حضرت خواجہ محمد پارسا بخاری
حضرت خواجہ محمد پارسا بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا نام محمد بن محمد بن حافظ بخاری ہےقدس اللہ سرہ۔آپ بھی خواجہ بزرگ علیہ الرحمۃ کے بڑے مریدوں میں سے ہیں۔حضرت خواجہ بزرگ نے ان کے حق میں اپنے اور مریدین کے سامنے خطاب کر کے یوں فرمایا ہے کہ وہ حق اور امانت کہ خواجگان قدس اللہ اسرار ہم کے خاندان کے خلفاء سے اس فقیر کو پہنچا ہے اور جو کچھ میں نے اس راہ یں کب کیا ہے وہ امانت تم کو سپرد کرتا ہوں۔جیسے برادر دین مولانا عارف نے ہم کو سپر د کیا تھا سو اس کو قبول کرنا چاہیےاور اس امانت کو خدا کی مخلوق تک پہنچا چاہیے۔آپ نے تواضع کی اور قبول کیا ۔آخر مرض میں اس کے غائبانہ اپنے دوستوں مریدوں کے سامنے ان کے حق میں فرمایا کہ ہمارے ظہور سے مقصود ان کا وجود ہے۔میں ان کو ہر دو طریق جذبہ و سلوک سے ترتیب کیاہے اگر وہ اس میں مشغول ہوں گے تو ایک جہاں ان سے روشن ہوگا۔ایک اور موقع پر اپنی شفقت کی نظر سے برخ کی صفت ان کو عنایت کی۔برخ ؓ کا قصہ قوت القلوب میں مذکور ہے۔دوسرے موقع پر مہربانی کی نظر سے ان کو نفس بخش دیا۔یہاں تک کہ جو کچھ وہ کہہ دیں وہی ہو جاتا ہے۔ایک اور موقع پر فرمایا ہے کہ جو کچھ وہ کہتے ہیںاللہ تعالی وہ کرتا ہے۔اس حدیث کے مطابق ان من عباد اللہ لو اقسم علی اللہ تعالی سبحانہ لا برہیعنی بعض خدائے سبحانہ کے وہ بندے ہیںکہ اگر خدا کی قسم کھالیں تو وہ ان کو بری کردے۔(یعنی وہی کام کردے)میں تو کہتا ہوں کہو لیکن وہ کہتے نہیں۔دوسری قوم پر ان خفیہ ذکر کی تلقین فرمائی اور ان کو جو کچھ وہ جانتے ہیں دقائق حقائق ، آداب طریقت و تعلیم عغیرہ عنایت بے شمار پر عمل کرنے کی اجازت دے دی اور جب محرم ۸۲۲ھ کو بیت الحرام کی طواف اور اس کے بعد نبی ﷺ کی زیارت کی نیت سے بخارا سے باہر نکلے اور نسف کے راہ سے صفائیان ،بلخ،ترمز،ہرات تک مزارات متبرکہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے تو سب جگہ سادات و مشائخ علماء ان کے لیے تشریف لانے کوغنیمت سمجھتے تھے اور بڑی عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔یہ پڑتا ہے کہ جب ولایت جام سے گزرتے تھے اور قیاس چاہتا ہے کہ آخر جمادی الاول یا شروع جمادی الاخری اسی سال کا ہوگا۔فقیر کا باپ نیاز مندوں اور مخلصوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ ان کی زیارت کے قصد کے لیے نکلے تھے۔
ابھی میری عمر پانچ سال بھی پوری نہ ہوئی تھی میرے باپ نے اپنے متعلقین میں سے ایک شخص کو کہا کہ جس نے مجھے اپنے کندھے پر اٹھا کر ان کی ڈولی کے سامنے جو کچھ نورانی انوار سے بھری تھی ،رکھی۔آپ نے توجہ فرمائی اور ایک سیر مصری کرمانی عنایت فرمائی۔آج اٹھ سال گزر چکے ہیں کہ اب تک ان کے چہرہ مبارک کی صفائی میری اسٓنکھوں کے سامنے ہےاور ان کے دیدار مبارک کی لزت میرے دل میں موجود ہے۔بے شک اعتقاد ارادت محبت کا رشتہ جو فقیر کو خواجگان قدس اللہ تعالی اروا حھمکے خاندان کے ساتھ ہے ۔ وہ آم کی نظر مبارک کی برکت سے ہےاورمجھے امید ہے کہ خدا کے احسان و کرم سے اسی تعلق کی برکت سے ان حضرات کے دوستون مخلصوں کے زمرہ میں اٹھایا جاؤں۔جب آپ نیشاپور میں پہنچے تو ہوا کی حرارت اور خوف راہ کی وجہ سے ساتھیوں میں باتیں ہوئیں،ہم راہیوں کے ارادے میں فی الجملہ کچھ سستی آگئی۔مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ کے دیوان کے بطور فال کے کھولا تو اشعار نکلے۔
روید اے عاشقان حق با قبال ابد ملحق رواں باشید ہمچوں مہ یسوئے برج مسعودی
مباربادتاں ایں راہ بتوفیق او امن اللہ بہر شہر وہرجائے بہر دشتے کہ پیمودی
وہاں سے آپ نے یہ خط بخاراکو بھیجا تھا۔خدا کے نام سے یہ خد اس د ن کے نیشاپور سے باہر نکلا ہوںلکھا ہے یہ شہر اور مسلمانوں کے اور شہر آفات اور خوف سے بچ رہے ہیں۔یہ دن ۱۱ جمادی الاخری ۸۲۳ھ کا تھا کہ صحت و سلماتی اور پورے آرام و ثوق کے ساھت خدا کے فضل و کرام قوت دل ،قوت یقین اور اس کے فضل غیر متناہی اور ان بشارات و اشارت کے مواگق گزر گیا یعنی کان رسول اللہﷺ یتفالء ولا یتطیر وقال رسول اللہ ﷺ لم یبق بعدی من النبوۃ الا المبشرات یراھا المؤمن او یری لہ وھذا حدیث متفق علے صحتہیعنی رسول اللہ ﷺ فال لیا کرتےاور جانور نہ اڑا تے تھےاور فرمایا رسول اللہﷺ نے میرے بعد نبوت سے خوشخبریوں کے سوا اور کچھ نہیں رہا ،جن کو مومن دیکھتا یہ اس کو دکھائی جاتی ہے ۔یہ ایسی حدیث ہے کہ جس کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
نبی الھدی حدیثک غوثی واعتصامی ببا بکم التجائی
یعنی اے ہدایت کے نبی ﷺ!آپکیﷺ حدیث میری فریاد رس ہے اورآپﷺ کے دروازے کو میرا مضبوطی سے پکڑنا میری التجا ہے ۔جب آپ صحت و سلامتی کے ساتھ مکہ معظمہ میں پہنچے اور حج کے ارکان ادا کیے ،آپ کو ایک مرض ہوگیا تھا۔چنانچہ طواف ودا ع عماری میں ادا کیا ، پھر وہاں سے مدینہ منورہ کو روانہ ہوئے۔اس وقت مریدوں کو طلب کیا اور یہ لکھ ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم جاء نی سید الطائفۃ الجنید قدس اللہ تعالی سرہ فی صحوۃ یوم السبت التا سع عشر من ذی الحجۃ سنۃ اثنین وعشرین وثمانما یۃ عند انصر افنا من مکہ المبارکہ زادھا اللہ تعالی تکریما وبرکۃ ونحن نسیر مع الرکب وانابین النوم والیقظۃ فقال رضی اللہ تعالی انہ فی زیارتہ و بشارتہ القصد مقبول فحفظت ھذا الکلمۃوممرت بھا ثم استیقظت من الحالۃ الواقعۃ بین النوم والیقظۃ والحمد علے ذالک۔یعنی بسم اللہ کے بعد یہ آئے میرے پاس سید الطائفہ حضرت جنید قدس اللہ تعالی سرہ اتوار کی صبح ۱۹/۹ذی الحجہ ۸۲۲ھ میں جب کہ ہم مکہ مبارکہ سے جس کےو خدا عزت و برکت دےاور ہم قافلہ کے ساتھ جا رہے تھے۔میری حالت خواب بیداری کے درمیان تھی ۔پھر رضی اللہ عنہ نے اپنی زیارت وبشارت کی حالت میں فرمایا کہ یہ قصہ مقبول ہے تب میں نے اس بات کو یاد کرلیااور اس سے خوش ہوا ۔پھر بیداری اور خواب کی حالت سے مجھے جاگ آگئی اور خدا کا شکر ہے اس کے بعد اور کلمات عربیہ لکھے۔جن کا ترجمہ یہ تھا کہ یہ ایک ہی کلمہ جو سید الطائفہ سے صادر ہوا ہے ایسا جامع اور پورا کلمہ اور بشارت عامہ ہے جو ہم کو اور ہماری اولاداصحاب احباب حاضر غائب سب کو شامل ہے کیونکہ ہمارا قصد ان حج کے احکامات اور دعاؤں سے جوہر مقام اور ہر موقف پر ادا ہوئیںسب کے دینی و دنیوی کی مصلحتوں کا خیال تھااور یہ قصد اس بشارت کی وجہ سے مقبول ہوا۔خدا کی وہ حمد ہے جو پاک مبارک ہے جو اس کی نعمتوں کو پورا کرلے بلکہ اس کی زاہد کو کافی ہو۔پھر بدھ کے دن ۲۳ذی الحج کو مدینہ شریف پہنچے۔حضرت رسالت پناہ ﷺ سے خوشخبریاں حاصل کیں۔اس مسودہ کو پھر طلب کیا کہ اس پر زائد لکھیں ۔جب مطالعہ کیا تو فرمایا کہ بس یہی کافی ہے اور نہ لکھا ،جعرات کے دن خدا کی رحمت سے ملے۔مولانا شمس الدین فناری رومی اور اہل مدینہ و قافلہ نے آپ کے جنازہ کی نماز پڑھی۔شب جمعہ کو جس مبارک منزل میں اترتے تھے۔
حضرت عباس ؓ کے قبہ شریف کے پاس دفن کیے گئے۔شیخ زین الدین کوانی رحمتہ اللہ علیہ مصر سے ایک پتھر تراش کرلائےاور ان کے قبر کی لوح اس سے بنائی۔اس وجہ سے اور قبور سے ممتاز ہیں۔ایک معتبر شخص جو کہ حضرت کے صاجزادہ خواجہ برہان الدین ابو نصر رحمتہ اللہ علیہ کے خواص میں سے تھے یوں کہتے ہیں کہ خواجہ برہان الدین ابو نصر نے یوں فرمایا ہے جب میرے والد ماجد فوت ہونے لگے تھے میں ان کی خدمت میں حاضر نہ تھا۔جب حاضر ہوا تو آپ کے چہرہ مبارک کو میں نے اس لیے کھولا کہ زیارت کروں۔آپ نے آنکھیں کھولی اور ہنس پڑے تب میرا قلق و ا ضطراب اور بڑھ گیا۔میں آپ کے پاؤں مبارک کی طرف آیااور اپنا چہرہ آپ کے پاؤں کے تلے پررکھ دیا۔ تب آپ نے اپنا پاؤں ادھر کو کھینچ لیا۔جب عجم کے بعض بزرگوں (یعنی سید نعمت اللہؒ)کو یہ خبر پہنچی کہ آپ مدینہ شریف چلے گئے ہیں۔تو یہ الفاظ فرمائے کہ وہیں پاؤں پھیلائےجہاں سے کہ دوڑے تھے۔خواجہ کا ایک مرید کہتا ہے کہ جب حضرت خواجہ نے عرب کا قصد کیا تھا ۔رخصت کے وقت میں نے کہا تھا ،خواجہ آپ چلا تھا۔فرمایا کہ ہاں ہم چلے،ہم چلے۔آپ نے ایک مرید کو یہ مبارک کلمات لکھے تھےکہ اس فقیر کی طبیعت ہمیشہ تمہارے ظاہری باطنی حالات کی طرف متوجہ رہتی ہےاور ہمیشہ اس برادر کی نسبت خدا کی عنایات بے علت کا منتظر رہتا ہے ۔سید الطائفہجنید علیہ الرحمۃنے فرمایاہےان بدت عین من الکرم الحقت اللا حقین با لسابقین یعنی اگر کرم کی نظر ظاہر ہوجائے تو وہ پچھلوں کو پہلوں کے ساتھ ملا دے اور باوجود اس کے معتبر اصل ان دین کے بزرگوں قدس اللہ تعالی اروا حہم اجمعین کے پاس موجود ہے۔۔وہ یہ کہ کوشش کو مت چھوڑ اور بخشش کی امید رکھ۔ہمارے حضرت خواجہ علیہ الرحمۃسے سوال کیا گیا کہ طریقت کیونکر حاصل کرسکتے ہیں؟فرمایا کہ شروع کی پابندی سے اور دوم یہ بعدالمحافظۃ علی الا مر الو سط فی الطعام لا فوق الشبع ولا جموع المفرط وتقلیل منام علی طریق اعتدال المزاج۔یعنی کھانے میں اوسط درجے کی محافظت کرنا نہ تو زیادہ پیٹ بھرے نہ بہت بھوکا رہے۔تھوڑا سوئے اعتدال مزاج کے طریق پر سعی کرنا خصوصاًاحیاء بین العشائیں وقبل الصبح بحیث لا یطلع علیہ احد۔یعنی دونوں عشا کے درمیان جاگنا (مغرب عشا کے درمیان )اور صبح سے ایسے پہلے کہ کسی کو اس پر اطلاع نہ ہو۔۔توجہ سے اپنی طرف ہونا اور خطرات کی نفی کرنا خصوصاًآرزوکا خطرہ حال اور ماضی و استقبالکی نسبت دل کے پردوں کے دور ہونے کے لیے اچھا موثر ہےاور یہ کہ اذا سکت اللسانی عن فضل الکلام نطق القلب مع اللہ سبحانہ واذا نطق اللسا نسکت القلب والصمت علے قسمین صمت باللسان قصمت بالقلب عن خواطر الاکو ان فمن صمت لسانہ ولم یصمت قبلہ و خسف و رزہ ومن صمت لسانہ وقلبہ ظھر لہ سرہ وتحلی لہ ربہ عزوجل ومن لم یصمت بلسانہ ولا بقلبہ کان مملکتہ للشیطان وسخرۃ لہ اعاذنا اللہ من ذالک ومن صمت قبلہ ولم یصمت بلسانہ فھونہ طق بلسان الحکمتہ ساکت عن فضول الکلام رزقنا اللہ تعالے ذالک بفضلہ وکرمہ یعنی جب زبان فضول باتوں سے چپ رہتی ہے تو دل حق سبحانہ کے ساتھ بات کرتا ہے اور جب زبان بولتی ہےتو دل چپ رہتا ہے۔چپ دو قسم پر ایک تو زبان کا چپ رہنا دوسراموجودات کے خطروں سے دل کا چپ رہنا۔پھر جس شخص کی زبان تو چپ رہی لیکن دل چپ نہ رہا۔اس کا بوجھ ہلکا ہوگا اور جس کی زبان اور دل دونوں چپ رہےتو اس کو اس کا بھید ظاہر ہوجائے گا تو وہ شیطان کے قبضہ میں ہوگااور اس کا مسخرہ بنے گا۔خدا ہم کو اس سے پناہ میں رکھے ۔جس شخص کا دل چپ رہتا ہے اور زبان چپ نہیں رہتی۔تو وہ حکمت کی باتیں بولے گا۔فضول کلام سے چپ رہے گا۔خدا تعالی ہم کو اپنے فضل و کرم سے یہ نعمت عطا کرے۔
(نفحاتُ الاُنس)