حضرت خواجہ علاء الدین عطار

حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ

آپ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اول اور نائب مطلق تھے۔ آپ کا نام مبارک محمد بن محمد بخاری ہے۔ دراصل خوارزم سے ہیں۔ جب آپ کے والد نے وفات پائی۔ تو آپ نے ان کے ترکہ سے کوئی چیز قبول نہ کی۔

تحصیل علم:

حالت تجرید میں بخارا کے ایک مدرسہ میں تحصیل علوم میں مشغول ہوگئے۔ طالب علمی ہی کی حالت میں آپ کا عقد حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی سے ہوگیا۔ جب طریق حق  کی طلب آپ کے دل میں پیدا ہوئی تو علوم رسمی کا مطالعہ چھوڑ کر حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور طریقہ اخذ کیا۔ حضرت خواجہ کی آپ پر نظر خاص تھی۔ مجالس میں آپ کو اپنے پاس بٹھا تے اور بار بار آپ کی طرف متوجہ ہوتے۔

 بعضے محرموں نے حضرت خواجہ سے اس کا سبب دریافت کیا۔ فرمایا کہ میں ان کو اپنے پاس بٹھاتا ہوں تاکہ ان کو بھیڑیا نہ کھا جائے۔ ان کے نفس کا بھیڑیا گھات میں ہے۔ اس لیے ہر لحظہ ان کا حال دریافت کرتا رہتا ہوں۔ چنانچہ حضرت خواجہ بزرگ کی توجہات عالیہ سے آپ بہت جلد درجہ کمال پر پہنچ گئے۔ حضرت خواجہ اپنی حیات ہی میں بہت سے طالبوں کی تربیت آپ کے سپرد کردیتے تھے اور فرماتے تھے کہ علاؤ الدین نے ہمارا بوجھ بہت ہلکا کردیا ہے۔

 آپ کو بہت سے انوار و آثار ولایت بدرجہ اتم و اکمل ظہور میں آئے۔ اور آپ کے حسن تربیت اور صحبت کی برکت سے بہت سے طالب دوری اور نقصان کے درجہ سے قرب و کمال کی پیشگاہ پر پہنچ گئے اور مرتبہ کمال و تکمیل پر فائز ہوئے۔ بعض بزرگوں سے سننے میں آیا ہے کہ قدوۃ المحققین سید شریف جرجانی﷫  جو آپ کے اصحاب میں سے تھے بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ جب تک میں شیخ زین الدین ﷫ کی صحبت میں نہ پہنچا رفض سے رہائی نہ پائی اور جب تک خواجہ علاؤ الدین عطار﷫  کی صحبت سے مشرف نہ ہوا۔ میں نے خدا کو نہ پہچانا۔

 حضرت خواجہ علاؤ الدین صاحبِ طریقہ خاص ہیں۔ ان کے طریقہ کو علائیہ کہتے ہیں جس کا ذکر حضرت مجدد الف ثانی نے اپنے مکتوبات (دفتر اول۔ مکتوب 290) میں بالتفصیل کیا ہے۔

کرامات کا بیان

۱۔بخارا میں علماء کی ایک جماعت کے درمیان رؤیت باری تعالیٰ میں مباحثہ ہوا۔ انہوں نے بالا اتفاق خواجہ علاؤ الدین﷫  کو ثالث تسلیم کیا۔ اور خدمت شریف میں حاضر ہو کو طالب فیصلہ ہوئے۔ آپ نے منکرین رؤیت سے جو مذہب معتزلہ کی طرف مائل تھے فرمایا کہ تم تین دن چپ چاپ با وضو ہماری صحبت میں رہو۔ بعد ازاں ہم فیصلہ دیں گے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تیسرے روز کے آخر میں ان پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بیہوش ہوکر زمین پر لوٹنے لگے۔ جب ہوش میں آئے تو نہایت نیاز مندی سے عرض کرنے لگے کہ ہم رؤیت حق پر ایمان لائے۔ اس کے بعد وہ کبھی خواجہ قدس سرہ کی خدمت سے علیحدہ نہ ہوئے۔

۲۔آپ مرض موت میں حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کو موجود دیکھتے اور ان سے باتیں کرتے اور ان کی باتون کو سنتے تھے۔

شفاعت کا مرتبہ

 حضرت خواجہ محمد پارسا ﷫ نے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ علاؤ الدین﷫  اپنی وفات سے سات سال پہلے اوائل شعبان ۷۹۵ھ میں چغانیاں سے حضرت خواجہ بزرگ کے مزار مبارک کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ اور اٹھارہ روز کے بعد بخارا میں پہنچے اور اوائل شوال میں واپس آئے۔ عید رمضان کی رات کو بخارا ہی میں تھے۔ اس رات حضرت خواجہ بزرگ﷫  کے ایک درویش نے واقعہ میں دیکھا کہ ایک نہایت بڑی شاندار بارگاہ ہے۔ حضرت خواجہ علاؤ الدین حضرت خواجہ بزرگ کے ساتھ اُس بارگاہ کے قریب ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ بارگاہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ حضرت خواجہ بزرگ زیارت کے لیے اُس بارگاہ میں داخل ہوئے۔ اور تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے نہایت خوش و خرم نکلے۔ اور فرمایا کہ مجھے یہ کرامت عطا کی گئی ہے کہ جو شخص میری قبر کے گرد چاروں طرف سو سو فرسنگ کے اندر دفن ہوگا میں باذن الٰہی اس کی شفاعت کروں گا۔ اور عطار کو ان کی قبر سے ہر طرف چالیس فرسنگ تک شفاعت کا مرتبہ عطا ہوا ہے۔ اور میرے محبوں اور پیروی کرنے والوں کو ان کی قبروں سے ایک ایک فرسنگ تک شفاعت کرنے کا مرتبہ ملا ہے۔

وصال مُبارک:

بروز دوشنبہ ۲ ماہ رجب ۸۰۲ھ میں آپ بیمار ہوگئے۔ اور چار شنبہ کی رات ۱۸ رجب ۸۰۲ھ میں نماز عشاء کے بعد وصال فرمایا۔ مزار مبارک قصبہ چغانیاں میں ہے۔ [۱]

 [۱۔ چغانیاں جسے عربی میں صغانیاں کہتے ہیں ماوراء النہر میں ایک وسیع علاقہ کا نام ہے جس میں اسی نام کا قصبہ بھی ہے (معجم البلدان یا قوت جموی) واضح رہے کہ دریائے جیحوں سے مشرقی علاقہ کو ماوراء النہر اور مغربی کو خراسان کہتے ہیں۔]

ارشاداتِ عالیہ

 حضرت خواجہ محمد پارسا قدس سرہ نے وہ کلمات قدسیہ جمع کیے ہیں جو حضرت خواجہ علاؤ الدین قدس سرہ نے مجالس صحبت میں ارشاد فرمائے ہیں۔ ان میں سے بعضے بہ نیت تیمن و تبرک ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔

۱۔ریاضت سے مقصود تعلقات جسمانی کی پوری نفی اور عالم ارواح و عالم حقیت کی طرف توجہ تام ہے اور سلوک سے مقصود یہ ہے کہ بندہ اپنے اختیار و کسب سے ان تعلقات سے جو موانع راہ میں گزر جائے اور ان تعلقات میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر پیش کرے۔ جس تعلق سے گزر جائے وہ علامت ہے اس امر کی کہ وہ تعلق مانع نہیں اور غالب نہیں۔ اور جس تعلق میں وہ ٹھیر جائے اور اُس سے اپنی دلبستگی پائے تو جان لے کہ وہ تعلق اُس کے راستے کا مانع ہوگیا ہے۔ اُس قطع کی تدبیر کرے۔ ہمارے حضرت خواجہ بزرگ جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو از روئے احتیاط فرما دیتے کہ یہ فلاں شخص کا ہے۔ اور بطور عاریت پہنتے۔

۲۔مُرشد کے ساتھ تعلق اگرچہ حقیقت میں غیر ہے اور آخر میں اس کی بھی نفی کرنی چاہیے مگر ابتد میں یہ تعلق وصول کا سبب ہے۔ اور اس کے ماسوا کی نفی کرنا لوازم سلوک سے ہے۔ ہر طرح سے مرشد کی خوشنودی طلب کرنی چاہیے۔

۳۔بڑے بڑے مشائخ قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم کا ارشاد ہے۔

 التوفیق مع السعی۔

 (توفیق کوشش کے ساتھ ہے)۔

اسی طرح مرشد کی روحانیت کی مدد طالب کے لیے بقدر کوشش طالب کے ہوتی ہے۔ جو شیخ مقتدا کے امر سے ہو۔ بغیر اس کوشش کے مرشد کی مدد کو بقا نہیں۔ کیونکہ طالب کی طرف شیخ کی توجہ چند روز سے زیادہ باقی نہیں رہتی۔

۴۔جب ملک [۱] و ملکوت طالب سے پوشیدہ فراموش ہوجائے۔ تو یہ مرتبۂ فنا ہے۔ اور جب سالک کی ہستی بھی سالک سے پوشیدہ ہوجائے تو یہ مرتبہ فناء فنا ہے۔ [۱۔ ملک سے مراد عالم شہادت اور ملکوت سے مراد عالم غیب ہے۔ اسی طرح جبروت سے عالم انوار قاہرہ اور لاہوت سے عالم ذات حق مراد ہے۔]

۵۔جباری کی صفت کے دیکھنے سے مقصود تضّرع و زاری اور توبہ و انابت کی صفت کا ظہور ہے۔ اور اس دید کی صحت کی نشانی مناجات کی طرف مائل ہونا ہے۔ نہ کہ خرابات (بت خانہ)

 یعنی اپنے نفس کی طرف ۔

فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا۔ (سورۃ شمس)

 پس جی میں ڈالی اُس کے بدکاری اُس کی اور پرہیز گاری اُس کی۔

 اِس میں حکمت یہ ہے کہ جب رضا کا ارادہ میلان دیکھے تو شکر کرے اور اُسی پر چلے۔ اور جب عدم رضا کا ارادہ و میلان دیکھے تو تضرع کرے اور حق سبحانہٗ کی طرف رجوع کرے اور استغناء کی صفت سے ڈرے۔

۶۔خدا تعالیٰ کی سابقہ عنایت ازلی کا خیال کرنا چاہیے اور اُس عنایتِ بے علت کی امیدواری سے اور اس عنایت کی طلب سے ایک لحظہ غافل نہ ہونا چاہیے اور اپنےآپکو  استغناء سے بچانا چاہیے۔ اور حق سبحانہٗ کی تھوڑی چیز کو بڑا سمجھنا چاہیے۔ اور استغنائے حقیقی کے ظہور سے ڈرتے اور کانپتے رہنا چاہیے۔

۷۔ولایت جب ثابت ہوتی ہے کہ سالک کو اوصاف حیوانی کے ساتھ نہ چھوڑیں کہ اگر کوئی قصور سرزد ہو تو باز پرس ہو۔

الا ان اولیاء اللہ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ (یونس ع ۷)

آگاہ رہو کہ خدا کے دوستوں کے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ فرمایا کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اولیاء اللہ کو سابقہ اوصاف حیوانی کے ظہور کا خوف نہیں۔ کیونکہ مشائخ کا ارشاد ہے الفانی لا یرد الیٰ اوصافہ۔ یعنی صاحب فناء اپنے اوصاف کی طرف نہیں لوٹایا جاتا۔

۸۔مشائخ کبار قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم کے مزارات سے زیارت کرنے والا اسی قدر فیض لے سکتا ہے جس قدر اس نے اس بزرگ صفت کو پہچانا ہے اور اس صفت کی طرف متوجہ اور اس میں مستغرق ہوا ہے۔ اگرچہ مزارات مقدسہ کی زیارت میں ظاہری قرب کا بہت اثر ہے۔ لیکن حقیقت ارواح مقدسہ کی طرف توجہ کے لیے ظاہری دوری مانع نہیں ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو وارد ہے

صلوا علی حیثما کنتم

 (تم مجھ پر درود بھیجو جہاں کہیں تم ہو)

 یہ اس امر کا بیان اور دلیل قاطع ہے۔ اور اس زیارت میں اہل قبور کی صفت کو پہچاننے کے مقابلہ میں ان اہل قبور کی مثالی صورتوں کا مشاہدہ چنداں وقعت نہیں رکھتا۔ بایں ہمہ حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ فرماتے تھے۔ کہ خالق سبحانہ کا مجاور ہونا مخلوق کی مجاورت سے احق و اولیٰ ہے۔ اور آپ اکثر یہ بیت پڑھا کرتے تھے۔   ؎

تو تا کے گور مرداں را پرستی

بگرد کار مرداں گرد و رستی

 

اکابر دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات کی زیارت سے مقصود یہ ہونا چاہیے کہ تو حق سبحانہ کی طرف ہو اور اس برگزیدہ حق کی روح کو خدا کی طرف کمال توجہ پیدا کرنے کا وسیلہ بنائے۔ مخلوق کے ساتھ تواضع کی حالت میں چاہیے کہ اگرچہ ظاہر میں تواضع مخلوق کے ساتھ ہو مگر حقیقت میں خالق عزوجل کے ساتھ ہو۔ کیونکہ مخلوق کے ساتھ تواضع اس وقت پسندیدہ ہے کہ خالص خدائے عزوجل کے لیے ہو۔ بدیں معنی کہ مخلوق کو خالق کی قدر و حکمت کے آثار کا مظہر سمجھے ورنہ یہ تصنع ہے نہ کہ تواضع۔

۹۔مراقبہ کا طریق نفی و اثبات کے طریق سے اعلیٰ اور اقرب بجذبہ الہیہ ہے۔ مراقبہ [۱] سے وزارت اور ملک و ملکوت میں تصرف کے مرتبہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ خطرات سے آگاہی اور دوسرے پر بخشش کی نظر سے دیکھنا اور اس کے باطن کو منور کرنا دوام مراقبہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اور مراقبہ کے ملکہ سے جمعیت خاطر کا دوام اور دلوں میں قبولیت کا دوام حاصل ہوتا ہے۔ اس حالت کو جمع و قبول کہتے ہیں۔ [۱۔ حضرت خواجہ محمد معصوم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کو حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ سے منسوب کیا ہے۔ دیکھو مکتوبات معصومیہ۔ دفتر ثانی۔ مکتوب ۱۱۳۔]

۱۰۔      خاموشی تین صفتوں سے خالی نہ ہونی چاہیے۔ خطرات کی نگہداشت یا دل کے ذکر کا مطالعہ جو گویا ہوگیا ہو یا ان حالات کا مشاہدہ جو دل پر گزرتے ہیں۔

۱۱۔خطرات مانع نہیں۔ ان سے بچنا دشوار ہے۔ خطرات کا روکنا بڑا کام ہے۔ بعضوں کی رائے ہے کہ خطرات کا کچھ اعتبار نہیں۔ لیکن خطرہ کو متمکن نہ ہونے دینا چاہیے۔ کیونکہ اس کے متمکن ہونے سے فیض کی انتڑیوں میں سدہ (رکاوٹ)پیدا ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ باطن کے حالات کی جستجو چاہیے۔ اور حضور یا غیبت میں مرشد کے حکم سے سانس لے کر اپنے آپ کو خالی کرنا بظاہران خطرات کی نفی کے لیے ہے جو باطن میں متمکن ہوگئے ہوں۔ اس کا سبب یہ ہے ہر معنی ایک صورت کے لباس میں ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ہر وقت اپنے آپکو  ان خطرات و موانع سے جو متمکن ہوگئے ہوں سانس لے کر خالی کرنا چاہیے۔

۱۲۔اپنے آپ سے غیبت اور حق سبحانہ کے ساتھ حضور بقدر عشق کے ہوتا ہے اور افراط محبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عشق جس قدر زیادہ ہوتا ہے۔ اسی قدر عاشق کو اپنے آپ سے غیبت اور معشوق کے ساتھ حضور زیادہ ہوتا ہے۔

۱۳۔اِس زمانہ میں وجوہ معاش میں سے تجارت کی نسبت زراعت اور باغبانی اور باغبانی حلیت (حلال ہونے) سے اقرب ہے۔

۱۴۔اہل اللہ کی صحبت میں ہمیشہ رہنا عقل معاد کی زیادتی کا ذریعہ ہے۔

۱۵۔صحبت سنت موکدہ ہے۔ ہر روز یا ہر دوسرے روز اولیاء اللہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے۔ اور ان کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اگر ظاہری دوری کا اتفاق ہو۔ تو ہر مہینے یا ہر دوسرے مہینے اپنے ظاہری و باطنی حالات کو خطوں کے ذریعہ سے عرض کرنا چاہیے۔ اور اپنے مکان میں ان کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھنا چاہیے تاکہ غیبت کلی واقع نہ ہو۔

۱۶۔مرض موت میں آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ رسم و عادت کو چھوڑو اور رسمِ خلق کے خلاف کرو اور ایک دوسرے سے اتفاق رکھو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بشریت کی عادات و رسوم کے اٹھادینے کے لیے تھی۔ تم ایک دوسرے کی مدد و تائید کرو۔ اور تمام کاموں میں عزیمت پر عمل کرو۔ جہاں تک ہوسکے عزیمت کو ہاتھ سے نہ دو۔ اہل اللہ کی صحبت سنت موکدہ ہے۔ اس سنت پر خصوصاً و عموماً ہمیشگی کرو۔ اور صحبت کو ہر گز ترک نہ کرو۔ اگر تم امور مذکورہ پر استقامت اختیار کرو گے۔ تو اس استقامت سے تمہیں وہ حاصل ہوگا جو میری تمام عمر کا حاصل ہے۔ اور تمہارے حالات ترقی پر ہوں گے۔ اور اگر تم ان وصیتوں پر عمل نہ کرو گے تو پریشان ہو جاؤ گے۔ (رشحات۔ نفحات)

(مشائخِ نقشبندیہ)

تجویزوآراء