لیا، اور بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھ اُٹھائے، اُسی وقت کھانے کا ایک خوان آسمان سے اُترا جس میں ستر قسم کے کھانے موجود تھے۔ آپ نے ہر ایک کو جدا جدا کھانا تقسیم کیا جو ان کی دلی خواہش کے عین مطابق تھا۔ ان جاہلوں نے آپ کی کرامت دیکھی تو دل و جان سے معتقد ہوگئے اور مرید بن گئے۔
یاد رہے خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے چار خلفاء تھے، پہلے خواجہ معین الحق والدین سنجری، دوسرے خواجہ نجم الدین صغریٰ۔ تیسرے شیخ سعدی لنگوی، چوتھے خواجہ محمد ترک رحمۃ اللہ علیہم، حضرت خواجہ عثمان ہارونی پنجم ماہِ شوال چھ سو سترہ ہجری میں فوت ہوئے جب کہ آپ کی عمر اکانویں سال تھی۔
رفت از دنیا چو در خلد بریں
شیخ عثمان مقتدائے اولیا
سال وصلش قطب وقت آمد عیاں
۶۱۷ھ
جلوہ گر شد نیز تاج الاصفیاء
کشف و کرامات کے صاحب عالم مشاہدات کے بادشاہ حاجی شریف زندنی کے مشہور نامور خلیفہ خواجہ عثمان ہارونی ہیں جو شریعت و طریقت اور حقیقت کے علم میں اپنے وقت کے علامہ اور اوتاد ابدال کے مقتدا تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ حاجی شریف زندنی کی خدمت سے حاصل کیا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو پاک و ؟؟؟ کرے) فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں تھا۔ جب ہم دونوں دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو کوئی کشتی موجود نہ تھی۔ خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ ذرا تم اپنی آنکھیں بند کرلو۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر جو آنکھیں کھولتا ہوں تو اپنے تیئں اور اپنے سامنے خواجہ کو دریا کے اس پار پاتا ہوں میں نے دریافت کیا کہ خواجہ آپ نے یہ کیا کیا فرمایا پانچ دفعہ سورہ فاتحہ پڑھی۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ ایک نہایت سن رسیدہ شخص خواجہ عثمان قدس سرہ کی خدمت میں آیا جس کے چہرہ سے حزن و رنج۔ اور حزن رنج کے ساتھ انتہا درجہ کی پریشانی برستی تھی خواجہ نے دریافت کیا۔ کیا حال ہے کہ اطمینان و دلجوئی تجھ میں نام تک کو باقی نہیں رہی ہے عرض کیا حضرت! چالیس برس کا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا غائب ہوگیا ہے نہیں معلوم وہ مرگیا ہے کہ زندہ ہے۔ میں خواجہ کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ فاتحہ کی درخواست کروں شاید میرا فرزند میرے پاس آپہنچے۔ بڈھے کی یہ اندوہ وملال سے بھری ہوئی تقریر سن کر خواجہ مراقبہ میں گئے اور تھوڑی دیر گذرنے کے بعد حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ہم یہ نیت کر کے فاتحہ پڑھتے ہیں کہ اس بڈھے کا لڑکا اس کے پاس آپہنچے۔ چنانچہ آپ نے فاتحہ پڑھنی شروع کی اور ختم کرنے کے بعد بڈھے سے فرمایا جا تیرا لڑکا گھر میں آگیا ہوگا جب بڈھا گھر میں آیا تو ایک شخص نے آکر خوشخبری دی اور کہا لو مبارک ہو تمہارا لڑکا آموجود ہوا جب بڈھا اپنے لڑکے سے ملاقات کر چکا تو دونوں مل کر خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ خواجہ نے پوچھا کہ تو کہاں تھا عرض کیا دریا کے ایک جزیرہ میں چند دیو مجھے پکڑ کر لے گئے تھے اور زنجیروں میں جکڑ کر قید کر رکھا تھا۔ آج میں اسی جگہ مقید تھا کہ ایک بزرگ صفت درویش جس کی شکل و شمائل آپ سے بہت ہی ملتی جلتی تھی میرے پاس پہنچا اور ہاتھ زنجیر میں کر کے مجھے اپنے پاس کھڑا کیا زنجیر خود بخود گر پڑی اور اب میں بالکل آزاد ہوگیا۔ ازاں بعد اس درویش نے فرمایا کہ میرے قدموں کے نشانات پر پاؤں رکھتا پیچھے پیچے چلا آ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ ذرا آنکھ بند کر جوں ہی میں نے آنکھ بند کی اپنے تیئں گھر کے دروازہ پر دیکھا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام معین الدیں رحمۃ اللہ علیہ سنجری فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید میرے پڑوس میں آباد تھا جب اس نے انتقال کیا تو میں بھی اس کے جنازہ کے ساتھ گیا اور لوگ تو اسے قبر میں دفن کر کے لوٹ آئے لیکن میں ایک ساعت اس دوست کی قبر کے سرہانے بیٹھا رہا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے نہایت بھیانک اور خوفناک صورت میں آئے اور اس وقت خواجہ ہارونی بھی پہنچ گئے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اسے عذاب نہ کرو کیونکہ یہ میرا مرید ہے فرشتوں کو خدا وندی حکم پہنچا کہ خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارا سچا اور دلسوز مرید نہ تھا بلکہ بر خلاف تھا۔ خواجہ نے فرمایا کہ ہاں اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ میرے بر خلاف تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ اپنے تئیں میرے سلسلہ سے وابستہ جانتا تھا حکم ہوا کہ فرشتو! خواجہ عثمان کے مرید سے ہاتھ اٹھالو۔ ہم نے اسے خواجہ کو بخش دیا۔
آں شہسوار میدان عشق بازی، تیز رفتار ہادیہ جاں گدازی، از کشف و کرامات مستغنی، مست نعمات ندائے اِنی، متکلم بہ کلام قُل یا نارُ کونی قطب ارشاد حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کا شمار اکابر مشائخ چشتیہ اور ابو العزم صوفیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ تمام علوم ظاہری وباطنی کے جامع تھے ریاضات و مجاہدات میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ اور کشف حقائق تفرید اور شرح دقائق توحید میں آپ عدیم المثال تھے۔ آپ کی کنیت ابو النور تھی۔ آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے اپ کو حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی قدس سرہٗ کی صحبت بھی ملی تھی۔ جیسا کہ آپ کے ملفوظات جمع کردۂ حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے معلوم ہوتا ہے۔
وطن
آپ کا وطن قصبۂ ہارون[1] تھا جو نیشا پور کے نواح میں واقع ہے۔ ایک اور قول کے مطابق ہارون ملک فرغانہ جو ماورا النہر ہے میں ہے آپ اکثر اوقات سفر میں رہتے تھے اور غانیت تجرید و تفرید میں بسر کرتے تھے۔ آپ کو تمام مشائخ وقت کی صحبت نصیب ہوئی ہے۔ آپ ہر فن میں منتہیٰ تھے۔ آپ کا تصرف نہایت قوی تھا۔ آپ کے کمالات کا اس بات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین حق سنجری چشتی اجمیری قدس سرہٗ جیسے شاہبار آپ کے مرید تھے۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے سر سال مجاہدہ کیا اور کبھی سیر ہوکر نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا۔ راتوں کو آپ جاگتے رہتے تھے اورچار پانچ وقت کے فاقوں کے بعد چار پانچ لقمے تناول فرماتے تھے آپ اہل دنیا کا منہ تک نہ دیکھتے تھے آپ مستجاب الدعوات تھے اور جو کچھ آپ کے منہ مبارک سےنکلتا تھا وہی ہوتا تھا۔ آپ حافظ قرآن تھے، اور ایک ختم دن میں اور ایک رات میں کرتے تھے۔ آپ کی نظر میں وہ اثر تھا کہ جو شخص آپ کا منظور نظر ہوتا فوراً کمال کو پہنچ جاتا تھا۔
ذوق سماع
آپ صاحب سماع تھے اور اکثر سماع سنتے تھے آپ سماع میں اس قدر گریہ وزاری کرتے تھے اور نعرے لگاتے تھے کہ خلق خدا حیران رہ جاتی تھی۔ ایک دفعہ خلیفہ وقت نے آپ کو سماع سے منع کیا اور کہا کہ اگر سماع جائز ہوتا تو شیخ جنید اُسے ترک نہ کرتے۔ وہ خلیفہ طریقۂ سہروردیہ میں مرید تھا۔ خلیفہ نے حکم دیدیا کہ جو شخص سماع سنے اُسے تختہ وار پر لٹکایا جائے اور قوالوں کو بھی قتل کردیا جائے۔
سماع کے بارے میں بادشاہ اور علماء کا مقابلہ اور فتح
جب حضرت شیخ کو اس بات کا علم ہوا تو آپنے فرمایا کہ سماع اسرار الٰہی میں سے ایک سِر (راز) ہےجب بندہ اور خدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہتا۔ یہ راز کبھی نہیں چھپایا جا سکتا اور کون ہے۔ جو ہمیں سماع سے منع کرے۔ میں نے خدائے عزوجل سے درخواست کی ہے کہ قیامت تک مریدین اور فرزنداں سماع سنتے رہیں اور اہل سماع پر کسی کو قدرت حاصل نہ ہو۔ خلیفہ وقت نے جو سلسلہ عالیہ سہروریہ سے تعلق رکھتا ہے سماع کو حرام قرار دیا ہے لیکن سماع ہمارے اکثر مشائخ نے سنا ہے اور اگر میں سماع سے توبہ کروں تو گنہگار بنوں گا۔ جب آپ کا یہ جواب خلیفہ تک پہنچا تو اس نے حضرت اقدس کے پاس قاصد بھیج کر کہا آپ آئیں اور علماء کے ساتھ بحث کریں اگر علماء سماع کو جائز قرار دیں تو میں منع نہیں کروں گا آپ نے اُسی وقت استخارہ کیا اور بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں تمام علماء جمع تھے۔ جب آپ مجلس میں پہنچے تو خلیفہ بے تاب ہوگیا مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہ رہا اور باہر جاکر پس پردہ بیٹھ گیا۔ جب علماء نے حضرت اقدس کا جمال جہاں اراء دیکھا تو لرزہ براندام ہوئے اور اپنا سارا علم بھول گئے۔ حتیٰ کہ الف ب تک یاد نہ رہا۔ خلیفہ نے ان کو تقویت دینے کی بہت کوشش کی اور بحث کی ترغیب دی لیکن وہ عاجز آگئے اور ان کی زبانیں ایسی بند ہوئیں کہ بات نہیں کر سکتے تھے۔ آخر انہوں نے بادشاہ سے کہا جونہی ہم نے حضرت خواجہ کو دیکھا ہم سارا علم بھول گئے ہیں اور اب ہمیں بحث کرنےکی ہمت نہیں ہے۔ غرضیکہ تمام علماء وفقہا اور اکابر نے نہایت عجز و نیاز سے اعتراف قصور کیا اور حضرت اقدس کے پاؤں میں گر گئے۔ اور فریاد کرتے ہوئے کہنے لگے کہ خلیفہ سلسلہ سہروردیہ میں مرید ہے اور سماع سے منع کرتا ہے۔ لیکن ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ سماع کو حرام قرار دیں۔ آپ اپنے صدقے اور اہل سماع کے صدقے ہم حیران و پریشان لوگوں پر رحم فرمانویں اور ہمیں معاف فرمانویں۔ ہم نے ساری عمر علم حاصل کرنےمیں صرف کی ہے اور وہ آپ نے چشم زدن میں ہم سے چھین لیا ہے ہمیں یقن ہے کہ جب تک آپ ہمارے حال پر رحم نہ فرمانویں گے ہمیں علم واپس نہیں ملے گا حضرت شیخ نے فرمایا کہ اے نادانو! سماع کی قدر تم کیا جانو۔ سماع کے لیے اخوان[2]شرط ہے شیخ جنید کو جب اخوان نہ ملے تو سماع ترک کردیا اگر ان کے زمانے میں کوئی اہل سماع ہوتے یا اگو وہ ہمارےمشائخ کی مجلس میں شریک ہوتے تو سماع ترک نہ کرتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لیے شیخ جنید کا فعل حجت نہیں ہےجب ہمارے مشائخ نے سماع سنا ہے تو کسی کی کیا مجال کہ اس سے انکار کرے۔ جب میں ہر حال میں مشائخ کی سنت پر کاربند ہوں تو اس سنت پر کیوں نہ عمل کروں۔ اور خواجہ ابو بکر شبلی جو شیخ جنید کے مرید وخلیفہ تھے حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی قدس سرہٗ کی مجلس سماع میں اکثر شریک ہوتے تھے۔ اور حالت سماع میںنعمت فرا واں حاصل کیا اور فوراً اس کو سز امل گئی اور پیشمان ہوکر تائب ہوا۔ تمکون ہو جو اہل سماع سےجھگڑتے ہو۔ اگر تمچاہو تو ہم ابھی چشتیوں کی برہان (حجت) قائم کریں۔ یہ سنکر سب نے کمال عجز و نیاز سے عرض کیا کہ اس سے زیادہ کیا برہان ہوگی جس کا ہم نے مشاہدہ کرلیا ہے۔ اب خدا کے لیے ہم مصیبت زدگان پر کرم فرمادیں۔ حضرت اقدس کو ان کے حال پر رحم آیا اور ایک نگاہ کرم سے ان کی طرف دیکھا تو ان کا سارا علم جسے وہ بھول چکے تھے فوراً واپس آگیا۔ اس کے بعد آپ کے فیض صحبت سے وہ علماء صاحب کمال اور اہل سماع ہوئے۔ جب بادشاہ نے حضرت اقدس کی عظمت اور تصرف کا مشاہدہ کیا تو کہنے لگا میں ہرگز خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو سماع سے منع نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد حضرت اقدس نے گھر آکر قوالوں کو طلب فرمایا اور مجلس سماع منعقد کی۔ جو ایک ہفتہ تک متاتر جاری رہی۔ اس واقعہ کے بعد کسی نے آپ کے سماع پر اعتراض نہ کیا۔
اُمّت کے گنہگاروں کی بخشش کا وعدہ
نقل ہے کہ جب حضرت اقدس نماز شروع کرتے تھے تو غیب سے آواز آتی تھی کہ اے عثمان میں نے تجھے قبول کیا ہے اور پسند کیا ہے اب مانگو جو کچھ مانگو تاکہ تجھے عطا کروں۔ جب حضرت اقدس نماز سے فارغ ہوتے تو عرض کرتے کہ یا الٰہی میں تجھے دیا۔ خاطر جمع رکھو اور اس کے علاوہ جو کچھ طلب کرو مل جائے گا آپ جواب دیتے تھے کہ یاالٰہی محمد مصطفیٰﷺ کی اُمّت کے گنہگاروں کو بخش دے۔ آوازآتی تھی کہ میں نے امت محمدیہﷺ کے تیس ہزار گنہگاروں کو تمہاری بدولت بخش دیا۔ حضرت اقدس ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتے تھے اور ہر بار یہی جواب سنتے تھے۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب الہام ربانی سے آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو سر پاؤں میں رکھ کر عرض کہ بندہ عثمان یہ چاہتا ہے کہ اپنے غلاموں میں شامل فرمالیں حضرت خواجہ بڑے لطف و کرم سے پیش آئے اور کلاہ چار ترکی اُن کے سر پر رکھی۔ بیعت کیا اور سر پر قینچی چلائی اس کے بعد فرمایا کہ عثمان چار ترکی کا مطلب یہ ہے کہ اوّل ترک دنا کرو، اہل دنیا کو اہل دنیا سے اجتناب کرو۔ اور اُن کو نزدیک نہ آنے دو۔ دوم یہ کہ خواہشات نفسانی ترک کرو۔ سوم جو کچھ نچس چاہے اس کے برعکس کرو۔ چہارم راتوں کو جاگو اور ذکر خدا میں مشغول رہو۔ ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کلاہِ چار ترکی سر پر رکھے ؟؟؟؟؟؟ اللہ سے اٹھالے۔ اور جو کچھ حق تعالیٰ کے سوا ہے اُسے چھوڑ دے محبت کا بیچ اپنے دل میں بوئے اس وجہ سے حضرت سرور کائنات علیہ الصلواۃ والسلام نے جب یہ کلاہ چار ترکی زیب تن فرمائی تو فقر و فاقہ اختیار فرمایا۔ اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ کلاہ سر پر رکھی تو اس شیر میدان نے بھی کمال فقر و فاقہ اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ان کااتباع کرتے ہیں تم بھی ان کی پیروی کرو۔ تاکہ قیامت کے دن اُن سے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ نیز تم ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھو تاکہ سب میں بہتر بن جاؤ۔ خلق، تواضع اور عاجزی اختیار کرو تاکہ مقام درویشی تک پہنچ سکو۔ جو شخص یہ کام نہیں کرتا اس خرقہ کےلائق نہیں ہوتا۔ یہ خرقہ اس پر حرام ہوتا ہے۔ وہ اس طریق کا قطع کرنے والا ہے اور ہمارے مشائخ اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ حضرت اقدس نے یہ تمام نصیحتیں قبول کرلیں۔ اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ حتیٰ کہ تین چار سال کے بعد خلافت حاصل کرلی۔ نیز حضرت شیخ نے اسم اعظم جو مشائخ سے سیکھا تھا ان کو تعلیم کیا جس سے ظاہری وباطنی علوم آپ پر مکشوف ہوگئے۔ اور جو کچھ چاہتے تھے مل گیا۔
گم شدہ بچہ کا ایک لمحہ میں واپس آنا
اس کتاب میں یہ بھی مرقوم ہے کہ ایک دن ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جو نہایت ہی پریشان حال تھا۔ جب حضرت اقدس ے اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے عرض کیا کہ چالیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے کہ میرا بیٹا غائب ہوگیا ہے اس کی زندگی اور موت کے متعلق مجھے کوئی علم نہیں ہے حضرت اقدس کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ دعا فرمائی جاوے کہ میرا بیٹا واپس آجائے۔ یہ سُن کر حضرت اقدس نے دیر تک مراقبہ کیا اور آنکھیں کھول کر حاضرین سے فرمایا کہ فاتحہ پڑھو۔ اس نیت سے کہ اس کا بیٹا واپس آجائے حاجرین نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے دوبارہ مراقب ہوکر فرمایا کہ جاؤ۔ تمہارا بیٹا گھر آگیا ہے۔ جب وہ اپنے گھر کے نزدیک پہنچا تو کسی نے آواز دے کر کہا کہمبارک ہو تمہارا بیٹا واپس آگیا ہے۔ باپ نے گھر جاکر بیٹے سے ملاقات کی اور اُسے گلے لگایا بوسہ دیا اور پھر دونوں حضرت شیخ کی خدمت میں بھاگے ہوئے آئے۔ اور زمین بوسی کی حضرت اقدسن ے لڑکے سے پوچھا کہ تم کہاں تھے اور کیسے آئے اپنا حال بیان کرو اس نے عرض کیا کہ بندہ کو دریائے دیعان کے جزائر میں سے ایک جزیرہ میں لے گئے تھے اور پاؤں میں بیڑیان ڈال دیں۔ آج بھی وہاں تھا کہ آپ کی شکل کے ایک بزرگ نے میرے سامنے آکر فرمایا کہ اٹھو۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے میری بیڑیوں کوہاتھ لگایا اور آنکھیں بند کرو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی ایک لمحہ نہیں گزرا تھا کہ آپ نے فرمایا آنکھیں کھولو۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ بزرگ غیب ہوگئے اور میں نے اپنے آپ کو اپنے گھر کے دروزہ پر کھڑا پایا۔ ماں باپ سے ملا اور حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوا۔
کافروں کا مسلمان ہونا اور ولی اللہ بن جانا
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت چند کافروں نے جمع ہوکر آپس میں کہا کہ ہم ابھی خواجہ عثمان کے پاس چل کر ان کو آزمائیں۔ اگر وہ ہمیں مطمئن کردیں تو ہمیں یقین ہوجائے گا کہ آج اُن کے برابر کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ ہر شخص نے اپنے دل میں کھانے کی کوئی نہ کوئی قسم کی تمنا دل میں رکھ لی اور حضرت اقدس کی خدمت مین پہنچ گئے۔ آپ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ آگے آؤ۔ فرزندان آدم، خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور جس شخص پر کرم فرماتا ہے اُسے بھی غیب سے مطلع فرماتا ہے۔ آپنے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اور خادم کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ دھلاؤ خادم نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور ہر مرتبہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاکر عالم غیب سے طعام کا ایک طبق لیا۔ اور اُن میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سرے سے رکھتے گئے اور جس شخص نے جس چیز کی خواہش کی تھی۔ اس کے سامنے پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کین عمت کھاؤ۔ جب انہوں نے طعام کھایا تو اس قدر لذیز تھا کہ پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے طعام کھاکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سخت حیران ہوئے کچھ دیر کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ اے خواجہ یہ بات تو ہم کو معلوم ہوگئی کہ آپ جیسا باعظمت اور ان کمالات کا مالک کوئی بزرگ نہیں ہے اب یہ فرمادیں کہ اگر ہم خدا عزوجل کی وحدانیت کے قائل ہوکرمسلمان ہوجائیں آپ کا خدائے بزرگ ہم کو بھی آپ کی طرح صاحب نعمت کردے گا یا نہیں۔ آپ نے فرمایا میں بیچارہ کیا ہوں اور کس شمار میں ہوں۔ اگر وہ لطف و کرم کی نگاہ فرمائے تو مجھ سے ہزار مرتبہ زیدہ بزرگ بنا سکتا ہے۔ یہ سنکر وہ سب مسلمان ہوگئے اور مرید ہوکر آپ کی خدمت میں رہنے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک پر عرش سے تحت الثریٰ تک مکشوف ہوگیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں اولیائے کامل بن گئے۔
کتاب سیر الاولیاء میں حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی قدس سرہٗ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت خواجہ عثمان کے ساتھ ہم سفر تھے۔ ہم دریائے دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو کشتی نہ تھی۔ حضرت اقدس نے فرمایا آنکھیں بند کرو۔ میں نے بند کرلیں۔ آپنے فرمایا آنکھیں کھولو جب آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو حضرت اقد س کے ساتھ دریا کے اُس پار پایا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ کس طرح ہوا۔ فرمایا میں پانچ بار سورۂ فاتحہ پڑھ کر دریا سے گزر گیا۔
سیر الاولیاء میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک ہمسایہ تھا جو حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کا مرید تھا۔جب وہ فوت ہوا تو میں اس کےجنازہ کے ساتھ گیا۔ جب اُسے قبر میں اُتارا گیا تو خلقت واپس چلی گئی لیکن میں تھوڑی دیر کے لیے مراقب ہوگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے ہنچ گئے۔ لیکن حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ نے درمیان میں آکر فرمایا کہ اس پر ہر گز عذاب نہ کرو یہ میرا مرید ہے۔ فرشتوں کو فرمان ہوا کہ اُسے کہہ دو کہ یہ شخص آپ کے بر خلاف تھا آپ نےفرمایا مجھے معلوم ہے کہہ میرے خلاف تھا لیکن پھر بھی اس نے میرا دامن پکڑا تھا۔ اس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس پر عذاب نہ کرو کیونکہ یہ خواجہ عثمان کا مرید ہے۔ میں نے اس شخص کو ان کی بدولت بخش دیا۔
مراۃ الاسرار[3] میں کتاب سیر العارفین[4] سے روایت درج ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ اپنے شیخ حضرت کواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ سے رخصت ہوکر روانہ ہوئے اس کے چند روز بعد حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے سفر اختیار فرمایا۔ اور ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں آتش پرست رہتے تھے اور ہر وقت اُن کے آتش کدہ میں آگ جلتی رہتی تھی۔ آپ نے قصبہ سے دور ایک نہر کے کنارے قیام فرمایا اور اپنے خادم فخرالدین کو حکم دیا کہ شہر جاکر کچھ آٹا خرید لاؤ۔ تاکہ کھانا تیار کیا جائے۔ آٹا خریدنے کے بعد خادم آتشکدہ کی طرف کیا جہاں سب لوگ گرد اگرد بیٹھے آتش پرستی کر رہے تھے۔ جب اس نے آگ لینے کا قصد کیا۔ تو ان لوگوں نے اُسے منع کردیا۔ اس نے واپس آکر حضرت خواجہ کے سامنے ماجرا بیان کیا۔ یہ سُن کر آپ کی غیرت احدیت نے جوش مارا اور اٹھ کر آتشکدہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر دیکھا کہ اتش پرستوں کا سردار جس کا نام مغیشا تھا ایک تخت پر بیٹاھ ہے اس کا سات سالہ بچے گود میں ہے اور چاروں طرف اس کے پیرو کار بیٹھے عبادت میں مصروف ہیں۔حضرت اقدس نے اس سے دریافت کیا کہ آگ کی پوجا کرنے سے تم کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ تھوڑے پانی سے بجھ جاتی ہے۔ تم قادر مطلق کی پرستش کیوں نہیں کرتے تاکہ تمہارے کام بھی آئے۔ اور آگ کا خالق بھی وہی ہے اس سردار نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب میں آگ کا وجود بڑی عظمت رکھتا ہے ہم اس کی کیوں نہ پوجا کریں۔ آپ نے فرمایا کئی سالوں سے تم اس کی پرستش کر رہے ہو ذرا اس کے انداز ہاتھ تو ڈال کر دیکھو کہ اپنے پوجا کرنے کوالوں کوج لاتی ہے یا چھوڑ دیتی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ آگ میں بابطع جلانے کی خاصیت ہے۔ کسی کی کیا مجال کہ اس کے قریب جاسکے۔ یہ سن کر آپ نے بچے کو اس کی گود سے اٹھالیا اور آگ کی طرف چلے گئے یہ دیکھ کر وہ لوگ فریاد کرنے لگے۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر یہ آیت پڑھی قل یا نار کونی سرداً وسلاماً علیٰ ابراہیم (اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا) اور آگ میں کود پڑے۔ اور کامل چار گھنٹے اس کے اندر ٹھہرے رہے لیکن آپ پر اور اس بچے پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جب باہر آئے تو لوگوں نے بچے سے دریافت کیا کہ وہاں تم نے کیا دیکھا۔ بچے نہ کہا گل وگلزار کے سوا کوئی چیز نہ آئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ کو ولایت ابراہیمی حاصل تھی۔ حضرت خواجہ کی یہ کرامت دیکھ کر تمام آتش پرست مسلمان ہوگئے آپ نے اس سردار کا نام عبداللہ رکھا اور اس کے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔ یہ دونوں باپ بیٹا حضرت اقدس کے فیض تربیت سے بڑے بلند مقام پر پہنچے۔ اور ولی اللہ بن گئے۔ سیر العارفین کے مصنف نےلکھا ہے کہ میں اس مقام سے ہو آیا ہوں۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے حضرت اقدس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدس نے ڈھائی سال وہاں رہ ک ان کی تربیت فرمائی۔ صاحب سیر العارفین نے لکھا ہے کہ لوگوں نے اس آتش کدہ کی جگہ اب اور عمارتیں تعمیر کرلی ہے اور شیخ عبداللہ اور شیخ ابراہیم کے مقبرے بھی وہاں موجود ہیں۔
کتاب گنج الاسرار کی عیادت سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو اپنے مرید حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے اس قدر محبت تھی۔ کہ ان کو ملنے کی خاطر آپ دہلی تشریف لائے اور چند روز دونوں بزرگ اکٹھے رہے۔ لیکن یہ روایت بہت ضعیف ہے اس وجہ سے کہ کتاب گنج الاسرار کو بعض مجاوروں نے جمع کیا ہے، جو غیر معتبر ہیں۔ حضرت شیخ نصیر الدین محمود نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ قول صحیح یہ ہے۔ کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی طویل مسافت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور معتکف ہوگئے۔ وہاں آپ نے حضرت رب العزت سے دو مقاصد کے لیے دعا کی۔ ایک یہ کہ میری قبر مکہ معظمہ میں ہو۔ اور اس کا نشان بر قرار رہے تاکہ لوگ فاتحہ پڑھتے رہیں کیونکہ مکہ معظمہ میں یہ رسم ہے کہ وہاں کسی کی قبر کا نشان نہیں رکھا جاتا۔ اور برابر کردیتے ہیں۔ دوسری دعا یہ تھی کہ میرے فرزند معین الدین جس نے مدت تک مقام تجرید و تفرید میں اس بندہ کی خدمت کی ہے اس کو اس قسم کی ولایت ملے جو کسی اور عطا نہ ہوئی۔ ہو۔ ہاتف نے آواز دی کہ تمہاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کا نشان بر قرار رہے گا[5] اور معین الدین کو ہم نے ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی ہے جو اس وقت تک کسی اہل اسلام نہیں ملی۔ لیکن پہلے وہ مدینہ جائے اور محمد مصطفیﷺ سے اجازت لے کرآجائے۔ اس پر خواجہ عثمان ہارونی نے سجدہ شکر ادا کیا اور اپنے تمام مشائخ کی امانت اور اسمائے عظام اور خرقہ خلافت خواجہ بزرگ معین الدین کو دیکر مدینہ منورہ کی جانب رُخصت فرمایا۔ آنحضرتﷺ کمال شفقت سے ولایت ہندوستان آپ کو عطا فرمائی جس کی تفصیل آپ کے ذکر خیر میں آرہی ہے۔ آپ کو یہ بھی فرمایا گیا کہ تمہارا مسکن اجمری ہوگا۔ تم وہاں جاکر رہو۔ تمہارے وجود سے ہندوستان میں دین اسلام استقامت پذیر ہوگا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ اور حضرت خواجہ بزرگ نے ہندوستان کے راجہ رائے پھتوار کی بیخ نکال دی اور اس کی جگہ سلطان معز الدین سام (شہاب الدین غوری) کو استقامت بخشی۔ اُس وقت سے آج تک کوئی ہندو وحکمران نہیں ہوا۔ اور اسلام کو وہ ترقی حاصل ہوئی کہ تاریخ گواہ ہے۔
وصال
حضرت خواجہ عظمان ہارونی قدس سرہٗ نے بقیہ عمر مکہ معطمہ میں بسر فرمائی اور باطن میں حضرت خواجہ بزرگ کے احوال کی طرف متوجہ رہے اور حق تعالیٰ سے ہمیشہ اُن کے لیے دعا مانگتے رہے جب ان کی طرف سے خاطر جمع ہوئی تو بتاریخ چھ شوال اور ایک روایت کے مطابق پانچ شوال ۶۰۳ھ اس دنیائے فانی سے دار بقا کی جانب رحلت فرمائی۔ آپ کا مزار مقدس مکہ معطمہ میں ہے اور آج تک مرجع خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
خلفاء
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کے چار خلفاء تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہٗ حضرت نجم الدین صغراء حضرت شیخ سعدی لنگوحی، اور حضرت شیخ محمد ترک نار نولی[6]،
اللّٰھم صَلّے عَلیٰ مُحمد وَآلہٖ وَاَصْحَابہٖ اَجمَعیْن۔
ازر ہگذر خاک سر کوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردست نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ہارون کا تلفظ ہارون ہے یعنی واؤ کی فتح کے ساتھ۔
[2] ۔فضل بر مکی عباسی خلیفہ کا وزیر تھا اور بڑا با اختیار اور مقبول عام تھا۔
[3] ۔مراۃ الاسرار حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی کی تصنیف ہے جو شاہجہان بادشاہ کے ہم عصر تھے اور خاندان مغلیہ کے امور میں صاحب خدمت تھے۔ اب یہ کتاب نایاب ہے ۔لیکن احقر مترجم نے لنڈن لائبریری سے حاصل کردہ نسخہ کا فارسی ترجمہ کردیا ہے۔
[4] ۔یہ کتاب حضرت شیخ جمالی کی تصنیف ہے جو سکندر لودھی کے زمانے میں بڑے شاعر اور ولی اللہ تھے آپ کمنبوہ خاندان کے فرد تھے اور شیخ سماء الدین کمنبوہ ملتانی کے مرید تھے۔
[5] ۔حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا مزار مقدس مکہ معظمہ میں شریف حسین کے محل کے احاطہ میں واقع ہے اور گردش زمانہ کے باوجود آج تک محفوظ ہے قبر کے گرد لکڑی کا چبوترہ لگا ہوا ہے اور وہ خطۂ زمین جس کسی کی ملکیت میں آیا ہے مزار مبارک کو کوئی منہدم نہیں کر سکا خاص کر موجودہ دور حکومت میں جو مزارات کے خلاف ہے۔ شریف حسین کا محل نصف جل چکا ہے اور نصف باقی ہے۔
[6] ۔حضرت شیخ محمد ترک کا مزار نار نول میں ہے جو دہلی سے جنوب کی طرف ریواڑی کے راستے راجپوتانہ میں واقع ہے۔ تقسیم بر صغیر سے قبل یہ قصبہ ریاست ٹپیالہ کا حصہ تھا۔ مزار مقدس کے پاس ایک چبوترہ ہے جہاں حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغدہلوی قدس سرہٗ کو سرور کائناتﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔ اس مقام کو محفوظ کرلیا گیا ہے اور وہاں کھڑے ہوکر لوگ دعا مانگتے ہیں اور مرادیں پاتے ہیں۔
(اقتباس الانوار)
کشف و کرامات کے صاحب عالم مشاہدات کے بادشاہ حاجی شریف زندنی کے مشہور نامور خلیفہ خواجہ عثمان ہارونی ہیں جو شریعت و طریقت اور حقیقت کے علم میں اپنے وقت کے علامہ اور اوتاد ابدال کے مقتدا تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ حاجی شریف زندنی کی خدمت سے حاصل کیا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو پاک و ؟؟؟ کرے) فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں تھا۔ جب ہم دونوں دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو کوئی کشتی موجود نہ تھی۔ خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ ذرا تم اپنی آنکھیں بند کرلو۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر جو آنکھیں کھولتا ہوں تو اپنے تیئں اور اپنے سامنے خواجہ کو دریا کے اس پار پاتا ہوں میں نے دریافت کیا کہ خواجہ آپ نے یہ کیا کیا فرمایا پانچ دفعہ سورہ فاتحہ پڑھی۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ ایک نہایت سن رسیدہ شخص خواجہ عثمان قدس سرہ کی خدمت میں آیا جس کے چہرہ سے حزن و رنج۔ اور حزن رنج کے ساتھ انتہا درجہ کی پریشانی برستی تھی خواجہ نے دریافت کیا۔ کیا حال ہے کہ اطمینان و دلجوئی تجھ میں نام تک کو باقی نہیں رہی ہے عرض کیا حضرت! چالیس برس کا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا غائب ہوگیا ہے نہیں معلوم وہ مرگیا ہے کہ زندہ ہے۔ میں خواجہ کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ فاتحہ کی درخواست کروں شاید میرا فرزند میرے پاس آپہنچے۔ بڈھے کی یہ اندوہ وملال سے بھری ہوئی تقریر سن کر خواجہ مراقبہ میں گئے اور تھوڑی دیر گذرنے کے بعد حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ہم یہ نیت کر کے فاتحہ پڑھتے ہیں کہ اس بڈھے کا لڑکا اس کے پاس آپہنچے۔ چنانچہ آپ نے فاتحہ پڑھنی شروع کی اور ختم کرنے کے بعد بڈھے سے فرمایا جا تیرا لڑکا گھر میں آگیا ہوگا جب بڈھا گھر میں آیا تو ایک شخص نے آکر خوشخبری دی اور کہا لو مبارک ہو تمہارا لڑکا آموجود ہوا جب بڈھا اپنے لڑکے سے ملاقات کر چکا تو دونوں مل کر خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ خواجہ نے پوچھا کہ تو کہاں تھا عرض کیا دریا کے ایک جزیرہ میں چند دیو مجھے پکڑ کر لے گئے تھے اور زنجیروں میں جکڑ کر قید کر رکھا تھا۔ آج میں اسی جگہ مقید تھا کہ ایک بزرگ صفت درویش جس کی شکل و شمائل آپ سے بہت ہی ملتی جلتی تھی میرے پاس پہنچا اور ہاتھ زنجیر میں کر کے مجھے اپنے پاس کھڑا کیا زنجیر خود بخود گر پڑی اور اب میں بالکل آزاد ہوگیا۔ ازاں بعد اس درویش نے فرمایا کہ میرے قدموں کے نشانات پر پاؤں رکھتا پیچھے پیچے چلا آ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ ذرا آنکھ بند کر جوں ہی میں نے آنکھ بند کی اپنے تیئں گھر کے دروازہ پر دیکھا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام معین الدیں رحمۃ اللہ علیہ سنجری فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید میرے پڑوس میں آباد تھا جب اس نے انتقال کیا تو میں بھی اس کے جنازہ کے ساتھ گیا اور لوگ تو اسے قبر میں دفن کر کے لوٹ آئے لیکن میں ایک ساعت اس دوست کی قبر کے سرہانے بیٹھا رہا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے نہایت بھیانک اور خوفناک صورت میں آئے اور اس وقت خواجہ ہارونی بھی پہنچ گئے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اسے عذاب نہ کرو کیونکہ یہ میرا مرید ہے فرشتوں کو خدا وندی حکم پہنچا کہ خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارا سچا اور دلسوز مرید نہ تھا بلکہ بر خلاف تھا۔ خواجہ نے فرمایا کہ ہاں اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ میرے بر خلاف تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ اپنے تئیں میرے سلسلہ سے وابستہ جانتا تھا حکم ہوا کہ فرشتو! خواجہ عثمان کے مرید سے ہاتھ اٹھالو۔ ہم نے اسے خواجہ کو بخش دیا۔
(سیر الاولیاء)
آپ کی ابو نور کنیت تھی، طریقت اور شریعت کے علوم میں امام العصر تھے اشراف اقطاب اور مقتدائے اقطاب مانے جاتے تھے، آپ کو خواجہ حاجی شریف زندنی سے فقر و خلافت کا خرقہ پہنچا۔ آپ ہارون کے رہنے والے تھے، یہ گاؤں نیاپور کے نزدیک ہے آپ نے اپنی زندگی کے ستر سال ریاضت میں گزارے۔ ساری عمر طعام اور پانی پیٹ بھر کر نہ پیا، کئی کئی راتیں نہ سوتے ان کی دعابارگاہِ رب العزت سے کبھی رد نہ ہوئی تھی، کلامِ ربانی کے حافظ تھے، ہر روز ایک بار قرآنِ پاک ختم کرتے، اور سماع ذوق و شوق سے سنتے۔
جس دن حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کو خرقۂ خلافت ملا، تو آپ کے پیرو مرشد خواجہ شریف رحمۃ اللہ علیہ نے کلاہ چارترکی بھی آپ کے سر پر رکھا اور فرمایا کہ اس چار ترکی کلاہ سے مراد چار چیزوں کو ترک کرنا ہے۔ پہلے ترک دینا دوسرے ترک عقبیٰ (اللہ کی ذات کے سوا کوئی بھی مقصود نہ ہوگا) تیسرے ترک کھانا اور سونا (مگر اتنا جس سے زندگی باقی رہے) چوتھا ترکِ خواہشِ نفس (یعنی جو کچھ نفس کہے اُس کے خلاف کیا جائے) جو شخص ان چار چیزوں کو ترک کردیتا ہے اُسے ہی چار تر کی کلاہ پہننا ترتیب دیتا ہے۔
حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے اپنے پیر کی اجازت سے دنیا کی بڑی سیر و سیاحت کی۔ ایک دن ایسے علاقے میں جا پہنچے جہاں کے تمام لوگ آتش پرست تھے، اُنہوں نے ایک بہت بڑا آتش کدہ روشن کیا ہوا تھا، آپ اُسی شہر میں ٹھہر گئے اور اپنےخادم فخرالدین کو کہا کہ کہیں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ کھانا پکالیں، فخرالدین آتش پرستوں کے پاس گیا اور تھوڑی سی آگ مانگی لیکن انہوں نے آگ دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ آتش تو ہمارا معبود ہے۔ اس آگ سے آگ دینا ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ خادم نے وہیں آکر حضرت خواجہ کی خدمت میں صورتِ حال پیش کی۔ حضرت خواجہ بذاتِ خود تشریف لے گئے، اور آتش پرستوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ معبود حقیقی تو اللہ کی ذات ہے آگ اس کی مخلوق ہے اور اُسی نے بنائی ہے اس کی عبادت کرنا درست نہیں۔ اگر تم آتش پرستی سے توبہ کرلو تو دوزخ کی آگ سے رہائی پاؤ گے، انہوں نے کہا اگر آتش پرستی سے توبہ کرنا آگ سے رہائی کی دلیل ہے تو پہلے تم آگ میں چلے آؤ، اگر آگ نے تم پر اثر نہ کیا تو ہم توبہ کرلیں گے، حضرت خواجہ نے یہ بات سن کر وضو کیا دو رکعت نماز ادا کی اور آتش پرستوں کا ایک سات سالہ بچا اٹھاکر بڑی تیزی سے آگ میں داخل ہوگئے، دو گھنٹے تک آگ میں رہے لیکن آگ نے حضرت خواجہ اور اُس چھوٹے بچے پر اثر نہ کیا اور صحیح سلامت باہر آگئے آتش پرستوں نے آپ کی یہ کرامت دیکھی تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور حضرت خواجہ کے مرید بن گئے حضرت خواجہ نے ان آتش پرستوں کے سردار کا نام عبداللہ رکھا اور چھوٹے بچے کا نام ابراہیم رکھا اور اُنہیں مدارج اعلیٰ تک پہنچا دیا۔
ایک بار بادشاہِ وقت نے حضرت خواجہ کو سماع سننے سے منع کردیا بلکہ شہر کے تمام قوالوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی قوال کسی مجلس میں سماع کرے گا، اسے قتل کردیا جائے گا، حضرت خواجہ نے بادشاہ کو کہا کہ سماع ایسی چیز ہے جو ہمارے پیروں کی سنت ہے ہمیں سماع سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سلطان نے کہا کہ پہلے سماع کے جواز میں علماء کرام کے ساتھ مناظرہ کریں، پھر دیکھا جائے گا، چنانچہ شہر کے علماء کی ایک مجلس برپا کی گئی جس میں بادشاہ بھی شریک ہوا، حضرت خواجہ اُس محفل میں تشریف لائے، علماء نے چاہا کہ سماع کے متعلق حضرت خواجہ سے بات کریں، مگر وہ تمام کے تمام اپنے آپ کو بے علم محسوس کرنے لگے جو کچھ وہ جانتے تھے ان کے حافظے سے محو ہو چکا تھا حتی کہ الف سے لے کر یا تک تمام حروف بھول گئے۔ بادشاہ نے بڑا زور لگایا کہ علماء بات کریں مگر وہ گفتگو سے عاجز نظر آتے تھے آخر اس کے بغیر چارۂ کار نہ تھا انہیں اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑا، وہ آہ و زاری کرنے لگے۔ خدارا ہماری عمر کا حاصل شدہ علم برباد نہ کیا جائے آپ بزرگ ہیں اور سخی ہیں ہمارے حال پر رحم کریں اور اپنی نظرِ عنایت سے ہمارے علوم کو زندہ کردیں، حضرت خواجہ نے ان کے گم شدہ علوم کو تو لوٹا دیا بلکہ ان پر باطنی علوم کے دروازے کھول دیے اس واقعہ کو دیکھ کر تمام علماء حضرت خواجہ کے مرید ہوگئے، بادشاہ بھی پشیماں ہوا اور معذرت کرنے لگا اور اُس کے بعد کبھی سماع کی ممانعت نہ کی۔
خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک دن اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ہمرقاب ہوکر دریا کے کنارے پہنچا۔ اتفاقاً اس وقت کوئی کشتی نہ تھی۔ حضرت خواجہ نے مجھے فرمایا کہ آنکھیں بند کرو۔ پھر ایک لحظے کے بعد فرمایا کہ اب کھول لو، جب میں نے آنکھیں کھولیں میں اور حضرت خواجہ دریا کے دوسرے کنارے کھڑے تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین نے ایک اور واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اتنا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا گم ہوگیا ہے مجھے کوئی خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے مہربانی فرماکر توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ نے یہ بات سنی اور مراقبے میں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور فرمایا کہ تمہارا لڑکا گھر پہنچ گیا ہے، وہ شخص گھر گیا لڑکے کو گھر پر موجود پایا وہ خوشی میں لڑکے کو ساتھ لے کر اُسی وقت حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ ادا کیا حاضرین نے لڑکے سے دریافت کیا کہ تم کیسے گھر پہنچ گئے، اس نے کہا میں جزائر الہند کے ایک جزیرے میں موجود تھے۔ آج ایک ایسے بزرگ جن کی صورت حضرت خواجہ سے ملتی جلتی ہے میرے پاس تشریف لائے مجھے کہا اُٹھو، میرے پاؤں پر پاؤں رکھو اور آنکھیں بند کرلو، میں نے ایسا ہی کیا، جب میری آنکھیں کھلیں میں گھر میں موجود تھا۔
ایک دن آدھی رات کے وقت شہر کے جاہل آدمی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور خواجہ عثمان ہارونی کی کرامت کا ذکر کر رہے تھے۔ سب یہ کہنے لگے کہ ہم ابھی خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جاتے ہیں اور کسی کرامت کا مطالبہ کرتے ہیں اگر انہوں نے کرامت دکھادی تو ہم مرید ہوجائیں گے چلتے وقت ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ کھانے کی خواہش دل میں رکھی جو رات کےو قت تیار نہ ہوسکے۔ حضرت خواجہ کی مجلس میں جا پہنچے آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ۔ راہ راست کی ہدایت دیتا ہے تمام کو اپنے سامنے بٹھا لیا، اور بسم اللہ پڑھ کر اپنے ہاتھ اُٹھائے، اُسی وقت کھانے کا ایک خوان آسمان سے اُترا جس میں ستر قسم کے کھانے موجود تھے۔ آپ نے ہر ایک کو جدا جدا کھانا تقسیم کیا جو ان کی دلی خواہش کے عین مطابق تھا۔ ان جاہلوں نے آپ کی کرامت دیکھی تو دل و جان سے معتقد ہوگئے اور مرید بن گئے۔
یاد رہے خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے چار خلفاء تھے، پہلے خواجہ معین الحق والدین سنجری، دوسرے خواجہ نجم الدین صغریٰ۔ تیسرے شیخ سعدی لنگوی، چوتھے خواجہ محمد ترک رحمۃ اللہ علیہم، حضرت خواجہ عثمان ہارونی پنجم ماہِ شوال چھ سو سترہ ہجری میں فوت ہوئے جب کہ آپ کی عمر اکانویں سال تھی۔
رفت از دنیا چو در خلد بریں
شیخ عثمان مقتدائے اولیا
سال وصلش قطب وقت آمد عیاں
۶۱۷ھ
جلوہ گر شد نیز تاج الاصفیاء
کشف و کرامات کے صاحب عالم مشاہدات کے بادشاہ حاجی شریف زندنی کے مشہور نامور خلیفہ خواجہ عثمان ہارونی ہیں جو شریعت و طریقت اور حقیقت کے علم میں اپنے وقت کے علامہ اور اوتاد ابدال کے مقتدا تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ حاجی شریف زندنی کی خدمت سے حاصل کیا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو پاک و ؟؟؟ کرے) فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں تھا۔ جب ہم دونوں دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو کوئی کشتی موجود نہ تھی۔ خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ ذرا تم اپنی آنکھیں بند کرلو۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر جو آنکھیں کھولتا ہوں تو اپنے تیئں اور اپنے سامنے خواجہ کو دریا کے اس پار پاتا ہوں میں نے دریافت کیا کہ خواجہ آپ نے یہ کیا کیا فرمایا پانچ دفعہ سورہ فاتحہ پڑھی۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ ایک نہایت سن رسیدہ شخص خواجہ عثمان قدس سرہ کی خدمت میں آیا جس کے چہرہ سے حزن و رنج۔ اور حزن رنج کے ساتھ انتہا درجہ کی پریشانی برستی تھی خواجہ نے دریافت کیا۔ کیا حال ہے کہ اطمینان و دلجوئی تجھ میں نام تک کو باقی نہیں رہی ہے عرض کیا حضرت! چالیس برس کا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا غائب ہوگیا ہے نہیں معلوم وہ مرگیا ہے کہ زندہ ہے۔ میں خواجہ کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ فاتحہ کی درخواست کروں شاید میرا فرزند میرے پاس آپہنچے۔ بڈھے کی یہ اندوہ وملال سے بھری ہوئی تقریر سن کر خواجہ مراقبہ میں گئے اور تھوڑی دیر گذرنے کے بعد حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ہم یہ نیت کر کے فاتحہ پڑھتے ہیں کہ اس بڈھے کا لڑکا اس کے پاس آپہنچے۔ چنانچہ آپ نے فاتحہ پڑھنی شروع کی اور ختم کرنے کے بعد بڈھے سے فرمایا جا تیرا لڑکا گھر میں آگیا ہوگا جب بڈھا گھر میں آیا تو ایک شخص نے آکر خوشخبری دی اور کہا لو مبارک ہو تمہارا لڑکا آموجود ہوا جب بڈھا اپنے لڑکے سے ملاقات کر چکا تو دونوں مل کر خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ خواجہ نے پوچھا کہ تو کہاں تھا عرض کیا دریا کے ایک جزیرہ میں چند دیو مجھے پکڑ کر لے گئے تھے اور زنجیروں میں جکڑ کر قید کر رکھا تھا۔ آج میں اسی جگہ مقید تھا کہ ایک بزرگ صفت درویش جس کی شکل و شمائل آپ سے بہت ہی ملتی جلتی تھی میرے پاس پہنچا اور ہاتھ زنجیر میں کر کے مجھے اپنے پاس کھڑا کیا زنجیر خود بخود گر پڑی اور اب میں بالکل آزاد ہوگیا۔ ازاں بعد اس درویش نے فرمایا کہ میرے قدموں کے نشانات پر پاؤں رکھتا پیچھے پیچے چلا آ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ ذرا آنکھ بند کر جوں ہی میں نے آنکھ بند کی اپنے تیئں گھر کے دروازہ پر دیکھا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام معین الدیں رحمۃ اللہ علیہ سنجری فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید میرے پڑوس میں آباد تھا جب اس نے انتقال کیا تو میں بھی اس کے جنازہ کے ساتھ گیا اور لوگ تو اسے قبر میں دفن کر کے لوٹ آئے لیکن میں ایک ساعت اس دوست کی قبر کے سرہانے بیٹھا رہا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے نہایت بھیانک اور خوفناک صورت میں آئے اور اس وقت خواجہ ہارونی بھی پہنچ گئے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اسے عذاب نہ کرو کیونکہ یہ میرا مرید ہے فرشتوں کو خدا وندی حکم پہنچا کہ خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارا سچا اور دلسوز مرید نہ تھا بلکہ بر خلاف تھا۔ خواجہ نے فرمایا کہ ہاں اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ میرے بر خلاف تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ اپنے تئیں میرے سلسلہ سے وابستہ جانتا تھا حکم ہوا کہ فرشتو! خواجہ عثمان کے مرید سے ہاتھ اٹھالو۔ ہم نے اسے خواجہ کو بخش دیا۔
آں شہسوار میدان عشق بازی، تیز رفتار ہادیہ جاں گدازی، از کشف و کرامات مستغنی، مست نعمات ندائے اِنی، متکلم بہ کلام قُل یا نارُ کونی قطب ارشاد حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کا شمار اکابر مشائخ چشتیہ اور ابو العزم صوفیاء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ تمام علوم ظاہری وباطنی کے جامع تھے ریاضات و مجاہدات میں نظیر نہیں رکھتے تھے۔ اور کشف حقائق تفرید اور شرح دقائق توحید میں آپ عدیم المثال تھے۔ آپ کی کنیت ابو النور تھی۔ آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے اپ کو حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی قدس سرہٗ کی صحبت بھی ملی تھی۔ جیسا کہ آپ کے ملفوظات جمع کردۂ حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے معلوم ہوتا ہے۔
وطن
آپ کا وطن قصبۂ ہارون[1] تھا جو نیشا پور کے نواح میں واقع ہے۔ ایک اور قول کے مطابق ہارون ملک فرغانہ جو ماورا النہر ہے میں ہے آپ اکثر اوقات سفر میں رہتے تھے اور غانیت تجرید و تفرید میں بسر کرتے تھے۔ آپ کو تمام مشائخ وقت کی صحبت نصیب ہوئی ہے۔ آپ ہر فن میں منتہیٰ تھے۔ آپ کا تصرف نہایت قوی تھا۔ آپ کے کمالات کا اس بات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین حق سنجری چشتی اجمیری قدس سرہٗ جیسے شاہبار آپ کے مرید تھے۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے سر سال مجاہدہ کیا اور کبھی سیر ہوکر نہ کھانا کھایا نہ پانی پیا۔ راتوں کو آپ جاگتے رہتے تھے اورچار پانچ وقت کے فاقوں کے بعد چار پانچ لقمے تناول فرماتے تھے آپ اہل دنیا کا منہ تک نہ دیکھتے تھے آپ مستجاب الدعوات تھے اور جو کچھ آپ کے منہ مبارک سےنکلتا تھا وہی ہوتا تھا۔ آپ حافظ قرآن تھے، اور ایک ختم دن میں اور ایک رات میں کرتے تھے۔ آپ کی نظر میں وہ اثر تھا کہ جو شخص آپ کا منظور نظر ہوتا فوراً کمال کو پہنچ جاتا تھا۔
ذوق سماع
آپ صاحب سماع تھے اور اکثر سماع سنتے تھے آپ سماع میں اس قدر گریہ وزاری کرتے تھے اور نعرے لگاتے تھے کہ خلق خدا حیران رہ جاتی تھی۔ ایک دفعہ خلیفہ وقت نے آپ کو سماع سے منع کیا اور کہا کہ اگر سماع جائز ہوتا تو شیخ جنید اُسے ترک نہ کرتے۔ وہ خلیفہ طریقۂ سہروردیہ میں مرید تھا۔ خلیفہ نے حکم دیدیا کہ جو شخص سماع سنے اُسے تختہ وار پر لٹکایا جائے اور قوالوں کو بھی قتل کردیا جائے۔
سماع کے بارے میں بادشاہ اور علماء کا مقابلہ اور فتح
جب حضرت شیخ کو اس بات کا علم ہوا تو آپنے فرمایا کہ سماع اسرار الٰہی میں سے ایک سِر (راز) ہےجب بندہ اور خدا کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہتا۔ یہ راز کبھی نہیں چھپایا جا سکتا اور کون ہے۔ جو ہمیں سماع سے منع کرے۔ میں نے خدائے عزوجل سے درخواست کی ہے کہ قیامت تک مریدین اور فرزنداں سماع سنتے رہیں اور اہل سماع پر کسی کو قدرت حاصل نہ ہو۔ خلیفہ وقت نے جو سلسلہ عالیہ سہروریہ سے تعلق رکھتا ہے سماع کو حرام قرار دیا ہے لیکن سماع ہمارے اکثر مشائخ نے سنا ہے اور اگر میں سماع سے توبہ کروں تو گنہگار بنوں گا۔ جب آپ کا یہ جواب خلیفہ تک پہنچا تو اس نے حضرت اقدس کے پاس قاصد بھیج کر کہا آپ آئیں اور علماء کے ساتھ بحث کریں اگر علماء سماع کو جائز قرار دیں تو میں منع نہیں کروں گا آپ نے اُسی وقت استخارہ کیا اور بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں تمام علماء جمع تھے۔ جب آپ مجلس میں پہنچے تو خلیفہ بے تاب ہوگیا مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہ رہا اور باہر جاکر پس پردہ بیٹھ گیا۔ جب علماء نے حضرت اقدس کا جمال جہاں اراء دیکھا تو لرزہ براندام ہوئے اور اپنا سارا علم بھول گئے۔ حتیٰ کہ الف ب تک یاد نہ رہا۔ خلیفہ نے ان کو تقویت دینے کی بہت کوشش کی اور بحث کی ترغیب دی لیکن وہ عاجز آگئے اور ان کی زبانیں ایسی بند ہوئیں کہ بات نہیں کر سکتے تھے۔ آخر انہوں نے بادشاہ سے کہا جونہی ہم نے حضرت خواجہ کو دیکھا ہم سارا علم بھول گئے ہیں اور اب ہمیں بحث کرنےکی ہمت نہیں ہے۔ غرضیکہ تمام علماء وفقہا اور اکابر نے نہایت عجز و نیاز سے اعتراف قصور کیا اور حضرت اقدس کے پاؤں میں گر گئے۔ اور فریاد کرتے ہوئے کہنے لگے کہ خلیفہ سلسلہ سہروردیہ میں مرید ہے اور سماع سے منع کرتا ہے۔ لیکن ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ سماع کو حرام قرار دیں۔ آپ اپنے صدقے اور اہل سماع کے صدقے ہم حیران و پریشان لوگوں پر رحم فرمانویں اور ہمیں معاف فرمانویں۔ ہم نے ساری عمر علم حاصل کرنےمیں صرف کی ہے اور وہ آپ نے چشم زدن میں ہم سے چھین لیا ہے ہمیں یقن ہے کہ جب تک آپ ہمارے حال پر رحم نہ فرمانویں گے ہمیں علم واپس نہیں ملے گا حضرت شیخ نے فرمایا کہ اے نادانو! سماع کی قدر تم کیا جانو۔ سماع کے لیے اخوان[2]شرط ہے شیخ جنید کو جب اخوان نہ ملے تو سماع ترک کردیا اگر ان کے زمانے میں کوئی اہل سماع ہوتے یا اگو وہ ہمارےمشائخ کی مجلس میں شریک ہوتے تو سماع ترک نہ کرتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے لیے شیخ جنید کا فعل حجت نہیں ہےجب ہمارے مشائخ نے سماع سنا ہے تو کسی کی کیا مجال کہ اس سے انکار کرے۔ جب میں ہر حال میں مشائخ کی سنت پر کاربند ہوں تو اس سنت پر کیوں نہ عمل کروں۔ اور خواجہ ابو بکر شبلی جو شیخ جنید کے مرید وخلیفہ تھے حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی قدس سرہٗ کی مجلس سماع میں اکثر شریک ہوتے تھے۔ اور حالت سماع میںنعمت فرا واں حاصل کیا اور فوراً اس کو سز امل گئی اور پیشمان ہوکر تائب ہوا۔ تمکون ہو جو اہل سماع سےجھگڑتے ہو۔ اگر تمچاہو تو ہم ابھی چشتیوں کی برہان (حجت) قائم کریں۔ یہ سنکر سب نے کمال عجز و نیاز سے عرض کیا کہ اس سے زیادہ کیا برہان ہوگی جس کا ہم نے مشاہدہ کرلیا ہے۔ اب خدا کے لیے ہم مصیبت زدگان پر کرم فرمادیں۔ حضرت اقدس کو ان کے حال پر رحم آیا اور ایک نگاہ کرم سے ان کی طرف دیکھا تو ان کا سارا علم جسے وہ بھول چکے تھے فوراً واپس آگیا۔ اس کے بعد آپ کے فیض صحبت سے وہ علماء صاحب کمال اور اہل سماع ہوئے۔ جب بادشاہ نے حضرت اقدس کی عظمت اور تصرف کا مشاہدہ کیا تو کہنے لگا میں ہرگز خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو سماع سے منع نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد حضرت اقدس نے گھر آکر قوالوں کو طلب فرمایا اور مجلس سماع منعقد کی۔ جو ایک ہفتہ تک متاتر جاری رہی۔ اس واقعہ کے بعد کسی نے آپ کے سماع پر اعتراض نہ کیا۔
اُمّت کے گنہگاروں کی بخشش کا وعدہ
نقل ہے کہ جب حضرت اقدس نماز شروع کرتے تھے تو غیب سے آواز آتی تھی کہ اے عثمان میں نے تجھے قبول کیا ہے اور پسند کیا ہے اب مانگو جو کچھ مانگو تاکہ تجھے عطا کروں۔ جب حضرت اقدس نماز سے فارغ ہوتے تو عرض کرتے کہ یا الٰہی میں تجھے دیا۔ خاطر جمع رکھو اور اس کے علاوہ جو کچھ طلب کرو مل جائے گا آپ جواب دیتے تھے کہ یاالٰہی محمد مصطفیٰﷺ کی اُمّت کے گنہگاروں کو بخش دے۔ آوازآتی تھی کہ میں نے امت محمدیہﷺ کے تیس ہزار گنہگاروں کو تمہاری بدولت بخش دیا۔ حضرت اقدس ہر نماز کے بعد یہی دعا کرتے تھے اور ہر بار یہی جواب سنتے تھے۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جب الہام ربانی سے آپ حضرت خواجہ حاجی شریف زندنی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو سر پاؤں میں رکھ کر عرض کہ بندہ عثمان یہ چاہتا ہے کہ اپنے غلاموں میں شامل فرمالیں حضرت خواجہ بڑے لطف و کرم سے پیش آئے اور کلاہ چار ترکی اُن کے سر پر رکھی۔ بیعت کیا اور سر پر قینچی چلائی اس کے بعد فرمایا کہ عثمان چار ترکی کا مطلب یہ ہے کہ اوّل ترک دنا کرو، اہل دنیا کو اہل دنیا سے اجتناب کرو۔ اور اُن کو نزدیک نہ آنے دو۔ دوم یہ کہ خواہشات نفسانی ترک کرو۔ سوم جو کچھ نچس چاہے اس کے برعکس کرو۔ چہارم راتوں کو جاگو اور ذکر خدا میں مشغول رہو۔ ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کلاہِ چار ترکی سر پر رکھے ؟؟؟؟؟؟ اللہ سے اٹھالے۔ اور جو کچھ حق تعالیٰ کے سوا ہے اُسے چھوڑ دے محبت کا بیچ اپنے دل میں بوئے اس وجہ سے حضرت سرور کائنات علیہ الصلواۃ والسلام نے جب یہ کلاہ چار ترکی زیب تن فرمائی تو فقر و فاقہ اختیار فرمایا۔ اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ کلاہ سر پر رکھی تو اس شیر میدان نے بھی کمال فقر و فاقہ اختیار کیا یہی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ان کااتباع کرتے ہیں تم بھی ان کی پیروی کرو۔ تاکہ قیامت کے دن اُن سے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ نیز تم ہر شخص کو اپنے سے بہتر سمجھو تاکہ سب میں بہتر بن جاؤ۔ خلق، تواضع اور عاجزی اختیار کرو تاکہ مقام درویشی تک پہنچ سکو۔ جو شخص یہ کام نہیں کرتا اس خرقہ کےلائق نہیں ہوتا۔ یہ خرقہ اس پر حرام ہوتا ہے۔ وہ اس طریق کا قطع کرنے والا ہے اور ہمارے مشائخ اس سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ حضرت اقدس نے یہ تمام نصیحتیں قبول کرلیں۔ اور ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ حتیٰ کہ تین چار سال کے بعد خلافت حاصل کرلی۔ نیز حضرت شیخ نے اسم اعظم جو مشائخ سے سیکھا تھا ان کو تعلیم کیا جس سے ظاہری وباطنی علوم آپ پر مکشوف ہوگئے۔ اور جو کچھ چاہتے تھے مل گیا۔
گم شدہ بچہ کا ایک لمحہ میں واپس آنا
اس کتاب میں یہ بھی مرقوم ہے کہ ایک دن ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جو نہایت ہی پریشان حال تھا۔ جب حضرت اقدس ے اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے عرض کیا کہ چالیس سال کا عرصہ گذر چکا ہے کہ میرا بیٹا غائب ہوگیا ہے اس کی زندگی اور موت کے متعلق مجھے کوئی علم نہیں ہے حضرت اقدس کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ دعا فرمائی جاوے کہ میرا بیٹا واپس آجائے۔ یہ سُن کر حضرت اقدس نے دیر تک مراقبہ کیا اور آنکھیں کھول کر حاضرین سے فرمایا کہ فاتحہ پڑھو۔ اس نیت سے کہ اس کا بیٹا واپس آجائے حاجرین نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے دوبارہ مراقب ہوکر فرمایا کہ جاؤ۔ تمہارا بیٹا گھر آگیا ہے۔ جب وہ اپنے گھر کے نزدیک پہنچا تو کسی نے آواز دے کر کہا کہمبارک ہو تمہارا بیٹا واپس آگیا ہے۔ باپ نے گھر جاکر بیٹے سے ملاقات کی اور اُسے گلے لگایا بوسہ دیا اور پھر دونوں حضرت شیخ کی خدمت میں بھاگے ہوئے آئے۔ اور زمین بوسی کی حضرت اقدسن ے لڑکے سے پوچھا کہ تم کہاں تھے اور کیسے آئے اپنا حال بیان کرو اس نے عرض کیا کہ بندہ کو دریائے دیعان کے جزائر میں سے ایک جزیرہ میں لے گئے تھے اور پاؤں میں بیڑیان ڈال دیں۔ آج بھی وہاں تھا کہ آپ کی شکل کے ایک بزرگ نے میرے سامنے آکر فرمایا کہ اٹھو۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے میری بیڑیوں کوہاتھ لگایا اور آنکھیں بند کرو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی ایک لمحہ نہیں گزرا تھا کہ آپ نے فرمایا آنکھیں کھولو۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ بزرگ غیب ہوگئے اور میں نے اپنے آپ کو اپنے گھر کے دروزہ پر کھڑا پایا۔ ماں باپ سے ملا اور حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوا۔
کافروں کا مسلمان ہونا اور ولی اللہ بن جانا
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہےکہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت چند کافروں نے جمع ہوکر آپس میں کہا کہ ہم ابھی خواجہ عثمان کے پاس چل کر ان کو آزمائیں۔ اگر وہ ہمیں مطمئن کردیں تو ہمیں یقین ہوجائے گا کہ آج اُن کے برابر کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ ہر شخص نے اپنے دل میں کھانے کی کوئی نہ کوئی قسم کی تمنا دل میں رکھ لی اور حضرت اقدس کی خدمت مین پہنچ گئے۔ آپ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ آگے آؤ۔ فرزندان آدم، خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور جس شخص پر کرم فرماتا ہے اُسے بھی غیب سے مطلع فرماتا ہے۔ آپنے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ اور خادم کو حکم دیا کہ ان کے ہاتھ دھلاؤ خادم نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور ہر مرتبہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھاکر عالم غیب سے طعام کا ایک طبق لیا۔ اور اُن میں سے ہر ایک کے سامنے ایک سرے سے رکھتے گئے اور جس شخص نے جس چیز کی خواہش کی تھی۔ اس کے سامنے پہنچ گئی۔ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کین عمت کھاؤ۔ جب انہوں نے طعام کھایا تو اس قدر لذیز تھا کہ پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ انہوں نے طعام کھاکر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سخت حیران ہوئے کچھ دیر کے بعد انہوں نے عرض کیا کہ اے خواجہ یہ بات تو ہم کو معلوم ہوگئی کہ آپ جیسا باعظمت اور ان کمالات کا مالک کوئی بزرگ نہیں ہے اب یہ فرمادیں کہ اگر ہم خدا عزوجل کی وحدانیت کے قائل ہوکرمسلمان ہوجائیں آپ کا خدائے بزرگ ہم کو بھی آپ کی طرح صاحب نعمت کردے گا یا نہیں۔ آپ نے فرمایا میں بیچارہ کیا ہوں اور کس شمار میں ہوں۔ اگر وہ لطف و کرم کی نگاہ فرمائے تو مجھ سے ہزار مرتبہ زیدہ بزرگ بنا سکتا ہے۔ یہ سنکر وہ سب مسلمان ہوگئے اور مرید ہوکر آپ کی خدمت میں رہنے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے ہر ایک پر عرش سے تحت الثریٰ تک مکشوف ہوگیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں اولیائے کامل بن گئے۔
کتاب سیر الاولیاء میں حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی قدس سرہٗ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت خواجہ عثمان کے ساتھ ہم سفر تھے۔ ہم دریائے دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو کشتی نہ تھی۔ حضرت اقدس نے فرمایا آنکھیں بند کرو۔ میں نے بند کرلیں۔ آپنے فرمایا آنکھیں کھولو جب آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو حضرت اقد س کے ساتھ دریا کے اُس پار پایا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ کس طرح ہوا۔ فرمایا میں پانچ بار سورۂ فاتحہ پڑھ کر دریا سے گزر گیا۔
سیر الاولیاء میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہٗ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ایک ہمسایہ تھا جو حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کا مرید تھا۔جب وہ فوت ہوا تو میں اس کےجنازہ کے ساتھ گیا۔ جب اُسے قبر میں اُتارا گیا تو خلقت واپس چلی گئی لیکن میں تھوڑی دیر کے لیے مراقب ہوگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے ہنچ گئے۔ لیکن حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ نے درمیان میں آکر فرمایا کہ اس پر ہر گز عذاب نہ کرو یہ میرا مرید ہے۔ فرشتوں کو فرمان ہوا کہ اُسے کہہ دو کہ یہ شخص آپ کے بر خلاف تھا آپ نےفرمایا مجھے معلوم ہے کہہ میرے خلاف تھا لیکن پھر بھی اس نے میرا دامن پکڑا تھا۔ اس کے بعد فرشتوں کو حکم ہوا کہ اس پر عذاب نہ کرو کیونکہ یہ خواجہ عثمان کا مرید ہے۔ میں نے اس شخص کو ان کی بدولت بخش دیا۔
مراۃ الاسرار[3] میں کتاب سیر العارفین[4] سے روایت درج ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ اپنے شیخ حضرت کواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ سے رخصت ہوکر روانہ ہوئے اس کے چند روز بعد حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ نے سفر اختیار فرمایا۔ اور ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں آتش پرست رہتے تھے اور ہر وقت اُن کے آتش کدہ میں آگ جلتی رہتی تھی۔ آپ نے قصبہ سے دور ایک نہر کے کنارے قیام فرمایا اور اپنے خادم فخرالدین کو حکم دیا کہ شہر جاکر کچھ آٹا خرید لاؤ۔ تاکہ کھانا تیار کیا جائے۔ آٹا خریدنے کے بعد خادم آتشکدہ کی طرف کیا جہاں سب لوگ گرد اگرد بیٹھے آتش پرستی کر رہے تھے۔ جب اس نے آگ لینے کا قصد کیا۔ تو ان لوگوں نے اُسے منع کردیا۔ اس نے واپس آکر حضرت خواجہ کے سامنے ماجرا بیان کیا۔ یہ سُن کر آپ کی غیرت احدیت نے جوش مارا اور اٹھ کر آتشکدہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر دیکھا کہ اتش پرستوں کا سردار جس کا نام مغیشا تھا ایک تخت پر بیٹاھ ہے اس کا سات سالہ بچے گود میں ہے اور چاروں طرف اس کے پیرو کار بیٹھے عبادت میں مصروف ہیں۔حضرت اقدس نے اس سے دریافت کیا کہ آگ کی پوجا کرنے سے تم کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ تھوڑے پانی سے بجھ جاتی ہے۔ تم قادر مطلق کی پرستش کیوں نہیں کرتے تاکہ تمہارے کام بھی آئے۔ اور آگ کا خالق بھی وہی ہے اس سردار نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب میں آگ کا وجود بڑی عظمت رکھتا ہے ہم اس کی کیوں نہ پوجا کریں۔ آپ نے فرمایا کئی سالوں سے تم اس کی پرستش کر رہے ہو ذرا اس کے انداز ہاتھ تو ڈال کر دیکھو کہ اپنے پوجا کرنے کوالوں کوج لاتی ہے یا چھوڑ دیتی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ آگ میں بابطع جلانے کی خاصیت ہے۔ کسی کی کیا مجال کہ اس کے قریب جاسکے۔ یہ سن کر آپ نے بچے کو اس کی گود سے اٹھالیا اور آگ کی طرف چلے گئے یہ دیکھ کر وہ لوگ فریاد کرنے لگے۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر یہ آیت پڑھی قل یا نار کونی سرداً وسلاماً علیٰ ابراہیم (اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا) اور آگ میں کود پڑے۔ اور کامل چار گھنٹے اس کے اندر ٹھہرے رہے لیکن آپ پر اور اس بچے پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ جب باہر آئے تو لوگوں نے بچے سے دریافت کیا کہ وہاں تم نے کیا دیکھا۔ بچے نہ کہا گل وگلزار کے سوا کوئی چیز نہ آئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خواجہ کو ولایت ابراہیمی حاصل تھی۔ حضرت خواجہ کی یہ کرامت دیکھ کر تمام آتش پرست مسلمان ہوگئے آپ نے اس سردار کا نام عبداللہ رکھا اور اس کے بیٹے کا نام ابراہیم رکھا۔ یہ دونوں باپ بیٹا حضرت اقدس کے فیض تربیت سے بڑے بلند مقام پر پہنچے۔ اور ولی اللہ بن گئے۔ سیر العارفین کے مصنف نےلکھا ہے کہ میں اس مقام سے ہو آیا ہوں۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے حضرت اقدس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدس نے ڈھائی سال وہاں رہ ک ان کی تربیت فرمائی۔ صاحب سیر العارفین نے لکھا ہے کہ لوگوں نے اس آتش کدہ کی جگہ اب اور عمارتیں تعمیر کرلی ہے اور شیخ عبداللہ اور شیخ ابراہیم کے مقبرے بھی وہاں موجود ہیں۔
کتاب گنج الاسرار کی عیادت سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان قدس سرہٗ کو اپنے مرید حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہٗ سے اس قدر محبت تھی۔ کہ ان کو ملنے کی خاطر آپ دہلی تشریف لائے اور چند روز دونوں بزرگ اکٹھے رہے۔ لیکن یہ روایت بہت ضعیف ہے اس وجہ سے کہ کتاب گنج الاسرار کو بعض مجاوروں نے جمع کیا ہے، جو غیر معتبر ہیں۔ حضرت شیخ نصیر الدین محمود نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔ قول صحیح یہ ہے۔ کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی طویل مسافت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور معتکف ہوگئے۔ وہاں آپ نے حضرت رب العزت سے دو مقاصد کے لیے دعا کی۔ ایک یہ کہ میری قبر مکہ معظمہ میں ہو۔ اور اس کا نشان بر قرار رہے تاکہ لوگ فاتحہ پڑھتے رہیں کیونکہ مکہ معظمہ میں یہ رسم ہے کہ وہاں کسی کی قبر کا نشان نہیں رکھا جاتا۔ اور برابر کردیتے ہیں۔ دوسری دعا یہ تھی کہ میرے فرزند معین الدین جس نے مدت تک مقام تجرید و تفرید میں اس بندہ کی خدمت کی ہے اس کو اس قسم کی ولایت ملے جو کسی اور عطا نہ ہوئی۔ ہو۔ ہاتف نے آواز دی کہ تمہاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کا نشان بر قرار رہے گا[5] اور معین الدین کو ہم نے ہندوستان کی ولایت عطا فرمائی ہے جو اس وقت تک کسی اہل اسلام نہیں ملی۔ لیکن پہلے وہ مدینہ جائے اور محمد مصطفیﷺ سے اجازت لے کرآجائے۔ اس پر خواجہ عثمان ہارونی نے سجدہ شکر ادا کیا اور اپنے تمام مشائخ کی امانت اور اسمائے عظام اور خرقہ خلافت خواجہ بزرگ معین الدین کو دیکر مدینہ منورہ کی جانب رُخصت فرمایا۔ آنحضرتﷺ کمال شفقت سے ولایت ہندوستان آپ کو عطا فرمائی جس کی تفصیل آپ کے ذکر خیر میں آرہی ہے۔ آپ کو یہ بھی فرمایا گیا کہ تمہارا مسکن اجمری ہوگا۔ تم وہاں جاکر رہو۔ تمہارے وجود سے ہندوستان میں دین اسلام استقامت پذیر ہوگا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔ اور حضرت خواجہ بزرگ نے ہندوستان کے راجہ رائے پھتوار کی بیخ نکال دی اور اس کی جگہ سلطان معز الدین سام (شہاب الدین غوری) کو استقامت بخشی۔ اُس وقت سے آج تک کوئی ہندو وحکمران نہیں ہوا۔ اور اسلام کو وہ ترقی حاصل ہوئی کہ تاریخ گواہ ہے۔
وصال
حضرت خواجہ عظمان ہارونی قدس سرہٗ نے بقیہ عمر مکہ معطمہ میں بسر فرمائی اور باطن میں حضرت خواجہ بزرگ کے احوال کی طرف متوجہ رہے اور حق تعالیٰ سے ہمیشہ اُن کے لیے دعا مانگتے رہے جب ان کی طرف سے خاطر جمع ہوئی تو بتاریخ چھ شوال اور ایک روایت کے مطابق پانچ شوال ۶۰۳ھ اس دنیائے فانی سے دار بقا کی جانب رحلت فرمائی۔ آپ کا مزار مقدس مکہ معطمہ میں ہے اور آج تک مرجع خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
خلفاء
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہٗ کے چار خلفاء تھے۔ حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہٗ حضرت نجم الدین صغراء حضرت شیخ سعدی لنگوحی، اور حضرت شیخ محمد ترک نار نولی[6]،
اللّٰھم صَلّے عَلیٰ مُحمد وَآلہٖ وَاَصْحَابہٖ اَجمَعیْن۔
ازر ہگذر خاک سر کوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردست نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ہارون کا تلفظ ہارون ہے یعنی واؤ کی فتح کے ساتھ۔
[2] ۔فضل بر مکی عباسی خلیفہ کا وزیر تھا اور بڑا با اختیار اور مقبول عام تھا۔
[3] ۔مراۃ الاسرار حضرت شیخ عبد الرحمٰن چشتی کی تصنیف ہے جو شاہجہان بادشاہ کے ہم عصر تھے اور خاندان مغلیہ کے امور میں صاحب خدمت تھے۔ اب یہ کتاب نایاب ہے ۔لیکن احقر مترجم نے لنڈن لائبریری سے حاصل کردہ نسخہ کا فارسی ترجمہ کردیا ہے۔
[4] ۔یہ کتاب حضرت شیخ جمالی کی تصنیف ہے جو سکندر لودھی کے زمانے میں بڑے شاعر اور ولی اللہ تھے آپ کمنبوہ خاندان کے فرد تھے اور شیخ سماء الدین کمنبوہ ملتانی کے مرید تھے۔
[5] ۔حضرت خواجہ عثمان ہارونی کا مزار مقدس مکہ معظمہ میں شریف حسین کے محل کے احاطہ میں واقع ہے اور گردش زمانہ کے باوجود آج تک محفوظ ہے قبر کے گرد لکڑی کا چبوترہ لگا ہوا ہے اور وہ خطۂ زمین جس کسی کی ملکیت میں آیا ہے مزار مبارک کو کوئی منہدم نہیں کر سکا خاص کر موجودہ دور حکومت میں جو مزارات کے خلاف ہے۔ شریف حسین کا محل نصف جل چکا ہے اور نصف باقی ہے۔
[6] ۔حضرت شیخ محمد ترک کا مزار نار نول میں ہے جو دہلی سے جنوب کی طرف ریواڑی کے راستے راجپوتانہ میں واقع ہے۔ تقسیم بر صغیر سے قبل یہ قصبہ ریاست ٹپیالہ کا حصہ تھا۔ مزار مقدس کے پاس ایک چبوترہ ہے جہاں حضرت خواجہ نصیر الدین محمود چراغدہلوی قدس سرہٗ کو سرور کائناتﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔ اس مقام کو محفوظ کرلیا گیا ہے اور وہاں کھڑے ہوکر لوگ دعا مانگتے ہیں اور مرادیں پاتے ہیں۔
(اقتباس الانوار)
کشف و کرامات کے صاحب عالم مشاہدات کے بادشاہ حاجی شریف زندنی کے مشہور نامور خلیفہ خواجہ عثمان ہارونی ہیں جو شریعت و طریقت اور حقیقت کے علم میں اپنے وقت کے علامہ اور اوتاد ابدال کے مقتدا تھے آپ نے خرقہ ارادت خواجہ حاجی شریف زندنی کی خدمت سے حاصل کیا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری (خدا تعالیٰ ان کے مرقد کو پاک و ؟؟؟ کرے) فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں تھا۔ جب ہم دونوں دجلہ کے کنارے پر پہنچے تو کوئی کشتی موجود نہ تھی۔ خواجہ عثمان قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ ذرا تم اپنی آنکھیں بند کرلو۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر جو آنکھیں کھولتا ہوں تو اپنے تیئں اور اپنے سامنے خواجہ کو دریا کے اس پار پاتا ہوں میں نے دریافت کیا کہ خواجہ آپ نے یہ کیا کیا فرمایا پانچ دفعہ سورہ فاتحہ پڑھی۔ منقول ہے کہ ایک دفعہ ایک نہایت سن رسیدہ شخص خواجہ عثمان قدس سرہ کی خدمت میں آیا جس کے چہرہ سے حزن و رنج۔ اور حزن رنج کے ساتھ انتہا درجہ کی پریشانی برستی تھی خواجہ نے دریافت کیا۔ کیا حال ہے کہ اطمینان و دلجوئی تجھ میں نام تک کو باقی نہیں رہی ہے عرض کیا حضرت! چالیس برس کا عرصہ ہوا کہ میرا لڑکا غائب ہوگیا ہے نہیں معلوم وہ مرگیا ہے کہ زندہ ہے۔ میں خواجہ کی خدمت میں اس غرض سے حاضر ہوا ہوں کہ فاتحہ کی درخواست کروں شاید میرا فرزند میرے پاس آپہنچے۔ بڈھے کی یہ اندوہ وملال سے بھری ہوئی تقریر سن کر خواجہ مراقبہ میں گئے اور تھوڑی دیر گذرنے کے بعد حاضرین مجلس سے فرمایا کہ ہم یہ نیت کر کے فاتحہ پڑھتے ہیں کہ اس بڈھے کا لڑکا اس کے پاس آپہنچے۔ چنانچہ آپ نے فاتحہ پڑھنی شروع کی اور ختم کرنے کے بعد بڈھے سے فرمایا جا تیرا لڑکا گھر میں آگیا ہوگا جب بڈھا گھر میں آیا تو ایک شخص نے آکر خوشخبری دی اور کہا لو مبارک ہو تمہارا لڑکا آموجود ہوا جب بڈھا اپنے لڑکے سے ملاقات کر چکا تو دونوں مل کر خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ خواجہ نے پوچھا کہ تو کہاں تھا عرض کیا دریا کے ایک جزیرہ میں چند دیو مجھے پکڑ کر لے گئے تھے اور زنجیروں میں جکڑ کر قید کر رکھا تھا۔ آج میں اسی جگہ مقید تھا کہ ایک بزرگ صفت درویش جس کی شکل و شمائل آپ سے بہت ہی ملتی جلتی تھی میرے پاس پہنچا اور ہاتھ زنجیر میں کر کے مجھے اپنے پاس کھڑا کیا زنجیر خود بخود گر پڑی اور اب میں بالکل آزاد ہوگیا۔ ازاں بعد اس درویش نے فرمایا کہ میرے قدموں کے نشانات پر پاؤں رکھتا پیچھے پیچے چلا آ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ ذرا آنکھ بند کر جوں ہی میں نے آنکھ بند کی اپنے تیئں گھر کے دروازہ پر دیکھا۔ منقول ہے کہ شیخ الاسلام معین الدیں رحمۃ اللہ علیہ سنجری فرمایا کرتے تھے کہ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مرید میرے پڑوس میں آباد تھا جب اس نے انتقال کیا تو میں بھی اس کے جنازہ کے ساتھ گیا اور لوگ تو اسے قبر میں دفن کر کے لوٹ آئے لیکن میں ایک ساعت اس دوست کی قبر کے سرہانے بیٹھا رہا دیکھتا ہوں کہ عذاب کے فرشتے نہایت بھیانک اور خوفناک صورت میں آئے اور اس وقت خواجہ ہارونی بھی پہنچ گئے فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ اسے عذاب نہ کرو کیونکہ یہ میرا مرید ہے فرشتوں کو خدا وندی حکم پہنچا کہ خواجہ عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے کہہ دو کہ یہ تمہارا سچا اور دلسوز مرید نہ تھا بلکہ بر خلاف تھا۔ خواجہ نے فرمایا کہ ہاں اس میں ذرا شک نہیں کہ یہ میرے بر خلاف تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ اپنے تئیں میرے سلسلہ سے وابستہ جانتا تھا حکم ہوا کہ فرشتو! خواجہ عثمان کے مرید سے ہاتھ اٹھالو۔ ہم نے اسے خواجہ کو بخش دیا۔
(سیر الاولیاء)