حضرت حبیب عجمی
آپ شیوخ طریقت میں صاحب صدق و صفا مالک جود و سخا اور حامل ہمت و مروّت تھے۔ خوارق و کرامات میں ممتاز اور بلند پایہ تھے۔ ابتدائی زندگی میں بڑے دولت مند تھے۔ اپنی دولت سود پر لگادیا کرتے تھے۔ اور سود کی آمدنی سے ہی زندگی بسر کرتے۔ ایک دن ایک مقروض کے گھر گئے تاکہ سود لے آئیں۔ قرض دار تو گھر پر موجود نہ تھا۔ مگر اس کی بیوی موجود تھی۔ ح بیب عجمی نے اُس کی بیوی کو اصرار کیا کہ جب تک سود نہ وصول کرلوں، میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ اس عورت نے کہا: میرا خاوند موجود نہیں۔ اور گھر میں ایک بکری کے سوا کوئی چیز نہیں یہ بکری بھی آج چند مہمانوں اور بچوں کے لیے ذبح کردی ہے۔ ہاں اس کے سری پائے موجود ہیں اگر چاہو تو تمہیں دے دوں حبیب اپنی سخت گیری اور حرص کے پیش نظر بکری کے سری اور پائے لے آیا اور گھر آکر اپنی بیوی کو کہنے لگا اسے بھون کر تیار کرو۔ بیوی نے کہا: آج تو گھر میں ایندھن بھی نہیں کس طرح تیار کروں۔ اسے یاد آیا کہ ایک لکڑ ہارا بھی اس کا مقروض ہے۔ اس کے پاس جاکر سود میں لکڑیاں لے آیا۔ اسی طرح ایک نانبائی سے سود میں پکی پکائی روٹیاں بھی لینے گیا عورت نے سری پائے پکانے کے لیے ہانڈی چولہے پر رکھی آگ جلائی تیار ہونے پر ایک برتن میں سالن ڈالا تو باہر سے کسی فقیر کی آواز آئی کھانے کے لیے کچھ دو عورت نے بتایا کہ اس کا خاوند ابھی آتا ہے تم انتظار کرو ۔ تمہیں روٹی اور سالن ملے گا سائل نا امید ہوکر آگے چلا گیا۔ عورت نے برتن میں چمچہ ہلایا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شورے کی بجائے برتن میں خون تیر رہا ہے۔ خاوند گھر آیا تو عورت نے بتایا کہ تمہاری بد اعمالیوں کے منحوس اثر سے آج یہ واقعہ ہوا ہے۔ حبیب نے چمچہ ہاتھ میں لے کر ہانڈی میں ڈالا تو واقعی ساری ہانڈی خون سے بھری نظر آئی۔ حبیب یہ واقعہ دیکھتے ہی سود کی کمائی سے تائب ہوگیا۔ اس واقعہ سے اسے ساری رات نیند نہ آئی۔ دوسرے دن اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنے قرض داروں سے صرف اصل مال لے گا سود کا مطالبہ نہیں کرے گا۔
جمعہ کا دن تھا۔ راستے میں لڑکے گیند بلا کھیل رہے تھے۔ حبیب کو دیکھتے ہی کہنے لگے ہٹ جاؤ! حبیب سود خوار آرہا ہے۔ اس کا منحوس سایہ ہم پر نہ پڑے کہیں ہم بھی اس کی طرح بد بختی کا شکار نہ ہوجائیں۔ یہ بات سنتے ہی حبیب کا دل زخمی ہوگیا سوچنے لگا میں اس قدر بد بخت ہوں کہ شہر کے بچے بھی میرے سائے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ اسی وقت شہر کے معروف ولی اللہ حضرت خواجہ حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ سود تو سود تمام قرض داروں کا اصل مال بھی معاف کرنے کا اعلان کردیا۔ اور اپنے گھر کو لوٹا۔ راستے میں لڑکوں کے ایک غول کو کھیلتے دیکھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی کہا ہٹ جاؤ۔ حبیب آ رہے ہیں یہ توبہ کرکے آئے ہیں ان کا ادب کرو ایسا نہ ہو ہماری دھول ان پر پڑے اور ہم بے ادبی کے مرتکب ہوں۔ حبیب دل میں کہنے لگے۔ سبحان اللہ! آج میں نے توبہ کی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے خیالات بدل دیے ہیں گھر پہنچے تمام قرض داروں کو بلایا اور قرضہ معاف کرنے کے کاغذات تحریر کردیے گھر کا سارا ساز و سامان اللہ کی راہ میں تقسیم کردیا حبیب اور اس کی بیوی کے پاس صرف تن کے کپڑے باقی رہ گئے۔ باقی زندگی دریائے فرات کے کنارے ایک حجرے میں یاد الٰہی میں گزار دی۔
ایک دن حبیب عجمی کی بیوی نے تنگدستی اور فقر و فاقہ کی شکایت کی اور مشورہ دیا کہ وہ گوشہ نشینی کی بجائے کچھ کمائے، حبیب نے کہا: فکر نہ کرو میں صبح سے مزدوری پر جاؤں گا۔ اور تمہارے لیے بہت کچھ کما کر لاؤں گا۔ دوسرے روز بھی ایک کونے میں جاکر سارا دن یاد الٰہی میں گزار دیا۔ رات کو بیوی نے مزدوری طلب کی، تو آپ نے بتایا کہ آج جس کی مزدوری کی ہے اس نے نقد نہیں دی فکر نہ کرو کل لاؤں گا وہ ایسا شخص ہے کہ بے طلب مزدوری ادا کردیا کرتا ہے۔ مجھے روزانہ طلب سے شرم محسوس ہوتی ہے۔ اب میں دس دن کے بعد مزدوری طلب کروں گا۔ عورت نے بڑی تکلیف سے دس دن نکالے دسویں دن حبیب گھر کو آ رہے تھے دل میں شرما رہے تھے آج بھی خالی ہاتھ ہوں۔ بچوں کے لیے کیا لے کر گھر جاؤں۔
ادھر اللہ تعالیٰ نے حبیب کے گھر ایک شخص کو بھیجا جو ایک بوری آٹا اور ایک بھنی ہوئی بکری حبیب کی بیوی کو دے آیا۔ ایک اور شخص گھی اور شہد پہنچا آیا اور ایک اور شخص تیس ہزار دینار کی تھیلی دے کر کہنے لگا آپ کے خاوند جس شخص کے گھر مزدوری کرتے ہیں۔ اس نے ساری چیزیں بھیجی ہیں۔ اب حبیب کو کہہ دیں کہ اگر وہ زیادہ محنت سے کام کرے گا تو اسے زیادہ مزدوری دی جائے گی۔ رات کے وقت حبیب شرم سار خالی ہاتھ گھر لوٹے اور اپنی بیوی کو جواب دینے کو کوئی بہانہ سمجھ میں نہ آ رہا تھا گھر سے مزے دار کھانے کی خوشبو آئی بیوی خوش خوش سامنے آئی کہ جس شخص کے پاس کام کرتے ہو وہ تو بڑا سخی ہے یہ چیزیں اور اتنی رقم پہنچا کر کہہ گیا ہے کہ اور محنت کرو زیادہ مزدوری ملے گی۔
ایک روز خواجہ حسن بصری حبیب عجمی کے گھر تشریف لائے۔ حبیب نے آپ کی خدمت میں ایک روٹی اور نمک پیش کیا۔ خواجہ نے روٹی کھانی شروع کی تو دروازے پر ایک سائل نے آواز دی تو حبیب نے حضرت خواجہ کے دستر خوان سے نمکدانی اٹھائی اور سائل کو دے دی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا: حبیب! تم علم نہیں نہیں پڑھے۔ اگر تمہیں علم ہوتا تو تم جانتے کہ مہمان کا حق کسی دوسرے کو نہیں دیا جاتا۔ اگر ایسی صورت پیش آئے تو ساری چیز دینے کی جائے کچھ مقدار دے کر سائل کو راضی کرنا چاہیے دونوں بزرگ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک غلام کھانوں سے سجا ہوا ایک طباق اٹھائے اندر آیا اور ایک تھیلی جس میں دینار تھے۔ لاکر سامنے رکھ دیے۔ حضرت حبیب نے عرض کی: استاد مکرم! آپ کو علم تو تھا اگر یقین بھی ہوتا تو کس قدر اچھی بات ہوتی ۔
ایک دن حضرت خواجہ حسن بصری شام کے وقت حبیب عجمی کے حجرے کے سامنے سے گزرے دیکھا کہ شام کی نماز کے لیے حبیب نے تکبیر کہی ہے اور نماز میں مشغول ہو رہے ہیں خواجہ حسن نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز شروع کردی دورانِ قراءت حبیب عجمی نے سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے ہائے سطی کی آواز ہائے ہوز کی طرح نکالی جس طرح عام عجمی تمیز نہیں کرتے نماز سے فارغ ہوئے۔ تو خواجہ حسن نے فرمایا: غلط قراءت کرنے والے حبیب عجمی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، کیونکہ اس طرح تلاوت سے تو معنے بدل جاتے ہیں چنانچہ آپ نے نماز کا اعادہ کیا۔ رات کو خواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجہ حسن بصری کو فرمایا تم میرے حبیب کے لفظوں کی وجہ سے نماز لوٹاتے رہے ہو۔ کاش تم اس کے دل کو بھی دیکھ لیتے کہ میرا کلام کس دَرد اور خلوص سے پڑھتا ہے۔
ایک دن حجاج بن یوسف نے حکم دیا کہ حسن بصری کو گرفتار کرکے میرے سامنے لایا جائے تاکہ اس کا سر قلم کروں۔ حضرت خواجہ اپنے مکان سے بھاگ کر حبیب عجمی کے حجرے میں جا چھپے۔ سپاہی آپ کے حجرے تک گئے۔ اور حبیب سے پوچھا یہاں حسن تو نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: وہ میرے حجرے میں نظر نہیں آتے۔ سپاہی اندر گھسے تو انہیں حسن نظر نہ آئے باہر نکلے تو کہنے لگے حجاج کو آپ کے بارے میں بڑا حسن اعتقاد ہے مگر آپ جھوٹ بول رہے ہیں ہم نے حسن کو ابھی ابھی آپ کے حجرے میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: بات درست ہے وہ ابھی ابھی اندر داخل ہوا۔ مگر تمہیں نظر نہ آئے تو کیا کیا جائے۔ سپاہی پھر اندر گئے مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ مایوس واپس آئے اور چلے گئے۔ حضرت حسن بصری کہنے لگے حبیب تم نے تو مروادیا تھا یہ حق استاد ادا کر رہے ہو۔ کہ تم نے سپاہیوں کو روکنے کی بجائے اندر بھیج دیا۔ آپ نے فرمایا: استادِ محترم میری راست گوئی آپ کی نجات کا باعث بن گئی تھی۔ اگر جھوٹ بولتا تو دونوں گرفتار کرلیے جاتے۔
ایک دن حبیب اپنے گھر میں بیٹھے تھے، گھر میں سخت اندھیرا تھا۔ آپ کے ہاتھ سے سوئی گر پڑی۔ نور کی ایک شعاع اُبھری سارا گھر روشن ہوگیا۔ حبیب نے سوئی اٹھائی اور اپنا کام کرنے لگے۔
تذکرہ نگاروں نے آپ کا سن وصال ۱۵۱ھ لکھا ہے مگر مخبر ا واصلین کے مصنف نے ۱۲۰ھ اور ۱۴۱ھ بھی لکھا ہے۔
آں حبیب خدا حبیب اللہ |
|
اہل صدق و صفا حبیب اللہ |
||||
یوسف |
محبوب زمان |
عالی جاہ |
محب کامل |
|
||
۱۵۶ |
۱۵۶ |
۱۲۰ |
۱۴۱ |
|
||
تاریخ ہائے وفات ہیں۔
(خزینۃ الاصفیاء)