حضرت خواجہ نظام الدین محمد اولیاء

سلطان المشائخ برہان الحقائق اولیائے دین کے سردار، اصفیائے عالم یقین کے پیشوا، عالم علوم ربانی، کاشف اسرار رحمانی، ظاہر و باطن میں آراستہ، اپنے وجود مبارک میں امور عالم سے پیراستہ، خدا تعالیٰ کی صفات کے شیدا، باری تعالیٰ کے عاشق، کان کرامت کے معدن صورت لطافت کے مخزن، اولیاء اللہ کے زمرہ میں کثرتِ آہ و زاری کے ساتھ مصروف اصفیا کے حلقوں میں برگزیدہ اوصاف سے موصوف یعنی سلطان المشائخ نظام الحق والحقیقۃ والشرح والدین، انبیاء مرسلین کے وارث سید سلطان الاولیا نظام الدین محبوب الٰہی۔ بن سید احمد بن سید علی بخاری چشتی دہلوی قدس اللہ اسرارہم العزیز ہیں یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔

ذاتے کہ در لطافت طبع و کرامتش

مثلش نبود و نیز نبا شد دریں جھان

(وہ ایک ایسا مقدس ذات شخص تھا جس کی نظیر لطافت طبع اور کرامت میں دنیا میں نہ تو پہلے ہی تھی نہ آئندہ ہوسکتی ہے۔)

امیر خسرو سلطان المشائخ کی تعریف میں کیا خوب فرماتے ہیں۔

قطب عالم نظام ملت و دین
و زجنید و زشبلی و معروف

 

کافتاب کمال شد رخ او
یاد گارے است ذات فرخ او

 

(جناب نظام الدین قطب عالم کا رخ انور آفتاب کمال تھا ان کی ذات مبارک جنید اور شبلی اور معروف کرخی کی ایک بے مثل یاد گار تھی۔)

آپ کا دریا جیسا دل کیا ہی دل تھا جو ہر لحظہ و لمحہ عالم غیب کے ساقی سے چھلکتے ہوئے پیالے ومقاھم ربھم شربا طھورا کے نوش کرتا تھا۔ ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔

دریا کشم از کف تو ساقی

نگذا رم نیم جرعہ باقی

(ساقی تیرے ہاتھ سے دریا پی جاؤں اور آدھا گھونٹ باقی نہ چھوڑوں)

با وجود اُس کے دوست کے اسرار میں سے تِل بھر بھی ظاہر نہ کرتے تھے جیسا کہ اکثر اوقات یہ مصرعہ زبانِ مبارک پر جاری ہوتا تھا۔

مر دان ھزار دریا خور دند تشنہ رفتند

(مردان راہ خدا ہزاروں دریا کے پینے کے بعد بھی پیا سے جاتے ہیں)

یہ کس درجہ قوت و حوصلہ تھا کہ دم واپسیں تک حالت صحوہی میں رہے۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

جنید راکہ زاصحاب صحو میگیر ند
برفت راہ پیمبر مدام پے برپے

 

بحسب قدرش اور انبود این مقدار
چہار یار نبی رابگشت پنجم یار

 

(لوگ جنید کو اصحاب صحو کے زمرہ میں شمار کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کی قدر و مرتبے کے سامنے وہ کچھ بھی قدر نہ رکھتے تھے۔ چونکہ یہ ہمیشہ پیغمبر خدا کی راہ چلتے تھے اس لیے نبی کے چار یاروں کے بعد یہ پانچویں یار ہوئے۔)

اگرچہ اکثر اوقات آپ کا دل مبارک غلبۂ عشق سے موجزن رہتا تھا لیکن قوت صحو کی وجہ سے ہمیشہ دوست کے اسرار و رموز کی کامل طور پر نگرانی کرتے ہاں اس کے بدلے میں آہ سرد سینۂ مصفی سے کھنچتے اور پر نم آنکھوں سے گرما گرم خون آلود آنسوؤں کی ندیاں بہاتے تھے۔ خواجہ شمس الدین دبیر نے کیا خوب کہا ہے۔

آہ سر بستہ من اشک مراد ردل گفت

خیز بارے تو برون روکہ گذر یافتۂٖ

شیخ سعدی اسی معنی میں خوب کہتے ہیں۔

گرفتم آتش دل در نظر نمے آید

نگاہ مے نکنی آب چشم پیدارا

(میرے دل میں آگ بھڑک رہی ہے لیکن نظر نہیں آتی کیا تو میری آنسوؤں کی ندی کا ظاہر نہیں دیکھتا ہے)

شیخ عطار کہتے ہیں۔

عاشقی چیست ترک جان گفتن

سِرِّ کونین بے زبان گفتن

راز ھائے کہ در دل پر خونست

جملہ از چشم خون فشاں گفتن

(جان کو ترک کر دینے اور کونین کے بھید مخفی رکھنے کا نام عاشقی ہے اور جو راز کہ دل پر خون میں پوشیدہ ہیں انہیں خون فشاں آنکھوں سے ظاہر کرنے کا نام عاشقی ہے۔)

اگرچہ یہ بادشاہ دین و اہل محبت اور شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے یاروں سے پیچھے ہوئے ہیں۔ خاقانی کہتے ہیں۔

بعد از سہ مراتب آدھی زاد
گل باھمہ خرمی کہ دارد

 

بعد از سہ کتب رسید فرقان
از بعد گیاہ رسد ببستان

 

(تین مراتب کے بعد آدمی پیدا ہوتا ہے اور تین کتابوں کے بعد قرآن نازل ہوا پھول اگرچہ شادابی و تازگی رکھتا ہے لیکن گھاس کے بعد باغ میں پہنچتا ہے۔)

لیکن خدا تعالیٰ کے عشق و محبت میں اپنے تمام یاروں سے اعلیٰ درجہ رکھتے اور بڑے بڑے مشائخ پر سبقت لے گئے تھے یہ ضعیف کہتا ہے۔

زمین رابآسمان نسبت نباشد

فلک با عرش کے دار دمساواۃ

(زمین کو آسمان سے کچھ نسبت نہیں فلک عرش سے کبھی برابری نہیں کرسکتا)

اور دین کے شہسواروں کے میدان سے محبت کی گیند جوان مرد باشاہوں کی طرح اچک لے گئے تھے۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

تو بادشاہی و بیچار گان اسیر کمند

توشہ سواری و عشاق خاکپای سمند

تو بادشاہ ہے اور بیچارے کمند کے قیدی۔ تو شہسوار ہے اور عشاق گھوڑے کے پاؤں کی خاک ہیں)

اس حقیر و ذلیل بندہ کو اس بات کی ذرا بھی طاقت و توانائی نہیں کہ ایسے اولولغرم بادشاہ دین کی تعریف اس گندی اور نا پاک زبان سے کرے یہ ضعیف کہتا ہے۔

بدین زبان ملوث مراچہ زھرہ بود

کہ وصف ذات تو گویم من شکستہ گدا

(اس گندی زبان سے مجھ شکستہ گدا کو اتنی طاقت کہاں کہ تیری ذات کی تعریف بیان کروں۔)

اسی بارہ میں ایک بزرگ کہتے ہیں۔

آسمان راچہ ثنا گوید بیچارہ زمین

مدح خورشید چہ داند بسزا گفت سھا

(زمین بیچاری آسمان کی کیا تعریف کرسکتی ہے اور آفتاب کی تعریف سہا (ایک ستارے کا نام) کیا جان سکتا ہے)

خدا خوب جانتا ہے کہ جس وقت اس بادشاہ کی خوبصورتی اور جمال جہاں آرا کا خیال دل میں گزرتا ہے تو میں بالکل مدہوش اور حیرت زدہ ہو جاتا ہوں اور دیوانوں کی طرح اُلٹ پیچ کرنے لگتا ہوں کہ کیا لکھوں۔ خلاصہ یہ کہ اس لا ثانی ذات کے اوصاف عبارت کی قید اور استعارہ کے تحت میں نہیں آسکتے ہیں ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔

دل خواست کہ آرد بعبارت
شمع رخ او زبا نۂ زد

 

وصف رخ او باستعارت
ھم عقل بسوخت ھم عبارت

 

دل نے چاہا کہ اس کے رخ کا وصف استعارہ کے پیرایہ میں قلم بند کرے لیکن اس کی شمع رخ ایسی بھڑکی جس نے عقل و عبارت دونوں کو جلا دیا)

شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

نشان پیکر خوبت نمیتو انم داد

کہ از تامل آن خیرہ میشود بصرم

(تیرے خوبصورت جسم کا نشان میں دے نہیں سکتا کیونکہ اسے دیکھنے سے میری آنکھ میں چکا چوند پیدا ہوتی ہے۔)

آنجام کار میں اپنے عجز کا اعتراف کرتا ہوں۔

ترا صفت دل بیچارہ کے تواند کرد

بعجز خویشتن اقرار میکند اینک

(چونکہ دل بیچارہ تیری تعریف نہیں کرسکتا اس لیے اپنے عجز کا اقرار کرتا ہوں۔)

اسی بارہ میں ایک بزرگ یوں فرماتے ہیں۔

ماکہ در شکل یار حیرانیم

بسر اوصاف او کجا دانم

(جب ہم یار کی شکل ہی میں حیران ہیں تو اس کے اوصاف کا بھید کیونکر جان سکتے ہیں۔)

لیکن جب حضرت سلطان المشائخ کی محبت کی آگ کا شعلہ بھڑکتا ہے اور دل کے آئینہ کو جو بشریت کی کدورت سے آلودہ ہے انوار محبت سے روشن و مجلا کرتا ہے تو اس وقت یہ ضعیف  بالکل بے طاقت ہوجاتا ہے اور اس کے جسم کے ہر رونگٹے کے نیچے سے ایک شوق کا نعرہ پیدا ہوتا ہے۔

نعرۂ شوق مے زنم تار مقے است درتنم

(جب تک میرے جسم میں رمق باقی ہے شوق کا نعرہ مارتا ہوں۔)

خدا تعالیٰ سے امید ہے کہ اس درگاہ بے نیازی کے عاشقوں کے سردار کے دریائے محبت سے اس بیچارہ کے حلق میں ایک ایسا قطرہ ٹپک جائے۔

امیر خوبان آخر گداے کوئے توام

(اے معشوقوں کے سر تاج آخر میں بھی تو تیرے کوچہ کا گدا ہوں۔)

یہ ضعیف کہتا ہے۔

ز درد عشق مے میرد محمد جرعہ اے ساقی

ازاں دریایٔ عشق آمیز تا اوبے خبر گردد

(اے ساقی سید محمد درد عشق سے جان بلب ہے اسے عشق آمیز دریا سے ایک ایسا لبریز جام دے کہ بے خبر ہوجائے۔)

کہ اس بادشاہ دین کے جمال عشق میں قبر تک رقص کرتا ہوا جائے۔

شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

گر رسد از تو بگر شم کہ بمیر اے سعدی

تالب گور با عزاز کرامت بروم

ور بدانم بدر مرگ کہ حشرم باتست

از لحد رقص کنان تا بقیامت بروم

(اگر تیری طرف سے میرے کانوں میں یہ آواز پہنچے کہ سعدی مر جاتو میں لب گور تک عزت و کرامت سے جاؤں اور اگر موت کے دروازے پر مجھے معلوم ہوجائے کہ میرا حشر تیرے ساتھ ہوگا تو لحد سے میدان قیامت تک رقص کنان جاؤں۔)

لیکن آپ کا اعتقاد صادق اور محبت کامل ہے تو یقین واثق ہے کہ مجھ کم ترین کا حشر سلطان المشائخ کے غلاموں ہیں ہوگا۔ اور یہ کم ترین آپ کے علم محبت کے نیچے جگہ پائے گا کیونکہ لوگوں نے کہا ہے کہ طالب اور کوشش کرنے والا کبھی نہ کبھی اپنے مقصد پر ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔ من طلب شیئا وجد وجد (ترجمہ: جس نے کوئی شے طلب کی اور اس کے واسطے کوشش کی اس کو پالیا۔)

ایک ایسا مقولہ ہے جو  اسی قسم کے موقع پر بطور ضرب مثل کے بولا جاتا ہے۔

 

حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز

کا حسب و نسب

واضح ہو  کہ حضرت  سلطان المشائخ  کے آباء کرام اور  راجداد  عظام شہر بخارا کے رہنے والے ہیں جو علوم و فنون کا مرکز اور  ورع و تقویٰ کا سرچشمہ ہے۔ سلطان المشائخ کے بزرگوار دادا خواجہ علی بخاری کے نام  سے پکارے جاتے تھے اور واجب الاحترام نانا خواجہ عرب کے نام کے ساتھ شہرت رکھتے تھے۔ یہ دونوں بزرگ باہم مصاحب اور ایک دوسرے کے بھائی تھے دونوں ایک ساتھ بخارا کو چھوڑ کر لاہور  میں تشریف  لائے اور  پھر لاہور سے بداؤن میں پہنچے چونکہ اس عہد میں شہر بداؤن اسلام کا قبہ اور علوم کا مسکن تھا اس وجہ سے ان دونوں حضرات  نے یہاں سکونت  اختیار کی۔  خواجہ عرب دولتِ علم کے علاوہ صاحب ثروت اور مالدار بھی تھے۔ نقد روپے کے سوا بے شمار  غلاموں کے مالک تھے جن میں سے بعض تو کسب حلال سے روزانہ ایک معقول رقم خواجہ کے ہاتھ میں لا کر دیتے تھے اور بعض غلام آپ کے روپے سے تجارت کیا  کرتے تھے لیکن باوجود  اس دولت  و حشمت کے اولاد بہت کم تھی یعنی صرف ایک صاحبزادہ اور  ایک صاحبزادی۔ صاحبزادہ کا نام خواجہ عبد اللہ تھا اور صاحبزادی کا نام بی بی زلیخا۔ خواجہ عبد اللہ کے صاحبزادہ کا نام خواجہ سعید۔ اور ان کے صاحبزادہ کا نام خواجہ عبد العزیز۔ اور ان کے صاحبزادہ کا نام خواجہ حسن تھا۔ غرضیکہ آپ کی چار  پشت تک خواجہ کا لفظ مذکور رہا۔ اور  اس کے بعد منقطع ہوگیا۔ چونکہ خواجہ عرب اور خواجہ علی کے مابین اتفاقی مراتب کی بنیاد پڑنے والی تھی اس لیے خواجہ عرب نے اپنی لڑکی یعنی رابعہ عصر اور ولیۂ خدا بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہما کو خواجہ احمد بن علی کے نکاح میں دیا جو اس کے بعد حضرت سلطان المشائخ کے والد ہوئے۔ بی بی زلیخا کا روضۂ متبرکہ آج تک شہر دہلی میں موجود ہے جو درمندوں کا درمان اور حاجتمندوں کا کعبۂ حاجات ہے۔ الغرض جب خواجہ عرب نے اپنی صاحبزادی کو خواجہ احمد کے نکاح میں دے کر رخصت کیا تو سامان جہیز جیسا کہ ان بزرگوں کے ہاں رسم ہے بہت کچھ عنایت فرمایا۔ حق تعالیٰ نے کچھ عرصہ کے بعد اس صدف پاک سے یہ کان کرامت کا قیمتی موتی اورعشق و محبت کا سرمایہ یعنی سلطان المشائخ قدس سرہ کو پیدا کیا۔ اس عالمگیر آفتاب سے عالم میں ایک چکا چوند پیدا کرنے والی روشنی ظاہر ہوئی۔ اور تمام جہان منور و روشن ہوگیا۔ آپ کے پیدا کرنے میں خدا تعالیٰ کی ایک حکمت مضمر تھی وہ یہ کہ آپ کے سایۂ عاطفت میں اہل دنیا پرورش پائیں اور آخرت میں دائمی عقوبت سے خلاصی حاصل کریں۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

آفریں خدائے برپد رے

کہ ازو  ماند این چنیں پسرے

(ایسے باپ پر خدا کی رحمت کہ جس کے صلب سے ایسا لڑکا پیدا ہوا۔)

ایک اور بزرگ فرماتے ہیں۔

پدرے راکہ آنچنان خلف است
آفتابش بسر آستین قباست

 

ما درے راکہ این چنیں پسراست
ماھتابش بر آستان درست

 

(جس باپ کا ایسا فرزند ہے اور جس ماں کا ایسا  بچہ ہے گویا اس کی قبا کی آستین میں آفتاب اور گھر کی چوکھٹ پر ماہتاب ہے۔)

الغرض ابھی سلطان المشائخ کم سن اور نو عمر ہی تھے کہ آپ کے والد بزرگوار خواجہ احمد دین علی الحسین البخاری بیمار پڑگئے اور ایسے سخت مریض ہوئے جس سے لوگوں کو آپ کی زندگی کی امید منقطع ہوگئی۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ سلطان المشائخ کی والدہ محترمہ بی بی زلیخا نے خواب میں دیکھا کہ ان سے کہا جاتا ہے کہ ان دونوں میں جسے چاہو اختیار کرلو۔ یعنی اگر منظور ہو تو خواجہ احمد کو اختیار کرلو۔ اگر چاہو تو سلطان المشائخ کو۔ سلطان المشائخ کی والدہ مکرمہ نے اپنے نونہال اور بلند اقبال فرزند کو اختیار کرلیا۔ لیکن جب دن ہوا تو بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہما نے اس خواب کو کسی سے بیان نہیں کیا اور اب خواجہ احمد کی بیماری آناً فاناً ترقی کرتی گئی یہاں تک کہ دم واپسیں شمار کیا جانے لگا اس وقت حاضرین مجلس نے کھانے پینے کی قسم سے وہ تمام چیزیں خواجہ احمد کے حضور میں پیش کیں جو آپ کے مرغوب خاطر تھیں اور جنہیں آپ بہت پسند کرتے تھے۔ مگر شیخ نے سب کی طرف سے بے رغبتی ظاہر کی اور اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد سفرِ آخرت اختیار کیا۔ اور اطراف بداؤں میں مدفون ہوئے۔ چنانچہ اس  زمانہ تک آپ کا روضۂ متبرکہ موجود ہے۔ لوگ اس کی زیارت کرتے اور فیض اٹھاتے ہیں۔

جب سلطان المشائخ کس قدر بڑے ہوگئے تو آپ کی والدہ محترمہ نے قرآن شریف پڑھنے کے لیے مکتب میں بٹھایا چونکہ حافظہ قوی اور ذہن سلیم تھا تھوڑے عرصہ میں قرآن مجید تمام کرلیا۔ اور اب کتابیں پڑھنی شروع کر دیں۔ پڑھتے پڑھتے ایک بڑی کتاب ختم کرنے کے قریب تھے کہ آپ کے قابل و دلسوذ معلم نے کہا۔ چونکہ تم ایک معتبر اور بڑی کتاب تمام کرنے کو ہو لہذا دانشمندی کی دستار سرِ مبارک پر باندھنا چاہیے۔ سلطان المشائخ نے اپنے مہربان و معزز استاد کی یہ حکایت والدہ محترمہ کے آگے بیان کی اس مخدومۂ جہان نے کہ ایک عالم اس کے سایۂ عاطفت اور ظل حمایت میں تھا اپنے دستِ مبارک سے سوت کاتا اور اس کا کپڑا بنوا کر ایک دستار تیار کی۔ سلطان المشائخ نے جب وہ کتاب تمام کر ڈالی تو آپ کی والدۂ مکرمہ نے ایک دعوتی مجلس ترتیب دی۔ وافر کھانا تیار کیا۔ اور چند بزرگان دین اور علماء اہل یقین کو اس مبارک تقریب میں مدعو کیا۔ اس مجلس میں شیخ جلال الدین تبریزی کے مرید خواجہ علی بھی تشریف رکھتے تھے جنہوں نے دینی نعمت شیخ جلال تبریزی سے حاصل کی تھی اور اس زمانہ میں کرامت کے ساتھ معروف مشہور تھے جب اہل مجلس کھانے سے فراغت پا چکے تو جناب سلطان المشائخ اس دستار کو اپنے دستِ مبارک میں لیے سوئے مجلس میں آئے تاکہ ان بزرگانِ دین کے سامنے دستار بندی کی رسم ادا ہو یہ دیکھ کر شیخ خواجہ علی اٹھے اور پگڑی کا ایک سِرا تو اپنے دستِ مبارک میں لیا اور دوسرا حضرت سلطان المشائخ کے ہاتھ میں دیا چنانچہ سلطان المشائخ نے دستار کرامت سر پر باندھی۔ ازاں بعد آپ نے اول خواجہ علی کے آگے سر خم کیا پھر تمام اہل مجلس کے آگے خم کیا۔ پھر تمام اہل مجلس کے آگے خواجہ علی نے اپنا دست کرامت سلطان المشائخ کے سر پر رکھا اور یوں دعا دی کہ حق تعالیٰ تمہیں علماء دین کے زمرے میں داخل کرے اور مجلس برخاست ہوئی۔ فقیر نعمت اللہ نوری کہتا ہے کہ جب میں نے کتاب سیر الاولیا میں دیکھا کہ اس کے مؤلف سید محمد بن سید مبارک بن سید محمد علوی حسینی کرمانی نے حضرت سلطان المشائخ کے جد بزرگوار خواجہ علی الحسین البخاری اور آپ کے واجب الاحترام نانا خواجہ عرب الحسین البخاری کا شجرۂ طیبہ ذکر نہیں کیا ہے تو اس  کم ترین نے اپنے اور سلطان المشائخ کے اجداد بزرگوار خواجہ علی اور خواجہ عرب قدس اللہ سرہم العزیز کا وہ شجرۂ طیبہ جس کی سند متصل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے اور جو اس جلیل القدر خاندان کے معزز و بزرگوار ممبروں سے صحیح سند کے ساتھ پہنچا ہے سیر الاولیاء کے اس نکتہ کے ضمن میں جناب سلطان المشائخ کے اشارہ سے تحریر کیا ان شاء اللہ تعالیٰ صاحب دلوں کی نظر فیض اثر سے گزرے گا۔

 

شجرہ طیبہ

بعد حمد خالق و نعت رسول
از امام الحق حسین شاہ دین
در جھان من بعد اوقائم مقام
اوچون محمل جانب فردوس راند
میوہ ماند از شاخ آن عالی درخت
زان فروغ مشعل راہ ھدا
کر دا ور حلت سوئے دار السلام
چون فروغ حق بفر دوش رساند
آسمان سوئے بھشتش رہ نمود
سرور عالم علی الا صغر است
گشت عالم خرم و آفاق شاد
ھم ز عبد اللہ احمد پدید
و زعلی آمد حسن فرخ تبار
ماند از و خواجہ عرب فرخندہ راے
آخر ازوے خواجہ عبد اللہ زاد
ماند ازو خواجہ سعید اندر جھان
ماند زان صاحب دل اھل تمیز
زو حسن مانداز حسن عبد الکریم
ماند فرزندش بود طا ھاش نام
ماند عبد القاھر ازوے یاد گار
روشنی بخش چراغ کاخ او
در صلاح و زھد چون او کس نبود
ماند فضل اللہ زان عالی مقام

 

میکنم ذکرے از اولاد بتول
یاد گارے بو دزین العابدین
بود باقر نور چشم آن امام
زو بعالم جعفر الصادق بماند
موسی الکاظم امام نیک بخت
بود امام المسلمین علی الرضا
ماند فرزندش محمد نیک نام
زو علی الھادی اندر دھر ماند
آمد انگہ جعفر ازوئے در و جود
گوھر روشن زکان جعفر است
ازعلی اصغر چو عبد اللہ زاد
زو علی آمد دو عالم راسعید
و زحسن آمد محمد یاد گار
بو دا و سید حسینی با خدا ے
سوئے باغ خلد اوھم رونھاد
اھل جنت راشدے او میھمان
سالک راہ ھدی عبد العزیز
احمد ازوے بود با خلقے عظیم
داشت او شغل بزرگ از حق مدام
بود دانا وفقیہ روز گار
بود صدر الدین ثمر از شاخ او
صالح آمد زان نکو فر در وجود
نعمت اللہ نوری ازوے والسلام

ترجمہ شجرہ طیبہ: (خدا کی حمد اور رسول کی تعریف کے بعد میں اولاد بتول کا ذکر کرتا ہوں۔ حضرت فاطمہ زہرا کے باجاہ و جلال بطن سے جناب امام حسین شاہ دین پیدا ہوئے۔ اور آپ کی محسوس یاد گار زین العابدین باقی رہے۔ اور جب امام زین العابدین نے سفرِ آخرت قبول کیا تو دنیا میں آپ کے قائم مقام آپ کے چشم و چراغ امام باقر باقی رہے اور جب ان کا بھی محمل فردوس بریں کی طرف روانہ ہوا تو امام جعفر صادق نے ان کی جگہ سنبھالی۔ پھر اس بلند درخت کی شاخ سے ایک لذیذ میوہ یعنی بلند اقبال امام موسی کاظم رہے۔ اور اس راہ ہدایت کی مشعل کی روشنی علی الرضا پیدا ہوئے۔ لیکن جب انہوں نے بھی دلر السلام کی راہ لی تو ان کے فرزند رشید محمد  نام باقی رہے اور ان کے بعد علی الہاوی نے دنیا کو اپنے نور سے منور و روشن کیا۔ علی الہادی کے انتقال کے بعد جعفر تختِ خلافت پر جلوہ آرا ہوئے۔ اور ان سے علی اصغر وجود میں آئے۔ اور جب ان سے عبد اللہ پیدا ہوئے تو عالم خرم و شاد ہوگیا۔ عبد اللہ کے صلب سے احمد اور ان کے صلب سے علی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی محسوس اور یاد گار حسن کو چھوڑا۔ جس سے محمد پیدا ہوئے اور آخر کار محمد کی جیتی جاگی تصویر خواجہ عرب دنیا میں ظاہر ہوئے۔ خواجہ عرب دنیا سے کروٹ لیتے وقت خواجہ عبد اللہ کو چھوڑ گئے۔ اور جب انہوں نے بھی آپ کے قدم بقدم باغ خلد کی راہ لی تو خواجہ سعید کو اپنا جانشین کر گئے۔ اور جب انہوں نے بھی آپ کے قدم بقدم باغ خلد کی راہ لی تو خواجہ سعید کو اپنا جانشین کر گئے۔ اور جب خواجہ سعید نے دنیا سے کوچ کر کے اہل جنت کی مہمانی قبول کی تو ان کے پیچھے صاحب دل اہل تمیز جناب عبد العزیز باقی رہے۔ پھر ان سے حسن اور حسن سے عبد الکریم اور ان سے احمد نے امامت لی۔ احمد کے فرزند رشید طاہا ان کے بعد جانشین ہوئے اور عبد القاہر جو فرزانۂ روزگار ارفقیہ عصر تھے باقی رہے۔ پھر ان کے گھر کی روشنی بخش چراغ صدر الدین ہوئے۔ جو زہدو صلاح میں بے نظیر اور عدیم المثال تھے۔ صدر الدین کے بعد صالح اور ان کے بعد فضل اللہ ہوئے اور نعمت اللہ نوری پر اس سلسلہ کا توڑ ہوگیا۔)

 

حضرت قطب الاقطاب محبوب العالمین سلطان المشائخ

نظام الحق والشرع والدّین کا شجرہ نسب

سید محمد نظام الدین اولیا قدس اللہ سرہ العزیز سید خواجہ احمد کے فرزند رشید ہیں اور سید خواجہ علی الحسینی البخاری بن سید عبد اللہ بن سید حسن بن سید میر علی آپ کے جد پدری ہیں۔ سید محمد نظام الدین بن سید خواجہ عرب الحسینی البخاری بن سید محمد بن سید میر علی بن میر احمد بن میر ابو عبد اللہ بن میر اصغر بن سید جعفر بن سید علی الامام بن سید علی الہادی التقی بن الامام سید محمد جواد بن امام سلطان الشہداء حضرت امام علی موسی رضا بن امام حضرت موسی کاظم بن امام ہمام حضرت امام جعفر صادق بن امام حضرت محمد باقر بن امام علی حضرت زین العابدین بن امام سلطان الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بن امام المومنین علی مرتضی علیہ السلام والکرام ہیں۔ امام ہمام کائنات سعید شہید حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمۃ الزہرا جناب افضل الانبیا اکرم المرسلین رسول الثقلین سرور کائنات فخر موجودات رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں۔ اے خدائے غفار تو اپنی رحمت سے ان پر اور جناب نبی کریم کی تمام اولاد اور ائمہ اطہار اور سب چُنے ہوئے اور منتخب اصحاب اور اولیائے محبوبین و مقربین پر  عنایت و مہربانی کا مینہ برسا۔

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادِ امجاد کا بیان

جناب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار صاحبزادے تھے۔ طیب، طاہر،قاسم، ابراہیم، اور چار ہی صاحبزادیاں۔ ۱۔ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب صاحبزادیوں سے چھوٹی تھیں۔ ۲۔ زینب۔ یہ آپ کی تمام صاحبزادیوں سے عمر میں بڑی تھیں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے ماموں زاد بھائی ابو العباس بن ربیع بن عبد العزیز بن عبدِ مناف سے آنحضرت نے کردیا تھا۔ ۳۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا آپ حضرت زینب سے چھوٹی اور حضرت فاطمہ سے بڑی تھیں۔ ان کا نکاح جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن ابی لہب سے کر دیا تھا لیکن عتبہ کے مرنے کے بعد پھر آپ کی شادی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ہوئی جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حبشہ میں ہجرت کر گئے تھے تو حضرت رقیہ آپ کے ہمراہ تھیں۔ ۴۔ حضرت ام کلثوم حضرت کی ان صاحبزادی کا نام آمنہ تھا لیکن وہ کنیت سے زیادہ مشہور ہوگئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پہلا نکاح عتبہ بن ابو لہب سے کیا تھا لیکن جب اس نے اپنی رسم و رواج کے مطابق آپ کو طلاق دے دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب رقیہ کے انتقال کے بعد  ام کلثوم کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا۔ خلاصہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہرا کی شادی حضرت علی شاہ مردان سے ہوئی اور حضرت زینب کی ابو العباس سے اور بی بی رقیہ کی حضرت عثمان بن عفان سے اور حضرت رقیہ کے انتقال کے بعد بی بی ام کلثوم بھی حضرت عثمان سے بیا ہی گئیں اسی وجہ سے حضرت عثمان کو ذو النورین کہا جاتا ہے۔

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات

کا بیان بہ ترتیب نکاح

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بی بی حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ دوسری سودہ بنت زمعہ۔ تیسری حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابو بکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مہر صرف اس قدر اسباب تھا جو پچاس درہم کی قیمت رکھتا تھا اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مہر  پانچ سو درہم تھا جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر ادا کر دیا تھا۔ چوتھے حضرت حفصہ۔ جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور زینب رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ۔ پانچویں خریمہ زینب کی بیٹی۔ چھٹی بی بی حضرت ام سلمہ ہیں۔ ساتویں حضرت زینب حجش کی صاحبزادی۔ آٹھویں جویریہ بنت حارث۔ نویں میمونہ بنت حارث۔ دسویں حبیبہ ابو احطب کی بیٹی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دس بی بیاں مشہور  تھیں۔ اس کے علاوہ تین اور عورتیں تھیں جن میں سے بعض سے آپ نے نکاح تو کرلیا تھا لیکن زفاف واقع نہیں ہوا تھا۔ اور بعض سے خواست گاری کی لیکن نکاخ کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ منکوحہ بی بیوں کے علاوہ  آپ کی تین لونڈیاں بھی تھیں ایک ماریہ بنت شیبہ بن قطبہ۔ دوسری ریحان بنت زید عمر۔ تیسری وہ کنیز جسے زینب بنت حجش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ چار صاحبزادیاں تھیں لیکن عمر میں سب سے بڑی اور بعض خاص خاص فضائل میں سب سے افضل حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں آپ بزمانۂ جاہلیت واقعہ فیل کے تیسویں سال پیدا  ہوئیں اور اپنے ماموں زاد بھائی ابو العباس کے نکاح میں دی گئیں تھیں لیکن تخالف ادیان کی وجہ سے بیچ میں آپ کو طلاق ہوگئی تھی۔ جب بدر کی معرکہ میں ابو العباس قریش کے لشکر میں بھرتی ہوکر اہل اسلام کے مقابلہ میں آیا تو اس  نے میدان میں کھڑے ہوکر بآواز بلند کہا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا اپنی ذات و صفات میں اکیلا اور یکتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مقبول بندے اور منتخب رسول ہیں اس کے بعد اس نے قریش کا ساتھ چھوڑ دیا اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ حاضر ہوا۔ آنحضرت نے اپنی پیاری صاحبزادی زینب کو اسی پہلے نکاح کے ساتھ ابو العباس کے حوالہ کر دیا اور ایک روایت میں آیا ہے کہ جدید نکاح ہوا۔ مجمع الفتاویٰ میں لکھا ہے کہ سالت الشیخ الامام حمید الدین رحمۃ اللہ علیہ عمن لہ ام سیدۃ واب لیس بسید بل ھو سید فقال قال استاذی شمس الائمہ الکروری رحمۃ اللہ علیہ ھو سید و استدل بان للہ تعالیٰ جعل عیسی من ذریۃ نوح و ابراھیم علیھما السلام بحجۃ الامام و تلک حجتنا الینا ھا الایہ و رایت فی تاویلات ان عیسی من اولاد اسحاق علیہ السلام وقال علیہ السلام مثل اولادی کمثل سفینۃ نوح علیہ السلام من رکبھا نجی ومن تخلف عنھا ھلک یعنی میں نے شیخ حمید الدین رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ جس شخص کی ماں تو سید ہو اور باپ سید نہ ہو تو کیا وہ سید کہلائے گا۔ فرمایا۔ میرے استاد شمس الائمہ کروری نے فرمایا ہے کہ بے شک وہ سید ہے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو جناب نوح و ابراہیم علہیما السلام کی ذریت قرار دیا ہے۔ ازاں بعد  امام نے اپنے اس دعوے پر یہ دلیل پیش کی۔ وتلک حجتنا اتینا ھا ابراھیم الخ اور میں نے تاویلات میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح جناب اسحاق  علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری اولاد کی مثال نوح کی کشتی جیسی ہے کہ جو شخص اس میں سور ہوا نجات پائی اور جس نے تخلف کیا جان سے گیا گزرا ہوگیا۔

 

حضرت سلطان المشائخ کو جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدّین کی محبت پیدا ہونے اور بداؤں سے شہر دہلی میں تحصیل علوم کی غرض سے آنے کا بیان

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ہنوز میں نو عمر تھا اور تقریباً بارہ سال کی عمر رکھتا تھا جو لغت کی کتابیں پڑھتا تھا اتفاقاً ایک دن میرے استاد کی خدمت میں ایک شخص آیا جسے ابو بکر خراط کہتے تھے اور ابو بکر قوال کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ یہ شخص ملتان کی طرف سے آیا تھا میرے استاد سے بیان کرنے لگا کہ میں ایک مرتبہ شیخ بہاؤ الدین زکریا قدس اللہ سرہ العزیز کے آگے ایک قصیدہ گا رہا تھا اور یہ شعر پڑھ رہا تھا۔

لقد لسعت حبۃ الھوی کبدی

لیکن عجیب اتفاقی بات ہے کہ اس کے آگے کا دوسرا مصرعہ بھول گیا جسے بزرگ شیخ نے یاد  دلایا۔ اس کے بعد وہ شخص شیخ بہاؤ الدین زکریا کے مناقب و فضائل بیان کرنے لگا کہ آپ ایسے ذاکر اور اس قدر عبادت گزار ہیں اور ان باتوں کا سلسلہ یہاں تک بڑہا چلاگیا کہ اس نے یہ بھی بیان کیا کہ جب شیخ کی لونڈیاں آٹا پیستی ہیں تو بھی ذکر میں مصروف رہتی ہیں اگرچہ اس نے ان جیسی بہت سی باتیں بیان کیں مگر میرے دل پر کسی بات کا اثر نہیں پڑا لیکن جب اس نے یہ ذکر چھیڑا کہ میں وہاں سے اجودھن آیا اور ایک دین کا بادشاہ ایسا ایسا دیکھا تو میرے اشتیاق کی رگ حرکت میں آئی اور شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے خاص فضائل و مناقب جب میرے کان میں پہنچے تو ایک بے اختیاری جوش  کے ساتھ آپ کی محبت اور صدقِ ارادت میرے دل میں اثر کر گئی اور آپ کے اشتیاق ملاقات کی آگ یہاں تک بھڑکی کہ میں ہر نماز کے بعد دس مرتبہ شیخ فرید اور دس مرتبہ مولانا فرید کہتا۔ جب کہیں جا کے سوتا۔ رفتہ رفتہ یہ محبت اس درجہ کو پہنچ گئی کہ میرے تمام یار و اصحاب اس سے خبردار ہوگئے اور شیخ کی وقعت و عظمت میرے دل میں اس قدر بیٹھ گئی کہ اگر میرے ہم عصر مجھ سے کوئی بات دریافت کرتے اور قسم لانا چاہتے تو کہتے کہ شیخ فرید کی قسم کھاؤ۔ الغرض جب سن نے عمر کے پندرہ مرحلے طے کر کے سولہویں میں قدم رکھا تو دہلی آنے کا قصد ہوا ایک ضعیف عزیز عِوض نام میرے ساتھ ہوئے اور ہم دونوں روانہ دہلی ہوگئے اثنائے راہ میں اگر کہیں شیر کا خوف یا چوروں کا خطرہ ہوتا تو عوض کہتے۔ اے پیر حاضر ہو جیئے او راے پیر ہم آپ کی حفاظت و پناہ میں یہ دشوار اور خطر ناک گھاٹیاں طے کر رہے ہیں۔ میں نے موض سے دریافت کیا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو اور پیر سے تمہاری کیا مراد ہے انہوں نے جواب دیا کہ میں جناب شیخ شیوخ العالم فرید الدین کو کہہ رہا ہوں۔ یہ سن کر میرے دل میں شیخ شیوخ العالم کی محبت کا قلق اور اضطراب اور زور پکڑ گیا۔ القصہ ہم شہر دہلی میں آئے اور اسے بہت بڑی خوش قسمتی کہنا چاہیے کہ ہم شیخ نجیب الدین متوکل یعنی شیخ شیوخ العالم کے بھائی کے پڑوس میں اترے۔

 

جناب سلطان المشائخ نظام الحق والدین قدس

سرہ العزیز کے علم و تبحر کا بیان

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب میں دہلی میں آیا تو چار سال تحصیل علوم میں سخت محنت اور جان کا ہی کی جس زمانہ میں میں تعلیم پا رہا تھا اگرچہ بڑے بڑے دانشمند اور فضلا کی صحبت میں تھا لیکن بارہا میں کہا کرتا تھا کہ میں آپ لوگوں کی صحبت میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ چند روز اس  صحبت میں اور مہمان ہوں چنانچہ اس حکایت کا باقی حصہ حضرت سلطان المشائخ کی سکونت کے ذکر میں مندرج ہوگا یہاں اس قصہ کے بیان کرنے سے صرف یہ مقصود ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا جوش سلطان المشائخ کے دل میں ڈال دیا تھا اور آپ نے محبت الٰہی کا حصہ بہت کچھ لیا تھا اس لیے ابتدائی زمانہ سے آپ اس پر آمادہ تھے کہ تمام دنیاوی تعلقات سے انقطاع حاصل کر کے دوست حقیقی کی طرف رجوع ہوں۔

در دل نمیگنجد غم جان و غم جاناں

منقول ہے کہ سلطان المشائخ کے علمی کمالات اس عروج کو پہنچ گئے تھے کہ آپ طالب علموں میں نہایت تیز طبع اور کامل دانشمند مشہور ہوگئے تھے اور بحاث و  محفل شکن کے مقتدر خطابات استاد سے حاصل کر لیے تھے اور ہر علم و فن سے کامل حصہ لے لیا تھا۔ جب آپ علم فقہ اور اس کے اصول سے فارغ التحصیل ہوگئے اور ان علوم کو معراج کمال پر پہنچادیا تھا تو اب رسمی فنون کی تحصیل کرنے لگے اور مولانا شمس الدین کی خدمت میں پہنچے جو علم و فضل میں اپنے تمام علما و فضلاء زمانہ سے مستثنی اور ممتاز تھے اور شہر کے اکثر استاد و اہل کمال کو آپ کی شاگردی کا فخر تھا۔ الغرض سلطان المشائخ ان بزرگوار فرید العصر کی خدمت میں پہنچے اور حریری کے چالیس مقامات یاد کر لیے۔ جب اس علم میں کمال حاصل ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھنی شروع کی اور حریری کے ان چالیس مقامات کے کفارہ میں جو آپ نے بڑی محنت و جانفشانی سے یاد  کیے تھے مشارق الانوار یاد کی۔ جناب کمال الدین زاہد  سے جو علم و زہد  میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے اور علم حدیث نیز روایات  احادیث میں یگانۂ روزگار اور فرید عصر شمار کیے جاتے تھے۔ مشارق الانوار اول سے آخر تک پڑھی سر سری اور اجمالی نظر سے نہیں بلکہ غور میں ڈوبی ہوئی نگاہ اور ساتھ ہی اس علم کے دقائق و غوامض اور تصحیح سند قصہ اور روایات احادیث میں اس درجہ تحقیق کی کہ اس سے زیادہ نا ممکن تھی۔

 

ان حدیثوں کے دقائق و غوامض کا بیان جن کی

سلطان المشائخ نے بڑی تبحر کے ساتھ تقریر کی

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے جب مولانا وجیہہ الدین پائلی سے دریافت کیا کہ حدیث میں آیا ہے اصنعو اکل شئی الالنکاح یعنی نکاح کے علاوہ ہر چیز کرنے کا مجاز رکھتے ہو۔ اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نکاح حرام ہے اور یہ امر ظاہر البطلان ہے پھر اس حدیث کی کیا توجیہہ ہے۔ اگرچہ مولانا وجیہ الدین نے کچھ عرصہ تک غور و تامل کیا لیکن ازاں بعد فرمایا کہ آپ ہی بیان فرمائیے۔ میں نے کہا کہ ایک روز صحابہ رضی اللہ عنہم نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ جب عورتیں حیض سے ہوتی ہیں تو بستر علیحدہ کرتی ہیں اس بارہ میں ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اصنعوا کل شئی الالنکاح۔ یعنی حیض کی حالت میں بوس و کنار اور ساتھ لیٹنا سب کچھ جائز ہے لیکن وطی جائز نہیں اور رانوں تک مباشرت کرو اس سے اوپر تصرف نہ کرو۔ ایک دفعہ آپ نے یہ حدیث  پڑھی۔ صومو الشھریہ اولہ و سیراۂ۔ قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ حدیث غرائب سے معلوم ہوتی ہے اور اس کے معنی نہایت غامض و دقیق ہوں گے۔ سلطان المشائخ نے اس کی توضیح و تشریح اس طرح بیان کہ کہ الشھر فی اصل الوضع اسم الیوم الاول من الشھر الذی ھو الغرۃ سمی بہ لشھرتہ ثم اشتھر الشھر کلہ بحکم غلبۃ الا ستعمال و قد ارید ھھنا الیوم الاول بدلالۃ عطف السرر علیہ وھو اسم الیوم الاخر من الشھر ومنہ یقال سرار الشھر او اخرہ۔یعنی اصل وضع میں شہر مہینے کے پہلے دن کا نام ہے جسے غرہ کہتے ہیں اور پہلے دن کا نام شہر اس کی شہرت کی وجہ سے رکھا گیا پھر سارا مہینہ غلبہ استعمال کی وجہ سے شہر کے نام سے مشہور ہوگیا۔ لیکن اس جگہ شہر سے مہینہ کا پہلا ہی دن مراد  ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ لفظ سرر کا عطف شہر پر ہے اور سرر مہینے کے اخیر دن کا  نام ہے کیونکہ اہل محاورہ بولا کرتے ہیں سرار الشھر۔ یعنی مہینے کا آخر دن۔ ایک اور دفعہ آپ نے فرمایا کہ جناب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من قتل معا ھد الم یرح رایحۃ الجنۃ فان ریحَھا یو جد من منزلۃ خمس مائۃ۔یعنی جو ہم عہد کو بے وجہ شرعی قتل کر ڈالے گا وہ جنت کی بو نہ سونگھے گا۔ اگرچہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے پائی جائے گی۔ اس حدیث کے ظاہر الفاظ بھی اہل سنت و جماعت کے مذہب کے خلاف ہیں۔ لیکن حدیث مذکور کی ایک تاویل ہے جسے لوگوں نے بیان کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ جنت میں داخل ہونے سے پیشتر موقفِ حساب میں خدا تعالیٰ کی عنایت و مہربانی سے ایک ہوا چلے گی جس میں جنت کی خوشبو ہوگی تاکہ ایماندار بآسانی حساب سے فارغ ہوجائیں۔ اس کے بعد یہ بیت زبان مبارک پر جاری ہوئی۔

بادیکہ سحر گہ زسر کوے تو آید

جا نہاش فدا باد کز و بوئے تو آید

یہ بات پڑھتے ہی آپ پر گریہ غالب ہوا اور زارو قطار رونے لگے۔ اسی حالت میں یہ لفظ زبانِ مبارک پر جاری ہوا کہ شیخ کے طفیل سے وہ خوشبو اس  وقت آں مجلس میں موجود ہے اس مجلس میں قاضی محی الدین کا شانی اور دیگر عزیز موجود تھے ایک دفعہ آپ نے یہ حدیث پڑھی۔ اذ اکل احد کم طعاما فلا یمسخ یدیہ حتی یلعقھد او یلعقھا۔ یعنی جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو ہاتھ پوچھنے سے پیشتر اسے خود چاٹ لے یا دوسرے کو چٹا دے۔ فرمایا کہ حتی یلعقھا او یلعقھا کی شرح میں جو بعض شارحین نے یہ لکھا ہے کہ یلعقھا غیرہ تو یہ توجیہ محض غلط ہے۔ وجہ یہ کہ انہیں خیال ہوا ہے کہ العاق ہمیشہ متعدی ہوا کرتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ باب افعال کا متعدی ہونا ضروری نہیں بلکہ کبھی لازم بھی آیا کرتا ہے جیسا کہ اولئک ھم المفلحون اور واشرقت الارض بنور ربھا۔ بلکہ اصل بات یہ کہ یہ راوی کا شک ہے اور حقیقت میں دونوں لفظوں کے معنی ایک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین کے نزدیک روایت حدیث کی ایک شرط سماع ہے۔ ایک اور دفعہ آپ نے فرمایا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ حببت الی من دنیا کم ثلاث الطیب والنساء وقرۃ عینی فی الصلوۃ یعنی مجھے تمہاری دنیا کی تین چیزیں محبوب و پسندیدہ ہیں خوشبو عورتیں اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ یہاں نساء سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ مراد  ہیں کیونکہ تمام ازواج مطہرات سے زیادہ اور بیشتر میل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بی بی عائشہ ہی کی طرف تھا اور قرۃ عینی فی الصلوۃ سے مراد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ جس وقت آنحضرت نے یہ حدیث فرمائی اس وقت فاطمہ زہرا نماز میں تھیں۔

ازاں بعد  سلطان المشائخ نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس سے نماز ہی مقصود ہے لیکن اگر یہی بات ہوتی تو آپ نماز کو  ان دونوں چیزوں پر مقدم کرتے۔ ازاں بعد فرمایا کہ جب نبی کریم صلعم (صلی اللہ علیہ وسلم) ان تینوں چیزوں کا ذکر کر چکے تو خلفاء راشدین یعنی حضرت ابو بکر صدیق۔ حضرت عمر بن خطاب عثمان حضرت علی رضی اللہ عنہم نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ کے الفاظ کے مطابق تین تین چیزیں بیان کیں اس وقت جبرائیل نے جناب الٰہی کا فرمان پہنچایا کہ محمد! میں بھی تین چیزیں دوست رکھتا ہوں شاب تائب و عین باک و قلب خاشع یعنی میں تائب نوجوان اور رونے والی آنکھ اور عاجز دل کو دوست رکھتا ہوں۔ ایک دفعہ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایسا کرے گا وہ کل قیامت کے روز میرے ساتھ بہشت میں ایک درجہ میں ہوگا اور اس حدیث کے بیان میں آپ نے دو انگلیوں کی طرف اشارہ کیا یعنی مجھ میں اور اس میں صرف اس  قدر فاصلہ ہوگا جس قدر کلمہ کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی میں ہے اور فرمایا کھاتین (مثل اس کے یعنی دو انگلیاں اٹھا کر دکھائیں اور فرمایا اس طرح جیسے یہ انگلیاں پاس ہیں) بعدہ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اس فرمانے سے آنحضرت کا مطلب یہ تھا کہ جو درجہ میرے لیے مقرر ہوگا اس جیسا درجہ ایسے شخص کو بھی عنایت ہوگا۔ کیونکہ مخلوق کی انگلیوں کو جب دیکھا جاتا تو درمیانی انگلی کلمہ کی انگلی سے بڑی معلوم ہوتی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی دونوں برابر تھیں۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ میری ایک بھانجی تھی جسے ایک شخص کے نکاح میں دے دیا تھا لیکن وہ شخص امور خانہ داری میں اچھا نہ تھا۔ میری والدہ ماجدہ نے مجھ سے فرمایا کہ میں ان دونوں میں خلع کرانا چاہتی ہوں۔ میں نے عرض کیا جس طرح آپ کی مرضی ہو عمل میں لائیے۔ اسی شب کو میں نے خواب میں دیکھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ تشریف لاتے ہیں میں نے والدہ محترمہ سے عرض کیا کہ تھوڑا سا کھانا شیخ کے لیے تیار  کرنا چاہیے والدہ نے فرمایا ہمارے گھر میں کھانا کہاں ہے اسی اثناء میں میں نے سنا کہ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک جماعت کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں میں یہ سن کر آگے بڑھا اور آنحضرت کے پاؤں مبارک کو بوسہ دے کر عرض کیا۔ اے رسول خدا میرے غریب خانہ پر تشریف لے چلیے۔ فرمایا مجھے مکان پر لے جا کر کیا کرے گا میں نے عرض کیا کھانا خدمت اقدس میں حاضر کروں گا۔ فرمایا تیرے گھر میں کھانا کہاں ہے۔ ابھی ابھی کا ذکر ہے کہ تو اپنی والدہ سے کھانے کی نسبت گفتگو کر رہا تھا۔ میں آنحضرت کی یہ تقریر سن کر سخت شرمندہ و حجل ہوا۔ ازاں بعد میں نے عرض کیا کہ اے رسول خدا میں حضور کی زبانِ مبارک سے کوئی حدیث سننا چاہتا ہوں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل امراۃ تز وجت بزوج و طلبت الفرقۃ منہ قبل مضی سنتین و نصف سنۃ فھی معلونۃ۔ یعنی جو عورت کسی شخص سے نکاح کر لے اور پھر ڈھائی سال گزرنے سے پیشتر اس  سے جدائی اختیار کرنا چاہیے تو اس پر خدا کی لعنت ہوتی ہے۔ چنانچہ جب میں بیدار ہوا تامل کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ  واقعہ میری بھانجی کا ہے۔ صبح کو سارا قصہ والدہ محترمہ کی خدمت میں دہرایا اور عرض کیا کہ چند روز صبر کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ نکاح کی مدت سے ڈہائی سال گزر لیں چنانچہ ہم نے صبر کیا۔ خدا کی شان کہ داماد نہایت نیک اور مرضی کے موافق ہوگیا۔

الغرض جناب مولانا کمال الدین زاہد نے مشارق الانوار کے ذیل میں کہ سلطان المشائخ نے سبقاً سبقاً ان بزرگوں سے پڑھی تھی علم حدیث کا ایک اجازت نامہ اور سند اپنے خط  مبارک سے لکھ کر دی تھی۔ کاتب حروف اسے اس کتاب میں بعینہ نفل کرتا ہے وہو ہذا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیمط الحمد لِمن لہ الابتداءُ والا عطاء والصباح وا لروح والمدح لمن لہٗ الٓا لاء والنعمآء والصباح والمداح والصلوۃ الفصاح علے ذی الفضائل ولکلمۃ والکلام المفتاح والمناقب العلیا والا حادیث الصحاح صلاۃ تدوم دوام الصباح والرواح و  بعد فان اللہ تعالی وفق الشیخ الامام العالم الناسک السالک نظام الدین بن محمد بن احمد بن علی مع وفور فضلہ فی العلم وبلوغ قدرۃ ذر وۃ الحلم مقبول المشائخ الکبار منظور العلما والاخبار والا برار بان قرا ھذا الاصل المستخرج من الصحیحین علی ساطر ھذہِ السطور فی زمن الزمن الحار و درور الامطار من اولہ الٰی آخرہ قراءۃ بحث واتفان وتنقیح معانیہ وتنقیر مبانیہ وکاتب السطور یرویہ قرأئۃ و سماعا عن الشیخین الامامین العالمین الکاملین احد الشیخین مولف شرح اثار النیرین فی اخبار الصحیحین و الٓاخر صاحب الدرسین المنیرین الامام الاجل لکامل مالک رتاب النظم والنثر برھان الملۃ والدین محمود بن ابی الحسن اسعد البلخی رحمۃ اللہ علیھما رحمۃ واسعۃ کتابۃ وشفاھۃ وھما بر ویانہ عن مولفہٖ و اجزت لہ ان یروی عنی کماھوا لمشروط فی ھذ الباب و اللہ اعلم بالصواب و اوصیہ ان لا ینسانی و اولادی فی دعواتہ فی خلوتہ وصع لہٗ القراء ۃ والسماع فی المسجد المنسوب الی نجم الدین ابی بکرن التلواسی رحمۃ اللہ علیہ فی بلدۃ دھلی صا نھا اللہ عن الافات والعاھات وھذا خط اضعف عباد اللہ واحقر خلقہ محمد بن احمد بن محمد الماریکلی الملقب بکمال الزاھد والفراغ من القراء ۃ والسماع و کتب ھٰذہ السطور فی الثانی العشرین من ربیع الاول سنۃ اتسع وسبعین وستمائۃ حامد اللہ تعالی ومصلیا علی رسولہط

ترجمہ خطبہ عربی: سب تعریف اس کو مختص ہے جس کی ایک صفت رہنمائی و بخشش ہے اور جس کے حکم میں صبح و شام ہے اور جمیع تو صیف و ثنا اس ذات کے لیے خاص ہے جس کی درست تصرف میں تمام نعمتیں اور صبح و شام ہے اور بے انتہا رحمتیں اس شخص پر جو اعلیٰ فضائل کے مخصوص اور اس نکتوں اور باریکیوں کا صاحب ہے جو بستگیوں کی کنجیاں ہیں اور اس بزرگ مناقب کے صاحب اور صحیح حدیثوں کے واضح پر جو جامع الکلم ہے ایسی رحمتیں جو صبح و شام کی پائداری تک پائدار ہیں۔

حمد و صلوۃ کے بعد واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے شیخ امام عالم نظام الدین محمد بن احمد علی کو باوجود اس کے کہ علم میں غایت درجہ کا فضل رکھتا اور مرتبۂ حلم میں کمال بلاغت و قدرت رکھتا ہے اور بزرگ مشائخ کا مقبول اور علماء اخیاد کا منظور نظر ہے۔ اس بات کو توفیق دے کہ اس نے ان چند سطور کے کاتب پر اول سے آخر تک وہ کتاب پڑھی جس کا صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے استخراج کیا گیا ہے اور ایسی جہد و کوشش اور استواری و تنقیح معانی کے ساتھ پڑھی جیسا کہ چاہیے اور کاتب سطور اس کتاب کو دو عالم کامل اماموں سے قراء ۃُ و سماعاً روایت کرتا ہے ایک وہ جو شرح آثار النیریں فی اخبار الصحیحین کے مؤلف ہیں اور دوسرے وہ شیخ جو علم ظاہر و باطن کے مالک اور دو منبروں کے صاحب ہیں یعنی علم شریعت و طریقت کے واعظ امام فاضل اجل کامل اکمل نظم و نثر پر قادر ملت و دین کی دلیل محمود بن ابی الحسن سعد البلخی۔ خدا تعالیٰ ان دونوں صاحبوں پر وسیع رحمت کا مینہ برسائے اور میں نے ان دونوں حضرات سے زبانی اور قلمی دونوں طرح کی اجازت حاصل کی ہے اور انہوں نے اس کتاب کو خود اس کے مؤلف سے روایت کیا ہے یعنی سلطان المشائخ کو اجازت دی کہ وہ مجھ سے روایت حدیث کرے جیسا کہ علم حدیث میں مشروط ہے۔ واللہ علم بالصواب۔ میں سلطان المشائخ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ اپنی خلوتی دعاؤں میں مجھے اور میری اولاد کو نہ بھولے اور اس کتاب کی قرأت و سماع اس مسجد میں درست ہوئی جو نجم الدین ابو بکر التلو اسی کی طرف منسوب ہے۔ (خدا اس پر رحمت کرے) اور جو شہر دہلی میں واقع ہے۔ خدا تعالیٰ اس شہر کو آفات و صدمات سے محفوظ رکھے۔ اور یہ اضعف عباد اللہ اور احقر خلق محمد بن احمد محمد المار یکلی الملقب بہ کمال زاہد کا ہے۔ اس کتاب کی قرأت اور سماعت اور ان سطروں کے لکھنے سے بائیسویں ربیع الاول ۶۷۹ ہجری میں فراغت ہوئی خدا کا شکر اور اس کے رسول پر رحمت)

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ مولانا کمال الدین زاہد علمی تبحر اور کمال تقویٰ و ورع کے ساتھ انتہا درجہ کے معروف و مشہور تھے آپ کی دیانت و صلاحیت اور عمل و علم کی شہرت سلطان غیاث الدین بلبن انار اللہ برہانہ کے دربار تک پہنچ گئی تھی۔ سلطان کو آرزو تھی کہ مولانا کمال الدین زاہد کو اپنی امامت کا منصب تفویض کرے اس وجہ سے ایک دفعہ مولانا کمال الدین کو بلایا اور جب آپ سلطان کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے کمالِ علم اور دیانت و صیانت میں کمال درجہ کا اعتقاد ہے اگر آپ ہمارے ساتھ موافقت کریں اور میری امامت قبول فرمائیں تو بڑے شکریہ کی جگہ ہے آپ کا محض کرم ہوگا اور ہمیں اس بات پر پورا وثوق حاصل ہوگا کہ ہماری نماز خدا تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا جامہ پہننے والی ہے۔ مولانا نے سلطان کی یہ گفتگو سن کر برجستہ فرمایا کہ ہم لوگوں میں بجز نماز کے اور کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے افسوس ہے کہ اب بادشاہ چاہتا ہے کہ وہ بھی ہم سے چھین لے۔ مولانا کا یہ جواب سخت جس کی بنا صلابت دین پر تھی جب بادشاہ کے کان میں پہنچا تو وہ بالکل ساکت و خاموش ہوگیا اور فوراً تاڑ گیا کہ یہ بزرگ امامت کے معزز عہدے کو قبول کرنے والے نہیں ہیں لہذا اس نے بہت ہی معذرت کے ساتھ آپ کو رخصت کیا۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن مجید کے چھ سیپارے اور تین کتابیں جن میں سے ایک کا میں قاری اور دو کتابوں کی سماعت کرتا تھا اور چھ باب عوارف کے شیخ شیوخ العالم سے پڑھے اور ابو شکور سالمی کی تمام تمہید سبقاً سبقاً آپ سے پڑھی چنانچہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے اس اجازت نامے اور سند سے یہ بات بہت کچھ ثابت ہوتی ہے جو آپ نے تمہید ابو شکور سالمی کی اجازت کے بارہ میں اپنی زبان مبارک سے فرمایا اور جسے مولانا بدر الدین اسحاق سلطان المشائخ کے اس خلافت نامہ کے ساتھ قید کتابت میں لائے جو شیخ شیوخ العالم نے اپنے سامنے مرتب کرایا تھا۔ یہ دونوں باتیں اسی کتاب میں قلم بند کی گئی ہیں۔ جو آگے چل کر صاحب دلوں کی نظر پڑے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

سلطان المشائخ کے اجودھن پہنچنے اور شیخ شیوخ العالم

فرید الحق والدین کی خدمت میں ارادت لانے کا بیان

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ اثناء تعلیم میں مجھے شیخ شیوخ العالم نور اللہ مرقدہ کی قدم بوسی کی نہایت آرزو تھی اور آپ کی تمنائے دیدار اس درجہ غالب ہوگئی تھی جسے میں بیان نہیں کرسکتا۔ آخر کار میں اجودھن گیا۔ چہار شنبہ کا روز تھا کہ مجھے  شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر کی قدم بوسی کا اعزاز حاصل ہوا۔ سب سے پیشتر جو شیخ کی بات  میرے کام میں پڑی یہ تھی۔

اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ

سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ

 

ازاں بعد ہر چند میں نے چاہا کہ اپنے اشتیاق کی شرح خدمتِ اقدس میں عرض کروں لیکن حضور کے دربار کی دہشت مجھ پر اس درجہ غالب تھی کہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکا کہ حضور کی پائبوسی کی آرزو کمترین کو بے حد تھی۔ شیخ شیوخ العالم نے جب میری دہشت کو ملاحظہ فرمایا تو یہ لفظ زبان مبارک پر جاری فرمائے کہ لکل داخل دھشۃ۔ یعنی ہر آنے والے کے لیے دہشت ہے۔ چنانچہ میں نے اسی روز شیخ شیوخ العالم سے بیعت کی لیکن میرا ارادہ منڈانے کا نہ تھا کیونکہ مجھے طلبہ کے زمرہ میں اس حالت  میں رہنے سے شرم آتی تھی۔ دوسرے روز میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص نے شیخ شیوخ العالم سے بیعت کی اور مولانا بدر الدین اسحاق نے اس کا سر مونڈا۔ میں نے دیکھا کہ اس میں ایک عظیم الشان نور  پیدا ہوا اسی طرح اس کے بعد اور دو تین شخصوں کو دیکھا کہ جب وہ حلق  کرا  کے اندر سے باہر  آئے تو نور  کے چمکارے ان کی پیشانیوں سے ظاہر ہوئے۔ اب میرا دل اس طرف مائل ہوگیا کہ میں بھی محلوق ہوں چنانچہ شیخ بدر الدین کی خدمت  میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں حلق کرانا چاہتا ہوں۔ مولانا بدر الدین وہاں سے اٹھ کر اندر  گئے اور شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر کی خدمت میں میری عرضداشت گزرانی حکم صادر ہوا کہ اسی وقت حلق  کرو۔ مولانا بدر الدین نے حضور کے ارشاد کی فوراً تعمیل کی اس کے بعد  شیخ شیوخ العالم نے مولانا بدر الدین اسحاق کو حکم دیا کہ اس غریب الوطن متعلم کے لیے جماعت  خانہ میں چار پائی بچھا دو انہوں نے فوراً جماعت خانہ میں ایک چار پائی بچھادی اور مجھے اس پر سونے کی اجازت دی لیکن میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں چار پائی پر ہر گز نہیں سو سکتا کیونکہ جب اس قدر غریب الوطن مسافر جن میں بعض حافظ کلام ربانی اور بعض عاشقان درگاہِ رحمانی ہیں خاک پر لوٹ رہے ہیں تو مجھ سے یہ کب ہوسکتا ہے کہ ادب کا پہلو چھوڑ کر چار پائی پر سو رہوں۔ میرا یہ منشا معلوم کر کے مولانا بدر الدین اسحاق۔ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ دوہرایا ابھی تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ مولانا بدر الدین آکر فرمانے لگے کہ شیخ فرماتے ہیں کہ تم اپنے کہنے پر چلو گے یا پیر کا  حکم بجا لاؤ گے میں عرض کیا کہ شیخ کے فرمان پر چلوں گا۔ بعدہ فرمایا کہ جاؤ چار پائی پر سو رہو۔ کسی نے سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ جب آپ نے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین طیب اللہ مرقدہ کی دولت ارادت کا اعزاز و افتخار حاصل کیا اس وقت آپ کی کس قدر عمر تھی فرمایا بیس سال کی۔ جب میں شیخ سے بیعت کر چکا تو خدمت عالی میں عرض کیا کہ اب شیخ کا کیا ارشاد ہے کیا میں تحصیل علوم کو ترک کر کے اورادو نوافل میں مصروف ہوجاؤں؟ اس کے جواب میں شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ میں کسی کو تحصیل علوم سے منع نہیں کرتا تم تحصیل علوم بھی کرو اور اورادو وظائف میں مصروف رہو یہاں تک کہ ان دونوں میں سے ایک خود بخود غالب ہوجائے علم بھی درویش کے لیے ضروری چیز ہے بہت نہیں تو تھوڑا ہی سہی۔

سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ میں شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں کل تین مرتبہ حاضر ہوا ہوں ہر سال میں ایک بار اور جب شیخ صاحب رحلت فرمائے دار السلام ہوئے تو بعد میں چھ یا سات دفعہ گیا ہوں لیکن میرا غالب گمان یہ ہے کہ سات مرتبہ گیا ہوں کیونکہ میں جہاں تک یاد کرتا ہوں معلوم ہوتا ہے کہ شیخ کی زندگی اور آپ کے انتقال کے بعد کل دس دفعہ اجودھن گیا ہوں۔ ازاں بعد فرمایا کہ شیخ جمال الدین ہانسوی سات دفعہ ہانسی سے اجودھن تشریف لے گئے ہیں اور شیخ نجیب الدین متوکل انیس بار تشریف لے گئے ہیں جیسا کہ آپ کے ذکر میں بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

سلطان المشائخ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی بیعت کے بعد دہلی آنے، سکونت اختیار کرنے اور شہر  غیاث پور میں تشریف لانے کا بیان

کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار جناب سید مبارک محمد کرمانی سے سنا ہے کہ جب تک حضرت سلطان المشائخ شہر دہلی میں رہے کوئی مکان بساست کے لیے خرید نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کرایہ کے مکانوں میں سکونت رکھی۔ نیز ساری عمر ایک جگہ مقام اختیار نہیں کیا۔ جب آپ ابتداء بدایوں سے تشریف لائے تو میاں بازار کی سرائے میں فروکش ہوئے جسے نمک کی سرائے بھی کیا جاتا ہے۔ آپ نے والدہ محترمہ اور ہمشیرہ عزیزہ کو تو یہیں رکھا تھا اور خود بارگاہ قواس میں جو سرائے مذکورہ کے سامنے واقع تھی سکونت رکھی اور اسی محلّہ میں امیر خسرو بھی تشریف رکھتے تھے۔ چند روز کے بعد  راوت عرض کا مکان خالی ہوگیا کیونکہ اس  کے لڑکے اپنی اپنی زمینوں میں چلے گئے تھے۔ چونکہ راوت عرض امیر خسرو کا رشتہ میں نانا ہوتا تھا اس وجہ سے سلطان المشائخ امیر خسرو کے ذریعہ سے اس مکان میں منتقل ہوگئے۔ تقریباً دو سال تک اس مکان میں سکونت رکھی۔ یہ مکان قلعہ دہلی کے برج کے متصل دروازہ مندہ اور پُل کے نزدیک واقع تھا۔ یہاں تک کہ قلعہ کا برج گھر کی عمارت میں داخل ہوگیا تھا اس مکان کے چاروں اضلاع میں بڑی بڑی بلند اور عظیم الشان عمارتیں بنی ہوئی تھیں اور  امیرانہ محل بڑی شان و شوکت سے تعمیر کیے گئے تھے۔ اتفاق سے سید محمد کرمانی۔ کاتب حروف کے جد بزرگوار بھی اپنے متعلقین کو  ساتھ لے کر اجودھن سے دہلی میں آئے اور اسی مکان میں سلطان المشائخ کی خدمت  میں فروکش ہوئے۔ اس مکان میں تین درجے تھے۔ نیچے کے درجہ میں تو سید  کرمانی اپنے متعلقین کے ساتھ سکونت  رکھتے تھے اور  بیچ کے منزل میں جناب سلطان المشائخ تشریف رکھتے تھے اور اوپر  کے درجہ میں آپ کے یار و اصحاب فروکش تھے اور سب صاحب کھانا یہیں کھاتے تھے۔ کاتب حروف کے والد فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں بجز میرے اور مبشر کے کوئی دوسرا خدمت گارنہ تھا اور میں اس وقت بہت ہی کم سن اور نو عمر تھا۔ سلطان المشائخ کی افطاری کا کھانا کاتبِ حروف کی دادی خود اپنے ہاتھ سے مرتب کرتی تھیں کیونکہ وہ بھی شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کی بیعت سے معزز و مشرف ہو چکی تھیں اور اس وجہ سے انہیں سلطان المشائخ سے ایک خاص محبت و الفت ہوگئی تھی۔ الغرض جب افطار کا وقت ہوتا تو کاتبِ حروف کے بزرگوار دادا سید محمد کرمانی جو سلطان المشائخ کے ہم خرقہ تھے خود کھانا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے لیکن وضو کرانے اور پاخانہ میں ڈھیلے رکھنے کی خدمت خصوصیت کے ساتھ کاتب حروف کے والدِ ماجد کے سپرد تھی۔ اسی اثناء میں راوت عرض کے لڑکے اپنی جاگیروں سے واپس آئے اور مکان خالی کرانے لگے۔ جناب سلطان المشائخ نے مکان کی تلاش میں ایک شخص کو روانہ کیا لیکن مالکان مکان نے اپنے اعزاز کے بھرو سے پر سلطان المشائخ کو اس قدر بھی مہلت نہیں دی کہ آپ کوئی دوسرا مکان تلاش تلاش کرسکتے مجبوراً وہاں سے اٹھے اور آپ کی کتابیں جن کے علاوہ اور کوئی اسباب نہ تھا لوگوں نے سر پر رکھیں اور سراج بقال کے گھر کے آگے چھپر دار کی مسجد میں فروکش ہوگئے۔ ایک رات سلطان المشائخ مسجد میں رہے اور کاتب حروف کے دادا سید محمد کرمانی اپنے متعلقین کے ساتھ چھپردار کی دہلیز میں پڑے رہے دوسرے روز  سعد  کاغذی جو شیخ صدر الدین کا ایک مخلص و بے ریا مرید تھا یہ ماجرا سن کر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انتہا درجہ کی تعظیم و الحاح سے اپنے مکان پر لے گیا۔ سعد کے مکان کی چھت پر ایک نہایت خوبصورت اور وسیع کمرہ بنا ہوا تھا جس میں ہر طرح کا آرام تھا۔ سلطان الشائخ کو تو اس نے اس کمرہ میں اتارا اور سید محمد کرمانی کے لیے علیحدہ ایک مقام مرتب کیا چنانچہ کامل ایک مہینے تک سلطان المشائخ اس کمرہ میں سکونت پزیر رہے۔ اس کے بعد آپ وہاں سے اٹھے اور سراے رکابدار کے ایک محفوظ مکان میں جو اسی سرائے کے ایک گوشہ میں واقع تھا تشریف لے گئے۔ یہ سرائے پل قیصر کے متصل تھا سید محمد کرمانی نے بھی اسی سرائے کا ایک حجرہ لے لیا اور اس میں مع متعلقین کے سکونت اختیار کر لی پھر ایک مدت کے بعد سلطان المشائخ نے سرائے کے مکان کو خدا حافظ کہا۔ اور شادی گلابی کے مکان میں جو محمد میوہ فروش کی دکانوں کے متصل تھا رہنا اختیار کیا۔ اسی اثناء میں شمس الدین شر بدار کے فرزند اور قریبی رشتہ دار سلطان المشائخ کے معتقد ہوگئے اور آپ کو نہات اعزاز و اقتدار کے ساتھ شمس الدین شربدار کے مکان میں لے آئے۔ سالہا سال آپ اس گھر میں رہے اور یہاں راحت و آسائش کے علاوہ آپ کی جمعیت و اطمینان میں بہت کچھ ترقی ہوگئی۔ اجودھن سے جو آپ کے یارو اصحاب تشریف لایا کرتے وہ اکثر اوقات سلطان المشائخ کے پاس اسی مکان میں رہا کرتے۔ اس محلہ میں ایک عزیز صاحب دولت و ثروت بھی رہتا تھا جسے خواجہ محمد نعلین دوزکہا کرتے تھے اور جس کی مبارک انگلیاں ہمیشہ جوتیوں کے رنگ سے رنگین رہا کرتی تھیں۔ اسے مہتر خضر علیہ السلام سے ملاقات حاصل تھی۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اس بزرگ نے سلطان المشائخ کو اپنے مکان پر مہمان بلایا۔ اتفاق سے دو تین عزیز اور بھی اس دعوت میں شریک تھے۔ کھانے کے وقت خواجہ محمد نے تھوڑی سی کھچڑی ایک بڑے طباق میں لا کر پیش کی کھچڑی میں نمک زیادہ تھا۔ جب ان لوگوں نے کھانا شروع کیا اور نمک زیادہ معلوم ہوا تو ان عزیز مہمانوں میں ہر شخص خواجہ محمد کی طرف متوجہ ہوکر ایک طیب آمیز بات اور ذو معنی لطیفہ کہنا شروع کیا۔ سلطان المشائخ نے فرمایا یارو کچھ مت کہو اس عزیز کے گھر میں جس قدر نمک موجود تھا پکا کر تمہارے سامنے حاضر کیا۔ الغرض جس شب کو سلطان المشائخ نے راوت عرض کی حویلی چھوڑ کر چھپر دار کی مسجد میں قیام کیا تھا اسی رات کو آپ کے تشریف لے آنے کے بعد راوت عرض کے مکان میں آگ لگ گئی اور وہ تمام رفیع و بلند عمارتیں جو امیرانہ شوقوں سے بنائی گئی تھیں اور وہ خوبصورت و عظیم الشان مکانات جن کی نظیر اس وقت میں بمشکل مل سکتی تھی جل کر  سطح زمین کے برابر ہوگئے۔ یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ جہاں جہاں اور جس جس مکان میں سلطان المشائخ نے سکونت اختیار  کی کاتب حروف کے دادا سید محمد کرمانی اپنے خویش و اقارب کو ساتھ لیے وہیں حاضر رہے اور سلطان المشائخ کو ان دنوں شہر میں رہنے کا اتفاق نہیں پڑا جیسا کہ خود فرماتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں اس شہر میں رہنے کو میرا دل نہ چاہتا تھا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ میں قتلغ خان کے حوض میں بیٹھا تھا اور چونکہ اس زمانہ میں قرآن مجید یاد کرتا تھا اس لیے ہر وقت اسی میں مصروف رہتا تھا اس وقت بھی میں قرآن یاد کر رہا تھا کہ دفعۃً ایک درویش مجھے نظر پڑے جو مشغول بحق تھے میں ان کے پاس گیا اور عرض کیا کیا آپ اسی شہر میں رہتے ہیں؟ فرمایا ہاں یہ میں نے عرض کیا آپ کی طبیعت میں سکون و جمعیت رہتی ہے؟ فرمایا نہیں۔ اس کے بعد اس درویش نے ایک حکایت میرے سامنے بیان کی کہ میں نے ایک مرتبہ ایک عزیز درویش کو دیکھا جو کمال دروازے سے باہر نکلا لبِ خندق پر چلا جا رہا تھا دروازہ کمال کے نزدیک ایک بلند زمین ہے جہاں شہیدوں کا خطیرہ ہے الغرض دروازہ کمال کے باہر وہ درویش مجھے ملا اور کہنے لگا اگر تم ایمان کی سلامتی چاہتے ہو تو اس شہر سے باہر چلے جاؤ میں اس وقت سے اس فکر میں ہوں اور یہی عزم کر رہا ہوں کہ شہر سے باہر چلا جاؤں لیکن چند موانع اس قسم کے پیش آئے جنہوں نے مجھے تھکا کر بٹھا دیا اور میری تمام کوششیں رائگاں گئیں۔ عرصہ پچیس سال کا ہوا جو میری عزیمت مقید ہے مگر یہاں سے نکلنا نہیں ہوتا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جب میں نے اس درویش سے یہ بات سنی تو اپنے دل میں قطعی فیصلہ کر لیا کہ اس شہر میں میں ہرگز نہیں رہوں گا۔ اس کے بعد چند مقامات پر میرا خیال دوڑا کہ وہاں چلاجاؤں۔ کبھی دل میں آتا تھا کہ قصبہ پٹیالی میں چلا جاؤں کیونکہ اس زمانہ میں وہاں ترک یعنی امیر خسرو قیام پزیر تھے کبھی یہ خیال آتا تھا کہ بسنالہ میں جا رہا ہوں۔ کیونکہ یہ موضع شہر سے کسی قدر نزدیک ہے۔ چنانچہ میں نے بسنالہ کا فوراً تہیہ کر لیا اور وہاں بساست کی غرض سے چلا گیا۔ اگرچہ برابر تین روز تک وہاں رہا لیکن کوئی مکان دستیاب نہیں ہوا نہ کرایہ کا نہ گروی کا اور تین روز  تک میں ایک شخص کا مہمان رہا انجام کارو ہاں سے لوٹ آیا مگر دل میں وہی کرید چلی جاتی تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ رانی کے حوض کی طرف ایک باغ میں گیا جو جسرت کے نام سے مشہور تھا وہاں بیٹھا ہوا خدا سے مناجات کر رہا تھا چونکہ وقت نہایت اطمیان کا تھا اس لیے میں نے کہا خدا وندا میں اس شہر سے نکل کر دوسری جگہ جانا چاہتا ہوں لیکن میں اس مقام کو اپنی رائے سے پسند نہیں کرتا بلکہ جہاں تیری مرضی ہو وہاں چلا جاؤں۔ ہنوز میں ان جملوں کو پورا نہ کرنے پایا تھا کہ آواز آئی غیاث پور چلے جاؤ میں نے اس سے پیشتر کبھی غیاث پور دیکھا نہ تھا اور اس کا رستہ تک نہیں جانتا تھا۔ یہ آواز سنتے ہی میں ایک دوست کے پاس گیا جو نیشا پور کا باشندہ تھا اور نقیب کہلایا جاتا تھا۔ جب میں اس کے مکان پر پہنچا تو لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ غیاث پور گیا ہوا ہے میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ وہی غیاث پور ہے الغرض اس کے ہمراہ ہوکر غیاث پور پہنچا اس زمانہ میں یہ مقام چنداں آباد نہ تھا بلکہ ایک مجہول اور غیر معروف موضع تھا چنانچہ میں نے وہاں پہنچ کر اقامت اختیار کی تو اس عہد میں یہاں خلقت کی کثرت ہوگئی بادشاہ اور امرا کی آمد و رفت ہونے لگی اور اس آمد و شد کی وجہ سے خلقت کا ہجوم بہت کچھ ہوگیا۔ اب میں نے خیال کیا کہ یہاں سے بھی چلنا چاہیے۔ میں اسی تردد و اندیشہ میں تھا کہ اسی دن دوسری نماز کے وقت ایک جوان آیا اگرچہ حسن و خوبصورتی کے لحاظ سے لاکھ دو لاکھ میں نہیں تو ہزار دو ہزار میں ضرور تھا لیکن جسم کے اعتبار سے نہایت ضعیف و لاغر تھا خدا معلوم کہ وہ مردانِ غیب میں سے تھا یا کیا تھا۔ بہر صورت اس نے آتے ہی سب سے اول مجھ سے یہ بات کہی۔

آنروز کہ مہ شدی نمید انستی
امروز کہ زلفت دل خلقے بربود

 

کانگشت نمائے عالمے خواھی شد
درگوشہ نشتنت نمیدا رد سرد

 

(جس روز تو ماہ نو تھا تو تجھے معلوم نہ تھا کہ ایک عالم انگشت نما ہوگا۔ آج کہ تیری زلف نے ایک خلق کے دل کو اچک لیا تو اب گوشہ نشینی کیا فائدہ رکھتی ہے۔)

ازاں بعد اس نے سلسلۂ کلام اس طرح چھیڑا کہ اول تو آدمی کو مشہور ہی نہ ہونا چاہیے اور جب مشہور ہوگیا تو اس درجہ مشہور ہونا چاہیے کہ کل قیامت کے روز جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ و خجل نہ ہو۔ اس کے بعد اس نے یہ بھی کہا کہ واہ کیا قوت اور کیا حوصلہ ہے کہ خلق سے گوشہ اختیار کر کے مشغول بحق ہوں۔ یعنی یہ کوئی قوت و حوصلہ نہیں ہے بلکہ قوت و حوصلہ اس کا نام ہے کہ باوجود خلقت کے ہجوم کے مشغول بحق ہوں۔ جب اس کی ان تمام باتوں کا خاتمہ ہوگیا تو میں نے قدرے کھانا اس کے سامنے رکھا لیکن اس نے نہیں کھایا اسی اثناء میں میں نے اس پر عزم بالجزم کر لیا کہ اس مقام کو چھوڑ کر دوسری جگہ نہ جاؤں گا جب میں نے یہ نیت کی تو اب وہ کھانے کی طرف مائل ہوا اور اس میں سے تھوڑا سا کھانا تناول کر کے چلا گیا۔ اس کے بعد پھر میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ کاتبِ حروف عرض کرتا ہے کہ سلطان المشائخ کی ہمت ہمیشہ اسی میں مصروف رہی کہ کسی مخلوق کو میری مشغولیوں پر اطلاع نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی سَدا کوشش رہی کہ خلق سے اعراض کر کے مشغول بحق ہوں اور اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ خود سلطان المشائخ بارہا فرمایا کہ کرتے تھے کہ جب جوانی کے زمانہ میں مجھے لوگوں کے ساتھ نشست برخاست کرنے کا اتفاق ہوتا تھا تو اس سے میرے دل میں بے حد گرانی پیدا ہوتی تھی اور میں کہا کرتا تھا کہ وہ کون سا زمانہ ہوگا جو ان لوگوں سے نکل کر تنہا مقام میں پہنچوں گا اگرچہ میرے حلقے میں نشست برخاست کرنے والے لوگ دنیا دار نہ ہوتے تھے بلکہ متعلم اور طالب العلم ہوتے تھے اور ہر وقت علمی بحث میں مشغول رہتے تھے لیکن مجھے ان سے نفرت ہوتی تھی چنانچہ میں اکثر اپنے یاروں سے کہا کرتا کہ تم لوگوں میں نہیں رہوں گا صرف چند روز کا مہمان ہوں اور اس دعوے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ آپ ہمیشہ مکانوں کو تبدیل کرتے رہتے تھے اور ایک جگہ استقامت نہیں کی یہاں تک کہ غیب سے اس بارے میں اجازت سنی۔ علی ہذا القباس جناب سلطان المشائخ نے راہ سلوک کے مخفی رکھنے میں انتہا درجہ کی کوشش کی چنانچہ فرماتے تھے کہ ابتدائی زمانہ میں آنے والوں سے سنتا تھا کہ شیخ خضر پارہ دوز نے بہار میں ایک خانقاہ بنائی ہے اور درویشوں کی بہت کچھ خدمت کرتے ہیں۔ میں نے ان کا یہ حال سن کر عزم بالجزم کیا کہ وہاں پہنچ کر ان کے غلاموں اور بچوں کو تعلیم دوں لیکن جب چند روز کے بعد اس طرف سے آنے والے آئے تو شیخ خضر نے ان کے ہاتھ مجھے ایک خط بھیجا جس سے ان کی عام اخلاق اور مردمی و قابلیت بہت کچھ ظاہر ہوتی تھی۔ میں نے خط پڑھتے ہی جان لیا کہ وہ مجھے پہچان گئے لہذا میں نے اپنا ارادہ بالکل فسخ کر دیا اور نیت کر لی کہ اب میں وہاں نہ جاؤں گا۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں خطیرہ میں جاتا تھا اثناء راہ میں چند چھوٹے چھوٹے چھپروں پر میری نظر پڑی میں نے بکمال آواز سے دل میں کہا کہ اگر مجھ جیسے شخص کو اس قسم کے چھپرمل جائیں تو بہت بہتر ہے۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ابتدائی زمانے میں کبھی کبھی میرے دل میں آتا تھا کہ مردانِ غیب کی صحبت اگر میسر ہو تو خوب بات ہے۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ ایک نہایت بے سود آرزو ہے کسی بہتر مصلحت کا پیچھا کرنا چاہیے۔ آپ فرماتے تھے کہ مردانِ غیب اول آواز دیتے ہیں پھر اپنی بات سناتے ہیں۔ ازاں بعد ملاقات کرتے ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کو اُچک لے جاتے ہیں۔ اس حکایت کے اخیر میں آپ کی زبان مبارک پر یہ  لفظ جاری ہوئے کہ اس شخص کے لیے وہ کیا ہی عمدہ اور راحت خیزمقام ہے جہاں مردانِ غیب اسے کھینچ لے جاتے ہیں۔

 

سلطان المشائخ کے ان مجاہدوں کا بیان جو

ابتداء حال میں کیے گئے

جناب سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے ساتھ کشتی میں بیٹھا ہوا تھا تمام یار حاضر تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا یار لوگ ہر وقت اٹھ اٹھ کر  سایہ کرتے تھے یہاں تک کہ قیلولہ کا وقت ہوا اور سب لوگ سوگئے مگر یہ دعا گو بیٹھا ہوا شیخ شیوخ العالم کی مکھیاں جھلتا رہا اتنے میں شیخ صاحب بیدار ہوئے مجھ سے فرمانے لگے یار کہاں گئے میں عرض کیا قیلولہ میں مصروف ہیں فرمایا ذر اورے آؤ۔ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ازاں بعد آپ نے بیان کرنا شروع کیا کہ جب تم دہلی میں پہنچو تو مجاہدہ میں مصروف رہو کیونکہ بیکار رہنا اچھا نہیں ہے روزہ رکھنا آدھا رستہ ہے اور دوسرے اعمال مثلاً نماز اور حج آدھا رستہ۔ اس کے بعد مولانا بدر الدین نے فرمایا کہ شیخ شیوخ العالم نے یہ سفر خاص تمہارے ہی لیے کیا تھا یعنی سفر میں تم شیخ شیوخ العالم کی بخشش سے بہت بڑی نعمت لے گئے۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ کے اس فرمان سے مجھے ایسا ذوق شوق حاصل ہوا کہ میں آپ سے پوچھنا بھول گیا کہ کون سا مجاہدہ اختیار کروں لیکن بعد  کو جب یاروں سے پوچھا اور مشورہ کیا تو انہوں نے صائم الدہر ہونے کا ارشاد کیا چنانچہ میں نے ہمیشہ روزہ سے رہنا اختیار کر لیا مگر چونکہ شیخ شیوخ العالم سے خود اس کی اجازت حاصل نہیں کی تھی اس لیے کبھی کبھی اس میں خلل پڑجاتا ہے۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے غیاثی کے عہد میں اگرچہ دو آنے من بھر خرپزہ بکتے تھے لیکن اکثر فصل گزر گئی تھی کہ میں نے خرپزہ چکھا تک نہ تھا ار میں اس پر خوش تھا میری دلی آرزو تھی کہ اگر باقی فصل بھی خرپزہ کھایا جائے تو بہت اچھا ہے یہاں تک کہ آخر موسم میں ایک شخص کئی خرپرے اور چند روٹیاں میرے پاس لایا۔ چونکہ غیبی سامان تھا اس لیے میں نے اسے قبول کر لیا۔ خرپزوں کی فصل کا یہ پہلا ہی دن تھا جس میں میں نے خرپزہ کھایا۔ ازاں بعد آپ نے فرمایا کہ ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک رات دن گزر چکا  تھا اور دوسری رات نصف کے قریب آگئی تھی کہ مجھے کوئی چیز کھانے کے لیے دستیاب نہیں ہوئی تھی حالانکہ اس زمانہ میں ایک آنہ کی دوسیر میدہ کی روٹیاں بکتی تھیں لیکن میرے پاس ایک دانگ بھی نہ تھا کہ میں روٹیاں بازار سے خرید کرتا اور میری والدہ محترمہ اور ہمشیرہ عزیزہ اور گھر کے دیگر آدمی جو میری کفالت میں تھے سب کا یہی حال تھا ایسی صورت میں اگر کوئی شخص مصری یا شکر یا قیمتی جامہ ہدیۃً پیش کرتا اگرچہ اسے فروخت کر کے میں اپنی غرض پوری سکتا تھا لیکن میں نے کبھی ایسا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسی فاقہ کشی کی حالت  میں رہنا مناسب و بہتر سمجھا۔ اور جو کچھ غیب سے پہنچتا اسے کافی جانتا۔ شیخ محمود نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سلطان المشائخ کو فرماتے سنا کہ جس زمانہ میں اس برج میں بساست رکھتا تھا جو دروازہ مندہ کے متصل تھا اس زمانہ میں ایک وقت مجھ پر تین روز گزرگئے تھے کہ کہیں سےکوئی چیز نہیں پہنچی تھی اتفاقاً ایک مرد آیا اور اس نے دروازہ کا کیواڑ کھٹ کھٹایا۔ میں نے ایک شخص سے کہا جا کر دیکھ دروازہ پر کون ہے۔ چنانچہ وہ شخص  کیا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو  ایک شخص  کھچڑی کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے کھڑا تھا اسلام علیک بعد کھچڑی کا پیالہ اس کے ہاتھ میں دیا اور رخصت ہوا۔ جب یہ شخص  کھچڑی کا بھرا ہوا پیالہ میرے سامنے لایا تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ اس شخص کو پہچانتا ہے اس نے جواب دیا کہ نہیں میں اسے نہیں جانتا۔ الغرض میں نے وہ کھچڑی تناول کی جو حلاوت و ذوق میں نے اس خشک کھچڑی میں پایا۔ اس  وقت تک کسی کھانے میں نہیں پاتا ہوں اور نعمت اس ضعیف کو  پہنچتی ہے کسی آنے والے کے طفیل میں کھائی جاتی ہے۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ میری والدہ محترمہ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ برتاؤ رہتا تھا کہ جب ہمارے گھر میں غلہ نہ ہوتا تو آپ مجھ سے فرماتیں کہ آج ہم خدا کے مہمان ہیں آپ کے اس فرمانے کا میرے دل میں وہ عجیب و غریب اثر پڑا  کہ سارا دن اس بات کے ذوق و شوق میں گزار دیتا تھا اتفاق سے ایک شخص غلہ کا یک کافی بوجھ ہمارے گھر میں لاتا اور ہم متواتر چند روز تک اس کی روٹی کھاتے یہاں تک کہ میں تنگ ہوجاتا کہ کس  دن یہ غلہ نبڑے گا اور کس دن والدہ محترمہ فرمائیں گی کہ ہم خدا  کہ مہمان ہیں چنانچہ جب غلہ ختم ہوجاتا تو  والدہ محترمہ مجھ سے فرماتیں کہ آج ہم خدا کے مہمان ہیں اس سے وہ ذوق و راحت مجھ میں پیدا ہوتی کہ جسے میں کسی طرح بیان نہیں کرسکتا۔ کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار  سید محمد مبارک سے سنا ہے کہ فرماتے تھے۔ جب اس سے پیشتر سلطان المشائخ غیاث پور میں سکونت  رکھتے تھے تو آپ کے مکان میں ایک زنبیل لٹکی رہتی تھی افطار کے وقت جب اسے ہلایا جاتا تھا تو اس میں سے روٹی کے خشک ٹکڑے گرتے لوگ انہیں ٹکڑوں کو سلطان المشائخ کے سامنے لا کر  رکھتے جن سے آپ روزہ افطار کرتے اور جن سے آپ کے چند ملازموں کی قوت چلتی تھی۔ کاتبِ حروف  نے جناب سید السادات سید حسین محمد اپنے عم بزرگوار سے سنا ہے فرماتے تھے کہ ایک درویش جناب سلطان المشائخ کے افطار کے وقت آیا اس وقت آپ کے سامنے دستر خوان بچھا ہوا تھا اور وہی زنبیل کے خشک ٹکڑے دستر خوان پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے ابھی تک روزہ افطار نہیں کیا تھا لیکن افطار  کرنا  چاہتے تھے۔ اس درویش نے جانا کہ جناب سلطان المشائخ کھانا تناول کر چکے ہیں اور ٹکڑے دستر خوان پر باقی رہ گئے ہیں۔ چنانچہ اس نے وہ تمام ٹکڑے دستر خوان سے چُن لیے اور ہاتھ میں لے کر روانہ ہوا جناب سلطان المشائخ نے یہ  دیکھ کر تبسم فرمایا ہنوز ہمارے کام میں بہت بڑی بھلائی ہے کہ ہمیں بھوکا رکھا گیا۔ یہ کیفیت دو فاقوں کے بعد  ظاہر ہوئی تھی کہ وہ درویش غیب سے آموجود ہوا۔ کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار سے سنا ہے کہ فرماتے تھے جس  زمانہ میں سلطان المشائخ پر  افلاس و تنگدستی کی گھٹا چھائی ہوئی تھی اور فقر و فاقہ کا دائرہ نہایت وسیع و فراخ ہوگیا  تھا تو آپ کے بعض خدمت گار نہایت  عاجز و تنگ تھے حتی کہ آپ کے اعلی رفیق یعنی شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے مریدوں کو افلاس  نے سخت  تنگ کر رکھا تھا اور ان کی زندگی نہایت  سختی و شدت کی حالت میں بسر  ہوتی تھی۔ فاقہ پر فاقے کھینچتے تھے اور زبان سے اُف تک نہیں نکالتے تھے۔ اسی اثناء میں سلطان جلال الدین خلجی نے کچھ تحائف سلطان المشائخ کی خدمت میں بھیجے اور ایک معتبر شخص کی معرفت کہلا بھیجا کہ اگر آپ کا حکم ہو تو میں ایک گاؤن حضور کے خدمت گاروں کے واسطے مقرر کردوں تاکہ فارغ البالی کے ساتھ آپ کی خدمت میں مصروف رہیں۔ سلطان المشائخ نے کہلا بھیجا کہ مجھے اور میرے خدمت گاروں کو تمہارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں میرا اور ان کا خدا کار ساز اور میر سامان ہے۔ یہاں جب آپ کے بعض ان معتقدوں نے جو فقر و فاقہ کے عذاب میں مبتلا اور افلاس و تنگدستی میں گرفتار تھے یہ خبر سنی تو اتفاق کر کے سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب نے یکبار ہجوم کر کے عرض کیا کہ سلطان المشائخ اسی حال میں کمال بہتری سمجھتے ہیں کہ پانی تک نہیں پئیں لیکن ہم لوگ اس قدر طاقت نہیں رکھتے ہمارا حال نہایت نازک اور ناگفتہ بہ ہے۔ سلطان المشائخ نے ان کی یہ تقریر سن کر اپنے دل میں خیال کیا کہ جن خدمت گاروں اور بعض دوستوں نے جو یہ شکایت پیش کی ہے۔ میں ان میں سے کسی کی طرف ذرابھی التفات نہیں رکھتا اگر سب کے سب اس وقت مجھے چھوڑ کر چلے جائیں تو مجھے کچھ افسوس اور غم نہیں ہے لیکن ان چند رفیقوں اور دوستوں کو جو میرے ہم خرقہ ہیں اس بارہ میں آزمانا ضرور ہے کہ وہ بھی آسائشِ دنیا کے طالب ہیں یا نہیں۔ اس بنا پر آپ نے سید محمد کرمانی کاتب حروف کے بزرگوار دادا اور بعض اعلیٰ درجہ کے دوستوں کو بلایا اور سلطان جلال الدین خلجی سے گاؤن لینے کے بارہ میں مشورہ کیا۔ سب نے متفقہ الفاظ میں گزارش کی کہ مولانا نظام الدین ہم جو اس وقت آپ کے گھر میں وقت بے وقت روٹی کھا لیتے ہیں اسے بہت غنیمت اور شکریہ کی جگہ سمجھتے ہیں اگر سلطان جلال الدین کی طرف سے آپ کے لیے گاؤں مقرر ہوجائے گا تو ہم اس کے بعد پانی بھی نہ پئیں گے۔ سلطان المشائخ ان حضرات کا یہ دلکش اور فرحت انگیز جواب سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے دوسرے لوگوں سے چنداں غرض نہیں ہے نہ ان کی طرف التفات ہے میرا مقصود غرض صرف تم لوگوں سے تھی سو الحمد اللہ کہ تمہاری دلسوزی اور قابلیت سے بھری ہوئی جواب نے مجھے بے حد خوش کیا۔ در حقیقت تم لوگ میرے مددگار اور دین کے کام میں معین ہو۔ یاروں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اور دوستوں کے لیے یہ ہی بات زیبا ہے۔ چند معتبر اور مستند لوگوں سے منقول ہے کہ جب سلطان المشائخ جناب شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں بمقام اجودھن موجود تھے تو آپ کے بدن کے کپڑے نہایت میلے ہوگئے تھے اور چونکہ آپ کو کہیں سے صابن دستیاب نہیں ہوسکتا تھا اس لیے انہیں دھو کر سفید نہیں کر سکتے تھے۔ ایک دن کاتب حروف کی دادی بی بی رانی نے سلطان  المشائخ سے عرض کیا کہ برادر من! تمہارے کپڑے بہت میلے ہوگئے ہیں اور جا بجا سے پھٹ بھی گئے ہیں اگر تم مجھے اتار کر دے دو  تو میں انہیں صابن وغیرہ سے صاف کردوں۔ اور پیوند پارے سے بھی درست کردوں۔ سلطان المشائخ نے ہر چند  زبان کرم سے معذرت کی لیکن بی بی رانی نے آپ کا عذر قبول نہیں کیا اور اپنی چادر دے کر کہا کہ جب تک میں تمہارے کپڑے دھو دھلا کر صاف کروں اسے اوڑھے رہو۔ سلطان المشائخ نے ایسا ہی کیا۔ کاتب حروف کی دادی کپڑے دھونے میں مشغول ہوئیں اور سلطان المشائخ کتاب ہاتھ میں لیے ہوئے ایک گوشہ کی طرف چلے گئے اور مطالعہ میں مصروف ہوئے۔ یہاں بی بی رانی نے کپڑوں کو خوب صاف کیا اور جب وہ سوکھ گئے تو آپ نے کاتب حروف کے دادا سید محمد کرمانی سے ان کی پگڑی مانگی اور اس میں سے تھوڑا سا کپڑا پھاڑ کر پانی سے دھویا اور خشک ہوجانے کے بعد سلطان المشائخ کے کُرتے میں پیوند لگایا جو گریبان کے پاس سے پھٹا ہوا تھا۔ اس کے بعد سلطان المشائخ کی خدمت  میں حاضر ہوکر کپڑے پیش کیے جنہیں آپ نے بصد معذرت اور نہایت شکریہ کے ساتھ زیب بدن فرمایا یہی وہ رعایت تھی جو سلطان المشائخ سے آخر عمر تک سید محمد کرمانی اور ان کے فرزندوں کے حق میں ظہور میں آتی رہی چنانچہ آج کے دن تک اس خاندان کے لوگ سلطان المشائخ کے صدقہ میں پرورش پاتے اور روضۂ متبرکہ کے ارد گرد جان قربان کرتے ہیں۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

آن بخت کو کہ یک قدم آئیم سوئے تو

آن دولت از کجا کہ بہ ببینیم روے تو

بوئے گل رخت  بمشام دلم رسید

جلہن مید ھیم بر سر کویت بہ بوئے تو

سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بداؤں سے دہلی آتا تھا۔  رستہ میں ایک گڈری پوش مجھے ملا جس کے بغل میں کالا  کمبل اور سر پر ایک میلا کچیلا سر بند تھا۔ یہ شخص مستانہ وار میرے سامنے آیا اور دور سے سلام کیا جب مجھ سے بہت ہی قریب ہوا تو گلے سے لگ گیا اور  میرے سینہ کو سونگھنے لگا ازاں بعد اپنا سینہ میرے سینہ پر رکھا اور آنکھ اٹھا کر اول مجھے دیکھا پھر کہنے لگا اس جگہ مسلمانی کی بو آتی ہے۔ یہ کہہ کر چلا گیا اور مجھے معلوم نہ ہوا کہ وہ کون شخص  تھا۔ ایک اور مرتبہ جماعت خانہ میں دستر خوان بچھا ہوا تھا اور اس پر روٹیاں چُنی ہوئی تھیں کہ وہی درویش آیا اور سلام کر کے دستر خوان پر تو بیٹھا ہوا دیکھا لیکن پھر یہ معلوم نہیں ہوا کہ کب اور کس وقت چلا گیا۔ چنانچہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب میں نے اسے تلاش کیا تو پتہ نہیں لگا۔ حاضرین جلسہ سے میں نے پوچھا کہ یہ درویش جو ابھی دستر خوان پر بیٹھا تھا کھانا کھا کر گیا ہے یا یوں ہی چلا گیا ہے۔ لوگوں نے بیان کیا کہ چار روٹیاں اور قدرے شوربا کاٹھ کے پیالے میں لے گیا ہے۔ خانقاہ کے مقابل میں ایک بلند جگہ بیٹھ کر روٹی کھائی اور کھاتے ہی چلا گیا۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اس زمانہ میں ہمیں عسرت  و تنگدستی کی وجہ سے تین تین فاقوں کے بعد کھانا میسر ہوتا تھا۔ تیسری مرتبہ کا ذکر ہے کہ کلا کہری سے چند دوست مجھ سے ملنے آرہے تھے جن میں مولانا عمر بھی تھے اثنائے راہ میں وہی درویش ان سے مل کر پوچھنے لگا کہ مولانا عمر! کہاں جاتے ہو کہا سلطان المشائخ کی خدمت میں۔ فرمایا کہ اس مسکین کے پاس کیا رکھا ہے جو تم اس قدر ہجوم سے جاتے ہو لو یہ بارہ آنے مجھ سے لو۔ اور سلطان المشائخ کی خدمت  میں پیش کرو۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اس روز سے ہمارے پاس تحفے اور  ہدیے آنے شروع ہوگئے اور ہمیں واضح ہوگیا کہ یہ وہی شخص تھا جو اول مرتبہ مجھ سے ملا تھا اور پھر دوسری دفعہ جماعت خانہ میں روٹی سالن لے گیا تھا اس نے اپنے تئیں بجز عسرت و  تنگدستی کے اورکسی وقت میں ظاہر نہیں کیا۔

 

سلطان المشائخ نظام الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کا

 خلافت اور دنیاوی نعمتیں حضرت با عظمت شیخ شیوخ العالم

فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز سے حاصل کرنا

سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ جب میں ابتدائی زمانہ میں تحصیل علوم میں مشغول رہتا تھا اور اس میں اعلیٰ درجہ کا استغراق و محویت رکھتا تھا تو ایک دن شیخ شیوخ العالم نے فرمایا۔ نظام الدین! تمہیں یہ دعا یاد ہے۔ یا دائم الفضل علی البریۃ یا باسط الیدین بالعطیۃ ویا صاحب المواھب السنیۃ یا دافع البلاء والبلیۃ صلی علی محمد وآلہ البررۃ النقیۃ واغفرلنا بالعشاء والعشیۃ ربنا توفنا مسلمین و الحقنا بالصالحین وصل علی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی ملائکۃ المقربین وسلم تسلیما کثیرا کثیرا برحمتک یا ارحم الراحمین یعنی اے مخلوق  پر ہمیشہ فضل و کرم کا مینہ برسانے والے۔ اے بخششوں اور عطیوں کے بخشنے والے یا بزرگ و بلند عطیات کے مالک اے بلا و آفت کے ٹالنے والے محمد اور ان کے نیک کار اولاد پر حمت نازل فرما اور ہمیں صبح و شام بخشش کا خلعت عنایت کر۔ خدا وندا ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے اور نیک بختوں کے زمرہ میں شامل کردے اور تمام انبیا و مرسلین اور مقرب فرشتوں پر بھی رحمت نازل فرما اور اے ارحم الراحمین اپنی رحمت کے ساتھ ان پر بکثرت سلام بھیج۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں جناب شیخ شیوخ العالم کے اس سوال کے جواب میں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ دعا مجھے یاد نہیں ہے۔ اس پر شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ اس دعا کو یاد کر لو اور چند روز  تک مدا و مت اور ہمیشگی کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو میں تمہیں اپنا جانشین کروں گا اور خلافت کا معزز و ممتاز عہدہ تمہارے تفویض کر دوں گا۔ چنانچہ آپ کے فرمان کے بموجب دعا گو شہر میں آیا اور تین دفعہ دہلی سے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں گیا۔ ازاں بعد ایک روز خواجہ نے مجھے بُلایا یہ رمضان کی تیرہویں تاریخ تھی اور ۶۶۹ ھ کا اخیر تھا۔ شیخ نے ارشاد کیا۔ نظام الدین جو کچھ میں نے تم سے کہا تھا یاد ہے میں نے عرض کیا جی ہاں یاد ہے۔ فرمایا۔ اچھا کاغذ لاؤ تاکہ اجازت نامہ کو اپنے پاس رکھو اور مولانا جمال الدین کو ہانسی میں اور قاضی منتخب کو دہلی میں دکھاؤ۔ چونکہ شیخ شیوخ العالم نے اس مقام پر شیخ نجیب الدین کا ذکر نہیں کیا اس لیے مجھے معلوم ہوا کہ شاید آپ کو ان سے کسی قسم کی رنجش ہے لیکن جب میں دہلی میں پہنچا تو لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ شیخ نجیب الدین نویں رمضان کو انتقال کر گئے ہیں اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ شیخ شیوخ العالم نے جو شیخ نجیب الدین کا نام نہیں لیا تھا حقیقت میں اس کا سبب یہ تھا۔

سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جس دن جناب شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر نے مجھے اپنی خلافت عطا فرمائی تو اس دعا گو کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ خدا تعالیٰ تجھے نیک بخت کرے اور یہ الفاظ بھی زبان مبارک پر جاری فرجائے۔ اسعدک اللہ فی الدارین و رزقک علما نا فعا وعملا مقبولا۔ یعنی خدا تعالیٰ تجھے دونوں جہاں میں نیک بخت کرے اور علم نافع اور عمل مقبول عطا فرمائے۔ نافع علم سے وہ علم مراد ہے جو صرف خدا کے لیے ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تو  ایک ایسا درخت ہو جس کے سایہ میں ایک خلق کثیر آسائش و راحت سے رہے اور یہ بھی فرمایا کہ استعداد کے لیے مجاہدہہ کرنا چاہیے۔ الغرض جب میں اجازت نامہ لے کر  حضرت شیخ شیوخ العالم سے رخصت ہوا تو  شیخ جمال الدین کے پاس ہانسی میں آیا اور انہیں خلافت نامہ دکھایا۔ شیخ جمال الدین نے نہایت خندہ پیشانی سے ملاقات کی اور بے انتہا مہربانیوں کا اظہار فرمایا اور یہ بیت زبان مبارک پر لائے۔

خدائے جھان راھزاراں سپاس

کہ گوھر سپردہ بگوھر شناس

سلطان المشائخ کو جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی طرف سے جو خلافت کا نسخہ اور اجازت نامہ اور ابو شکور سالمی کی تمہید کی سند حاصل ہوئی ہے۔ ان سب باتوں کا اس  مقام پر ذکر کیا جانا ہے پہلے شیخ شیوخ العالم کی عربی عبارت بعینہٖ نقل کی جاتی ہے۔ ازاں بعد اس کا ترجمہ اردو زبان میں قلمبند کیا جائے گا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط الحمد للہ الذی قدم احسانہ علی منتہٖ و آخر شکرہ علی نعمتہ ھو الاوّل ھو الٓا خر والظاھر ولباطن لا مئو خر لما قدم ولا مقدم لما آخر ولا لعلن لما ابطن ولا مخفی لما اظھر ولا یکاد نطق الا و ایل والا واخر علی دیمومتہ اعتبارا او تقابلا۔ والصلوۃ علی رسولہ المصطفیٰ محمد والہ واھل الودد والا وتضیٰ۔ وبعد فان الشروع فی الاصول یوسع دعاء الشھور ویبصر لمن تکریم منھا محارق الورد علی ان الطریق مخوف والعقبۃ کو دو نعمی الکتاب فی ھذا الضنّ تمھید المھتدی ابی شکور برد اللہ مضجعہ وقد قرا عندی الولد الرّشید الامام النقی العالم الرضی نظام الملۃ والدین محمد بن احمد زین الائمۃ والعلماء مفخر الا جلۃ والا تقیاء اعالہ اللہ علی ابتغاء مرضاتہ وانا لہ منتھی رحمتہ واعلی درجاتہ سبقا بعد سبق  من اولہ الی اخرہہ قراء ۃ تدبرو ایقان ویتقط واتقان مستجمع و درایۃ جنانن کما حصل الوقوف علی حسن استعد ادہ کذالک وفور اتحصیاء ہ اخرتہ ان ید رس یہ للمتعلمین لشرط المجانبہ عن التصحیف والغلط التحریف وبذل الجد و الا جتھاد فی التصحیح والتنقیح عن الزلل وعلتہ المعول واللہ العالم وکان ذالک یوم الاربعاء من الشھر المبارک رمضان عظمہ اللہ برکتہ بالا شارۃ العالیۃ ادام اللہ علاھا وعن الحلل حماھا تحرت ھذہ لا سطر بعون اللہ علی اضعف الفقیر الی اللہ الغنی اسحاق بن علی بن اسحاق الد ھلوی بمشا فھتہ حامد او مصلیا فاجزت لہ ایضا بان یروی عنّی جمیع ما ستفادہ و حوی و سمع ذارک منی ودعی والسلام علی من تّبع الھدی و آجزت لہٗ ایضا ان یّلازم الخلوۃ فی مسجد اقسمت فیہ الجماعۃ ولا یخل بشرایطھا التی بھا حصول الزیادۃ وبر فقھا تکون الاقدام عاتلۃ نامیۃ و ذالک تجریدہ المقاصد من مفاسد ھا وتفرید الھمۃ عما تغفلھا وبیان ذالک ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کن فی الدنیا کانک غریب او کعابری سبیل وعد نفسک من اصحاب القبور (الحدیث) فعند ذالک صح قصدہ واجتمع ھمتہ وصارت الھمم المختلفۃ واحلدۃ فلید خل الخلوۃ مفتر انفسہ معدما للخلق عالما بعجزھم تار کا للدنیا وشھر اتھا و اقفا علی مضار تھا و امنیتھا ولتکن خلوتہ معمورۃ بانواع العبادات اذاسئمت نفسہ عن احتمال الا علی ینزلھا الی الاد نٰی وان حجت  فلینز لھا اما بعمل سیر او بالنوم فان فیہ احتراز عن ھو اجس النفس ولیحترز البطالۃ فانھا تقسی القلوب و اللہ تعالی علی ذالک اعانہ و یحفظہ عماشانہ و رحمتہٗ وھوا ارحم الراحمین صلی اللہ علی محمد و الہ وایضا اذا استو فرحظہ من الخلوۃ وانفتحت بھا عین الحکمۃ واجتمعت خلو اتہ بمنادیا تہ وصل الیہ من لم تقدر الوصل الینا یستوفی الیہ ایاہ فیدہ العزیزۃ نائبۃ عن یدنا و ھومن جملۃ خلفائنا والتزام حکمہ فی امر لدین والدنیا من جملۃ تغطیمنا فرحم اللہ من اکرمہ وعظم من اکرمناہ واھان من لم یحفظ حق من حفظنا صح ذالک کلہ من الفقیر المسعود تم بعون اللہ وحسن توفیقہ واللہ اعلم۔

ترجمہ: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تمام حمد و ثنا اس خدا کو سزاوار ہے جس نے اپنے احسان کو اپنی منت پر مقدم اور اپنی نعمت سے شکر کو موخر کیا۔ وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے جسے خدا تعالیٰ بالا کرے اسے کوئی پست کرنے والا نہیں اور جسے وہ پست کر دے اسے بالا کرنے والا نہیں ہے۔ جس چیز کو اس نے پوشیدہ کیا اسے کوئی ظاہر کرنے والا نہیں اور جسے اس نے ظاہر کیا اسے کوئی پوشیدہ کرنے والا نہیں۔ اولین و آخرین کی گویائی خدا تعالیٰ کی ہمیشگی پر نزدیک نہیں ہوتی نہ اعتبار کی رو سے اور نہ تقابل کی حیثیت سے اور خدا کے اس برگزیدہ اور منتخب رسول پر رحمت کاملہ نازل ہو جس کا نام پاک محمد ہے اور اس کے آل و اصحاب اور اہل دوستی اور صاحب برگزیدگی پر بھی خدا کی رحمت نازل ہو۔

حمد و صلوٰۃ کے بعد میں کہتا ہوں کہ اصول حدیث کے علوم میں ابتدا کرنا حاضرین کی دعا کو کشادہ کرتا اور اس شخص کو بینا کرتا ہے جو علم اصول کو پانی دیتا ہے۔ اس بنا پر کہ رستہ خطر ناک اور عاقبت کار نہایت دشوار ہے۔ علم اصول میں سب کتابوں سے بہتر کتاب ابو شکور سالمی کی تمہتدی ہے۔ خدا تعالیٰ اس کی خواب گاہ کو خوش کرے اور تحقیق فرزند رشید امام پاک دین اور پاک رائے دانشمند برگزیدہ نظام الملتہ والدین محمد بن احمد نے مجھ سے پڑھا جو اماموں کا زیب و زینت دینے والا اور بزرگوں اور متقیوں کا فخر ہہے۔ خدا تعالیٰ اپنی رضا مندیوں کے طلب کرنے پر اس کی مدد کرے اور اپنی انتہائے رحمت پر پہنچائے اور اپنی عنایتوں کے اعلیٰ درجے پر جگہ دے۔ اس نے کتاب تمہید اول سے آخر تک سبقاً سبقاً پڑھی اور فکر و اندیشہ اور بغیر کسی شک و گمان۔ اور نہایت ہوشیاری و استواری کے ساتھ پڑھی اور اس  کے ساتھ ہی کان سے سننے اور دل سے جاننے کی رعایت بھی جمع کی۔ جس سے نظام الدین کی خوبی استعداد اور قابلیت پر بہت کچھ اطلاع حاصل ہوئی۔ اس طرح اس کی کثرت آراستگی و شائستگی پر بھی اطلاع حاصل ہوئی لہذا میں نے اسے اجازت  دی کہ متعلمین کو اس کتاب کا سبق پڑھائے بشرطیکہ تصحیف و تحریف اور غلط سے احتراز کرے اور تصحیح و تنقیح میں انتہا سے زیادہ کوشش صرف کرے اور خدا تعالیٰ  کلام میں لغزش کرنے اور  دینی کاموں میں تباہی و بربادی دالنےوالے امور  سے نگہداشت کرنے والا ہے۔ جس دن یہ اجازت نامہ قید کتابت میں لایا گیا وہ چار شنبہ کا دن اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا خدا اس کی برکت کو بزرگ کرے اور اس اجازت نامہ کی کتابت جناب شیخ شیوخ العالم کے اشارہ سے ہوئی خدا تعالیٰ اس کی قدر و منزلت کو بلند کرے اور خلل و لغزش سے نگاہ رکھے۔ یہ چند سطریں خدا تعالیٰ کی مدد سے شیخ شیوخ العالم کے حضور میں مجھ ناتواں کے ہاتھ سے لکھی گئی ہیں۔ جو خدائے بے نیاز کا محتاج اسحاق بن علی بن اسحاق متوطن دہلی ہے۔ در حالیکہ خدا کی حمد کرنے والا اور رسول پر درود بھیجنے والا ہے۔ نیز میں نے نظام الملتہ والدین کو اس بات کی بھی اجازت دی کہ مجھ سے ان تمام چیزوں کی روایت کرے جنہیں مجھ سے حاصل کیا ہے اور جنہیں جمع کیا اور مجھ سے سنا اور یاد  رکھا ہے۔ اور اس شخص پر سلام ہو جو راہِ راست کی پیروی کرتا ہےا ور نیز میں نے اسے اس بات کی بھی اجازت دی کہ کسی ایسی مسجد میں خلوت لازم پکڑے جہاں جماعت قائم ہوتی ہو اور خلوت  کی شرطوں میں جن سے ترقی و زیادتی حاصل ہوتی ہے اور جن کے ترک کرنے میں اقدام بدی کی طرف دوڑاتے ہیں رخنہ ڈالے۔ خلوت کی شرطیں یہ ہیں۔

۱۔ مقاصد کا مفاسد مجرد کرنا۔ ۲۔ ہمت کو ان چیزوں سے یکسو کرنا جو مقاصد سے غافل کرنے والی ہیں۔ اور اس خلوت کا بیان وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو دنیا میں مسافر یا رستہ کے گزرنے والے کی طرح رہ اور اپنے نفس کو اصحاب قبور سے شمار کر۔ الحدیث۔ پس جس وقت خلوت  کی شرطیں ادا کی جاتی ہیں تو  خلوت نشین کا قصد خلوت درست ہوجاتا اور  اس کی ہمت جمع ہوجاتی ہے اور مختلف ہمتیں ایک ہمت ہوجاتی ہیں۔ پس چاہیے کہ خلوت میں اس وقت داخل ہو جب کہ اپنے نفس کو سست کرنے والا ہو در حالیکہ خلق کو معدوم جاننے والا  اور ان کی نا توانی کا عالم ہو دنیا اور اس کی خواہشوں کو ترک کرنے والا اور اس کی مضرتوں اور آرزؤں پر واقف ہو اور چاہیے کہ خلوت  نشین کی خلوت  اقسام عبادات سے آباد ہو۔ جب خلوت  نشین کا نفس اعلیٰ درجہ کے شغلوں کی برداشت کرنے سے عاجز ہو تو  اسے ادنی درجہ کی عبادات کی طرف اتارے اور اگر غلبہ کرے تو نفس کو تھوڑے سے عمل یا تھوڑی سی نیند کے ساتھ خوش کرے کیونکہ اس طرح نفس کے خوش کرنے میں نفس کی شور شوں سے احتراز ہے اور چاہیے کہ خلوت نشین بیکاری سے پرہیز کرے کیونکہ بطالت دلوں کو سخت غفلت میں ڈالتی ہے۔ خدا تعالے نظام الحق  والدین کی اس کام پر مدد کرے اور اس چیز سے نگاہ رکھے جو اس کے خلافِ شان ہے خدا اس پر رحم کرے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ محمد اور آل محمد پر خدا کی رحمت کاملہ نازل ہو۔ نیز جس وقت نظام الدین خلوت  سے بہرہ ور ہوگا اور خلوتوں کی وجہ سے حکمت و دانائی کے چشمے جاری ہوں گے اور اس کی خلوت عبادات نافلہ کو جمع کرنے والی ہوگی اور اس  کے حضور میں وہ شخص پہنچے گا جو ہم تک پہنچنے کی قدرت نہ رکھے گا اس شخص کی طرف کامل نعمت  پہنچائے گا۔ پس نظام الحق کا بزرگ ہاتھ ہمارے ہاتھ کا نائب ہے اور وہ ہمارے تمام خلفاء میں ایک معزز خلیفہ ہے اور نظام الحق کا حکم دینی اور  دنیاوی کام میں لازم پکڑنا منجملہ ہماری تعظیم کے ہے سو  خدا تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو نظام الحق  کا اکرام کرے اور جسے ہم بزرگ رکھیں خدا اسے بزرگی سے رکھے اور جو شخص اس شخص کے حق کی حفاظت نہ کرے جس کی ہم حفاظت کرتے ہیں خدا اسے ذلیل و خوار کرے۔ یہ اجازت نامہ فقیر مسعود کی طرف سے خدا کی مدد و توفیق سے اتمام کو پہنچا۔

کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ جس زمانہ میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ اس مرض میں مبتلا تھے جس میں دار دنیا سے سفر آخرت  قبول کرنے والے تھے تو کاتبِ حروف کے جد بزرگوار سید محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ شہر دہلی سے اجودھن میں پہنچے جا کر دیکھتے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم حجرہ کے اندر ایک اونچی چار پائی پر آرام فرما رہے ہیں اور آپ کے فرزند و اصحاب حجرہ کے دروازے کے آگے بیٹھے ہوئے اس بارہ میں مشورہ کر رہے ہیں کہ سجادہ نشینی اور مقام کی التماس حضور سے کرنا چاہیے۔ اسی اثناء میں سید محمد کرمانی علیہ الرحمۃ پہنچ گئے اور شیخ کی قدم بوسی کے لیے حجرہ کے اندر جانا چاہا۔ لیکن فرزند اندر جانے سے مانع ہوئے اور کہنے لگے یہ وقت اندر جانے کا نہیں ہے۔ سید محمد کرمانی کو اس قدر طاقت کہاں تھی کہ اس حالت میں شیخ کی قدم بوسی سے محروم رہتے فوراً حجرہ کا دروازہ کھولا اور جھٹ اندر گھس گئے اور  اپنے تئیں شیخ شیوخ العالم کے قدموں میں ڈال دیا۔ شیخ کبیر نے چشم مبارک کھولی اور پوچھا سید! کس طرح ہو۔ اور یہاں کب آئے ہو سید کرمانی نے عرض کیا یہ ضعیف بندہ ابھی ابھی حاضرِ خدمت  ہوا ہے اس کے بعد سید نے سلطان المشائخ کا آداب و سلام پہنچانا چاہا مگر ساتھ ہی اندیشہ کیا کہ اگر اس موقع پر سلطان المشائخ کے ذکر سے ابتدا کی جائے گی اور سے پہلے ان کا ذکر چھیڑا جائے گا تو یہ یقینی بات ہے کہ شیخ شیوخ العالم ان کے بارہ میں خاص مرحمت فرمائیں گے اور تعجب نہیں کہ حضور کی زبان مبارک سے سلطان المشائخ کے حق میں کوئی ایسا اعزازی کلمہ صادر ہوجائے جس سے شیخ کبیر کے فرزندوں کا مزاج برہم ہوجائے اور انہیں نہایت ناگوار گزرے۔ اس لیے سید محمد کرمانی نے اول ان مشائخ کی طرف سے آداب و سلام عرض کرنا شروع کیا جو اس زمانہ میں شہر دہلی میں سکونت پزیر تھے اور جسے  شیخ شیوخ العالم رغبت و رضا کے کانوں سے سن رہے تھے لیکن جب حضور نے سلطان المشائخ کا حال دریافت کیا تو جواب میں عرض کیا کہ مولانا نظام الدین مخدوم کی خدمت میں بندگی اور پائبوسی کی عرضداشت کرتے ہیں۔

اور تمام اوقات شیخ شیوخ العالم کی یاد میں صرف کرتے ہیں۔ شیخ شیوخ العالم نے سلطان المشائخ کی اس دلی عقیدت مندی پر انتہا سے زیادہ خوشی ظاہر کی اور چند تلطف آمیز کلمات زبانِ مبارک پر جاری فرمائے۔ ازاں بعد  فرمایا کہ مولانا نظام الدین کیسے ہیں خوش اور راضی ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ جامہ۔ مصلّٰی۔ عصا۔ ان کے حوالے کر دینا۔ جوں ہی شیخ کبیر کے فرزندوں نے یہ بات سنی نہایت برہم و افرختہ ہوئے اور ایک ایک لڑائی جھگڑے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور قہر آلود نظروں کے ساتھ کہنے لگا کہ تو نے یہ کیا کیا۔ افسوس ہمارا حق دوسروں کو دلوایا اور ہمیں ہمارے مطلوب سے محروم و بے نصیب رکھا۔ سید محمد کرمانی نے کہا میرا اس میں کوئی قصور نہیں میں نے سلطان المشائخ کا ذکر خصوصیت کے ساتھ نہیں کیا بلکہ مشائخ دہلی میں سے ہر شخص کی امانت اور سلام و عرض شیخ کبیر کی خدمت میں عرض کیا اثناء بیان میں ان کا بھی سر سری طور  پر ذکر کیا گیا۔ لیکن جب خدا تعالیٰ ہی کو منظور ہو کہ اپنے ایک برگزیدہ بندہ کو فضل و کرم سے معزز و ممتاز کرے تو  میری کیا طاقت کہ خدا وندی دولت کو اس  سے محروم کر سکوں۔ جب شیخ کبیر کے انتقال کی خبر سلطان المشائخ کو پہنچی تو آپ نے اجودھن کا قصد کیا اور وہاں پہنچ کر شیخ شیوخ العالم کے روضۂ متبرکہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے زیارت سے فارغ ہونے کے بعد مولانا بدر الدین اسحاق نے شیخ کا عطا کیا ہوا جامہ۔ مصلا۔ عصا۔ حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچایا اور سید محمد کرمانی کی بابت عرض کیا کہ سید نے آپ کے حقوق محبت کی رعایت آپ کے پیٹھ پیچھے جیسا کرنا چاہیے کی یہ سن کر سلطان المشائخ نے سید محمد کو بغل میں لیا اور تب سے ان دونوں بزرگوں میں عقد محبت اور بھی مستحکم و مضبوط ہوگئی۔ والحمد اللہ علی ذالک۔ جناب سلطان المشائخ نے خود اپنے قلم مبارک سے لکھا ہے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس سرہ العزیز نے جب کاتب حروف کو خدمت  اقدس میں بلایا تو رمضان المبارک کی پچیسویں تاریخ ۶۶۹ ہجری جمعہ کے دن نماز کے فارغ ہونے کے بعد  اپنے دہنِ مبارک کا لعاب کاتب حروف کے منہ میں ڈالا اور کلام ربانی کے حفظ کرنے کی بابت تاکیدی حکم فرمایا اس کے بعد شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین نے فرمایا نظام! میں نے عرض کیا لبیک۔ فرمایا قضا و قدر نے تجھے دین و دنیا کا مالک کردیا ہے جا اور ملک ہند پر قبضہ کر۔ نظرۃ منک یکفنی۔ تیرا ایک دفعہ کا دیکھنا مجھے کفایت کرتا ہے۔ ایک بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے۔

بسعی لطف تو بتو ان ز آتش آب انگیخت

بعون جاہ تو بر چرخ بر توان آمد

(تیرے لطف کی کوشش سے آگ سے پانی اٹھا اور تیرے جاہ کی مدد سے آسمان پر پہنچ سکتے ہیں)

۶۶۹ھ شعبان المعظم کی پہلی تاریخ کو شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں جو کچھ عرض کیا گیا آپ نے قبول فرمایا۔ اور مدد فاتحہ سے مقرون کیا۔ ازاں بعد  کاتب حروف سے فرمایا کہ خلق کے دروازے پر نہ جائے اور اپنی التجا کسی کے پاس نہ لے جائے۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جس زمانہ میں شیخ شیوخ العالم (خدا تعالیٰ ان کی خواب گاہ کو ٹھنڈا رکھے) بیمار تھے مجھے چند یاروں کے ساتھ ان شہیدوں کی زیارت کے لیے بھیجا جو اس طرف پاؤں پھیلائے سوئے ہوئے تھے۔ جب ہم وہاں سے لوٹ کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا۔ تمہاری دعا نے کچھ بھی اثر نہیں کیا مجھے تو اس کا کوئی جواب دیتے نہیں بن پڑا لیکن ایک یار نے جسے علی بہاری کہتے تھے اور جو شیخ سے کسی قدر فاصلہ پر  کھڑا تھا کہا کہ حضور! ہم لوگ ناقص ہیں اور شیخ کی ذات مبارک کامل اور جب یہ ہے تو ناقصوں کی دعا کاملوں کے حق میں کیونکر خلعت قبولیت پہن سکتی ہے چونکہ یہ شخص شیخ سے کسی قدر دور تھے اس لیے ان کی بات آپ کے مبارک کان میں نہیں پہنچی میں نے شیخ کے قریب ہوکر اس کی تقریر کا اعادہ کیا فرمایا نظام الدین! میں نے خدا  تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ تم جو کچھ خدا سے طلب کرو گے پاؤ گے ازاں بعد اسی روز آپ نے مجھے اپنا عصا عنایت فرمایا۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز حجرہ میں سر برہنہ کر کے اور چہرہ کا رنگ متغیر کر کے چاروں طرف پھیرتے اور یہ قطعہ بار  بار پڑھتے تھے۔

خواھم کہ ھمیشہ در وفائے تو زیم
مقصود من خستہ کونین توئی

 

خاکے شوم و بزیر پائے تو  زیم
ازبھر  تو میرم از برائے تو زیم

 

(میں چاہتا ہوں کہ ہمیشہ تیری محبت میں زندہ رہوں خاک ہوجاؤں اور تیرے پاؤں کے نیچے زندہ رہوں۔  دین و دنیا میں مجھ خستہ کا مقصود تو ہی ہے میں تیرے لیے ہی مرتا اور تیرے لیے زندہ رہتا ہوں۔)

جس وقت قطعہ تمام کرتے سربسجود ہوتے جب میں نے چند مرتبے یہ دیکھا تو  حجرہ کے اندر گیا اور شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر کے قدموں میں سر رکھا فرمایا۔ نظام! جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگو۔ میں نے کوئی دینی چیز طلب کی اور شیخ نے مجھے بڑی خوشی کے ساتھ عنایت فرمائی لیکن اس کے بعد میں نہایت پشیمان ہوا اور افسوس کیا کہ میں نے شیخ سے اس بات کی استدعا کیوں نہیں کی کہ سماع کی حالت میں دنیا سے اٹھوں۔ اس کے بعد  قاضی محی الدین کاشانی نے دریافت کیا کہ حضرت وہ کیا دینی چیز تھی جسے آپ نے شیخ شیوخ العالم سے طلب کیا تھا۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ میں نے استقامت کی استدعا کی اور شیخ نے کمال مہربانی سے عنایت فرمائی۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن نظام الدین شیخ شیوخ العالم کے فرزند رشید اور یہ بندہ دونوں شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر تھے کہ شیخ کی زبان مبارک پر یہ لفظ جاری ہوئے کہ تم دونوں میرے فرزند ہو نظام الدین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تم میری روٹی ہو اور اس  ضعیف کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تم میری جان ہو۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین نے فرمایا کہ ایک شخص تھا جس نے مجھ سے تعلق خاص پیدا کر لیا تھا لیکن جب میرے پاس سے گیا تو چند روز تک اس کا مزاج بر  قرار رہا اور پھر بہت جلد  منحرف و برگشتہ ہوگیا۔ ایک اور شخص تھا جو مجھ سے تعلق پیدا کر کے دور دراز ملک میں چلا گیا تھا اور اگرچہ وہاں بہت مدت تک قیام پزیر رہا مگر اس کا مزاج ایک دراز عرصہ تک اسی ہیئت پر برقرار رہا لیکن بہت عرصہ کے بعد انجام کار اس کے مزاج میں بھی تبدیلی واقع ہوگئی۔ یہ حکایت نقل کر کے شیخ نے میری طرف متوجہ ہوکر  فرمایا کہ اس شخص نے جب سے مجھ سے تعلق پیدا کیا ہے اسی ایک حالت پر ہے اور مزاج میں کسی طرح تغیر و تبدل واقع نہیں ہوا ہے۔ سلطان المشائخ نے جب اپنے کلام کے سلسلہ کو  یہاں  تک پہنچایا تو زارو قطار رونے لگے اور اسی گریہ کی حالت میں یہ لفظ مبارک زبان پر جاری ہوا۔ الحمد اللہ کہ اس وقت تک شیخ کی وہی محبت میرے دل میں برقرار ہے بلکہ اس سے بہت کچھ زیادہ۔

 

سلطان المشائخ بادشاہ دین قدس اللہ سرہ کے آخر

عمر کے مجاہدے اور  طرز و روش

کاتب الحروف نے اپنے والد بزرگوار سید مبارک محمد سے سنا ہے کہ جناب سلطان المشائخ نے جوانی کے زمانہ میں کامل تیس سال تک  نہایت سخت اور جگر خراش مجاہدے کیے ہیں چنانچہ ان کا ایک شمہ اس کتاب میں بطریق اختصار بیان کیا جائے گا۔ اور آخر عمر کے تیس سال جن مجاہدوں میں آپ نے بسر کیے ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت اور کٹھن تھے باوجود یکہ دنیاوی جاہ جلال آپ کے خدام کے پیروں میں روندا جاتا اور ہر طرف سے تحائف و ہدایا برابر چلے آتے تھے لیکن آپ کا قانع نفس کبھی ان کی طرف ملتفت نہیں ہوتا تھا ور آپ دنیاوی اقبال و ثروت کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی ذات فرشتہ صفات پر ہمیشہ سخت سخت مجاہدوں کا بار رکھا اور دنیا داروں سے متنفر رہے جس وقت آپ اپنی زندگی کے اسی (۸۰) مرحلے طے کرچکے تھے تو پانچوں وقت نمازِ جماعت کے لیے جماعت خانہ کے چھت سے جو ایک نہایت رفیع و بلند عمارت تھی نیچے اترتے اور درویشوں اور عزیزوں کے ساتھ جن میں ایک جماعت ملکوت بھی ہوتی تھی نماز ادا کرتے اور یہ درویش و عزیز سلطان المشائخ کی برکت سے جنت کے مستحق ہوتے۔ باوجود اس کبر سنی اور فنافی الشیخ ہونے کے ہمیشہ روزے سے رہتے اور افطار بہت کم کیا کرتے۔ افطار کے وقت کوئی نرم اور زود ہضم کھانا تناول فرماتے۔ اگر روٹی ہوتی تو آدھی یا ایک روٹی سبزی یا تلخ کریلے کے ساتھ نوش جان فرماتے ورنہ تھوڑے سے چاول اور یہ بھی عزیزوں اور درویشوں اور مسافروں کی موافقت کی وجہ سے۔ دستر خوان بچھنے کے وقت جس قدر لوگ حاضر ہوتے تھے سب کھانے میں شریک ہوتے تھے البتہ جس شخص کے بارہ میں آپ کی شفقت و مہربانی زیادہ ہوتی وہ خاص طباق اور مختص لقمہ کے ساتھ مخصوص ہوتا اور جس کی قسمت میں ابدی سعادت کا حصہ ہوتا وہ اس مختص لقمہ کے ساتھ معزز و  ممتاز ہوتا۔ مولانا شمس الدین یحیٰ روایت کرتے ہہیں کہ ایک دن میں سلطان المشائخ کے دستر خوان پر حاضر  تھا جس وقت آپ نے روزہ افطار کیا تو میری نظر سلطان المشائخ کی جانب تھی میں نے دیکھا کہ کھانا کھانے کے شروع سے لے کر  دستر خوان کے اٹھائے جانے کے وقت تک سلطان المشائخ نے جس پیالہ کی طرف لقمہ لینے کے لیے ہاتھ دراز کیا تھا وہ دستر خوان کے اٹھنے کے وقت پیالہ میں اسی طرح دراز رہا آپ کا دستور تھا کہ افطار کے بعد بالا خانہ پر تشریف لے جاتے جو آپ کی سکونت  کا مقام تھا اور جو یارو عزیز خاص شہر یا اطراف شہر سے آپ کی زیارت سے مشرف ہونے کے لیے آتے وہ مغرب و عشا کی نماز  کے مابین بلائے جاتے تاکہ تھوڑی دیر مجالست کی سعادت اور جناب سلطان المشائخ کے جمال ولایت سے مشرف و  منور ہوں۔ ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔

طوبی لا عین قوم انت بینھم

فھن من نعمۃ من وجھک الحسن

یعنی اس قوم کی آنکھوں کو خوشی اور  مبارک ہو جن میں تیرا وجود باجود ہے اور وہ تیرے خوبصورت اور  دلگیر چیرہ کے دیدار سے نعمت میں ہیں۔ غریب الوطنوں اور مسافروں کی ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد  ہر طرح کے تر و خشک میوے اور لطیف و خوشگوار اشرابہ حاضر خدمت کیے جاتے جنہیں وہ عزیز تناول کرتے آپ سب کی دلجوئی و خاطر داری کرتے اور ہر ایک شخص سے اس کے احوال کی پرشش فرماتے اور موجودہ نعمتوں کی لذت دریافت کرتے تاکہ کسی شخص کو اس بات کا خیال نہ ہو کہ سلطان المشائخ دنیاوی نعمتوں سے حظ اٹھاتے ہیں بلکہ یہ طرح طرح کی نعمتیں صرف اس  لیے آپ کے دستر خوان پر چنی جاتی ہیں کہ غریب الوطنوں اور شہر کے عزیزوں کی تالیف قلوب ہو۔ الغرض اس  کے بعد سلطان المشائخ عشا کی نماز ادا کرنے کے لیے نیچے اُترتے اور جماعت سے نماز ادا کر کے پھر اوپر تشریف لے جاتے تھوڑے عرصہ تک تو ذکر میں مشغول رہتے بعدہ استراحت کے لیے چارپائی پر تشریف رکھتے جس وقت آپ آرام کرنے کے لیے چار پائی پر بیٹھتے تو خدام تسبیح لا کر دست مبارک میں دیتے اس وقت یاروں میں سے کسی کی یہ مجال نہ ہوتی کہ آپ کے سامنے حاضر ہو۔ لیکن امیر خسرو کو اس وقت بھی آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت تھی جو آپ کے سامنے بیٹھ کر قسم قسم کی راحت انگیز حکایتیں بیان کرتے اور جناب سلطان المشائک امیر خسرو کے خوش کرنے کے لیے سر مبارک رضا کے ساتھ ہلاتے اور وقت بے وقت زبان مبارک سے فرماتے کہ ترک آج کی کیا خبریں ہیں۔ امیر خسرو اس حکم کے صادر ہوتے ہی میدان فراخ پاتے اور اگر کسی نکتہ کی بابت سوال کرتے تو ایک بڑی فصل پڑھتے اس وقت سلطان المشائخ کے چھوٹی عمر کے قرابتی اور بعض آپ کے غلام جو حاضر ہونے کی اجازت پاتے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور  مبارک قدموں کو سر اور آنکھوں سے ملتے تھے چنانچہ امیر خسرو فرماتے ہیں۔

نہ خفت خسرو مسکین  ازیں  ھوس شبھا

کہ دیدہ بر کف پایت نھد بخواب شود

(خسرو مسکین اس خواہش میں راتوں کو نہیں سویا کہ تیرے تلوے پر آنکھ رکھ کر نیند آئے۔)

بعدہٗ جب امیر خسرو اور  دیگر خدمت گار سلطان المشائخ کے فرقد ساتخت کے آگے سے رخصت ہو کر باہر آتے تو آپ کا خادم اقبال نام اندر آتا اور پانی کے چند بھرے آفتابے آپ کے وضو کے لیے رکھ کر باہر آجاتا۔ اس کے بعد سلطان المشائخ اٹھتے اور دروازہ کی کنڈی لگا کر بجز حق  کے اور کسی طرف مشغول نہ ہوتے اب یہ خدا ہی جانتا ہے کہ تمام رات کیا راز و نیاز اور کیا ذوق و شوق خدا تعالیٰ کے ساتھ فرماتے۔ چنانچہ اس بارہ میں یہ بیت سلطان المشائخ  کی زبانِ  مبارک پر بارہا گزری ہے۔

عشقے کہ ز تو دارم اے شمع چگل

دل داندو  من دانم و من دانم و دل

کاتب حروف نے خاص سلطان المشائخ کے خطِ مبارک سے ذیل کا قطعہ لکھا دیکھا ہے۔

تنھا منم و شب و چراغ
گاھش زآہ سرد بکشم

 

مونس شدہ تاپگاہ روزم
گاہ ازتف سینہ بر فروزم

 

(میں باکل تنہا ہوں مگر رات اور شمع شام سے صبح تک میری مونس و غم خوار رہتے ہیں کبھی تو آہ سرد کھینچتا ہوں کبھی سینہ کی سوزش سے بھڑک اٹھتا ہوں۔)

اور یہ بیت بھی بار  ہا زبانِ مبارک پر جاری ہوئی ہے۔

بارے بتما شائے من و شمع بیا

کز من دمکے نماندو  ازوے دو دے

(ایک مرتبہ میرا اور شمع کا تماشا دیکھنے آ  کہ مجھ میں سانس نہیں رہا ہے نہ اس میں دھواں باقی ہے۔)

شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔

شبھا من وشمع میگد ازیم

اینست کہ سوز من نھاں است

اکثر راتوں کو میں اور شمع دونوں پگھلتے ہیں اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں میرا مخفی سوز یہی ہے۔)

مولانا بہرام جو شیخ نجیب الدین متوکل کے پوتوں میں ایک معزز و  ممتاز شخص تھے اور  صلاحیت و  دیانت نیز شجاعت و مردمی کے ساتھ موصوف تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سلطان المشائخ کو جناب شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کا کی قدس اللہ سرہ العزیز کے مزار پر پایا اور ایک ایسی انتہا درجہ کی مشغولی میں دیکھا جس  کا  بیان نہیں ہوسکتا لیکن جب سلطان الاولیا کی سلطان المشائخ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا مجھ پر آج کی رات ظاہر  کیا گیا ہے کہ نظام! جس نے تجھے دیکھا ہے پکا مومن ہے چنانچہ میں اس کے سر  پر بخشش و مغفرت کا تاج رکھا اور  تمام  فرد گزاشت سے در  گزرا  کاتب حروف نے جناب سلطان المشائخ کے خاص خط  مبارک سے لکھا دیکھا ہے کہ انی بلغت ھذہ اللیلۃ اربعین سنۃ فاستحییت من سی ذکرنی ذبابا۔یعنی میں اس شب میں چالیس برس کی عمر کو پہنچا لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ مجھے مکھی کے پر کی مقدار یاد  کرتا ہے تو مجھے اپنی چالیس سالہ عمر سے سخت شرم آئی۔ کاتب حروف کا گمان یہ ہے کہ جس رات میں سلطان المشائخ اس کرامت کے ساتھ مخصوص و ممتاز ہوئے ہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا وہ یہی رات تھی جسے سلطان المشائخ نے اپنے قلم مبارک سے اس  شب کا قصہ عربی عبارت کے ذیل میں نقل فرمایا ہے یعنی جس رات کو سلطان المشائخ اس اعزاز و کرامت سے مشرف ہوئے اور اس اعلیٰ و ارفع درجہ کو پہنچے کہ لوگ آپ کے دیدار پر انور کی وجہ سے بخشے گئے اور مکرم و معزز ہوئے اسی رات کو سلطان المشائخ کی طرف سے جواب ہوا  کہ مجھے اپنی اسی چالیس سالہ عمر سے شرم آتی ہے کہ باوجود اس قدر عمر ہونے کہ حق تعالیٰ کے دربار میں مجھے مکھی کے پر کے برابر یاد کرتے ہیں۔ اگرچہ سلطان المشائخ کی ہر شب۔ شبِ قدر کا درجہ رکھتی تھی جیسا کہ نقل کرتے ہیں کہ ایک رات سلطان المشائخ کتب اسرار الٰہی کے مطالعہ میں مصروف تھے اور جن معانی و مطالب کا عالمِ غیب سے آپ پر الہام ہوتا تھا انہیں اپنی قلم مبارک سے قید کتابت میں لاتے تھے اثناء کتب بینی اور غیبی رموز کے مطالعہ میں سلطان المشائخ کے دست مبارک سے قلم نے چھوٹ کر ایک جست کی اور اپنی نوک زمین پر ٹیک کر سیدھا کھڑا ہوگیا اور خدا تعالیٰ کی پاک و مقدس بارگاہ میں سر نیاز سے سجدہ بجالایا سلطان المشائخ نے اس علامت سے معلوم کر لیا کہ آج شب قدر ہے۔ ایک بزرگ کہتا ہے۔

امشب شبِ قدر است بشتاب

قدرِ شب قدر خویش دریاب

(آج شب قدر ہے دوڑ اور اپنی شب قدر کا مرتبہ حاصل کر۔)

خواجہ سالار جن کا ذکر سلطان المشائخ کے یاروں کے مناقب میں قلمبند ہوا ہے روایت کرتے ہیں کہ سلطان المشائخ فرمایا کرتے تھے کہ جب اخیر رات ہوتی ہے توایک بیت عالم غیب سے میرے دل میں نزول کرتی ہے جس پر میں انتہا خوش ہوتا ہوں اور ایک طرح کی تازگی مجھ میں پیدا ہوتی ہے۔ شیخ سعدی خوب فرماتے ہیں۔

چندان بنشیم کہ بر آید نفس صبح

کان وقت بدل میر سد از دوست پیامے

(ہم فجر کی پوپھٹنے تک اس لیے بیٹھے رہے کہ اس وقت دو  سنت کی طرف کا پیغام پہنچتا ہے۔)

امیر خسرو اس بادشاہ دین کی تعریف میں کیا خوب فرماتے ہیں۔

نے زابرار دیدہ کس علمش
بر شبش ازواج عالم اسرار

 

نے زابدال یافتہ بد لش
صبح دولت دمیدہ در شب تار

 

(نہ تو ابرار کے زمرہ میں کوئی شخص اس جیسا عالم دیکھا گیا نہ ابدال میں اس کی نظیر پائی گئی اس کی ہر شب میں عالم اسرار کے اوج سے تاریک رات میں دولت صبح طلوع ہوتی ہے۔)

ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا۔ چنانچہ آج کی رات میرے دل میں یہ بیت نازل ہوئی۔

ورنہ مانیم عذر مابپذ یر
گر بما نیم زندہ بر  دو زیم

 

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ست
دامنے کز فراق چاک شدہ ست

 

(اگر میں نہ رہوں میرا عذر قبول ہو۔ اے آرزو کہ خاک ہوگئی۔ اگر میں زندہ رہوں گا۔ تو وہ دامن جو چاک ہوگیا ہے سی ڈالوں گا۔)

جب دوسری مرتبہ میں نے اس بیت کو پڑھنا شروع کیا تو دفعۃً ایک عورت کو میں نے دیکھا جس نے میرے پاس آکر نہایت عجز و انکساری سے کہنا شروع کیا کہ تمہیں یہ پڑھنا چاہیے۔ اب سلطان المشائخ نے حاضرین مجلس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اس کی تعبیر کیا ہے قاضی شرف الدین نے جنہیں فیروز بھی کہا جاتا تھا عرض کیا کہ مخدوم! یہ بات آپ نے خواب میں دیکھی ہے یا واقعہ میں سلطان المشائخ نے فرمایا کہ خواب میں نہیں دیکھی بلکہ حالتِ بیداری تھی۔ گویا میں تم بیٹھے باتیں کر رہے ہیں اس پر قاضی شرف الدین نے عرض کیا کہ حضرت! یہ دنیا ہے جو آپ کے پاس سے جانا نہیں چاہتی۔ سلطان المشائخ نے اس کی حذاقت اور دانشمندی کی تعریف کی اور فرمایا حقیقت میں بات یہی ہے۔ الغرض ساری رات سلطان المشائخ کو اسی حالت میں گزر جاتی۔ صبح کے وقت خادم آتا اور باہر کی جانب سے دروازہ کھٹکھٹاتا سلطان المشائخ دروازہ کھولتے اور سحری کا کھانا جس قسم کا موجود ہوتا خدام آپ کے رو برو پیش کرتے۔ اگر نرم و سہل غذا ہوتی تو قدرے تناول فرماتے اور باقی کی نسبت ارشاد کرتے کہ اسے بچوں کے لیے اٹھا رکھو۔ خواجہ عبد الرحیم جن کے ذمہ سحری کا سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کرنا مقرر تھا نقل کرتے ہیں کہ اکثر اوقات سلطان المشائخ سحری تناول نہ فرماتے۔ عبد الرحیم کہتے ہیں میں عرض کیا کرتا کہ مخدوم! آپ نے افطار کے وقت بہت کم کھانا تناول فرمایا ہے۔ اگر سحری کے وقت بھی تھوڑا سا کھانا تناول نہ کریں تو کیا حال ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ضعف قوی ہوجائے گا اور طاقت سلب ہوجائے گی۔ میری یہ بات سن کر سلطان المشائخ زارو قطار رو کر فرماتے کہ بہت سے مساکین و درویش مسجدوں کے کونوں اور  دکانوں میں بھوکے اور فاقہ زدہ پڑے ہوئے ہیں بھلا ایسے وقت یہ کھانا حلق سے کیونکر اتر سکتا ہے غرضیکہ آپ کے آگے سے کھانا اٹھالیا جاتا اور بغیر سحری کھائے روزہ رکھتے۔ القصہ جب روز روشن ہوتا تو جس شخص کی سلطان المشائخ کے جمال مبارک پر نظر پڑتی وہ تصور کرتا کہ شاید کہ کوئی مست ہیں کیونکہ شب بیداری سے آپ کی آنکھیں مبارک ہمیشہ سرخ رہتی تھیں۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

شکارِ چشم تو  جانہا بیکبار
خیال زلف تو خواب از  سرم برد

 

اسیر زلفِ تو دلھا بہرتار
دو چشم مست تو خون دلم خورد

 

(تیری آنکھ کی  بہت سے جانیں دفعۃً شکار ہوگئیں اور  تیرے زلف کے ہر تار میں دل مقید ہوگئے۔ تیری زلف کے خیال نے میری نیند اُچک لی اور تیری آنکھوں نے میرے دل کو خون کر ڈالا۔)

ہر چند کہ سلطان المشائخ نے نہایت سخت اور کڑے مجاہدے اختیار کر رکھے تھے لیکن یہ تعجب سے دیکھا جاتا ہے کہ آپ کے جسم مبارک پر کسی قسم کا ضعف ظاہر نہیں ہوا تھا اور جو ہئیت کہ ابتدا سے رکھتے اس میں ذرا فرق نہ آیا تھا اگرچہ کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں کہ سلطان المشائخ چار یا پانچ سو نماز کی رکعتیں بالالتزام پڑھا کرتے تھے یا اس قدر تسبیح کہتے تھے لیکن اس میں ذرا شک نہیں کہ آپ کی تمام عمر عزیز باطنی مشغولیوں میں صرف ہوئی جسے بجز خدا تعالیٰ کے اور  کوئی نہیں جانتا۔ علاوہ اس کے آپ ہمیشہ تالیف قلوب میں مصروف رہے چنانچہ ایک مقام پر آپ خودیوں فرماتے ہیں کہ مجھے ایک واقعہ میں کتاب دی گئی جس میں لکھا ہوا تھا کہ جہاں تک ہوسکے دلوں کو راحت پہنچا۔ کیونکہ مومن کا دل اسرار ربوبیت کا محل ہے۔ ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔

بکوش کہ راحتے بجانے برسد

یاد ست شکستہ بنانے برس

(اس میں کوشش کرتا رہ کہ  کسی جان کو راحت پہنچے یا کسی شکستہ دست کو روٹی پہنچے۔)

یہ بھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے بازار میں تالیف قلوب اور مسلمانوں کے دلوں کو راحت و آسائش پہنچانے کے مقابلہ میں کوئی اسباب مروح اور قیمتی نہ ہوگا۔ الغرض جب دن ہوتا تو یہ بادشاہ دین تمام دن مشائخ کبار کے سجادہ پر قبلہ کی طرف منہ کر کیئے ہوئے باطن میں مشغول رہتے تھے۔ متوجھا الی اللہ کانہ ینظر الیہ۔ یعنی خدا  کی طرف اس محویت کے ساتھ متوجہ  رہتے تھے کہ گویا خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مختلف رمزوں کے لوگ مثلاً علما۔  مشائخ۔ اکابر و اعاظم، وضیع و شریف میں سے جو شخص آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتا تو اس سے اس کے علم و مرتبہ کے اندازہ کے مطابق کلام کرتے اور  جو شخص جس فن میں کما رکھتا اسی میں نہایت تلطف و مہربانی سے گفتگو کرتے اور ہر طرح اس کی دلجوئی میں مصروف ہوتے۔ غرض کہ سلطان المشائخ ہر شخص کے دل  پر خواہ وہ کسی رتبہ کا ہوتا فوراً قبضہ کر لیتے اگرچہ بظاہر لوگوں کی طرف مشغول ہوتے تھے لیکن باطن میں کلیۃً حق تعالیٰ کی جناب میں متوجہ رہتے تھے۔ اس  معنی میں اپنے وقت کی ولیہ رابعہ عدویہ نے ایک نہایت دلکش نظم لکھی ہے جس کے دو شعر یہ ہیں۔

انی جعلتک فی الفواد محدثی
فالجسم منی للجلیس موانس

 

ویحب جسمی من اراد جلوسی
و حبیب قلبی فی الفواد انیسی

 

یعنی میں نے تجھے دل میں اپنا محدث قرار دیا ہے کہ تو مجھ سے حدیث کیا جاتا ہے۔ اور  جو شخص میرے ساتھ بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے وہ میرا جسم دوست رکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا جسم تو ہم نشین کے لیے الفت پیدا کرنے والا ہے اور میرے دل کا دوست دل میں میرا انیس ہے۔ شیخ سعدی خوب فرماتے ہیں۔

ھر گزو جو دحاضر و غائب شنیدۂ

من درمیان جمع و دلم جائے دیگر است

آنے جانے والے خواہ غریب الوطن و مسافر ہوتے یا شہر کے باشندے غرض کہ جو کوئی آپ کے پاس آتا اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کرتا اسے کبھی محروم نہ چھوڑتے بلکہ کپڑا نقدی تحفے تحائف جو کچھ عالم غیب سے آپ کو پہنچتا سب صرف کر دیتے۔ جو شخص آپ کی قدم بوسی میں حاضر ہوتا خواہ کسی وقت حاضر ہوتا اسے ذرا بھی انتظار کرنا نہیں پڑتا بلکہ اسی وقت بار یابی کی اجازت دی جاتی۔ منقول ہے کہ ایک دن سلطان المشائخ حجرہ کے اندر قیلولے میں مشغول تھے اسی اثناء میں ایک درویش آیا چونکہ اس وقت کوئی چیز موجود نہ تھی اس لیے اخی مبارک نے درویش کو محروم واپس کیا اس وقت سلطان المشائخ نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت کرنا چاہی لیکن شیخ نے کسی قدر غصہ کے لہجہ میں فرمایا کہ اگرچہ تمہارے گھر میں کوئی چیز نہیں پھر بھی تابہ امکان آنے والوں کی حسن رعایت واجب ہے۔ یہ کہاں آیا ہے کہ ایک درویش کو ایسی خستہ دلی کی حالت میں ٹالا جائے۔ جب آپ قیلولہ سے اٹھے تو اخی مبارک خادم کو بُلایا اور دریافت کیا کہ کوئی درویش یہاں آیا تھا تحقیق ہونے کے بعد سلطان المشائخ نے اس پر سخت عتاب کیا اور فرمایا آج میں نے شیخ شیوخ العالم کو سخت ناراض اور غضب ناک دیکھا ہے آپ مجھے عتاب کرتے تھے اور غصہ کے لہجہ میں خطاب فرماتے تھے دیکھو اس کے بعد گو میں قیلولہ میں کیوں نہ ہوں فوراً مجھے خبر دینا۔ چنانچہ اس کے بعد سلطان المشائخ کا دستور ہوگیا تھا کہ قیلولہ سے بیدار ہوتے تو خدام سے دو باتیں ضرور دریافت کیا کرتے ایک یہ کہ سایہ ڈھل گیا ہے؟ دوسرے یہ کہ کوئی شخص آیا ہے؟ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص انتظار میں بیٹھا ہو۔ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوتا تو آپ نماز جماعت سے ادا  کر کے بیٹھ جاتے اور ان عزیزوں کو بلاتے جو آپ کی پائے بوسی کے لیے حاضر ہوئے تھے خدام فوراً انہیں سلطان المشائخ کے سامنے لاتے اور آپ ہر شخص کی دلداری اور دلجوئی میں مشغول ہوتے اسے فارغ ہونے کے بعد عبادات اور خدا تعالیٰ کی محبت کی راہ چلانے میں ان کی راہنمائی کرتے۔ اگرچہ مجلس میں بڑے بڑے دانشمند علما اور زہا دو عباد حاضر ہوتے لیکن کسی کو یہ مجال نہ ہوتی تھی کہ سر اونچا کرے اور سلطان المشائخ کا چہرہ مبارک دیکھ سکے وجہ یہ کہ حق تعالیٰ کی کبریائی سلطان  المشائخ پر ہر وقت چمکتی رہتی تھی۔ جو کچھ سلطان المشائخ فرماتے تھے سب رغبت کے کانوں سے سنتے۔ اور سر زمیں پر رکھ کر قبول کرتے تھے۔ مولانا شمس الدین یحیی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس وقت ہم سلطان المشائخ کی مجلس میں ہوتے تھے تو ہمیں اتنی تاب و طاقت نہ تھی کہ سر اوپر اٹھائیں اور سلطان المشائخ کے رخِ انور  پر نظر ڈالیں بلکہ ہمیشہ سرنگوں بیٹھے رہتے تھے اور جو کچھ فرمان ہوتا ہم سب کے سب زمین پر منہ رکھ دیتے امیر خسرو کہتے ہیں۔

خوبان بادہ خور دند من جرعہ خوارا یشان

ھر جرعہ کہ خور دہ سربر زمین نھادہ

(معشوق لوگ شراب سے سیر ہوگئے اور میں ان کا بقیہ گھونٹ پینے والا ہوں پھر جو گھونٹ کہ پیا جاتا ہے سر زمین پر رکھا جاتا ہے۔)

اور اگر کسی علمی مسئلہ میں ذکر چھڑ جاتا یا کوئی مشکل پیش آتی تو آپ نور باطن سے معلوم کر کے اپنے علم لدنی سے حاضرین مجلس کو شافی جواب دیتے اور جواب دیتے وقت ایسی مئوثر اور دلکش تقریر کرتے کہ سننے والے حیرت زدہ ہوجاتے اور سب لوگ متفقہ الفاظ میں کہتے کہ یہ کتابی جواب نہیں ہیں اور بجز علم الہامی ربانی لدنی کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شہر کے وہ علماء دہر اور فضلاء عصر جو اہل تصوف کے ساتھ تعصب و معاندت میں مشہور ہوگئے تھے اس دربار عالی کے غلام ہوگئے تھے اور رعونت و نخوت سر سے نکال کر اس آستانہ پر جبہ سائی کرتے تھے۔

 

جناب سلطان المشائخ نظام الحق والدین قدس اللہ سرہ

العزیز کے پاس تحفے تحائف آنے اور سلاطین وقت کا

گدائی میں آپ کے دروازے پر حاضر ہونے کا بیان

امیر خسرو اس شاہ دین کی مدح میں فرماتے ہیں۔

در حجرۂ فقر بادشاہی
شاہنشہہِ بے سریر و بے تاج

 

درعالم دل جہان پناہی
شاہانش بخاک پائے محتاج

 

(حجرۂ فقر میں بادشاہی کرنا اور عالم دل میں حکومت کا سکہ بٹھانا آپ ہی کا حصہ ہے۔ ہر چند کہ آپ بے تخت و تاج کے شہنشاہ تھے لیکن تمام بادشاہ آپ کے خاک پا کے محتاج تھے۔)

کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ جب فتوح کا دروازہ عالم غیب سے سلطان المشائخ پر کھلا اور دنیا نے چاروں طرف سے سمٹ سمٹا کر آپ کے غلاموں کی طرف رخ کیا تو آپ نے اس کے سازو سامان کی طرف باکل توجہ نہیں کی۔ آپ کے دل مبارک کو خدا وندی محبت نے ایسا ہر چار طرف سے احاطہ کر لیا تھا کہ کسی چیز کی پروا  نہ رکھتے تھے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں۔

چنان بروئے تو آشفتہ ام بہ بوئے تو مست

کہ نیستم خبر از ھر کہ دردو عالم ھست

(میں تیرے رخِ انور پر اس درجہ شیفتہ اور تیری بو سے اس درجہ مست ہوں کہ دین و دنیا میں کسی چیز کی خبر نہیں رکھتا۔)

اور چونکہ آپ کا حقپذیر دل دنیا سے باکلیہ متنفر تھا اس لیے دنیا کے سازو سامان مہیا ہونے کی وجہ سے آپ ہمیشہ گریہ و زاری کیا کرتے تھے اگر کسی وقت کوئی وزنی اور قیمتی فتوح پہنچتی تو آپ اور بھی زیادہ آہ بکا کرتے اور اس  میں انتہا سے زیادہ کوشش کرتے کہ جہاں تک بن پڑے جلد تقسیم کر دیا جائے چنانچہ آپ آناً فاناً پے در  پے لوگوں کو بھیجتے اور مزید تاکید فرماتے کہ اس  مال و دولت کو بہت جلد تقسیم کردو۔ خدام عالی آپ کے ارشاد کی فوراً تعمیل کرتے اور مساکین و غربا کو تقسیم کر دیتے جب آپ یہ سنتے کہ اب سارا مال تقسیم ہوگیا اور محتاجوں کو پہنچا دیا گیا تو خاطرِ مبارک کو اطمینان ہوتا۔ آپ کا دستور تھا کہ ہر جمعہ کے دِن تجرید فرماتے اور تمام حجروں اور انبار خانوں کو یہاں تک خالی کر دیتے کہ جھاڑو دے دی جاتی۔ بعدہ جامع مسجد جاتے اور با طمینان نماز ادا کرتے اور اگر بادشاہوں یا شہزادوں میں سے کوئی سلطان المشائخ کے دروازے پر حاضر ہوتا اور تحائف و ہدایا پیش کرتا یا ان کے آنے کا دبدبہ دفعۃً آپ کے مبارک کان میں پہنچتا تو سینۂ مصفا سے ایک سرد آہ کھینچتے کہ آہ یہ لوگ کہا آتے اور درویش کی غارت کرتے ہیں آپ کبھی کبھی آنکھوں میں آنسوں بھر لاتے اور فرماتے یہ تمام باتیں اس وجہ سے ہیں کہ جب میں نے جناب شیخ شیوخ العالم سے دہلی مراجعت کرنے کی اجازت چاہی تو رخصت کے وقت شیخ کبیر نے مجھے ایک غیاثی اشرفی خرچ راہ عنایت فرمائی اور رخصت کیا لیکن پھر فرمان پہنچا  کہ آج اور رہ جاؤ کل چلے جانا چنانچہ میں نے اس روز  تو قف کیا۔ جب شیخ کبیر کی افطاری کا وقت پہنچا تو اس وقت آپ کے پاس کوئی چیز موجود نہ تھی۔ میں نے عرض کیا کہ مخدوم کے صدقہ میں مجھے ایک اشرفی خرچ راہ کے واسطے ملی ہے اگر حکم ہو تو اس سے افطاری کا سامان خرید لیا جائے شیخ شیوخ العالم میری یہ  بات سن کر نہایت خوش ہوئے اور بندہ ضعیف کے بارے دعائے خیر کی۔ چنانچہ یہ حکایت نہایت بسط و شرح کے ساتھ شیخ شیوخ العالم کے مجاہدے کے بیان میں گزر گئی چکی ہے۔ الغرض اس کے بعد شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ نظام! میں نے تیرے لیے دنیا کی ایک کافی مقدار خدا سے طلب کی ہے۔ جوں ہی شیخ شیوخ العالم نے یہ فرمایا میں سر سے پاؤں تک کانپ اٹھا اور دل میں کہا آہ بہت سے بزرگ اسی دنیا کی وجہ سے فتنہ میں پڑگئے ہیں افسوس میرا کیا حال ہوگا بمجرد اس خیال کے گزرتے ہی شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ تم خاطر جمع رکھو دنیا تمہارے لیے فتنہ نہ ہوگی۔ شیخ کی اس تقریر سے میں بہت خوش ہوا  اور جناب الٰہی میں سجدہ شکر بجالایا۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ایک رات کا ذکر ہے کہ اخیر شب کا وقت تھا میں دیکھتا ہوں کہ جماعت خانہ کے صحن میں ایک عورت جھاڑو دے رہی ہے میں نے پوچھا تو  کون ہے جواب دیا میں دنیا ہوں اور مخدوم کے گھر کی جھاڑو دیتی ہوں میں نے کہا اے فتنہ میں ڈالنے والی تجھے میرے گھر سے کیا کام۔ جا میرے مکان سے باہر نکل ہر چند کہ میں اسے نکالتا تھا لیکن وہ گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ ازاں بعد میں نے اپنی انگلی اس کی گدّی پر رکھی اور مکان سے باہر نکال دیا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گلی اور کوچہ تک سے بھی باہر کر دیا لیکن پھر بھی اس مقدار کہ میری انگلی اس کی گدّی پر پہنچی تھی میری طرف متوجہ رہی۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جس زمانہ میں میں نو عمر اورکم سِن تھا مولانا علاؤ الدین کے پاس بداؤں میں اصول  پڑھتا تھا ایک دن مسجد میں تنہائی تھی اور میں سبق کی تکرار میں مصروف تھا اسی اثناء میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے زریں سانپ آواز دیتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ میں نے انہیں حیرت کی نظر سے دیکھنا شروع کیا تم سانپوں سے پیچھے میں نے ایک چھوٹا سانپ دیکھا جو کسی قدر ٹہر ٹہر کر  چل رہا تھا میں اپنی جگہ سے یہ کہہ کر اٹھا کہ دیکھو تو  سہی یہ معاملہ کیا ہے چنانچہ میں نے اپنا عمامہ اس سانپ پر ڈال دیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ عمامہ کے نیچے سونے کا ڈھیر لگا ہوا ہے میں نے اپنا عمامہ اٹھالیا اور سونے کے ڈھیر کو وہیں پڑا ہوا چھوڑ دیا۔

 

سلطان المشائخ نظام الحق والدّین کی نسبت حاسدوں اور فتنہ انگیزوں کی سلطان علاؤ الدین خلجی کے دربار میں اس قسم کی

چند باتیں جو آپ کے لائق  نہ تھیں

کاتب حروف کے والد بزرگوار سید مبارک محمد رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس زمانہ میں حق تعالیٰ نے جناب سلطان المشائخ کو تمام مخلوق میں جلوہ گری دی اور آپ کی عظمت و کرامت کا نقارہ فلک و ملک کے کانوں میں پہنچا اور علما۔ مشائخ۔ امرا۔ سلاطین کی ایک جماعت آپ کے غلاموں کے زمرے میں داخل ہوئی یہ  ضعیف کہتا ہے۔

قبلۂ خسروان روئے زمین
تاج شاھان ز خاک درگہ تو
در گہ تست آسمان دگر

 

ھفت کشور ھمیشہ زیر نگیں
سر ور ان خاک گشتہ در رہ تو
ماہ و خورشید  پاسبانش  نگر

 

 

(اے روئے زمین کے بادشاہوں کے قبلے ہفت  اقلیم کی حکومت ہمیشہ تیرے زیر نگیں ہے بادشاہوں کے تاج تیری درگاہ کی خاک سے ہیں اور تمام تاجدار تیری راہ میں خاک ہوگئے ہیں۔ تیری درگاہ کے آسمان اور چاند سورج پاسبان ہیں۔)

فتنہ انگیز حاسدوں کے دل میں حسد کانٹا چھبنے لگا اور انہوں نے بادشاہِ وقت سلطان علاؤ الدین خلجی کے کان میں پہنچایا کہ سلطان المشائخ ایک عالم مقتدا اور پیشوا تسلیم کیا گیا ہے اور مخلوق میں سے کوئی خلق ایسی نہیں ہے جو اس کے دروازہ کی خاک کو سر کا تاج نہ جانتی ہو۔ حکیم سنائی نے کیا اچھا کہا ہے۔

ھر کہ او کاک نیست بردرِ او

گر فرشتہ است خاک بر سر او

(جو شخص اس کے دروازہ کی خاک نہیں ہے اگرچہ فرشتہ ہی کیوں نہ ہو اس کے سر پر خاک ہو۔)

نیز دشمنوں نے بادشاہ سے یہ بھی کہا کہ سلطان المشائخ کے دستر خوان پر وہ قسم قسم کی نعمتیں چنی جاتی ہیں جن پر بہشت کی نعمتیں رشک کرتی ہیں۔ غرضیکہ اس جیسی اور بہت سی باتیں سلطان علاؤ الدین کے کان میں ڈالیں اور اس کے دل میں یہ بات جمادی کہ مبادا سلطان المشائخ کی وجہ سے بادشاہ کی سلطنت میں خلل پیدا ہوجائے کیونکہ بعض گزشتہ بادشاہوں کی سلطنت اسی فرقہ کی بدولت درہم برہم ہوگئی ہے۔ چونکہ سلطان علاؤ الدین ایک بڑا غیور اور نازک مزاج بادشاہ تھا صرف ایک ذرہ سی بات سے ملکی خیال پر ایک جہاں کوتِہ تیغ کر ڈالنا اس کے نزدیک کوئی بات ہی نہ تھی ادنیٰ سے جرم پر جیل خانوں کو بھر دینا اسے بہت آسان تھا۔ جب اس قسم کی بہت سی باتیں اس کے کان میں پہنچیں تو غیور بادشاہ کو خیال گزرا کہ ممکن ہے کہ یہ باتیں سچ ہوں کیونکہ یہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں کہ میرے تختِ سلطنت کے  مقرب اور  ملازم اور تمام رعایا اس کے غلام اور مرید ہوگئے ہیں۔ ایک بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے۔

متابع  اند  ترا چون سپھر خورد و بزرگ

مسخر اند ترا چون زمانہ پیر جوان

(تمام چھوٹے بڑے آسمان کی طرح تیرے تابع ہیں سب پیر و جواں زمانہ کی طرح تیرے مسخر ہیں۔)

سلطان علاؤ الدین نے یہ  باتیں ذہن نشین کر کے دل میں کہا کہ مجھے کوئی ایسا حیلہ اٹھانا چاہیے جس سے سلطان المشائخ کے دل مبارک کا حال ظاہر ہوجائے اور آپ کا مافی الضمیر روشن و ہویدا ہوجائے اور ساتھ ہی یہ بات بھی برملا ہوجائے کہ آپ ان چیزوں کی طرف میل رکھتے ہیں کہ نہیں۔ بادشاہ نہایت دانشمند و پختہ کار تھا اس لیے اس نے یہ ترکیب نکالی کہ ایک تذکرہ کاتب سے لکھوایا جس میں چند باتیں سلطنت کے متعلق درج کی گئیں تھیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ بات تھی کہ چونکہ سلطان المشائخ مخدوم  جہان ہیں اور جس شخص کو دینی یا دنیاوی حاجت پیش آتی ہے وہ آنحضرت کی ادنیٰ توجہ سے بر آتی ہے اور حق تعالیٰ نے مملکت دنیا کی باگ اس بندہ کے ہاتھ میں دی لہذا مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کو کام و مصلحت مملکت میں پیش آئے اسے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کرے تاکہ حضور جس چیز میں سلطنت کی بھلائی و بہبودی اور اس بندہ کی خلاصی و رہائی دیکھیں اس کا حکم فرمائیں۔ میں اس کی تعمیل و بجا آوری میں کوشش کروں گا اور  اپنی سلطنت کی بہبودی اور جان کی خلاصی اسی میں تصور کروں گا جیسا کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں۔

تا کمر خدمت تو  برنہ بست

چرخ بخور رشید نشد تا جور

(جب تک آسمان تیری  خدمت کے لیے مستعد نہیں ہوا وہ آفتاب کے ساتھ تا جور  نہیں ہوا۔)

اس بنا پر چند باتیں اس مقدمہ میں خدمتِ عالی میں عرض کی جاتی ہیں امید کہ قلم مبارک سے ہر بات کے تحت میں وہ چیز تحریر فرمائیں گے جس میں میری سلطنت کے کاموں کی خیریت اور بہبودی مد نظر ہوتا کہ بندہ ان پر  عمل درآمد کر کے نجات دارین حاصل کر سکے ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔

وَاریٰ الدمور المشکلات تمرقت

ظلما تھا عن رائہ المستو  قدِ

یعنی میں دیکھتا ہوں کہ مشکل کاموں کی تاریکیاں اس کی عقل سے دور  ہوتی ہیں۔ ایک اور بزرگ فرماتے ہیں۔

آسائش خلائق و  آرائش جھان

در طلعتِ مبارک و رائے متین تست

(خلائق کی آرائش اور جہان کی آرائش تیری طلعت  مبارک اور رائے متین میں ہے۔)

الغرض جب یہ تذکرہ مرتب کراچکا تو اپنے محبوب فرزند خضر خان کو جو سلطان المشائخ کا معتقد و مرید تھا بلایا اور یہ مرتب کیا ہوا تذکرہ اس کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ کاغذ لے جا اور سلطان المشائخ کی قدم بوسی حاصل کر کے ان کے مبارک ہاتھ میں دے خضر خان کو یہ قصہ معلوم نہ تھا سلطان علاؤ الدین کا فرمان لے کر سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچا قدم بوسی کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وہ کاغذ آپ کے دستِ مبارک میں دیا۔ سلطان المشائخ  نے نہ تو اسے کھول کر دیکھا نہ مطالعہ فرمایا۔ بلکہ حاضرین مجلس کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ ہم فاتحہ پڑھتے ہیں بعدہ ارشاد کیا کہ درویشوں کو بادشاہوں کے کام سے کیا تعلق میں ایک فقیر ہوں جو شہر اور  اہلِ شہر سے الگ ہوکر ایک گوشہ میں زندگی بسر کرتا ہوں اور بادشاہ نیز تمام مسلمانوں کی دعا گوئی میں مشغول ہوں۔ اگر بادشاہ کو میری یہ بات ناگوار ہو اور میرا  یہاں رہنا پسند نہ کرتا ہو تو مجھ سے کہ دے میں یہاں سے دوسری جگہ چلا جاؤں گا ارض اللہ واسعۃ خدا کی زمین کشادہ و وسیع ہے۔ جب خضر خان نے سلطان المشائخ کا یہ جواب سلطان علاؤ الدین کو پہنچایا تو بادشاہ نہایت خوش ہوا کہا میں پیشتر ہی جانتا تھا کہ یہ باتیں سلطان المشائخ کی جناب میں کچھ نسبت نہیں رکھتی ہیں بلکہ دشمن چاہتے ہیں کہ مجھے مردان خدا کے ساتھ بھڑا دیں اور اس وجہ سے میرا ملک تباہ و برباد ہوجائے۔ اس کے بعد بادشاہ نے جناب سلطان المشائخ کی خدمتِ اقدس میں معذرت کی اور کہلا بھیجا کہ میں مخدوم کے معتقدوں کے زمرہ میں ایک بے ریا معتقد ہوں جو میں نے جرات و دلیری کی ہے امید ہے کہ حضور اسے معاف فرمائیں گے اور  کمترین کو  اجازت دیں گے کہ خود حاضر ہوکر پائبوسی کی سعادت حاصل کرے سلطان المشائخ نے فرمایا کہ بادشاہ کے آنے کی کچھ حاجت نہیں ہے۔ میں غیبت میں اس کے لیے دعا  کروں گا اور غیبت کی دعا میں جو اثر ہوتا ہے وہ سامنے کی دعا میں نہیں ہوتا۔ سلطان علاؤ الدین نے پھر ملاقات کے لیے اصرار کیا اور نہایت الحاح و لجاجت کے ساتھ عرض کیا کہ وہ صرف ایک دفعہ حضوری کی اجازت دے دیجیے مگر آپ نے کہلا بھیجا کہ جس مکان میں میں رہتا ہوں اس کے دو دروازے ہیں اگر بادشاہ ایک دروازے سے آئے گا تو میں دوسرے دروازے سے باہر نکل جاؤں گا۔ نیز کاتب الحروف کے والد بزرگوار فرماتے تھے کہ سلطان جلال الدین انار اللہ برہانہ نے اپنے زمانۂ حکومت میں سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں آنا چاہا اور ہر چند اس بارہ میں التماس کی لیکن سلطان المشائخ نے اسے اجازت نہیں دی اور وہ آپ کی پائبوسی کی سعادت حاصل نہیں کر سکا۔ یہاں تک کہ بادشاہ نے امیر خسرو کے ساتھ جو سلطان المشائخ کے مصحف برادر تھے اتفاق کیا اور مصلحت کی کہ میں بغیر اجازت المشائخ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں لیکن امیر خسرو نے یہی مناسب  سمجھا کہ جلال الدین کے اس ارادہ کو اپنے مرشد کی خدمت میں ظاہر کرنا چاہیے کیونکہ انہیں اس بات کا خیال تھا کہ اگر میں سلطان المشائخ کی خدمت میں اس امر کی اطلاع نہ دوں گا تو آپ مجھ سے بے حد رنجیدہ ہوں گے اور فرمائیں گے کہ باوجود یہ کہ تجھے معلوم تھا پھر مجھے خبر دار کیوں نہیں کیا اگرچہ بادشاہ نے امیر خسرو سے ایک بھید کی بات کہی تھی اور انہیں اس بات کا خوف تھا کہ جلال الدین مجھ سے سخت ناراض ہوگا لیکن انہوں نے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی اور سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ کل سلطان جلال الدین خدمتِ اقدس  میں حاضر ہوگا سلطان المشائخ نے یہ  سنتے ہی اس وقت اجودھن کا  قصد کر دیا اور شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب یہ خبر بادشاہ کو معلوم ہوئی تو امیر خسرو سے سخت ناراض ہوا۔ اور عتاب آمیز خطاب کیا کہ تم نے ہمارے بھید کو برملا کر دیا اور میرے ارادہ کی سلطان المشائخ  کو خبر کردی اور میں تمہاری وجہ سے سلطان المشائخ کی قدم بوسی کی سعادت سے محروم و  بے نصیب رہا۔ امیر خسرو نے نہایت دلیری و  آزادی کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے بادشاہ کی رنجش سے صرف جان ہی کا خوف تھا لیکن سلطان المشائخ کی رنجش سے ایمان کے جاتے رہنے کا قوی اندیشہ تھا۔ چونکہ بادشاہ دانا و عقلمند تھا امیر خسرو کے اس جواب کی تعریف کی اور انہیں معذور رکھا۔

 

سلطان المشائخ نظام الحق والدّین کا شیخ الاسلام بہاءُ الدین

زکریا کے نواسے جناب شیخ الاسلام رکن الحق والدین

قدس اللہ سرہم العزیز سے ملاقات کرنا

کاتب حروف نے سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ سلطان المشائخ کو شیخ رکن الحق والدین سے بہت دفعہ ملاقات کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ایک دفعہ سلطان علاؤ الدین کے فرزند رشید سلطان قطب الدین کے عہد حکومت  میں اور اس دفعہ یوں ملاقات  ہوئی کہ شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ شہر ملتان سے شہر  دہلی کو آتے تھے جب دہلی کے قریب آپہنچے تو سلطان المشائخ آپ کے استقبال کے لیے تشریف لے گئے۔ جناب شیخ رکنِ الدین کا گزر حوض علائی پر ہوا جہاں آپ صبح کی فرض نماز میں مشغول تھے سلطان المشائخ اس مقام پر پہنچے اور شیخ رکن الدین سے ملاقات کی شیخ رکن الدین نہایت تعظیم و توقیر سے پیش  آئے لیکن یہ ملاقات و صحبت بہت تھوڑی دیر رہی اور آپ  فوراً وہاں سے پلٹ آئے۔ جب شیخ رکن الدین سلطان قطب سے ملے تو اس نے دریافت  کیا کہ اس شہر کے بزرگوں میں سے اول آپ سے کس نے  ملاقات کی جواب دیا کہ جو اس شہر کے تمام باشندوں میں زیادہ بہتر و بزرگ تھا۔ یعنی سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز دوسری دفعہ ان دونوں بزرگوں میں یوں ملاقات ہوئی کہ جب شیخ رکن الدین نے سنا کہ سلطان المشائخ کیلوکہری کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کیا کرتے ہیں تو  آپ جمعہ کے دن کیلوکہری کی مسجد میں نماز  جمعہ اد ا کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور شمالی دروازہ کے قریب جو اب دیار کی طرف واقع ہے بیٹھ گئے اور سلطان المشائخ بھی اپنے مقررہ و معہودہ مقام میں جنوبی دروازے کے متصل بائیں طرف بیٹھ گئے اسی اثناء میں کسی نے سلطان المشائخ کو خبر دی کہ شیخ رکن الدین اس مسجد میں تشریف لائے ہیں۔ مسجد کے ان دونوں دروازوں کے مابین ایک وسیع صحن اور مسافتِ بعید ہے جب سلطان المشائخ جمعہ کی نماز سے فارغ ہوئے تو اٹھ کر اس مقام پر پہنچے جہاں شیخ رکن الدین تشریف رکھتے تھے چونکہ شیخ رکن الدین ہنوز نماز میں مشغول تھے اس لیے سلطان المشائخ آپ کے پس پشت بیٹھ گئے۔ شیخ رکن الدین جب اپنی مشغولی سے فارغ ہوئے تو دونوں بزرگوں نے باہم ملاقات کی اور مصافحہ و معانقہ بجالائے۔ دونوں طرف سے کسی قسم کی تقصیر ظہور میں نہیں آئی اور جوان مردی و کرم میں دونوں مساوی درجہ میں رہے۔ شیخ رکن الدین نے کمال مہربانی اور لطف سے حضرت سلطان المشائخ کا دست مبارک پکڑا اور وہاں سے اٹھ کر باتیں کرتے ہوئے جنوبی دروازہ کی طرف چلے جہان سلطان المشائخ ہمیشہ تشریف رکھا کرتے تھے خدام نے شیخ رکن الدین کا ڈولہ بھی اسی دروازہ پر لگا دیا۔ جب یہ دونوں بزرگ اسی طرح باتیں کرتے ہوئے جنوبی دروازہ کی چوکھٹ پر پہنچ گئے تو شیخ رکن الدین نے کمال اعزاز و تعظیم سے سلطان المشائخ کو فرمایا کہ اول ڈولہ میں آپ سوار ہوجائیے۔ سلطان المشائخ نے بھی کمال تعظیم کی اور فرمایا اول آپ سوار ہو جیئے اسی باہمی حیث بحث میں توقف ہوا اور انجام کار شیخ رکن الدین اول سوار ہوئے۔ تیسرے مرتبے کی ملاقات کی بابت یوں نقل کیا جاتا ہے کہ کاتب حروف کے عم بزرگوار ملک السادات سید کمال الدین احمد بن محمد کرمانی بادشاہِ وقت کے محل کے دروازے پر کھڑے تھے جب وہاں سے لوٹے تو شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کو غیاث پور  کی طرف آتے دیکھا فراست سے معلوم کیا کہ آپ  سلطان المشائخ کی خدمت میں جاتے ہیں یہ دیکھ کر انہوں نے گھوڑے کی باگ اٹھائی اور بڑی عجلت کے ساتھ سلطان المشائخ کے خطیرہ میں پہنچے تاکہ آپ کو شیخ رکن الدین کے آنے کی خبر دیں سلطان المشائخ اس دن خطیرہ میں تشریف رکھتے تھے یہ ایک نہایت عالیشان مکان تھا جو حوض اورچبوترہ کے اوپر تعمیر کیا گیا تھا۔ اور  خواجہ جہاں احمد ایاز کی طرف منسوب کیا جاتا تھا کہتے ہیں کہ جس زمانہ میں یہ عمارت بننا شروع ہوئی تھی تو شیخ حسن برہنہ سر نے بڑے اہتمام اور صرف کے ساتھ اس کی تعمیر کرائی تھی غرضیکہ اس وقت سلطان المشائخ اس بارگاہ میں تشریف رکھتے تھے جب آپ نے شیخ رکن الدین کے آنے کی خبر سنی تو اس بات کا یقین نہیں کیا اور فرمایا کہ اس سمت میں اندر پت بھی ہے ممکن ہے کہ شیخ رکن الدین بزرگوں کی زیارت کے لیے اس اطراف  و جوانب میں جاتے ہوں لیکن پھر اقبال خادم سے کہہ دینا چاہیے کہ کھانا تیار رکھے اور عمدہ نادر تحائف بہم پہنچائے۔ جب شیخ رکن الدین اندر پت کی راہ سے منحرف ہوئے اور سلطان المشائخ کے خطیرہ کے جانب متوجہ ہوئے یہاں تک کہ آپ کا ڈولہ بیچ کے گنبد کی عین دہلیز تک پہنچ گیا تو سلطان المشائخ کوٹھے کے اوپر سے نیچے تشریف لائے او صفہ ستون کے درمیان ان دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی۔ شیخ رکن الدین کا ڈولہ اسی صفہ ستون کے اندر اتارا گیا اور چاروں طرف لوگوں نے سلام کرنا شروع کیا۔ چونکہ اس زمانہ میں شیخ رکن الدین کے پاؤں مبارک میں کوئی اس  قسم کا صدمہ پہنچا ہوا تھا جس کی وجہ سے آپ ڈولہ سے نیچے اتر نہیں سکتے تھے اس لیے آپ نے باوجود کوشش بلیغ کے فرمایا کہ میں اتر نہیں سکتا تم لوگ مجھے ڈولہ سے اتارو لیکن سلطان المشائخ کے مزاج میں چونکہ انتہا سے زیادہ تواضع تھی اور عام اخلاق انتہا سے زیادہ تھا اس لیے آپ نے شیخ رکن الدین کو ڈولے سے اترنے نہیں دیا۔ شیخ رکن الدین تو ڈولہ ہی میں بیٹھے رہے اور جناب سلطان المشائخ آپ کے ڈولہ کے متصل قبلہ رخ ہوکر بیٹھ گئے تھوڑی دیر تک دونوں حضرات باہم مکالمہ اور محاورے میں مشغول ہوئے اس اثناء میں مولانا عماد الملتہ والدین اسمٰعیل جو شیخ رکن الدین قدس اللہ سرہما العزیز کے صوری و معنوی بھائی تھے فرمانے لگے کہ آج ان دونوں بزرگوں کے وجود  سے یہ مجلس نہایت ہی با برکت ہے اور حقیقت میں خیر المجالس اُسی مجلس کی نسبت کہا جاتا ہے جس میں علمی بحث کا چرچا ہو۔ مولانا عماد الدین نے اپنی اس  تقریر کا سلسلہ ختم کرنے کے بعد سلطان المشائخ کی طرف متوجہ ہوکر  کہا کہ آپ کوئی علمی بحث چھیڑ دیجیے لیکن سلطان المشائخ نے بجز سکوت کے کوئی جواب نہیں دیا اور شیخ رکن الدین بھی خاموشی کے ساتھ بیٹھے سنا کیئے ازاں بعد مولانا عماد الدین نے سوال کیا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی اس میں کیا حکمت مضمر تھی۔ شیخ رکن الدین نے سلطان المشائخ کی طرف توجہ کی اور جواب کی بابت التماس کی لیکن ساتھ ہی سلطان المشائخ شیخ رکن الدین کی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے کہ آپ ہی بیان فرمائیے شیخ رکن الدین نے جواب کی تقریریوں کرنا شروع کی کہ نبوت کے درجات و کمالات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روز ازل سے مقدر ہوچکے تھے ان کی تکمیل ایک وقت خاص پر موقوف و منحصر تھی چنانچہ جب جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے اور  اصحاب صفہ میں نشت و برخاست کی تو آپ کے درجات و کمالات مکمل ہوگئے۔ جب شیخ رکن الدین نے اپنی تقریر کا سلسلہ اس طرح ختم کیا۔ تو سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اس ضعیف کے دل میں ایک وجہ گزرتی ہے جسے میں نے کسی تفسیر اور کسی کتاب میں نہیں دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور آپ کا ارشاد مکیوں کو پہنچا تھا اور اس دولت و برکت سے مشرف و معزز ہوئے لیکن ناقصین کی جماعت جو مدینہ طیبہ میں تھی اور جناب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت نہ پہنچ سکتی تھی خدا تعالیٰ کی رحمت نے ان کے حال پر جوش کیا اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمان ایزدی پہنچا کہ مکہ سے مدینہ میں ہجرت کیجیے تاکہ آپ کے کمالات سے ان ناقصوں کی تکمیل ہو اور آپ کا فیض ان کے شامل حال ہو۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ ان دونوں بزرگانِ دین کے جوابوں سے جو اس مقام میں تحریر ہوئے ہیں دونوں حضرات کی عظمت و  کمال بخوبی ظاہر ہوتے ہیں اور ہر جواب کے تحت میں ہر شخص کے علمی تبحر اور  باطنی فیض کی جھلک نمایاں ہوتی ہے اور  ساتھ ہی یہ بات بھی بخوبی ثابت ہوتی ہے کہ ان دونوں بزرگواروں میں ہر ایک نے دوسرے کی ایسی لطیف عبارات سے تعظیم کی ہے جس کا بیان بہت  مشکل ہے۔ الغرض جب سلطان المشائخ کے خدام نے دستر خوان بچھانے کا ارادہ کیا تو سب نے متفق ہوکر کاتب حروف کے والد بزرگوار کی طرف رخ کیا اور  عرض کیا کہ یہ کام آپ کا  ہے ہم میں سے کسی  کو  اتنی مجال نہیں کہ ان دو بزرگوں کے سامنے دستر خوان بچھائیں چنانچہ میرے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب ان بزرگواروں کے سامنے کھانا لے گیا تو شیخ رکن الدین کے ڈولے پر محتاجوں کی عرضیوں اور  کاغذات کا ڈھیر لگا ہوا دیکھا۔ میں روٹیاں رکھنے اور جگہ وسیع کرنے کے لیے ان کاغذات کو ایک طرف جمع کر رہا تھا کہ اثناء میں  شیخ رکن الدین قدس اللہ سرہ العزیز نے سلطان المشائخ  کی طرف متوجہ  ہوکر  کہا۔ تم جانتے ہو کہ یہ کاغذ کیسے ہیں بعدہ خود فرمایا کہ اس زمانہ کے مساکین کی عرضیاں ہیں جب میں بادشاہ کے پاس جاتا ہوں تو محتاج لوگ اپنی عرضیاں دیتے ہیں تاکہ ان کی مہمات انجام کو پہنچیں لیکن افسوس آج انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ میں بادشاہ دین کے پاس  جاتا ہوں یہ باتیں سن کر سلطان المشائخ حسن عبارت اور الطاف و اخلاق سے بے حد  معذرت کرتے تھے اور گردن جھکائے بیٹھے رہے جب دستر خوان بچھایا گیا اور کھانا چُنا گیا تو سر کہ انگور کا سکورہ شیخ رکن الدین سے کسی قدر فاصلہ پر تھا اس لیے شیخ رکن الدین نے میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ یہ سکورہ میرے پاس  لاؤ اس وقت  سلطان المشائخ نے فرمایا کہ یہ خوب چیز ہے۔ شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ترش بھی اسی وجہ سے ہے سلطان المشائخ نے جواب میں فرمایا کہ اس کے عزیز ہونے کی یہی وجہ ہے۔ الغرض جب سب لوگ تناول کر چکے اور دستر خوان اٹھا لیا گیا تو سلطان المشائخ کے خادم اقبال نامی بیش قیمت پارچہ کے قطعات اور ایک نہایت خوبصورت کنگھا اور ایک تھیلی اشرفیوں کی باریک کپڑے میں باندھ کر شیخ رکن الدین کے سامنے لایا کپڑا اس قدر باریک تھا کہ اس میں سے اشرفیوں کی سرخی کی جھلک نمودار ہوتی تھی جب شیخ رکن الدین کی نظر اشرفیوں کی تھیلی پر پڑی تو آپ نے فرمایا استر ذھبک یعنی اپنی اشرفیوں کو ڈھانک لو اس پر سلطان المشائخ نے برجستہ فرمایا استر ذھبک وذھابک ومذھبک یعنی اپنے زر کو اور اپنے جانے کو اور جانے کی جگہ چھپالو۔ سلطان المشائخ  کے ان پر مغز اور عاقلانہ مقولوں سے غوامض سلوک کے مستنبط خواجہ محمد بدر الدین اسحاق کے داماد کریم الدین نے جو شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ کے پوتے  ہوتے ہیں عجیب و غریب معنی و  استنباط  کیے ہیں وہ فرماتے ہیں جناب شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا کہ استرذہبک تو اس کا مفہوم بالکل معلوم اور ظاہر ہے محتاج بیان نہیں لیکن سلطان المشائخ نے جو ان کے جواب میں فرمایا کہ استرذہبک و ذہابک و مذہبک تو البتہ آخر کے یہ دونوں لفظ غور طلب ہیں اور اس محل میں جو کچھ ان سے سمجھا جاتا ہے معرض بیان میں لایا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ اس رستہ کے معاملہ سلوک کو مخفی  و  پوشیدہ رکھنا نہ صرف ضرور و  واجب ہے بلکہ فرض ہے تاکہ یہ دینی معاملہ منظرِ عام میں نہ آئے اور خلائق کا منظورِ نظر نہ ٹہرے کیونکہ خلق کی نظر ایک نہایت ہی قوی آفت ہے جس کا دفعیہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ خدا تعالیٰ ایک برگزیدہ اور منتخب بندہ پر اپنا کرم کرتا اور مقام محبت سے درجہ محبوبیت میں پہنچاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسے یہ ہر گز منظور نہیں ہوتا کہ محبوب خدا کے معاملہ پر کسی کو اطلاع دے۔ پس ایک ایسی چیز اس کے حال کے نامزد کرتا ہے جس پر ظاہر میں مخلوق کی نظر پڑتی ہے اور خلق اس چیز کی گفتگو میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اس محبوب کا معاملہ پردہ میں مستور و مخفی رہتا ہے یہاں تک کہ جب خدا کے دوستوں میں سے کسی دوست کے پاؤں کو دنیا اور اس کا جاہ جلال بوسہ دیتے ہیں تو وہ اس سے محض بیزار و متنفر ہوتا ہے اور اس کا باطن خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا مستغرق و محو ہوتا ہے کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی اور دین و دنیا کی طرف میل نہیں کرتا اگرچہ خلق کی نظر دنیا کے مسخر و فرمانبردار ہونے پر پڑتی ہے لیکن وہ نہایت اطمینان اور دلجمعی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے سجادہ پر راسخ و مستقیم رہتا ہے۔

تاذوق درو نم خبرے میدھد از دوست

از طعنۂ دشمن بخدا گر خبر ستم

(جب تک میرا دلی ذوق دوست کی خبر دیتا ہے اس وقت تک بخدا طعنہ دشمن کی مجھے خبر نہیں ہوئی۔)

اس وجہ سے اس قسم کا ولی اغیار کی نظروں سے محفوظ و مامون رہتا اور عالم مشاہدہ و قرب میں ہر روز بلکہ ہر ساعت مزید ترقی کرتا ہے۔ پس یہ دونوں لفظ یعنی ذہا بک و مذہبک۔ استر ذہبک کے جواب میں نہایت درست اور چسپاں ہیں۔ الغرض شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کپڑے اور اشرفیاں قبول نہ کیں اور جب خدام سلطان المشائخ نے شیخ کا اصرار و انکار دیکھا تو ان تحفوں کو شیخ رکن الدین کے بھائی مولانا عماد الدین اسمعیل کے سامنے پیش  کیا مگر عماد الدین نے بھی شیخ رکن الدین کی موافقت کی وجہ سے قبول نہیں کیا۔ اسی اثناء میں شیخ رکن الدین نے مولانا عماد الدین کو اشارہ کیا کہ تم سلطان المشائخ کے عطیات کو رد نہ کرو بلکہ بخوشی قبول کرو۔ چنانچہ مولانا عماد الدین نے جو کثرت علم و فضل اور ورع و تقوی سے آراستہ و پیراستہ تھے اپنے شیخ کا ارشارہ پاتے ہی سلطان المشائخ کے تحائف کو قبول کرلیا۔ چوتھی مرتبہ سلطان المشائخ اور شیخ رکن الدین میں باہم ملاقات یوں ہوئی کہ جناب سلطان المشائخ بیمار پڑے اور شیخ رکن الدین قدس اللہ سرہ العزیز آپ کی عیادت کے لیے آئے یہ زمانہ عشرۂ ذی الحجہ ہے اس زمانہ  میں ہر شخص حج کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن میں نے سلطان المشائخ کی زیارت حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ حج کا ثواب حاصل ہو شیخ رکن الدین کی یہ تقریر سن کر سلطان المشائخ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور انواع کرم کے ساتھ معذرت کی۔ پانچویں مرتبہ ان دونوں حضرات کی باہمی ملاقات کا یہ سبب ہوا کہ جب حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کی بیماری نے شدت پکڑی اور روز بروز مرض کو غلبہ ہوتا گیا یہاں تک کہ غلبہ محبت و عشق کی وجہ سے دن میں کئی کئی مرتبہ غائب ہوجاتے اور پھر کئی کئی مرتبہ حاضر ہوتے ایسی حالت میں شیخ رکن الدین آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے شیخ سعدی فرماتے ہیں۔

خنک آن رنج کہ یارم بعیادت بسر  آید

درد مندان بجز این دوست ندار ند دوارا

(وہ رنج و مرض نہایت مبارک ہے جس میں عیادت کے لیے میرا دوست میرے پاس آئے کیونکہ درد مند بجز اس دوست کے اور کوئی دوا نہیں رکھتے۔)

جس وقت شیخ رکن الدین تشریف لائے تو جناب سلطان المشائخ چار پائی پر تشریف رکھتے تھے اور اتنی طاقت نہ تھی کہ چار پائی سے نیچے اترسکیں ملاقات کے بعد ہر چند سلطان المشائخ نے شیخ رکن الدین کو اپنی چار پائی پر بٹھایا لیکن وہ نہیں بیٹھے۔ انجام کار کرسی لائی گئی اور شیخ رکن الدین کرسی پر جلوہ آرا ہوئے۔ تمام یارانِ مجلس سخت متحیر تھے کہ اس وقت سلطان المشائخ عالم تحیر میں ہیں باہم مکالمہ اور سوال و جواب کس طرح ہوگا لیکن سلطان المشائخ اپنے اس  کمال کی وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے آپ میں و دیعت رکھا تھا ہوش و  حواس میں آئے اور شیخ رکن الدین سے باتیں کرنے میں مشغول ہوئے۔ شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ الانبیاء یخیرون عند الموت یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام کو موت کے وقت اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہیں تو ہمیشہ دنیا میں رہیں اور چاہیں تو اپنے مولا کے پاس چلے جائیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مامن نبی یموت الا ویتخیر۔ یعنی جب کسی نبی کو موت آتی ہے تو اس  کو اختیار دیا جاتا ہے۔ اور اولیا۔ انبیا کے خلفا اور ورثا ہیں اور جب یہ ہے تو انہیں بھی اختیار حاصل ہے کہ خواہ دنیا میں رہیں خواہ مولا کے پاس چلے جائیں۔ جب یہ  قصہ ہے تو  سلطان المشائخ کو چاہیے کہ اپنی زندگی  کی جس کے ساتھ حقیقت میں تمام جہان کی زندگی وابستہ اور متضمن ہے رب العالمین کی درگاہ سے چند روز کے لیے درخواست کریں۔ یہاں تک کہ ناقصوں کو کمال حاصل ہوجائے اور وہ نقص کے درجے سے نکل کر تکمیل کے مرتبہ کو  پہنچ جائیں۔ سلطان المشائخ شیخ رکن الدین کی یہ تقریر سن کر پر نم آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہا کر فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے کہ فرما رہے ہیں۔ نظام! تیرا اشتیاق ہمیں انتہا سے زیادہ ہے۔ جوں ہی یہ کلمہ آپ کی زبان مبارک سے نکلا۔ شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ اور تمام حاضرین مجلس زارو قطار رونے لگے اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد شیخ رکن الدین اپنے مکان کی طرف لوٹ گئے۔ کاتب حروف عرج کرتا ہے کہ اس بندہ نے شیخ رکن الدین رحمۃ اللہ علیہ کی قدم بوسی کی سعادت اپنے جد مادرین جناب مولانا شمس الدین و امغیانی کے ہمرا ہی میں حاصل کی ہے۔ شہر دہلی میں تغلق کے عہد میں۔ اور آپ کے دستر خوان کا حق نمک اس بندہ کے ذمہ ثابت ہوا ہے۔

 

سلطان المشائخ نظام الحق  والدین قدس اللہ

سرہ العزیز کی بعض کرامتوں کا بیان

جناب سلطان المشائخ رحمۃ اللہ علیہ ایک دن ایک مجمع میں تشریف رکھتے تھے اور خواجہ محمود پٹوے بھی جو شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے با اخلاص و بے ریا مرید تھے اس مجمع میں موجود تھے اثناء گفتگو میں خواجہ محمود بیان کرنے لگے کہ ابتدائے حال میں خواب میں لطیف اور صاحب جمال صورتیں دیکھتا تھا اور  اسی قسم کی بہت سی حکایتیں لگاتار بیان کرنے لگے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اس قسم کی باتیں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ ایک دن میں چار پائی پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک فرشتہ چاند کی صورت میں آیا اور میری چار پائی کے پاس کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ ایک درویش درواز پر کھڑا ہوا ہے بعد  فرمایا کہ چار شنبہ کے روز استوا کے وقت ایک نور آسمان سے نیچے اترتا ہے اور جب شنبہ کا دِن ہوتا ہے تو آفتاب نکلنے کے بعد وہ نور آسمان کی طرف چڑھ جاتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سلطان المشائخ کی خدمت میں کھانا لے گیا۔ اثناء راہ میں اس  کے دل میں خیال گزرا کہ اگر سلطان المشائخ اپنے دستِ مبارک سے میرے منہ میں ایک لقمہ دیں تو میری بڑی خوش قسمتی اور کامیابی کی دلیل ہے چنانچہ اس کا بیان ہے کہ جب سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت دستر خوان اٹھ چکا تھا اور آپ پان چبا رہے تھے۔ جوں ہی میں حاضر ہوا آپ نے دہنِ مبارک سے پان نکالا اور دست مبارک سے میرے منہ میں ڈال دیا اور فرمایا کہ لے یہ اس سے بہتر ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند عزیزوں کو سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق پڑا۔ ان میں ایک دانشمند بھی تھا ہنوز سلطان المشائخ کی کرامت  کا معترف نہ تھا اتفاق سے ان عزیزوں نے آپ کی خدمت پیش کرنے کے لیے مختلف اقسام اور متعدد قیمتوں کی مٹھائیاں خریدیں اس دانشمند نے کہا کہ یہ  مختلف ہدئیے ایک جگہ جمع کر کے سلطان المشائخ کے سامنے رکھنا خادم سب اٹھا کر آپ کی نظر کر دے گا یہ کہہ کر اس  نے رستہ میں سے تھوڑی سے خاک اٹھائی اور ایک کاغذ  کی پڑیا باندھ کر اپنے پاس رکھ لی۔ جب سب لوگ سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچے اور ہر شخص نے اپنی لائی ہوئی شیرینی  آپ کے سامنے پیش کی تو اس دانشمند نے بھی کاغذ کی پڑیا مٹھائی میں رکھ دی خادم نے دستور کے موافق مٹھائی اٹھانی شروع کی اور اس کے ساتھ ہی کاغذ کی پڑیا بھی اٹھانے لگا۔ سلطان المشائخ نے خادم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اس پڑیا کو یہیں چھوڑ دے کیونکہ یہ سرمہ خاص ہماری آنکھوں کے لگانے کا ہے۔ سلطان المشائخ کی زبانِ مبارک سے یہ لفظ نکلتے ہی دانشمند نے توبہ کی اور آپ کی کرامت کا بدل معترف ہوا۔ ازاں بعد  سلطان المشائخ نے اسے خلعت خاص سے مشرف فرمایا اور دل جوئی کر کے ارشاد کیا کہ اگر تجھے وظیفہ یا روٹی کی حاجت ہے تو ہم سے بیان کرتا کہ ہم اس کا انتظام کر دیں۔ قاضی محی الدین کا شانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں گھر سے وضو کر کے سلطان المشائخ کی خدمت میں آیا چونکہ میں نے تجدید وضو نہیں کی تھی اس لیے میرے دل میں ایک طرح کی تشویش تھی سلطان المشائخ نے باطنی نور سے دریافت کر لیا اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ایک مرتبہ سید اجل کا فرزند میرے پاس آیا۔ ہر چند کہ میں اس سے باتیں کر رہا تھا لیکن حاضر نہیں پاتا تھا آخر کار میں نے سید! کیا حال ہے کہ میں تمہیں غائب دیکھتا ہوں جواب دیا کہ مخدوم میں نے گھر  میں وضو کیا تھا لیکن دوسری مرتبہ نیا وضو نہیں کیا اور خدمتِ اقدس میں حاضر ہوگیا۔ اس وجہ سے میرے دل میں تردد و تشویش ہے۔ میں نے کہا سید!۔ جاؤ وضو کر  کے آؤ اور فارغ البالی اور خاطر جمعی سے بیٹھو۔ قاضی محی الدین کاشانی کہتے ہیں کہ جوں ہی خواجہ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکل کر میرے کان میں پہنچے میں فوراً اٹھ کر آداب خدمت میں بجالایا اور عرض کیا کہ مخدوم! یہی میرا بھی واقعہ ہے آپ نے مسکرا کر فرمایا جاؤ وضو  کر کے آؤ۔ ایک دن دو یار  سلطان المشائخ کی خدمت میں ساتھ ہوکر آئے ان میں سے ایک شخص نے بے احتیاطی سے وضو کیا تھا جب دونوں سلطان المشائخ کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے جو بات سلطان المشائخ کی زبان مبارک سے نکل کر ان کے کانوں میں پہنچی وہ یہ تھی کہ وضو میں اچھی طرح احتیاط کرنا چاہیے۔ کیونکہ الوضوء سر من اسرار اللہ یعنی وضو خدا کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے۔ قاضی محی الدین کاشانی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ سلطان علاؤ الدین کے عہد حکومت میں۔ میں بے گناہ قید میں ڈالا گیا تھا۔ جب میرے قید کے زمانہ نے طول کھینچا تو میں نے ایک شخص کی زبانی سلطان المشائخ سے کہلا بھیجا کہ میں بغیر کسی جرم کے قید میں ڈال دیا گیا ہوں اور کوئی میری خبر نہیں لیتا۔ اس صورت میں میں نہیں جانتا کہ میرا کیا حال ہوگا۔ سلطان المشائخ نے میرے پاس تین کندوریاں بھیجیں اور فرمایا کہ ان میں سے ایک کندوری روز مرہ کھالیا  کرو میں نے ایسا ہی کیا خدا کی شان کہ تیسرے دن مجھے قید خانہ سے رہائی ہوگئی۔ مولانا جیہہ الدین پائلی روایت  کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیمار پڑا۔ دِق کا آغاز ہوگیا تھا۔ طبیبوں نے متفق ہوکر مجھے مشورہ دیا کہ کسی ایسے باغ میں سکونت رکھو جو لب دریا واقع ہو۔ میں نے کہا کہ باغ میں تنہا سکونت کرنا دشوار ہے اور سلطان المشائخ کا مکان لبِ دریا ہے میں وہاں جا کر  چند روز رہ سکوں گا چنانچہ طبیب کی تجویز ہوئی دوائیں ساتھ لے کر سلطان المشائخ کے درِ دولت پر حاضر ہوا۔ جب میں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ روزہ افطار کر چکے تھے چونکہ موسم جاڑے کا تھا ایک شخص تازہ منڈیاں آپ کے لیے لایا تھا جسے آپ تضکہ کے طور پر تناول فرما رہے تھے مجھے  دیکھ کر فرمایا۔ بسم الرحمٰن الرحیم آؤ اس میں میرے ساتھ شریک ہوجاؤ۔ چونکہ مجھے دِق کی ابتدا تھی اور منڈی گرم ہوتی ہے اس لیے میں آپ کے ساتھ اول اول شریک ہوتے ہوئے ہچکچایا لیکن پھر آپ  کے حکم کے بموجب شریک ہوگیا۔ جب میں اسی جلسہ میں حضور سلطان المشائخ کے پاس سے اٹھا تو اپنے تئیں کامل تندرست اور بالکل صحیح سالم پایا حتی کہ اس کے بعد محتاجِ علاج نہیں ہوا۔ مولانا بدر الدین جنہیں سلطان المشائخ کا رفیق بھی کہا جاتا تھا اور جو نہایت منصف  مزاج اور راست باز شخص تھے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات سلطان المشائخ کی دہلیز میں ایک اونٹ دیکھا جو کھڑکی کے باہر کی طرف سے آیا اور سلطان المشائخ کے حجرے کے متصل کھڑکی کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ سلطان المشائخ اونٹ پر سوار ہوئے اور وہ آپ کو لے کر ہوا میں اڑ گیا میں یہ دیکھ کر بے خود ہوگیا۔ اور جب ایک زمانہ  گزر گیا تو ہوش میں آیا مگر نیند اُچٹ گئی تھی ساری رات جاگتا اور چار پائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پچھلی رات کو صبح ہوتے دیکھا کہ وہی اونٹ آیا اور اسی کھڑکی کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ سلطان المشائخ نے کھڑکی کھولی اور حجرہ کے اندر تشریف لائے اور اونٹ لوٹ گیا۔ کاتب حروف نے نہایت معتبر اور ثقہ لوگوں سے سنا ہے کہ شیخ نجم الدین صفاہانی پورے سات سال تک خانۂ کعبہ کے مجاور رہے انہوں نے حرم کے متصل اپنی سکونت کے لیے ایک مکان تیار کیا تھا جہاں سے بیٹھ کر ہمیشہ خانۂ کعبہ پر نظر پڑتی تھی شیخ نجم الدین کا اہل کمال کے زمرہ میں شمار کیا جاتا تھا اور آپ اولیاء اللہ میں بڑے رتبہ کے شخص تھے۔ ایک دن مکہ کے مجاوروں نے آپ سے دریافت کیا کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ آج سلطان المشائخ ایک عالم کے مقتدا و پیشوا ہیں اور بندگانِ خدا کو مقصد پر پہنچاتے ہیں لیکن خانۂ کعبہ کی زیارت کو نہیں آتے اور حج کی دولت سے مشرف نہیں ہوتے شیخ نجم الدین نے فرمایا کہ سلطان المشائخ اکثر اوقات فجر کی نماز کے وقت خانۂ کعبہ میں حاضر ہوتے ہیں اور جماعت میں ہماری موافقت کرتے ہیں کاتب حروف عرض کرنا ہے ممکن ہے کہ یہ اونٹ جس پر سوار ہوکر سلطان المشائخ سیر کو جاتے تھے فرشتہ ہو جو غیب سے آتا اور سلطان المشائخ  کو خانۂ کعبہ میں لے جاتا ہو۔ خواجہ ابو بکر وراق جو حضرت سلطان المشائخ کے شرف قربت اور مصلاداری کے ساتھ مشرف و ممتاز تھے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سلطان المشائخ نے مجھے اپنا جبہ خاص عنایت فرمایا۔ میں اس عطیہ اور بخشش کے شکرانہ میں چند چیزیں مرتب کرنے لگا کہ سلطان المشائخ کے حضور میں پیش کروں۔ اسی اثناء میں ایک شخص نے کہا کہ تم نے شکرانہ کا اس درجہ اہتمام کیا ہے کہ یہ جبہ ان کی قیمت میں برابر سرابر پڑ رہے گا۔ میں اس بات سے نہایت منغص و پریشان ہوا لیکن جب میں اپنا مرتب کیا ہوا شکرانہ سلطان المشائخ کی خدمت میں لے گیا تو  آپ نے خادم سے فرمایا کہ اس میں سے صرف سیر بھر گھی لے لو باقی واپس کردو۔ میں نے عرض کیا کہ حضور! یہ کوئی چیز نہیں ہے براہِ رعنایت جو کچھ میں لایا ہوں اسے نظرِ قبول دے دیکھیں۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ اس سے پیشتر میں غیاث پور سے کیلوکھری کی مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے پا پیادہ جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گرمی کا موسم تھا دھوپ نہایت تیز اور سخت پڑ رہی تھی گرم ہوائیں بڑی تندی و تیزی کے ساتھ چل رہی تھیں اور رستہ دور کا تھا یعنی غیاث پور سے مسجد کیلوکھری تک پورے ایک کوس کی مسافت تھی اور ان تمام باتوں کے ہوتے میں روزے سے تھا چلتے چلتے میرا سر گھومنے لگا اور پیاس کا غلبہ ہوا۔ میں ایک دکان میں بیٹھ گیا اور خیال آیا اگر اس وقت کوئی سواری ہوتی تو اس پر سوار ہوکر مسجد تک پہنچ جاتا اس کے بعد فوراً ہی شیخ سعدی کی یہ بیت میرے دل میں گزری۔

ما قدم از سر کنیم در طلب دوستان

راہ بجایٔ نہ برد ھر کہ با قدام رفت

(ہم دوستوں کی طلب میں سر کو قدم بناتے ہیں کیونکہ جو شخص اس راہ میں قدم کے ساتھ چلتا وہ منزل مقصود کو نہیں پہنچتا۔)

لہذا میں نے اس خطرہ سے توبہ کی اس کے تین دن بعد  شیخ ملک یار پر ان کا خلیفہ میرے پاس ایک خوبصورت گھوڑی لایا اور کہا کہ اسے قبول کیجیے میں نے کہا کہ تم خود درویش ہو تم سے یہ ہدیہ کیونکر قبول کروں خلیفہ نے جواب دیا کہ آج تیسری شب ہے کہ شیخ ملک یار پر ان رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے خواب میں فرمایا ہے کہ یہ گھوڑی فلاں شخص کے پاس لے جا اور ان کی نظر کر۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے جواب دیا کہ تمہارے شیخ نے بیشک ایسا فرمایا ہے لیکن تاوقتیکہ میرے شیخ اس ہدئیے کو قبول کرنے کی اجازت نہ دیں گے میں کبھی قبول نہیں کرسکتا۔ چنانچہ جب رات ہوئی اور میں حسبِ معمول سویا تو جناب شیخ شیوخ العالم قدس سرہ کو خواب میں دیکھا آپ مجھے فرما رہے ہیں کہ نظام! ملک یار پر ان کی خاطر سے گھوڑی قبول کرلو جب دوسرا دن ہوا تو پھر شیخ ملک یار پر ان کا  خلیفہ آیا اور گھوڑی پیش کی میں نے اسے خدا کا فرستادہ سمجھ  کر قبول کر لیا اس روز سے پھر کوئی موقع ایسا نہیں ہوا کہ میرا گھر گھوڑے سے خالی رہا ہو ایک عرصہ کے بعد میں نے وہ گھوڑی اپنے بھانجے خواجہ محمد کو دے دی۔ جب سلطان المشائخ یہ حکایت نقل کر  چکے تو قاضی محی الدین کاشانی نے فرمایا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ من عبد اللہ فی الحرات قضی اللہ حوائجہ بالخطرات یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کی جلتی دھوپ اور گرمی میں پرستش کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی تمام حاجتیں خطرات سے برلاتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عزیز نے سلطان المشائخ کے روزہ افطار کرنے کے وقت خیال کیا کہ اگر سلطان المشائخ اس پانی کا بقیہ مجھے عنایت کریں جس سے آپ روزہ افطار کریں گے تو میں جانوں گا کہ آپ صاحب کرامت ہیں۔ اسی اثناء میں سلطان المشائخ نے افطار سے بچے ہوئے پانی کی نسبت فرمایا کہ یہ پانی اس عزیز کو دیدو چنانچہ اس نے فوراً توبہ کی اور اپنی لغزش سے استغفار کی۔ جب سلطان المشائخ کھانے سے فراغت پاکر بالا خانہ پر تشریف لائے اور اپنے معمولی مقام پر بیٹھے تو اس عزیز کو دوسرے یاروں کے ساتھ طلب کیا جب سب خاموشی کے ساتھ بیٹھ گئے تو سلطان المشائخ نے فرمایا عزیز و خدا تعالیٰ کا ایک بندہ ہے جس نے چالیس سال سے سیر ہوکر کھانا کھایا ہے نہ پانی پیا ہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا یہ بھی فرماتے تھے کہ جب میں ابتدائی عمر کے مرحلے طے کر رہا تھا تو اپنے دل میں عزم بالجزم کر چکا تھا کہ نہ تو کوئی کتاب لکھواؤں گا نہ قیمتاً مول لوں گا اتفاقاً اسی زمانہ میں ایک شخص میرے پاس امام غزالی کی اربعین لایا جس کی وضع قطع مجھے بہت ہی اچھی معلوم ہوئی میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں عہد کر چکا ہوں کہ کوئی کتاب قیمتاً نہ لوں گا اگرچہ یہ کتاب نہایت عمدہ اور خوبصورت ہے لیکن میں اپنے عہد سے پھر نہیں سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے کتاب کو واپس کر دیا مگر اس کے ساتھ ہی میرا دل ہمیشہ اس کتاب کے لیے بے چین رہا۔ چند روز نہ گزرنے پائے تھے کہ وہی کتاب میرے پاس ہدیۃً آئی میں نے فوراً قبول کر لیا اور شکر  خدا بجالایا۔ ایک دفعہ سلطان المشائخ کی خدمت میں ایک شخص آیا دیکھا کہ درویشوں اور خدمت گاروں کا حال نہایت تباہ ہے۔ شب و روز  نا کامیابی میں گزرتے ہیں اور فقر فاقہ کی وجہ سے برے حال میں ہیں۔ اس نے سلطان المشائخ سے عرض کیا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں حضور کو سونا بنانا سکھادوں تاکہ ہر روز سونے کا ایک ڈھیر آپ کے پاس موجود  رہے اور آپ کے خدمت گار راحت و آرام سے زندگی بسر کریں۔ سلطان المشائخ نے جواب دیا کہ رنگ آمیزی عیسائیوں کا کام ہے اور سونا بنانا یہودیوں کی صفت ہے محمد یوں کے نزدیک زر بنانا حقیقت میں زر دروئی ہے۔ ہمیں دنیاوی مال و دولت کی طرف میل ہے نہ فانی سونے کی خواہش دنیا کے جاہِ جلال کی حاجت ہے نہ عقبی کی خواہش۔ بلکہ ہم اپنی تمام حاجتیں اور مرادیں قاضی الحاجات سے چاہتے ہیں کیونکہ  وہی ہمارا مقصود و مراد ہے۔

دنیا بچہ کار آید و فردوس چہ باشد

(دنیا کس کام آئے اور فردوس کیا ہے۔)

ایک راست باز  اور صادق القول عزیز نے سلطان المشائخ کو خواب میں دیکھا کہ آپ بہشت میں ایک مرصّع و مکلّف تخت پر جلوہ آرا ہیں اور اس خواب دیکھنے والے سے فرما رہے ہیں کہ حق تعالیٰ مجھے ہر روز وظیفہ عنایت کرتا ہے۔ یہ شخص سلطان المشائخ کی ہیبت و خوف کی وجہ سے دریافت نہ کر سکا کہ وہ وظیفہ کیا ہے اور اس وظیفہ سے کیا مراد ہے لیکن خود سلطان المشائخ نے اس  کی تشریح اس طرح بیان کرنا شروع کی کہ حق تعالیٰ دنیا میں جو خلق کو مجھ سے وظیفہ دلواتا تھا اس کو قبول فرمایا اور اپنے فضل و کرم سے اس وظیفہ کی عوض ہزاروں دوزخی میرا وظیفہ مقرر کیئے جن میں سے ایک کافی تعداد روز مرہ مجھے بخشتے ہیں۔ ایک اور عزیز نے ایک حکایت نقل کی کہ میں اپنے قصبہ سے سلطان المشائخ کی زیارت کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ رستہ میں میرا گزر قصبہ بوندی پر ہوا جب میں اس قصبہ میں پہنچا تو خیال پیدا ہوا کہ یہاں بھی ایک کامل درویش شیخ موہن سکونت رکھتے ہیں ان سے بھی ملاقات کرنا چلوں چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا فرمایا کہاں جانے کا قصد ہے۔ میں نے کہا سلطان المشائخ کی خدمت میں کہا جب تم وہاں پہنچو تو سلطان المشائخ کو میرا سلام پہنچا کر کہنا کہ میں وہی شخص  ہوں جو ہر شب جمعہ کو  خانۂ کعبہ میں آپ سے ملاقات کرتا ہوں چنانچہ جب میں سلطان المشائخ کی خدمت میں پہنچا اور سعادت قدم بوسی حاصل ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ قصبہ بوندی میں ایک درویش رہتے ہیں انہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ میں وہی شخص ہوں جو ہر شب جمعہ کو خانۂ کعبہ میں آپ سے ملاقات کرتا ہوں۔ سلطان المشائخ اس کی اس بات سے منغص ہوئے اور  فرمایا کہ بے شک وہ درویش قابل و  لائق ہے لیکن افسوس زبان کو اپنے قبضہ میں نہیں رکھ سکتا۔ خواجہ منہاج جو سلطان المشائخ کا ایک مخلص و بے ریا معتقد اور جان نثار مرید تھے بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ مجلس سماع منعقد کرنے کا اتفاق پڑا لیکن اس سے پیشتر کہ میں اس قسم کی مجلس مرتب کروں۔ سلطان المشائخ کی خدمت عرض کیا کہ میں مجلس سماع مرتب کرنا چاہتا ہوں فرمایا اچھا ہے بہتر ہوگا چنانچہ میں نے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے بلند اقبال پوتوں اور دیگر یاروں کو غیاث پور بلایا ابھی شہر کے دوست و عزیز تشریف نہیں لائے تھے کہ ہر شخص نے تقاضا شروع کر دیا کہ قوال حاضر ہیں آپ اجازت دیجیے کہ گانا شروع کریں۔ میں نے معذرت کی ہنوز بہت سے یار دوست نہیں آئے ہیں اور کھانا تیار نہیں ہوا ہے بہتر ہوگا کہ ذرا توقف فرمائیں لیکن اہل مجلس نے میری اس معذرت کو رغبت کے کانوں سے نہیں سنا اور سختی کے ساتھ فرمایا کہ راگ چھیڑنے کی اجازت دو ورنہ ہم جاتے ہیں کھانا تیار نہیں ہے تو ہم بازار سے کھانا منگائے لیتے ہیں چنانچہ انہوں نے جھٹ آدمیوں کو دوڑا دیا اور کھانا منگا کر خود کھایا اور دوسرے لوگوں کو بھی دیا سماع چھڑ گیا لیکن کسی طرح کا ذوق و شوق پیدا نہیں ہوا میں نہایت تشویش و تردد میں تھا کہ مجلس بے ترتیب اور درہم برہم ہوئی جاتی ہے اسی ناگوار کی حالت میں میں سر نیچے کئے بیٹھا تھا کہ دفعۃً سر اوپر اٹھایا دیکھتا ہوں کہ جناب سلطان المشائخ حوض کے دروازہ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں یہ دیکھ کر اپنے آپے سے باہر ہوگیا اور جب ہوش میں آیا تو سماع سے سخت متاثر تھا آنکھ اٹھا کر ادھر اُدھر دیکھتا ہوں تو شہر کے دوست و آشنا بھی رونق افروز مجلس ہو رہے ہیں۔ جب میں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ تمام کیفیت عرض کی تو آپ نے اس کی تصدیق کی اور فرمایا جس مقام پر اس ضعیف کے یار دوست ہوا کریں انہیں چاہیے کہ اس ضعیف کو حاضر تصور کر لیا کریں۔ یہی خواجہ منہاج جن کا ابھی ذکر ہوا ہے کہتے تھے کہ ایک رات کو میں سلطان المشائخ کے گھر میں تھا خدام نے آپ کی چار پائی باہر بچھادی تھی اور سونے کا لباس اس پر آراستہ کر دیا تھا جماعت خانہ کے زینہ اور سلطان المشائخ کی چار پائی پر ایک بھیگا ہوا کپڑا پڑا ہوا تھا شب کا ایک بڑا حصہ گزر گیا تھا کہ سلطان المشائخ کی چار پائی کے اوپر سے نور کا ایک بھیگا ہوا کپڑا پڑا ہوا تھا شب کا ایک بڑا حصہ گزر گیا تھا کہ سلطان المشائخ کی چار پائی کے اوپر سے نور کا ایک ستون نمودار ہوا جو بڑھتے بڑھتے آسمان سے باتیں کرنے لگا اور جس کی روشنی سے جماعت خانہ کا صحن اور دریا کے کنارے روشن ہوگئے۔ مجھ پر ایک ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ ایک گوشہ میں جا چھپا اور اپنے تئیں سویا ہوا ظاہر کیا۔ ایک دفعہ شیخ نور الدین فردوسی نے اپنے تین یاروں کو سلطان المشائخ کی خدمت میں بھیجا اور ان کی معرفت آپ کو پیام دیا کہ میں نے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی روح کو ثواب پہنچانے کی غرض سے کھانا تیار کیا مہربانی فرما کر غریب خانہ پر تشریف لائیے لیکن جس وقت یہ تینوں شخص راستہ میں تھے تو ان میں سے ایک نے کہا تھا کہ اگر سلطان المشائخ شیخ ہیں تو مجھے کوئی ایسی چیز دیں جو کھانے کے قابل ہو دوسرے نے کہا تھا اگر مجھے کوئی کپڑا دیں تو  جانوں کہ شیخ ہیں۔ تیسرے نے کہا تھا کہ بھائیو! بزرگوں کا امتحان اچھا نہیں ہے تم کسی بات کااندیشہ نہ کرو اور خلوص کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہو چنانچہ جب یہ لوگ سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شیخ نور الدین کا پیام دیا تو آپ نے فرمایا آج ہم نے یہی کھانا تیار کیا ہے۔ اس لیے ہم وہاں نہیں جاسکتے اگرچہ ہم بظاہر تم تک نہیں پہنچ سکتے لیکن ہمارا دل تمہارے ساتھ متعلق ہے۔ ہنوز یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک شخص ایک دہی کی ہنڈیا اور چار روپے نقد لایا۔ سلطان المشائخ نے خادم سے اشارہ کیا کہ یہ نقدی اس شخص کو دے دو۔ اور اشارے سے اس شخص کو بتا کر فرمایا کہ تو نے کھانے کی قابل کوئی چیز مانگی تھی اور دل میں چاندی کا خیال تھا۔ ازاں بعد  خادم سے فرمایا کہ کپڑا لا کر اس دوسرے شخص کو دے دو۔ پھر تیسرے شخص کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ بزرگوں کی خدمت میں اسی طرح آنا چاہیے جس طرح تو آیا ہے یہ کہہ کر دو روپے اسے بھی عنایت فرمائے۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ شیخ نور الدین فردوسی کو سلطان المشائخ کی خدمت میں چنداں اخلاص نہ تھا بلکہ اس کے دل میں آپ کی طرف سے ایک طرح کا رشک تھا جسے وہ ہمیشہ پوشیدہ رکھتا تھا جب وہ شہر سے آیا تھا تو کیلوکھری کی حدود میں جمنا ندی کے کنارہ اپنی سکونت کے لیے ایک مقام مرتب کیا تھا اور اسے پھل پھولدار درختوں سے خوب سجایا تھا۔ شیخ نور الدین کے لڑکوں کو جو نو خواستہ جوان تھے اور ان کے خام طبع مریدوں کو سلطان المشائخ کے غلاموں اور معتقدوں سے عداوت تھی۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ یہ لوگ کشتی میں سوار ہوکر گاتے ناچتے۔ سلطان المشائخ کے گھر کے نیچے سے گزرا کرتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ یہ لوگ نماز فجر کے بعد کشتی میں سوار ہوکر اپنی جمعیت کے ساتھ گاتے اور ناچتے ہوئے سلطان المشائخ کے مکان کے آگے سے گزرہے تھے۔ اس وقت جب سلطان المشائخ جماعت خانہ کے زینہ پر مشغول بیٹھے تھے اور کاتب الحروف کے والد بزرگوار بھی اسی مجلس میں حاضر اور سلطان المشائخ کے آگے مودب کھڑے تھے۔ جب کشتی والے شور و غل مچاتے اور سماع و رقص کرتے ہوئے سلطان المشائخ کی نظر مبارک کے سامنے آئے تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ ایک شخص سالہا سال سے اس کام میں خونِ جگر کھا رہا ہے اور اپنی جان اس راہ میں قربان کر رہا ہے اور دوسرے نو خواستہ اور نا تجربہ کار لوگ ہیں جو کہتے ہیں تو کون ہے کہ ہمارے ساتھ برابری کا دعوی کرتا ہے یہ کہہ کر  آپ نے اپنا دستِ مبارک  آستن سے نکال  لیا اور ان کی طرف اشارہ کیا شیخ نور الدین فردوسی کے فرزندوں کی کشتی اسی شور و غل کے ساتھ جوں ہی اپنے مقام پر پہنچی اور وہ لوگ کشتی سے اترتے وقت شور و غل مچانے کے ارادہ سے لبِ دریا آئے کہ فوراً کشتی کو غیر معمولی جنبش ہوئی اور سب کے سب اس وقت دریا میں ڈوب گئے۔ کاتب حروف نے یہ حکایت سید السادات سید حسین اپنے عم بزرگوار سے سنی ہے اور وہ کاتب حروف کے والد بزرگوار سے روایت کرتے ہیں مصلح بقال کافر زندطبابت کا پیشہ کرتا تھا اور سلطان المشائخ  کا مرید تھا۔ جب سلطان المشائخ کے زیارت کے لیے جاتا تو آپ اسے دن ہی کو واپس کر دیتے اور شب کو اپنے پاس  نہ رکھتے۔ انجام  کار  اس نے سلطان المشائخ کے درِ دولت پر حاضر ہونا چھوڑ دیا۔ مولانا علی شاہ جاندار کہتے ہیں کہ میں نے اس سے مل کر کہا کہ یہ تو  اچھا نہیں کرتا ہے ہر مہینے ایک بار ضرور حاضر ہوا کر اور سلطان المشائخ کی پائبوسی کی سعادت حاصل کیا کر۔ دن میں آپ کی خدمت میں رہا کر اور شب کو کسی اور کے گھر میں گزار دیا کر۔ لیکن میرے کہنے سے وہ ذرا بھی متاثر نہیں ہوا۔ اور اس کے بشرہ میں ملال و بے رضائی کے آثار میں نے نمایاں دیکھے۔ چند روز کے بعد اس کا پاؤں ورم کر آیا اور درد کی وجہ سے نہایت بے قرار ہوا مولانا علی شاہ کہتے ہیں کہ میں نے دوبارہ اس سے کہا کہ سلطان المشائخ کے رنجیدہ ہونے کے باعث یہ تکلیف لاحق ہوئی ہے اس نے میری اس بات  کو تسلیم کیا اور عجز کرنے لگا ازاں بعد کثیر التعداد مبلغ مجھے دیے کہ تم انہیں سلطان المشائخ کی خدمت میں لے جاؤ اور میری جانب سے معذرت کرو۔ چنانچہ میں سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کیفیت عرض کی سلطان المشائخ  منغص ہوئے اور مجھ سے منہ پھیر لیا۔ جب میں آپ سے رخصت ہوکر آیا تو اس طبیب کا انتقال ہوچکا تھا۔ کاتب حروف نے خواجہ مبارک گوپا موئی سے سنا ہے جو ایک اعلیٰ درجہ کے عزیزوں میں شمار کیے جاتے تھے کہ میں جس مرتبہ قصبہ گوپا مئو سے سلطان علاؤ الدین کے پاس آتا تو مجھے اس کے دربار سے ایک مکلّف خلعت جیسا کہ بادشاہ پہنتے ہیں عطا ہوتا اور اس قسم کا خلعت گویا میرے لیے معمولی ہوگیا تھا جہاں تک کہ میں ایک مرتبہ سلطان کے دربار میں آیا اور اس نے اس دفعہ مجھے معمولی خلعت نہیں دیا بلکہ صرف ایک سفید چادر کی فرد عنایت کی جس کی وجہ سے میں نہایت مکدر ہوا اور رنج و غصہ میں بھرا ہوا سلطان المشائخ کی خدمت حاضر ہوا۔ پائبوسی کے بعد آپ نے میری طرف رخ مبارک کر کے فرمایا۔

تحفۂ شاہ بس عزیز بود

گرچہ دینار یا پشیز بود

(بادشاہ کا تحفہ عزیز ہوتا ہے اگرچہ دینار ہو یا لوڑی ہو۔)

اس بیت کے سنتے ہی مجھے ایک فرحت حاصل ہوئی اور دل کی خلش بالکل مٹ گئی۔ الحمد اللہ علی ذلک۔ ایک مرتبہ ایک دانشمند نے سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ میں آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں لیکن سلطان المشائخ نے نور  باطن سے معلوم کر لیا کہ یہ کسی اور وجہ سے آیا ہے۔ ہر چند اس نے بیعت کے لیے الحاح و اصرار کیا لیکن سلطان المشائخ نے اس کی بیعت لینے سے انکار کیا اور  فرمایا۔ سچ بتا دے تو کس نیت سے آیا ہے۔ اس نے عرض کیا واقعی بات یہ ہے کہ ناگور میں میری ایک زمین ہے جس پر اس موضع کا صوبہ مجھے قبضہ نہیں کرنے دیتا اور مزاحمت کرتا ہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اگر میں تجھے ایک رقعہ لکھ کر دے دوں تو تو بیعت کا ارادہ ترک کردے گا کہا بہتر ہوگا آپ نے اس وقت وہاں کے صوبہ کی طرف ایک رقعہ لکھ دیا اور اس کی غرض حاصل ہوگئی۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں مولانا رشید نغزی کی زیارت سے فراغت کر کے واپس آتا تھا ان کے خطیرہ کے متصل ایک کوچہ  پڑتا تھا وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ مست اور نشہ بازوں کی طرح جھومتا ہوا آتا ہے اور نہایت بے ضابطگی کے ساتھ آتا ہے اس کی یہ حالت  دیکھ کر میرے دل میں خطرہ گزرا کہ مبادا اس شخص سے مجھے کوئی صدمہ پہنچے چنانچہ میں اس خیال سے دوسری طرف مڑگیا وہ بھی مجھے دوسری  طرف جاتے دیکھ کر رستہ سے منحرف ہوا اور جس طرف میں مڑا تھا اسی طرف روانہ ہوا۔ آخر  کار  میں نے خدا  تعالیٰ کی طرف گریز کیا اور  کار ساز  حقیقی کی طرف التجا لے گیا اتنے میں اس شخص نے مجھے آلیا اور سلام کر کے معانقہ کیا میرے سینہ کو بوسہ دیا اور کہا الحمد اللہ کہ اس  سینہ میں ہنوز مسلمانی کی بو آتی ہے۔ یہ  کہہ کر چلا گیا جب میں نے مڑ کر  دیکھا تو کسی کو نہیں پایا اور وہ دفعۃً غائب ہوگیا لیکن شیخ نصیر الدین محمود اس روایت کو یوں نقل کر تے ہیں کہ سلطان المشائخ فرماتے تھے ایک دن میں دروازہ پل کے نزدیک چلا جاتا تھا اور نہایت مایوسی اور نا امیدی کی حالت میں تھا اور اپنے دل میں کہتا جاتا تھا نظام! تو کہاں اور خدا کی محبت کہاں اسی نیت  سے میں شیخ رسان کے  روضہ  پر  پہنچا اور وہاں چلّہ میں بیٹھا جب چلّہ تمام کر چکا تو وہاں سے واپس آنے کا قصد کیا۔ شیخ رسان کے روضہ پر ایک خشک درخت تھا جو اس چالیس روز کے عرصہ میں میرے دیکھتے دیکھتے ہرا اور تروتازہ ہوگیا تھا۔ چلتے وقت میں نے شیخ رسان کے روضہ کے سامنے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ شیخ! اس خشک درخت  کا حال چالیس روز میں بدل گیا لیکن میری حالت اس عرصہ میں ذرا بھی نہیں بدلی۔ یہ کہہ کر میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اثنائے راہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ لڑ کھڑاتا ہوا چلا آ رہا ہے مجھے خیال پیدا ہوا کہ یہ شخص مست ہے اور نشہ میں جھومتا آتا ہے میں اس سے بچ کر دوسری طرف مڑگیا لیکن اس نے میری ہی طرف میل کیا۔ یہاں سے بھی منحرف ہوا اور  اس نے اس دفعہ بھی میرا  پیچھا کیا اس  وقت میں نے دل میں کہا نظام! اب خدا کی طرف گریز کر اور اس کی جناب میں التجا لے جا۔ یہ سوچ کر میں خود اس کی طرف بڑھا اور جب نزدیک پہنچا تو دونوں ہاتھ اونچے کیے اور اس شخص کے گلے لگ گیا اس کے سینہ اور منہ سے عطر کی خوشبو آتی تھی حالتِ معانقہ میں اس شخص  کی زبان سے نکلا کہ اے صوفی تیرے سینہ سے محبت خدا  وندی کی بو آتی ہے یہ کہہ کر غائب ہوگیا۔

 

جناب فخر النساء رابعہ بی بی زلیخا صاحبہ حضرت سلطان المشائخ

کی والدہ ماجدہ اسرارہما کی بعض کرامتوں کا بیان

حضرت سلطان نظام الحق والدّین سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ میری والدہ مکرمہ کو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسی رسائی تھی کہ اگر انہیں کوئی حاجت پیش آتی تو اس کی تکمیل آپ کو خواب میں معلوم ہوجاتی گویا اس حاجت کی نسبت آپ کو اختیار دے دیا جاتا۔ بار  ہا میری والدہ محترمہ میرے پاؤں کو دیکھ کر فرمایا کرتی تھیں کہ نظام! میں تجھ میں سعادت اور نیک بختی کی علامت دیکھتی ہوں تو کسی زمانہ میں بڑا صاحب اقبال اور نجتاور ہوگا۔ ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔

وے آیتے کہ آمد درشانن کبریا

اندر جبین ناصیہ او  مبین ست

(شان کبریائی کی شان اس کی بختاور پیشانی میں واضح ہے۔)

لیکن جب تنگ عیشی کا زمانہ سخت ہوا اور افلاس و تنگدستی نے چاروں طرف سے گھیر لیا تو میں نے والدہ سے عرض کیا کہ آپ فرماتی ہیں کہ میں سعید اور بلند اقبال ہوں لیکن میں تو اس کا کچھ بھی اثر نہیں دیکھتا فرمایا گھبراؤ نہیں اس کا اثر ظاہر ہوگا لیکن اس وقت جبکہ میں اس جہاں سے اٹھ جاؤں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ میں نے ہمیشہ تجربہ کیا ہے کہ جب کوئی مشکل یا حاجت مجھے پیش آئی جناب والدہ مکرمہ کی خدمت میں عرض کیا۔ اکثر تو ایسا ہی ہوتا تھا کہ ہفتہ  کے اندر اندر حاجت بر آتی اور مشکل نکل جاتی تھی لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مہینے بھر میں حاجت روائی ہوتی تھی اور  ایسا بہت کم اتفاق ہوا ہے۔ سلطان المشائخ یہ  بھی فرمایا  کرتے تھے کہ جب میری والدہ محترمہ  کو کوئی  ضرورت و حاجت  پیش آتی تو آپ پانچ سو دفعہ درود پڑھتیں۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میری والدہ کی کنیز بھاگ گئی چونکہ بجز اس کے  اور کوئی خدمت گار نہ تھا اس وجہ سے آپ  کو گونہ  ملال ہوا مصلّے پر بیٹھیں اور  دامنِ مبارک پھیلا کر حق تعالیٰ سے مناجات کرنا شروع کی اسی اثناء میں میں نے والدہ کو فرماتے سنا کہ کنیز بھاگ گئی ہے اور میں نے عہد کر لیا ہے کہ تاوقتیکہ کنیزک نہ آئے گی میں سر پر ڈوپٹہ نہ ڈالوں گی۔ میں والدۂ مکرمہ کی یہ بات سن کر متامل ہوا کہ یہ آپ کیا فرما رہی ہیں اسی حالت میں ایک شخص نے دروازہ پر کھڑے ہوکر آواز دی کہ تمہاری لونڈی بھاگ آئی ہے آؤ اسے لے جاؤ۔ جس زمانہ میں سلطان علاؤ الدین خلجی کے فرزند سلطان قطب الدین نے جناب سلطان المشائخ کے ساتھ منازعت کرنا چاہی تو آپ اپنی والدہ محترمہ کے مرقد کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ سلطان قطب الدین نے جو سلطان المشائخ سے جھگڑا کیا اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ سلطان قطب الدین نے اپنے عہدِ حکومت میں ایک جامع مسجد تعمیر کرائی تھی جب وہ بن کر تیار ہوگئی تو  اول جمعہ شہر کے تمام مشائخ و علماء کو مدعو کیا کہ اس جمعہ کے دن اس نو تعمیر مسجد میں نماز ادا  کریں۔ سلطان المشائخ کے پاس جب یہ پیام پہنچا تو آپ نے فرمایا ہمارے مکان کے پاس بھی مسجد ہے اور  وہ اس بات کا زیادہ استحقاق رکھتی ہے کہ ہم اسی میں نماز جمعہ ادا کریں چنانچہ آپ نو تعمیر مسجد میں جسے مسجد میری کہتے تھے تشریف نہیں لے گئے۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ ہر مہینے کی یکم تاریخ  کو سلطان قطب الدین کے دربار میں یہ رسم مقرر تھی کہ تمام ائمہ وقت اور  مشائخِ عصر اور دربار کے امرا و وزرا ماہ نو کی مبارک بادی اور تہنیت کی رسم ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے تھے اور بادشاہ کو مبارک بادی دیتے تھے لیکن سلطان المشائخ  اس کے دربار  میں نہ جاتے تھے بلکہ اقبال خادم کو اپنی طرف سے بھیج دیا کرتے تھے مدعیوں اور حاسدوں کو اپنی عداوت کے بخار نکالنے اور بادشاہ وقت  سے شکایت کرنے کا اچھا موقع مل گیا۔ سلطان قطب الدین سے بیان کیا کہ آپ نے  جو سلطان المشائخ  کی نسبت فرمان جاری کیا تھا انہوں نے اس کی تعمیل نہیں کی۔ جمعہ کی نماز  کے لیے مسجد میری میں نہیں آئے اور کہلا بھیجا کہ ہم اپنے ہی محلّہ کی مسجد میں جمعہ ادا  کریں گے۔ علاوہ ازیں ماہ نو  کی تہنیت میں جس طرح اور مشائخ اور  ائمہ وقت حاضر ہوتے ہیں وہ نہیں آتے بلکہ اپنی طرف سے ایک غلام بھیج دیتے ہیں جس سے بادشاہ کی کسر شان ہوتی ہے۔ سلطان قطب الدین کی غیرت و حمیت کی آگ حرکت میں آئی اور بادشاہی غرور سلطنت کی نخوت۔ جہانبانی کے زور نے اسے اس پر آمادہ کیا کہ نہایت گستاخی اور بے ادبی کے ساتھ کہہ بیٹھا کہ اگر اب کے غُرّہ میں سلطان المشائخ نہ آئیں گے تو میں انہیں قانون کے زور سے بلاؤں گا اور نہایت بدسلوکی سے پیش آؤں گا۔ سلطان المشائخ کے مخلص اور بے ریا  معتقدوں نے جو بادشاہ مقرب تھے اور جن کی سلطانی دربار میں بہت عزت ہوتی تھی سلطان  المشائخ کی خدمت  میں حاضر ہوکر بادشاہ کے اس ارادہ سے  مطلع کیا۔ سلطان المشائخ نے کچھ جواب نہیں دیا اور والدۂ محترمہ کے روضۂ متبرکہ کی زیارت کو تشریف لے گئے اور کہا کہ بادشاہ وقت میری ایذا کے درپے ہے اور مجھے سخت مصیبت و تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ اگر ماہ آئندہ تک جس پر اس نے مجھے ایذا پہنچانا منحصر رکھا ہے اس کا کام تمام نہ ہوجائے گا تو میں پھر کبھی تمہاری زیارت کو نہ آؤں گا اور یہ اس راز و نیاز کے طور پر کہا جو حالت  زندگی میں اپنی والدہ کے ساتھ رکھتے تھے۔ الغرض وہاں سے لوٹ کر دولت خانہ پر تشریف لائے۔ آپ کے یار اور خدمت گار بادشاہ کی اس بات سے نہایت پریشان تھے اور ہر وقت غم میں گھٹی رہتے تھے اور جوں جوں مہینہ قریبب آتا جاتا تھا عزیزوں اور مخلصوں کے تفکرات بڑھتے جاتے تھے لیکن سلطان المشائخ اس بھروسہ پر کہ میں اپنی والدہ مکرمہ سے عرض کر آیا ہوں نہایت اطمینان اور  دل جمعی سے سجادۂ کرامت پر بیٹھے ہوئے منتظر رہتے تھے کہ پردۂ غیب سے کیا حادث ہوتا ہے اب چاند ہوگیا ہے اور لوگ اس  انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کل چاند کی پہلی تاریخ ہے سلطان المشائخ بادشاہ وقت کی طرف بلائے جائیں گے خدا  کی شان کہ چاند رات کو نا  عاقبت اندیش بادشاہ کی جان پر آسمانی بلا ٹوٹ پڑی خسرو خان نے جو سلطان المشائخ کے بد خواہ بادشاہ کا قدیم دشمن تھا اس کا سر تیغ تیز سے جسم سے جدا کر دیا اور تنِ بے  سر محل کے اوپر سے نیچے ڈال دیا۔ سر  کو نیزہ پر علم کیا اور تمام مخلوق پر ظاہر کرنے کے لیے ایک اونچے مقام  پر لٹکا دیا۔ غرض کہ سلطان قطب الدین جان سے مارا گیا اور اس نے اپنی اس گستاخی کا بہت جلد مزہ چکھ لیا۔ جو سلطان المشائخ کی جناب میں کی تھی۔ شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔

اے روبہک چرا نہ نشتی بجائے خویش

باشیر پنجہ کر دی و دیدی سزائے خویش

کاتب الحروف نے ایک ایسی عورت سے سنا ہے جس کی صادق القولی۔ راستبازی دیانت پر پورا پورا بھروسہ کیا جاتا ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے  خواب میں دیکھا گویا قیامت برپا ہے خلق حیران و مدہوش دائیں بائیں دوڑتی پھرتی ہے اور  ایک عجیب  اضطراب میں ہے میں بھی اوروں کی طرح سخت تحیر و مدہوشی کی حالت میں ایک طرف کو چلی جا رہی تھی اسی اثناء میں دیکھتی  ہوں کہ ایک شخص ہاتھ میں جھنڈا لیے کھڑا ہے اور مجھ سے کہتا ہے یہ بی بی زلیخا کا جھنڈا ہے جو سلطان المشائخ کی والدہ ماجدہ ہیں تو بھی اس جھنڈے کے نیچے چلی آ۔ میں نے اس ہجوم و غوغا میں اس جھنڈے کے نیچے جگہ پائی اور حیرانی و سر گردانی سے فی الجملہ اطمینان ہوا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ یہ  خواب دیکھنے والی عورت کاتب حروف کے عم بزرگوار سید احمد کرمانی کی صاحبزادی تھیں جو کاتب حروف کے نکاح میں تھیں اور سید السادات جناب سید حسین کی شفقت کی وجہ سے سلطان المشائخ کی خدمت مبارک میں پہنچ کر آپ کی دینی و دنیاوی نعمتوں سے محظوظ ہوتی تھیں۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جمادی الاخری کی پہلی تاریخ میری والدہ محترمہ کے انتقال کا دن تھا اس سے پہلے شب کو چاند دیکھا گیا تھا میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدم مبارک پر سر رکھ کر ماہ نو کی مبارکبادی دی جیسا کہ میرا قدیم دستور تھا اس وقت ان کی زبانِ مبارک پر جاری ہوا نظام! آئندہ ماہ کی پہلی تاریخ کو کس کے پاؤں پر سر رکھو گے اور ماہِ نو کی کسے مبارکبادی دو گے آپ کے اس فرمانے سے  مجھے معلوم ہوگیا کہ انتقال کا زمانہ قریب ہے میرا حال متغیر ہوگیا اور میں زاروقطار رونے لگا آخر  کار میں نے بڑی دلیری کر کے عرض کیا کہ مخدومہ! مجھ غریب و بیچارے کو کس کے سپرد کرتی ہیں فرمایا اس بات  کا جواب صبح دوں گی۔ میں نے عرض کیا اب کیا ہے جو آپ جواب نہیں دیتیں۔ آپ نے اس کا جواب کچھ نہ دیا اور اسی اثناء میں فرمایا کہ جاؤ آج رات شیخ نجیب الدین کے مکان میں سو رہو۔ میں آپ کے فرمان کے بموجب وہاں چلا گیا۔ آخر رات تھی ہنوز صبح نہیں ہوئی تھی مگر ہونے کو تھی کہ ایک لونڈی دوڑتی ہوئی آئی اور شتابانہ لہجہ میں کہا چلیئے آپ کو مخدومہ  بلاتی ہیں میں سر  سے پاؤں تک کانپ اٹھا اور لونڈی سے دریافت کیا کہ  مخدومہ زندہ تو ہیں جواب دیا کہ ہاں۔ جب میں خدمت میں پہنچا تو فرمایا شب کو تم نے ایک بات دریافت کی تھی جس کے جواب دینے کا میں نے وعدہ کر لیا تھا اب میں کہتی ہوں ذرا آگوشِ ہوش سے سنو۔ ازاں بعد  فرمایا  کہ تمہارا داہنا ہاتھ کون سا  ہے میں نے اپنا داہنا ہاتھ آگے کیا اور عرض کیا یہ ہے آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا۔ خدا وندا میں اسے تیری سپردگی میں دیتی ہوں یہ کہہ کر جاں بحق تسلیم کر گئیں میں نے خدا کا بے اندازہ شکر  اپنے اوپر واجب دیکھا اور  دل میں کہا کہ اگر یہ  مخدومہ زر و  گوہر سے بھرا ہوا  ایک مکان اپنے میراث میں چھوڑتیں تو میں اس درجہ خوش نہیں ہوتا جیسا کہ میں اس کلمہ سے خوش ہوا۔ جو آپ نے اس آخری سانس میں میرے لیے چھوڑا۔

 

سلطان المشائخ کے دار فنا سے دار بقا  کی طرف رحلت

فرمانے اور حاضرین کو وصیت کا بیان

کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جمعہ کا دن تھا جو سلطان المشائخ پر حالتِ تحیر پیدا ہوئی اور آپ کا دل مبارک نور تجلی سے منور  و روشن ہوگیا اور اثناء  نماز میں حق تعالیٰ کو سجدے کیے اسی عالم تحیر میں آپ دولت  خانہ پر تشریف لائے اور آہ بکا جو اس سے پیشتر تھی اب بہت کچھ غالب ہوگئی ہر آن میں کئی کئی دفعہ آپ غائب ہوتے اور کئی کئی دفعہ حاضر ہوتے تھے اور بار بار یہی فرماتے تھے کہ آج جمعہ کا دن ہے دوست کو دوست  کا وعدہ ضرور  یاد رکھنا اور اس حالت میں غرق رہنا چاہیے اور اسی حال میں یہ بھی مکر رسہ کرر فرماتے کہ کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے اور کیا میں نماز پڑھ چکا ہوں اگر حاضرین عرض کرتے کہ آپ نماز پڑھ چکے ہیں تو فرماتے ایک دفعہ اور پڑھ لوں غرض کہ ہر نماز کو مکررسہ کرر ادا کرتے تھے اور جتنے دن اس حالت میں رہے۔ ان ہی دو باتوں کو مکررسہ کرر فرماتے رہے کہ آج جمعہ کا دن ہے اور کیا میں نماز پڑھ چکا ہوں اور یہ مصرعہ بھی بار بار زبانِ مبارک پر جاری کرتے۔

میر و یم میر و یم میر و یم

اسی اثناء میں جناب سلطان المشائخ نے اپنے تمام عزیز و اقارت اور خدمت گاروں اور ان مریدوں کو جو شہر میں موجود تھے بلایا اور ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ تم گواہ رہو اور اپنے خادم (اقبال کی طرف اشارہ کر کے) کہ اگر یہ شخص گھر میں سے کوئی چیز بھی بچا رکھے گا تو کل قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے دربار میں خود ہی جواب دہی کا ذمہ دار ہوگا میں حکم کرتا  ہوں کہ جو کچھ گھر میں ہے سب راہِ خدا میں صرف کر ڈالے۔ اقبال خادم نے قبول کیا کہ میں کوئی چیز گھر میں نہ چھوڑوں گا سب سلطان المشائخ کے سر پر سے تصدق کردوں گا اور اس نیک نیت اور پاکیزہ خصلت نے ایسا کیا بھی یعنی بجز اس غلہ کے جس سے چند روز درویشوں کی قوت بسری ہوسکتی تھی تمام چیزیں راہِ خدا میں صرف کردیں چنانچہ اس کے بعد سید السادات سید حسین کاتب حروف کے عم بزرگوار نے سلطان المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ غلہ کے علاوہ جو چیز تو  شک خانہ میں موجود تھی سلطان المشائخ کا صدقہ مساکین و محتاجوں کو پہنچادیا گیا۔ سلطان المشائخ اقبال کی اس حرکت سے مکدر ہوئے اور سامنے بلا کر فرمایا کہ تو نے اس مردہ ریت کو کیوں رکھ چھوڑا ہے اقبال نے عرض کیا کہ بجز اس غلہ کے جسے ایک خلق کھا کر چند روز تک زندگی بسر کر سکتی ہے اور کوئی چیز میں نے نہیں رکھی ہے فرمایا اچھا مساکین و محتاجوں کو بلاؤ۔ جب ایک کثیر التعداد مخلوق آکر حاضر ہوئی تو فرمایا کہ انبار خانوں کے دروازے توڑ ڈالو اور سارا غلہ بے خوف ہوکر لوٹ لو اور تمام کوٹھوں میں جھاڑو دے دو۔ ایک ساعت میں تمام جہان اُمنڈ پڑا اور بات کرتے میں غلہ لوٹ لیا۔ اس کے بعد جناب سلطان المشائخ کے مرض میں اور بھی شدت ہوئی اور اسی حالت میں تمام یاروں اور خدمت گاروں نے سلطان المشائخ کی خدمت  حاضر ہوکر عرض کیا کہ مخدوم کے بعد ہم  مسکینوں کا کیا حال ہوگا فرمایا تم گھبراؤ نہیں تم لوگوں کو میرے روضہ سے اس درجہ پہنچے گا کہ خاطر خواہ قوت بسری ہوجایا کرے گی اور کسی کے محتاج نہیں رہو گے۔ لیکن کاتبِ حروف نے اس قدر اور بھی صادق القول پیروں سے سنا ہے کہ سلطان المشائخ کے اصحاب نے عرض کیا کہ ہم میں سے کون شخص وظیفہ حاصل کرے گا اور تحصیل کرنے کے بعد ہمیں تقسیم کرے گا فرمایا جو شخص کہ اپنے حصہ سے درگزرے گا اسی سختی اور شدت کی حالت میں بعض یاروں اور خدمت گاروں نے کاتب حروف کے نانا مولانا شمس الدین دامغانی سے عرض کیا کہ آپ سلطان المشائخ سے دریافت کیجیے کہ سلطان المشائخ کے خطیرہ میں جو حقیقت میں خطیرۃ القدس ہے بہت سی بلند اور مکلّف عمارتیں بنائی گئی ہیں اور ہر شخص اپنے اعتقاد کے مطابق چاہتا ہے کہ سلطان المشائخ اُن عمارتوں میں سے فلاں عمارت کے نیچے آرام فرمائیں آپ صرف اتنا دریافت کر دیجیے کہ اگر سلطان کو سفر آخرت پیش آئے تو آپ کے غلاموں کو اپنی رائے زنی پر کچھ اختیار نہ ہوگا۔ چنانچہ مولانا شمس الدین نے جناب سلطان المشائخ کی خدمت میں آپ کے یاروں کی یہ التماس پیش کی فرمایا کہ مولانا! میں کسی عمارت کے نیچے سونے کے قابل نہیں ہوں بلکہ صحرا اور کھلے میدان میں آرام کروں گا چنانچہ لوگوں نے آپ کے انتقال کے بعد ایسا ہی کیا۔ اب جس مقام پر سلطان المشائخ کا روضۂ متبرکہ ہے یہ ایک جنگل اور کھلا میدان تھا آپ کے انتقال کے بعد سلطان محمد بن تغلق نے روضۂ متبرکہ پر ایک عالیشان گنبد تیار کرایا خد اتعالیٰ نے سلطان المشائخ کے لیے ایک نہایت خوبصورت و دلگیر خطیرہ مع  عالیشان اور بے نظیر عمارتوں اور فلک رفعت گنبدوں کے جن کی لطافت و صفائی کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی اور جن کی خوبصورتی کا اطراف عالم میں کسی نے نشان تک نہیں دیکھا ہے غیب سے مرتب کرادیا۔ اس خطیرہ متبرکہ کی تعریف میں جو حقیقت میں رشک خطیرۃ القدس ہے ایک بزرگ خوب فرماتے ہیں۔

ازین سپس من و صحرائے صحن او کہ دلم

زبندہ ھائے بسیط جھان بجان آمد

زسینہ دل بتماشا بر آمدہ بدھان

چو ذکر نزھت آن بقعہ در زبان آمد

(اس وجہ سے میں ہوں اور اس کا صحن کہ دل میرا اس کا بندہ ہے۔ جب اس کے روضہ متبرکہ کی خوشگواری کا ذکر زبان پر آیا دل سینہ میں تمام تماشہ دیکھنے لب پر آگیا)

ایک اور بزرگ فرماتے ہیں۔

ز روشنائی صحن ھوائے او در دل

ھمی نمایدا اسرارِ غیب پوشیدہ

(اس کے صحن کی فضا اور روشنائی سے دل میں جو اسرارِ غیب پوشیدہ ہیں ظاہر ہوتے ہیں۔)

واضح ہو کہ جناب سلطان المشائخ قدس سرہ رجب کی پندرہویں تاریخ ۶۵۵ھ میں شیخ شیوخ العالم کی شرف ارادت سے مشرف ہوئے اس وقت آپ کی بیس سال کی عمر تھی۔ آپ کی ولادت ۶۳۶ ہجری میں ہوئی اور انتقال ۷۲۵ھ میں اور جس وقت آپ کا انتقال ہوا اس وقت آپ کی عمر ۸۹ برس تھی۔ الغرض سلطان المشائخ نے انتقال سے چالیس روز پیشتر کھانا چھوڑ دیا تھا۔ اس زمانہ میں آپ کھانے کی بو تک نہ سونگھتے تھے اور آہ و زاری اس حد تک غالب ہوگئی تھی کہ ایک ساعت بھی چشم مبارک سے آنسو نہیں تھمتے تھے۔

گرنہ بینی گریہ زارم ندانی فرق کرد

کاب چشم است اینکہ پیشت میر و دیا آب جو

(اگر تو میرا گریہ نا دیکھے گا تجھے اس امر کا فرق نہ معلوم ہوسکے گا کہ آنسو کون سے ہیں اور جاری پانی کیسا ہے۔)

اسی اثنا میں اخی مبارک ایک دن مچھلی کا شوربہ لائے مخلصوں نے اس کے پلانے میں بہت کچھ کوشش کی لیکن کچھ سود مند نہیں ہوئی۔ کیونکہ جب وہ شوربہ آپ کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا کہ یہ کیا ہے عرض کیا تھوڑا سا مچھلی کا شوربہ ہے۔ فرمایا اسے جاری پانی میں ڈال دو چنانچہ آپ نے بالکل نہیں چکھا اور فوراً واپس کر دیا ازاں بعد کاتب حروف کے عم بزرگوار سید حسین نے عرض کیا کہ حضور! بہت روز ہوچکے ہیں کہ مخدوم نے کھانا چھوڑ دیا ہے اس کا انجام کیا ہوگا فرمایا سید! جو شخص کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا مشتاق ہوتا ہے وہ دنیا کا کھانا کیونکر کھاسکتا ہے اور یہ پوری حکایت شیخ رکن الدین سے ملاقات کرنے کے ذکر  میں نہایت بسط و شرح کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ الحاصل اس چالیس روز کی مدت میں جس طرح سلطان المشائخ کھانے  کی طرف میل نہ کرتے تھے اس  طرح بات بھی بہت کم کرتے تھے یہاں تک کہ چار شنبہ کے روز جو سلطان المشائخ کے انتقال کا دن تھا آپ کی یہ کیفیت تھی کہ عین مقام صدر میں تحریر سی پڑگئی تھی۔ ربیع الآخر کے مہینے کی اٹھارویں تاریخ ۷۲۵ ہجری میں مطلوع آفتاب کے بعد آپ رب العالمین کے جوارِ رحمت میں جا ملے اور مقام صدق و صفا اور خدا تعالیٰ کے دیدار تجلی میں قرار پکڑا۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

مہ بزیر ابر  احتجاب نمود

عاشقان رابدین عذاب نمود

پردہ  از  زلف بست بررخ  خود

در دو  حیرت بدین خراب نمود

(چاند ابر کے نیچے چھپ گیا اور عاشقوں کو عذاب میں ڈال گیا۔ اپنے رخ پر زلف کا پردہ  چھوڑا اور  حیرت  پر حیرت بڑھائی۔)

حضرت امیر خسرو سلطان المشائخ کے مرثیہ میں ایک بیت میں تاریخِ انتقال کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں۔

ربیع دوم و  ھژدہ زمہ در ابر  رفت آن مہ

زمانہ چوں بشمار بیست و پنج و ھفصدرا

(ربیع الآخر کے مہینے کی اٹھارویں تاریخ تھی جو  وہ چاند ابر میں چھپا اور  جب زمانہ کا شمار  کیا جاتا ہے تو ۷۲۵ ہجری تھی۔)

سلطان المشائخ کے جنازہ کی نماز  میں شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا کے نواسے جناب شیخ الاسلام شیخ  رکن الدین قدس اللہ سرہما اللہ العزیز نے امامت کی۔ نماز جنازہ کی امات کے بعد شیخ رکن الدین کی زبان مبارک پر جاری ہوا کہ آج مجھے تحقیق ہوا کہ عرصہ چار سال سے جو مجھے شہر دہلی میں رہنے کا حکم ہوا اس سے صرف یہی مقصود تھا کہ سلطان المشائخ کی نماز  جنازہ کی امامت کے شرف سے مشرف ہوں۔ الغرض ظہر کی نماز کے وقت حضرت سلطان المشائخ کو  آپ  ہی کے خطیرہ جو خلد برین کا ایک نسخہ تھا دفن کیا۔ ایک بزرگ کہتا ہے۔

گویا جگر زمین کشادند

آن دوستِ خدا در و نھا دند

(گویا زمین کا جگر کھول کر اس  دوست خدا کو اس میں رکھا۔)

جناب سلطان المشائخ کا روضہ متبرکہ آج اقالیم کا قبلہ ہے اور آپ کے روضہ پائینتی کی خاک تریاق اعظم ہے۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔

خاک درت کہ سرمۂ اھل نظر شدہ است
ھر ذرہ ز خاک درت نزد عاشقان

 

بھر شفائے دلھا تریاق  اعظم است
جانیست بلکہ درجان سرے معظم است

 

(تیرے دروازہ کی خاک اہل نظر کے لیے سرمہ ہے اور دلوں کی شفا کے لیے تریاق اعظم کا حکم رکھتی ہے تیرے دروازہ کی خاک کا ہر زرہ عاشقوں کے نزدیک ایک جان بلکہ جان میں بہت بڑا بھید ہے)

ایک اور قطعہ

مسلمان و ھندو تر سا و گبر
چو کافور و صندل ازان خاکِ پاک

 

ز خاک درت  جملہ افسر کنند
بچشم اندر آرند و دائر کنند

 

(مسلمانوں اور  ہندو اور گبر و  ترسا سب کے سب تیرے دروازے کی خاک کو  سرکا تاج بناتے ہیں اور کافور و صندل کی طرح اس خاک پاک کو آنکھ میں ڈالتے ہیں۔)

آپ شیخ فریدالملت والدین شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خاص اور محرم اسرار و محبت باوقار تھے۔ اسم گرامی محمد بن احمد دانیال بن علی بخاری قدس سرہ الباری تھا، آپ کا لقب سلطان المشائخ سلطان الاولیاء سلطان السلاطین تھا محبوب الٰہی کے خطاب سے مشہور ہوئے تھے۔ پاک و ہند کی سر زمین آپ کے آثار و برکات سے مالا مال ہوئی، آپ کے جد بزرگوار اور جد مادری (نانا) خواجہ عرب دونوں آپ کے والد احمد دانیال کے ساتھ بخارا سے ہجرت کرکے لاہور تشریف لائے کچھ عرصہ لاہور میں رہے پھر بدایوں میں آکر قیام پذیر ہوئے۔

حضرت شیخ نظام الدین بدایوں میں ۶۳۴ھ کو پیدا ہوئے۔ یہ وہی سال تھا  جس میں سلطان  التمش اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہما کا انتقال ہوا تھا ابھی پانچ سال کے ہی تھے کہ والد ماجد بھی انتقال فرماگئے اور بدایوں میں دفن ہوئے آپ کو آپ کی والدہ جن کا اسم گرامی بی بی زلیخا قدس سرہا تھانے پرورش کی۔ اس نیک بی بی نے خواجہ نظام الدین کی تربیت میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ شیخ چھوٹی عمر میں ہی علوم مروجہ اور متداولہ میں طاق ہوگئے۔ حدیث، تفسیر فقہ صرف نحو منطق و معانی میں دسترس حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوکر دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ بیس سال کی عمر میں حضرت نجیب الدین متوکل قدس سرہ جو حضرت خواجہ فرید شکر گنج کے برادر حقیقی تھے کی صحبت میں بیٹھنے لگے انہی کی وساطت سے آپ کو خواجہ فرید شکر گنج کے حضور رسائی ہوئی، آپ  پاک پتن پہنچے اور آپ کے مرید ہوئے، آپ کے شوق اور آتش ذوق کی وجہ یہ تھی کہ ایک  دن ابوبکر نامی قوال نے سفر سے آکر  اپنے سیر و سیاحت کے واقعات بیان کیے اور بتایا کہ میں نے حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی مجلس میں نعت سنائی اور قوالی کی تھی وہ بڑے عابد، زاہد متقی اور صاحب کرامت بزرگ ہیں، آپ کے گھر کے خادم اور کنیزیں بھی آٹا گوہندتے ذکر خداوندی میں مشغول رہتی ہیں، ملتان سے چل کر پاک پتن آیا، میں نے وہاں ایک درویش کی زیارت کی نہیں بلکہ ایک شہنشاہ کی زیارت کی ان کا نام نامی فریدالدین تھا۔ وہ کرامت ورع، تقویٰ میں ساری دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا وہ مریدوں کو بیعت کرتے وقت اللہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی روحانی نعمتوں کا قاسم بناکر بھیجا ہے۔

شیخ نظام الدین قدس سرہ نے اس قوال کی باتیں سنیں تو آتش شوق شعلہ زن ہوئی، اسی وقت حضرت نجیب الدین متوکل قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی وساطت سے حضرت خواجہ فریدالملت والدین کی خدمت شرف باریابی حاصل کیا۔

کہتے ہیں کہ جس دن حضرت خواجہ نظام الدین حضرت فرید شکر گنج کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ نے آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھا۔

اے آتش فراقت و لہا کباب کردہ

سیلاب استیاقت جا نہا خراب کردہ

(ترجمہ: تمہاری آتش فراق نے دلوں کو کباب کردیا، تمہارے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کردیا ہے)

یہ شعر  نہیں تھا گویا تیر تھا جو حضرت خواجہ فرید کے کمان اشتیاق سے نکلا اور خواجہ نظام الدین کے دل میں پیوست ہوگیا آپ اٹھے قدم بوس ہوئے اور مرید ہوگئے۔

جن دنوں حضرت خواجہ نظام الدین کو خرقہ خلافت ملاآپ اپنے پیر و مرشد کے حکم سے دہلی روانہ ہوئے۔ دہلی چند روز گزارنے کے بعد ندائے غیبی سے غیاث پور کر روانہ ہوگئے اور اس جگہ کو اپنی قیام گاہ بنالیا کچھ عرصہ تک آپ پر اور آپ کے دریوشوں پر بڑی سختی آئی کئی کئی دن کھانا نہ ملتا چار چار دن بعد درویش افطار کرتے حضرت کے ہمسایہ میں ایک عورت رہتی تھی یہ بہت نیک سیرت اور صالحہ تھی۔ رسیاں تیار کرکے روزی کماتی اور بے نان و نمک کھانا تیار کرکے پیٹ بھرلیتی اس نے حضرت کی اور آپ کے درویشوں کی حالتِ زار دیکھی تو ایک دن آدھ سیر جَو کا آٹا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی آپ اسے اپنے درویشوں کو پکاکر کھلائیں، حضرت نے اپنے محب خاص شیخ کمال الدین یعقوب کو فرمایا کہ اس آٹے کو مٹی کی ہنڈیا میں ڈال دو اس میں تھوڑا پانی ڈال کو چولہے پر چڑھا دو، شاید یہ درویشوں اور آنے والے مسافروں کی خواراک بن سکے۔ چولہے پر ہنڈیا چڑھا دی گئی اُبلنے لگی، اب پک ہی رہی تھی کہ خانقاہ میں ایک درویش داخل ہوکر کڑک کر بولا، نظام الدین کھانے کے لیے جو کچھ ہے لے آؤ، آپ نے فرمایا ہنڈیا چولہے پر ہے پک رہی ہے، صبر کریں پک جاتی ہے پھر کھالینا، درویش نے کہا نظام الدین تم خود اٹھو، جیسی بھی ہنڈیا پکی ہے لے آؤ، مجھے سخت بھوک ہے آپ اٹھے چادر کے ایک کونے سے ہاتھ لپیٹا پکتی ہوئی ہنڈیا چولہے سے اٹھائی اور اس درویش کے سامنے لا رکھی درویش ہنڈیا میں ہاتھ ڈال کر گرم گرم لقمے کھاتا جاتا تھا اس قدر گرم ہنڈیا اور کھاتا کہ اس کے ہاتھوں پر اثر کرتا اور نہ گرم لقمے اس کے منہ کو جلاتے حضرت دیکھتے رہے کچھ کھا چکنے کے بعد ہنڈیا کو اٹھایا اور اوپر لے جاکر زمین پر پھینک دیا، ہنڈیا ٹوٹ گئی کھانا زمین پر پھیل گیا اب اس درویش نے کہا نظام الدین! باطنی نعمت خواجہ فرید سے حاصل کرچکے ہو بھوک اور تنگدستی کی ہنڈیا میں نے توڑ دی ہے آج سے تم ظاہر و باطن کے بادشاہ ہو، یہ کہہ کر وہ درویش غائب ہوگیا، اس دن سے اتنے فتوحات آنے لگے کہ حد و شمار نہ رہا، ہزاروں درویش و مسافر ہر روز کھانا کھاتے مگر ختم ہونے کو نہ آتا۔

تذکرۃ العاشقین میں لکھا ہے کہ غیاث الدین معرز الدین کیقباد بادشاہ نے  غیاث پور کی تعمیر نو کرنا شروع کی ہر طرف محلات اور تجارتی مراکز بننا شروع ہوئے لوگ جوق در جوق آنے لگے، تو حضرت خواجہ نظام الدین قدس سرہ نے محسوس کیا کہ اب اس شہر میں بھیڑ ہوگئی ہے یہاں سے کہیں اور جگہ چلنا چاہیے انہی دنوں آپ کی خانقاہ میں ایک خوبصورت نوجوان آیا اور آتے ہی یہ شعر پڑھا۔

روز کے تو رشدی تمید انستی

کہ نگشت نمائے عالم خواہی شد

(جس دن آپ چاند تھے۔ آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک دن سارا جہاں تمہاری طرف انگلیاں اٹھائے گا۔)

مزید فرمایا: اس قدر مشہور نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر مشہور ہوگئے ہو تو بھاگ کر میدان حشر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمسار نہیں ہونا چاہیے خلوت میں اللہ کو یاد کرنا آسان بات ہے۔ مگر لطف تو اس میں ہے کہ مخلوق کے ہجوم میں رہتے ہوئے اللہ کی یاد سے محروم اور غافل نہ رہا جائے۔

حضرت خواجہ نظام الدین فرماتے ہیں کہ اس نوجوان کی یہ بات سن کر میں اٹھا اندر سے کھانا لاکر پیش کیا مگر اس کے چہرے پر ناراضگی کے آثار ظاہر تھے۔ اس نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا، میں نے اسی وقت دل میں ارادہ کرلیا کہ میں یہاں سے نہیں جاؤں گا نوجوان کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ، ہاتھ بڑھا کر کھانا کھانے لگا،خوش خوش کھانا کھاکر اٹھا اجازت لی اور چلا گیا، اس دن کے بعد اسے کبھی نہیں دیکھا۔

ابتدائی زمانہ میں حضرت شیخ المشائخ نظام الدین اولیاء قدس سرہ غیاث آباد سے پیدل کیلورام رصی نماز جمعہ ادا کرنے جاتے تھے۔ ایک دن آپ کے دل میں خیال آیا کہ اگر میرے پاس سواری کے لیے ایک گھوڑی ہوتی تو میں بھی پیدل جانے کی بجائے سوار ہوکر نماز جمعہ کو جاتا۔ دوسرے دن شیخ نورالدین یار ہراں آپ کی خدمت میں دو گھوڑیاں لے کر حاضر ہوا، اور کہا کہ میرے پیر و مرشد نے خواب میں حکم دیا ہے کہ گھوڑیاں آپ کی سواری کے لیے پیش کروں تاکہ وہ آئندہ غیاث پور سے کیلو گڈھی پیادہ نہ جایا کریں آپ نے فرمایا آپ نے اپنے پیر و مرشد کے حکم پر گھوڑیاں پیش کی ہیں، ہم بھی اپنے پیر و مرشد کی اجازت کے بغیر  گھوڑیاں نہیں لے سکتے۔ دوسرے روز حضرت خواجہ فریدالدین شکر گنج قدس سرہ نے خواب میں فرمایا بابا نظام الدین گھوڑیاں لے لو، پیر ملک  یار ہراں ہماری اجازت سے ہی گھوڑیا ں لے کر آیا تھا حضرت نے دوسے روز نہایت مسرت و شادمانی سے گھوڑیاں لیں اور اپنے پیر و مرشد کا شکریہ ادا کیا۔

اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ سلطان علاء الدین خلجی کی وفات کے بعد سلطان قطب الدین مبارک شاہ سلطنت دہلی متمکن ہوا تو اس نے علاء الدین کے لیے خضر خان  کو جو حضرت خواجہ نظام الدین قدس سرہ کا مرید تھا اور اس نے حضرت کی خانقاہ کے احاطہ میں حضرت کے لیے بڑی بڑی عمارات بنائیں تھیں۔ قطب الدین مبارک شاہ نے یہ عمارتیں گرادیں اور خضر خان کو شہید کردیا پھر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے بھی درپے آزار ہوا، ایک دن اس نے قاضی محمد غزنوی کو جو سلطان قطب الدین کا مشیر خاص تھا پوچھا کہ نظام الدین اتنا لوگوں کو کھلاتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہیں تو یہ روپیہ کہاں سے آتا ہے قاضی کو  بھی حضرت شیخ نظام الدین سے مخالفت تھی کہنے لگا کہ بادشاہ کے امراء ،وزرأ سے لے کر سپاہی تک خواجہ نظام الدین کو نذریں پیش کرتے ہیں اس وجہ سے آپ بے دریغ خرچ کرتے جاتے ہیں حتی کہ دو ہزار روپے کا کھانا ہی پکتا ہے جو عام لوگوں کو کھلا دیا جاتا ہے یہ بات سن کر بادشاہ حسد کی آگ میں جل اٹھا۔ اور اُسی وقت ایک فرمان جاری کیا کہ جو شخص شیخ کے گھر جائے گا یا کسی قسم کا نذرانہ پیش کرے گا تو شاہی خزانہ سے اس کی تنخواہ بند کردی جائے گی حضرت شیخ نظام الدین نے یہ بات سنی تو اپنے خاص غلام اور خانسامے خواجہ اقبال کو بلایا اور حکم دیا کہ آج سے لنگر کا خرچ دگنا کردیا جائے اور پیسے کی جب بھی ضرورت پڑے فلاں طاق سے لے لینا اور بسم اللہ پڑھ کر خرچ کرتے جانا خواجہ اقبال ایسے ہی کرتے رہے اور اُن کو جتنی نقدی کی ضرورت ہوتی اس طاق سے لے لیتے۔

بادشاہ کو یہ خبر پہنچی تو بڑا شرمندہ ہوا اپنے امراء میں سے ایک شخص کو حضرت شیخ کی خدمت میں بھیجا اور حکم دیا کہ شیخ رکن الدین ابوالفتح ملتانی ہمارے ملنے کو آ رہے ہیں اور وہ دہلی میں قیام کریں گے آپ دہلی میں رہتے ہیں مگر ہمیں ملنے کے لیے نہیں آتے اس سے ہماری بے  عزتی ہوتی ہے۔ حضرت شیخ  نے جواب دیا کہ ہمارے پیروں کی یہ عادت ہے کہ وہ بادشاہوں کے دربار میں نہیں جاتے اس لیے ہمیں معذور سمجھا جائے بادشاہ یہ بات سنتے ہی سانپ کی طرح پیچ کھانے لگا اور  کہا کہ شیخ کو میرے حکم کی تعمیل کرنا پڑے گی۔

حضرت شیخ نظام الدین نے شیخ حسن علی سنجری کو شیخ ضیاء الدین رومی کے پاس بھیجا، آپ سلطان قطب الدین کے مرشد تھے اور شیخ شہاب الدین عمر سہروردی کے خلیفہ تھے کہ آپ سلطان قطب الدین کو سمجھائیں کہ وہ فقیروں کو تنگ نہ کرے کیونکہ درویشوں کو ستانے کے نتائج اچھے نہیں ہوتے، شیخ حسن جب شیخ ضیاء الدین کے پاس گئے تو دیکھا کہ آپ سخت بیمار ہیں، بات کیے بغیر واپس آگئے خواجہ نظام الدین کو صورت حال سے آگاہ کیا تین دن کے بعد شیخ ضیاء الدین کا انتقال ہوگیا، آپ کی تقریب فاتح پر دہلی کے تمام مشائخ اور امراء جمع ہوئے سلطان قطب الدین بھی شیخ ضیاء الدین کی قبر پر حاضر ہوا، بادشاہ قبر پر قرآن پڑھ رہا تھا۔ حضرت خواجہ نظام الدین بھی وہاں موجود تھے آپ قبر کی طرف آگے بڑھے تو تمام مشائخ نے اُٹھ کر آپ کی تعظیم کی لیکن بادشاہ قطب الدین جو تلاوت قرآن کر رہا تھا بیٹھا رہا وہاں حضرت شیخ کے بعض احباب نے گزارش کی کہ اتفاق سے بادشاہ بھی اس مجلس میں موجود ہے اگر آپ اس سے ملاقات کرلیں تو ہم اسے آمادہ کریں، آپ نے فرمایا اس بات کی کوئی ضرورت نہیں، بادشاہ کو قرآن پڑھنے دو بادشاہ  گوشۂ چشم سے آپ کو دیکھتا جاتا اور ساری باتیں سنتا جاتااو ردل  ہی دل میں غصے سے پیچ و تاب کھاتا، آخر کار بادشاہ نے ایک اجلاس منعقد کیا، تمام مشائخ کو بلایا اور انہیں کہا کہ آپ سب لوگ  شیخ نظام الدین کو سمجھائیں کہ وہ ہر روز ہمیں ملنے کے لیے دربار میں آیا کریں، اگر روزانہ نہیں آسکتے تو ہفتہ میں ایک بار یا مہینہ کی پہلی تاریخ ضرور حاضری دیاکریں اگر آپ لوگوں کے سمجھانے پر بھی وہ نہ مانے تو میں اعلان کرتا ہوں کہ میں خود  سمجھا لوں گا۔

سیّد قطب الدین غزنوی شیخ عمادالدین طوسی، شیخ وجد الدین اور برہان الدین بادشاہ کے کہنے پر شیخ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مصلحت وقت کے مطابق تقاریر کیں، حضرت شیخ نے ان بزرگوں کی باتیں سن کر تھوڑا سا غور کیا اور فرمایا اچھا دیکھو اللہ کو کیا منظور ہے ان بزرگوں نے آپ کی اس بات کو رضا مندی سمجھتے ہوئے بادشاہ کو جاکر کہا کہ حضرت شیخ چاند کی پہلی تاریخ کو دربار میں آنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں، بادشاہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوا، یہ ماہ صفر کی ستائیسویں تاریخ تھی اسی رات خواجہ وحید قریشی امیر خسرو کے بھائی اعز الدین علی حضرت شیخ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ہم نے سنا ہے کہ آپ بادشاہ کے دربار میں جانے کو راضی ہوگئے ہیں آپ نے فرمایا میں اپنے پیروں کی عادت کے خلاف کوئی کام نہیں کروں گا وہ بڑے حیران ہوئے کہ ادھر بادشاہ انتظار کر رہا ہے کہ کب  پہلی تاریخ  ہو اور شیخ ہمیں ملنے کو آئیں، مگر یہاں شیخ ابھی تک راضی نہیں ہو رہے  اس صورتِ حال سے بڑی بدمزگی ہوگی، حضرت شیخ نے ان کی حیران دیکھی تو فرمایا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں سلطان قطب الدین میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، چنانچہ میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک چبوترے پر قبلہ رو ہوکر بیٹھا ہوں ایک بڑے سینگوں والا بیل میری طرف دوڑتا ہوا آیا وہ مجھے مارنا چاہتا تھا میں اٹھا اور اس کے دونوں سینگ پکڑ لیے اور اس کو زمین پر دے مارا اوہ وہیں ہلاک ہوگیا، میں یہ خواب دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قطب الدین بادشاہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔

چاند کی انتیس تاریخ ہوگئی، نماز ظہر کے بعد آپ کا غلام خواجہ اقبال آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، کہنے لگا آج مہینے کی آخری رات ہے صبح آپ نے بادشاہ کی ملاقات کو جانا ہے اگر حکم ہو تو سواری کا انتظام کروں، آپ نے فرمایا  ابھی چپ رہو، نماز عصر پڑھ  چکے تو خواجہ اقبال پھر حاضر ہوا یاد دلایا مگر آپ خاموش رہے وہ سمجھ گیا کہ آپ بادشاہ کو ملنے نہیں جائیں گے رات ہوئی تو واقعی حضرت شیخ بادشاہ کو ملنے نہ گئے آدھی رات سے کچھ آگے سلطنت کا ایک امیر خسرو خاں جسے بادشاہ نے پالا تھا اور مٹی سے اُٹھا کر بہت بڑا عہدہ دیا تھا ور پچاس ہزار سواروں پر افسر لگایا ہوا تھا اور اپنا مشیر خاص بنایا ہوا تھا، اٹھا اور سلطنت پر قبضہ کرنے کے لیے ہزار ستونوں والے محل میں پہنچااور قاضی محمد غزنوی کو ساتھ لے کر ایک ظاہر بیگ نامی قاتل کے ہاتھوں سلطان قطب الدین کو قتل کرادیا بلکہ بادشاہ کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی قتل کرادیے خود تختِ سلطنت پر بیٹھا چند ماہ حکمرانی کی اور سلطان غیاث الدین تغلق کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔

سلطاب قطب الدین کے والد علاء الدین خلجی نے بھی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا قدس سرہ کو بھی ایک بار دربار میں طلب  کیا تھا مگر اس نے یہ بہانہ بنایا کہ میں نے اپنے بھائی الف خان کی قیادت میں بڑا عظیم الشان لشکر روانہ کیا ہے مگر اب تک اس کی خبر نہیں آئی مجھے بڑا فکر ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ ایک اور لشکر روانہ کروں اگر آپ چند لمحوں کے لیے تشریف لے آئیں تو آپ سے مشورہ بھی کرلوں گا اور دعا بھی حاصل کروں گا آپ کی تشریف آوری میرے لیے باعث صد افتخار ہوگی یہ پیغام سن کر حضرت خواجہ نے چند لمحوں کے لیے مراقبہ فرمایا سر اٹھاکر فرمایا سلطان کو کہہ دیں میرے آنے کی ضرورت نہیں ان شاء اللہ کل چاشت کے  وقت آپ کو فتح کی خوشخبری مل جائے گی اور آپ کے بھائی کی خیریت کی خبر بھی مل جائے گی اور چند روز تک الف خان مال غنیمت لے کر آجائے گا، بادشاہ اس خبر سے بڑا خوش ہوا نذرانہ پیش کیا خبر پہنچنے پر پانچ سو دینار سرخ بھیجے کیوں کہ دوسرے  روز ہی فتح کی خبرین آگئیں جس دن الف خان دہلی پہنچا تو علاء الدین خلجی نے حضرت محبوب الٰہی کی خدمت میں مزید پانچ سو سرخ دینار زر بھیجے اس وقت آپ کی خدمت میں ایک قلندر اسقدیار موجود تھا۔ اس نے دینار دیکھے تو نصف اپنے لیے کھینچ لیے اور کہنے لگا ’’یا المدارۃ مشترک‘‘ نذرانہ مشترک ہوتا ہے، آپ نے فرمایا ’’تنہا خوشترک‘‘ تم اکیلے کو ہی اچھا لگتا ہے یہ کہہ  کر آپ نے سارا نذرانہ اس کے حوالے کردیا، شمس الدین نامی شہر میں بزازی کا کام کرتا  تھا۔ مگر اس کی عادت تھی  کہ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی کے متعلق بد گفتنی کرتا اور سست الفاظ کہتا دل میں بھی آپ سے کدورت اور نفرت رکھتا تھا۔ ایک دن موضع افغانان کے سبز باغ میں بیٹھا تھا دوستوں کی مجلس برپا تھی، شراب کا دور چل رہا تھا وہ شراب کا ایک پیالہ اٹھاکرپینے لگا تو اسے نظر آیا کہ شیخ نظام الدین سامنے کھڑے ہیں اور انگل کے اشارے سے فرما رہے ہیں  شراب نہ پیو، اس نے اسی وقت شراب کا پیالہ پھینکا۔ صراحی توڑ دی اور دوڑا دوڑا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے فرمایا شمس الدین اللہ تعالیٰ جسے اپنی نگاہِ کرم سے نوازے اسے شیطان نہیں ورغلاسکتا۔ چنانچہ اسے اپنا مرید بنایا اور سعادت ابدی تک پہنچا دیا، حضرت خواجہ محبوب الٰہی نظام الدین قدس سرہ کے ایک عقیدت مند نے آپ کی دعوت کا اہتمام کیا مجلس سماع بھی منعقد ہوئی، اس مجلس کے شرکاء کے لیے صاحب خانہ نے کھانے کا بھی انتظام کیا ہوا تھا مگر مجلس سماع کی وجہ سے کئی ہزار سامعین موقع پر پہنچ گئے مجلس ختم ہوئی تو کھانا صرف پچاس آدمیوں کے لیے پکایا گیا تھا۔ صاحب مجلس بڑا پریشان ہوا کہ اب اتنے آدمیوں کے کھانے کا کس طرح بندوبست کیا جائے۔ حضرت شیخ اُس کی پریشانی کو نورِ فراست سے پاگئے اور اپنے خادم خاص جس کا نام مبشر تھا کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ جاؤ لوگوں کے ہاتھ دھلاؤ اور دو دو آدمی اکٹھے بٹھاتے جاؤ پھر ہر روٹی کے چار چار حصے کرلو، اور ایک طباق میں رکھ کر اس کے اُوپر چادر ڈال دو اور بسم اللہ کہتے ہوئے تقسیم کرتے جاؤ، شیخ کے حکم کے مطابق کھانا تقسیم ہونے لگا، کئی ہزار شخص کھانا کھاچکے تو ابھی اتنا کھانا باقی تھا کہ جو صاحبِ مجلس نے پکایا تھا۔

ساماناں قصبے میں ایک عالم اور دانش ور شخص رہتا تھا۔ اتفاقاً اس کے گھر کو آگ لگ گئی اور اس میں بادشاہ کا فرمان اور قبالہ جس میں اُسے جاگیر ملی تھی جل گیا وہ دہلی آیا اور بڑی مشکل سے بادشاہی دیوان سے اُس فرمان کی نقل حاصل کی لیکن جب دربار سے باہر نکلا تو وہ فرمان بھی کہیں گر گیا رونا دھونا شروع کردیا، حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کے لیے التجاء کی، آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا اگر اب تمہیں شاہی فرمان مل جائے تو حضرت  فرید گنج شکر کے روح پاک کے لیے نذر دینا، اس دانشور نے یہ بات قبول کرلی۔ حضرت نے فرمایا مولانا کتنی اچھی بات ہو کہ آپ اس وقت بازار جاکر حلوہ خریدیں اور اُسے یہاں لے آئیں وہ اُسی وقت اٹھا  حلوائی کی دکان پر پہنچا، چند درہم دے کر حلوہ خریدا، حلوائی نے حلوہ تول کر ایک کاغذ میں رکھ کر اس دانشور  کے حوالے کیا اس دانشور نے خانقاہ کے دروازے پر پہنچ کر غور سے دکھا تو جس کاغذ پر حلوہ رکھا ہوا تھا وہ دراصل اس کی جاگیر کا شاہی فرمان تھا حضرت شیخ کی خدمت میں آیا اور مرید ہوگیا۔

ایک دن حضرت خواجہ فرید اپنے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے اللہ کی یاد میں  محو تھے اور نہایت شوق و ذوق  میں  یہ رباعی پڑھ رہے تھے

خواہم کہ ہمیشہ در ہوائے تو زیم!!

خاکے شوم و بزیر پائے تو زیم

مقصود من بندہ ز کونین توئی

از بہر تو میدم و برائے تو زیم

اس وقت مولانا بدرالدین اسحاق حجرے کے دروازے پر بیٹھے ہوئے اور انہیں حکم دے  رکھا کہ حجرے کے اندر کوئی بھی شخص آنے نہ پائے اسی اثناء میں حضرت بدرالدین اسحاق کو پیشاب کرنے کی حاجت ہوئی، آپ ایک طرف چلے گئے اتفاقاً دروازے پر سلطان المشائخ حضرت نظام الدین آ پہنچے دروازے کے سوراخ سے نظر کی، دیکھا کہ حضرت شراب  عشق خداوندی سے مشہوش ہوکر وجد فرما رہے ہیں اور مذکورہ رباعی پڑھ کر تڑپ رہے ہیں حضڑت خواجہ نظام الدین نے سوچا کہ یہ وقت ایسا ہے حضرت شیخ کی عطا سے محروم نہیں ہونا چاہیے بہرحال اندر گئے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے حجرے میں داخل ہوگئے، زمین کو چوما حضرت شیخ  نظام الدین  کو کہا فرمایا مانگو کیا چاہتے ہو، آپ نے فرمایا دین بھی اور عقبیٰ بھی پھر خواجہ نظام الدین نے عرض کی میں اللہ چاہتا ہوں فرمایا وہ بھی تمہیں چاہے گا چنانچہ حضرت پیر کی توجہ سے دونوں چیزیں حاصل ہوگئیں، حضرت خواجہ نظام الدین فرماتے ہیں کہ مجھے ساری عمر افسوس رہا کہ میں نے اس وقت کیوں نہ یہ بات کہی کہ مجھے حالتِ سماع میں موت آئے۔

ایک دن سلطان المشائخ  خواجہ نظام الدین حضرت خواجہ قطب الدین  بختیار کے مزار پر انوار کی زیارت کے لیے گئے، واپس آ رہے تھے  تو آپ کا گزر دریا کے کنارے سے ہوا دیکھا کہ میر حسن علائی سنجری جو اپنے وقت کے بہت بڑے شاعر تھے اپنےد وستوں کے ساتھ بیٹھے شراب پی رہے تھے اُن کی نظریں حضرت شیخ پر پڑیں تو سخت شرمندہ ہوئے اور یہ شعر پڑھا۔

سالہا باید کہ ماہم صحبتیم

گرز صحبت ہا اثر بودے کجاست

زہد توافق از دل ما گم نکرد!!

فسق مایاں بہتر از زہد شماست

یہ شعر سننے کے بعد حضرت  خواجہ نے فرمایا ہاں صحبت کا اثر ہوتا ہے اس بات نے اُس کے دل پر اتنا اثر کیا کہ ننگے سر دوڑ ا اور حضرت شیخ کے قدموں میں سر رکھ دیا تمام دوستوں کے ساتھ تائب ہوا اور حضرت کا ارادت  مرید بن گیا، دنیا اور آخرت کی دولتیں حاصل کیں، وہ اکثر یہ شعر پڑھا کرتا تھا

ای حسن توبہ آگہی کردی

چوں تر اطاقتِ گناہ آئد

کہتے ہیں کہ توبہ کے وقت آپ کی عمر تہتر سال تھی۔[۱] فوائدالفواد جو حضرت نظام الدین کے ملفوظات پر مشتمل  ہے آپ کی ہی تالیف ہے۔ یہ کتاب بڑی مقبول ہوئی، خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کاش! حسن فوائدالفواد جیسی مقبول کتاب مجھے مل جاتی تو میں اپنی ساری تصانیف تجھے دے دیتا۔

[۱۔ غالباً حضرت مؤلف مفتی غلام سرور لاہوری قدس سرہ سے فروگذاشت ہوئی ہے حسن علائی سنجری تہتر سال کی عمر میں نہیں نوجوانی میں ہی شراب سے تائب ہوکر حضرت خواجہ محبوب الٰہی کی مجالس میں آنے لگے تھے آپ نے حضرت کی پندراں سالہ زندگی کی مجالس کی باتیں (ملفوظات) جمع کر رکھے تھے۔ اور جب اس ذوق کی اطلاع حسن نے حضرت خواجہ کو سنائی  تو آپ بہت خوش ہوئے اور کئی مقامات سے اپنی مجالس کی وہ گفتگو کی جسے حسن علائی سنجری نے ترتیب دیا تھا۔ حسن کی زبانی سنی، اس کی مقبولیت کی سند اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ نے حسن کو اپنا جبہ مبارک پہنایا، غالباً فوائد الفواد کی تدوین ترتیب ۷۰۲ھ کو شروع ہوئی اور اسے ۷۱۷ھ میں مکمل کیا گیا۔ اس طرز نگارش نے مستقبل میں صوفیاء کی مجالس کی روحانی اور دینی باتوں کو محفوظ کرنے کا رواج دیا اور ہم دیکھتے ہیں برصغیر کے اکثر بزرگوں کے ملفوظات جمع ہوتے  گئے اور آج یہی ملفوظات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، بادشاہوں کے تاریخ  نگار، دربار کے تذکرہ نویس اور انعام و اکرام کی امید میں سوانح عمریاں لکھنے والے اہل قلم وہ بات نہیں لکھ سکتے جو ان کے ممدوح یا دور کے خلاف باقی ہو مگر ملفوظات  وہ بے لاگ اور غیر جانبدار تحریریں  ہیں، جن کی وساطت سے ہمیں اس وقت کے معاشرتی حالات بادشاہوں کی بدعنوانیاں، مظالم و تشدد کے واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں پھر ان تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ اہل دل کی اصلاح کے لیے جو عمدہ نصائح اور نکات سامنے آتے ہیں وہ اصلاح نفس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ تریاق ثابت ہوئے۔ حضرت خواجہ محبوب الٰہی کی مجالس کی باتیں جسے حسن علائی سنجری نے نہایت ذمہ داری اور عقیدت سے قلمبند کیا تھا۔ آج فوائدالفواد کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت پر خواجہ امیر خسرو نے ہدیۂ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا حسن اپنی کتاب میرے نام منسوب کردو اور میری زندگی کی ساری تحریریں لے لو (فاروقی)

طالبانِ حق کی ایک جماعت حضرت خواجہ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوئی یہ ایک شخص نے کسی نہ کسی صبر کا تحفہ کاغذ میں لپیٹ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ لیکن ان میں سے ایک ایسا شخص بھی تھا۔ جس نے حضرت کی کشف و کرامت  کا حساب لینے کے لیے راستے سے مٹی اٹھائی، کاغذ میں لپیٹی اور شیخ کی خدمت میں پیش کردی، حضرت شیخ نے اپنے ایک خادم کو فرمایا کہ یہ سارے تحفے اٹھاکر اندر لے جاؤ لیکن مٹی والے لفافے کو آپ نے خود اٹھایا اور خادم کو کہا ا س کو یہیں رہنے دو اس میں ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے۔ اس کرامت کو دیکھ کر تمام حاضرین قدم بوس ہوئے اور مرید ہوگئے۔

حضرت سلطان المشائخ حضرت کواجہ نظام الدین نے شادی نہیں کی اور ساری عمر مجرد رہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن آپ اپنے پیر کی خدمت میں حاضر تھے تو حضرت نے فرمایا کوئی چیز لاؤ کہ کھائیں، خواجہ نظام الدین کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا بازار گئے اپنی پگڑی گروی رکھی تھوڑا سا لوبیا خریدا، اُس میں نمک ڈالا اور اُبال کر حضرت شیخ کی خدمت میں لے آئے، حضرت شیخ نے اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر لوبیا کھایا اور فرمایا کیا نمکین پکا ہے، میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ ہر روز تیہتر من نمک تمہارے باورچی خانے میں پکنے والے کھانے میں استعمال ہو۔ یہ بات   سنتے ہی حضرت شیخ نظام الدین تعظیم کے لیے اٹھے حالت یہ تھی کہ آپ کا تہبند پھٹا ہوا تھا۔ حضرت خواجہ فرید کی نگاہ آپ کے پھٹے ہوئے تہبند پر پڑی  بڑے پیار اور محبت سے اپنا تہبند گھر سے منگوایا اور فرمایا شیخ نظام ا لدین اسے پہن لو، شیخ نظام الدین نے خوشی خوشی اُس تہبند کو اپنے تہبند کے اوپر ہی پہننا شروع کیا۔ جلدی میں آپ کے ہاتھ سے تہبند چھوٹ گیا اور آپ مجلس میں پریشان کھڑے رہے حضرت شیخ فرید نے فرمایااسے اٹھاؤ اور مضبوط کرکے باندھو، عرض کی کس طرح باندھو، فرمایا اب قیامت کے دن تک تمہارا تہبند نہیں کھلے گا۔ شیخ نے زمین پر سر رکھ دیا کہ حضور ایسا ہی ہوگا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ساری عمر شادی نہ کی اور عورتوں سے دور رہے۔

ایک دن حضرت خواجہ نظام الدین اپنی خانقاہ میں مجلس سماع میں بیٹھے ہوئے تھے وجد کی حالت تھی۔ ایک صوفی نے آہ بھری اس آہ کی آگ نے اس کو جلادیا اور وہ جل کر خاکستر ہوگیا۔ شیخ ہوش میں آئے پوچھا کہ یہ خاکستر کس کی ہے لوگوں نے واقعہ سنایا تو آپ نے پانی طلب کیا اور اپنے دست مبارک سے اس خاکستر پر پھینکا، صوفی اُسی وقت زندہ ہوگیا۔ آپ نے اُسے فرمایا جب تک تم پختہ نہ ہوجاؤ ہماری مجلس میں نہ آنا ابھی تم کچے ہو۔

سلطان غیاث الدین تغلق خسر و خاں کے قتل کے بعد دہلی کے تخت  پر بیٹھا ایک دفعہ بنگال کی مہم سے واپس آ رہا تھا راستے میں ہی حضرت شیخ کو لکھا کہ ہم جس وقت دہلی پہنچے تو آپ غیاث پور سے کہیں باہر چلے جائیں،  کیونکہ آپ کے ہونے سے لوگ بہت ہوتے ہیں اور شہر میں بہت بھیڑ ہوجاتی ہے سرکاری افسر  اور امراء کے لیے کبھی جگہ نہیں رہتی۔ حضرت شیخ اُس وقت بادشاہ سے ناراض  تھے۔ آپ نے خط پڑھا اور فرمایا ہنوز دہلی دور است (ابھی دہلی دور ہے) چنانچہ ایسا ہی ہوا بادشاہ کو دہلی آنا نصیب نہ ہوا تغلق آباد میں اپنے محل  کے نیچے بیٹھا تھا محل گر پڑا اور مرگیا، یہ مثال آج تک ہماری زبان میں مشہور ہے کہ ’’ہنوز دہلی دور است‘‘۔

حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی کی عمر اکانوے سال ہوئی آٹھ دن تک آپ کا پیشاب بند رہا۔ اس بیماری کے آٹھویں روز اپنے خادم خاص اقبال خواجہ کو اپنے  پاس بلایا اور فرمایا کہ تمہارے پاس جتنا مال و اسباب ہے یا جس قدر نقدی ہے وہ میرے پاس لے آؤ تاکہ میں غریبوں کو تقسیم کردوں خواجہ اقبال نے کہا ہر روز جتنے نذرانے اور تحفے آتے ہیں اُسی دن تقسیم کردیے جاتے ہیں دوسرے دن کے لیے کچھ نہیں بچتا ہاں اتنے ہزار من غلہ جو گودام میں اس لیے رکھا ہوا ہے کہ لنگر میں خرچ کیا وہ محفوظ رہے آپ نے فرمایا تمام لے آؤ اور غریبوں میں تقسیم کردو، سارا غلہ تقسیم کردیا۔ اب آپ نے فرمایا کہ میرا اپنا تھیلا لے آؤ  لایا گیا تو اس میں سے ایک خاص پگری، کرتہ، مصلی اور خلافت کا  خرقہ نکال کر مولانا برہان الدین فقیر کو عطا فرمایا، اور حکم دیا کہ اسی و قت دکن کی طرف چلے  جاؤ پھر ایک پگڑی اور ایک کرتہ مولانا شمس الدین یحییٰ کو عطا فرمایا، اس طرح اس تھیلے میں جتنے کپڑے تھے اپنے خلفاء میں تقسیم کردیے، حتی کہ اُس میں کوئی چیز نہ رہی اس وقت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی مجلس میں موجود تھے انہیں کچھ نہ دیا گیا تمام حاضرین مجلس حیران رہ گئے کہ شیخ نصیرالدین کو کیوں محروم رکھا گیا ہے کچھ وقت گزرا تو حضرت نے شیخ نصیرالدین کو اپنے پاس بلایا اور آپ کو ایک خرقہ ایک مصلی ایک تسبیح اور لکڑی کا  ایک پیالہ عطا فرمایا، یہ وہ چیزیں تھیں جو آپ کو  حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر نے عطا فرمائی تھیں، یہ چیزیں شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کو دے کر فرمایا آپ دہلی میں رہیں اور لوگوں کے ظلم و ستم برداشت کریں، اس کے بعد آپ نے نماز عصر ادا کی ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا کہ آفتاب ولایت کل نفس ذائقۃ الموت (ہر ایک جاندار نے موت کا مزہ چکھنا ہے) کے پردے میں چھپ گیا، آپ کی رحلت بہت بڑا حادثہ تھا آپ بروز جمعرات اٹھارہ ربیع الاول سات ۷۲۵ھ پچیس ہجری کو وصل بحق ہوئے، اسی تاریخ وفات پر تمام اہل تواریخ کا اتفاق ہے لیکن آپ کی عمر کے متعلق مختلف حضرات نے اختلاف کیا ہے مخبرالواصلین اور شجرۂ چشتیہ کے مصنف نے آپ کی عمر چورانوے سال لکھی ہے تذکرۃ العاشقین اور سیرالاصفیاء نے اکانوے سال بیان کی ہے سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی اور سلطان غیاث الدین تغلق کی وفات میں صرف  ایک ماہ اور اٹھارہ دن کا فاصلہ ہے۔ غیاث الدین تغلق حضرت سلطان نظام الدین سے ایک مہینہ اور اٹھارہ دن پہلے فوت ہوا تھا۔

اگرچہ حضرت سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ کے خلفاء کی تعداد حد ود شمار سے باہر ہے لیکن ہم یہاں تبرکا چند حضرات کے اسمائے گرامی لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں ان تمام خلفائے کرام کے سردار حضرت نصیرالدین چراغ دہلی قدس سرہ ہیں،  ان کے علاوہ حضرت سراج الدین عثمان، شیخ قطب الدین  منور (پسر شیخ برہان الدین) شیخ حسام الدین ملتانی، مولاناج مال الدین نصرت خانی مولانا فخرالدین مولانا ابوبکر مندوی، مولانا فخرالدین مروزی، مولانا علم الدین نیلی، شیخ برہان الدین، مولانا وجیہہ الدین پائلی، مولانا فصیح الدین، مولانا شمس الدین یحییٰ، مولانا شہاب الدین، مولانا شیخ محمد قاضی ، محی الدین کاشانی، خواجہ کریم الدین سمرقندی، شیخ جلال الدین اودہی، مولانا جمال الدین، قاضی شرف الدین، مولانا کمال الدین یعقوب، مولانا بہاء الدین، شیخ مبارک، خواجہ معزالدین، خواجہ ضیاء الدین برنی، شیخ تاج دین دادری، مولانا موید الدین انصاری، خواجہ شمس الدین خواہرزادہ، امیر خسرو، نظام الدین شیرازی، خواجہ سالار، شیخ فخرالدین میرٹھی، شیخ علاء الدین اندیھتی، شیخ شہاب الدین کننوری، مولانا حجۃ الدین ملتانی، شیخ بدرالدین تولہ شیخ رکن الدین چہری، شیخ عبدالرحمٰن سارنگپوری، حاجی احمد بدایونی، شیخ لطیف الدین، شیخ نجم الدین محبوب، شیخ شمس الدین دہاری، خواجہ یوسف بدایونی، شیخ سراج الدین حافظ، قاضی شاد علی، مولانا قوام الدین بکدانہ، مولانا برہان الدین ساوری، مولانا جمال الدین اودہی، شیخ نظام الدین مولیٰ، قاضی عبدالکریم قدوائی، قاضی قوام الدین قدوری، مولانا علی شاہ جاندار، خواجہ نقی الدین (خواہر زادہ سلطان المشائخ) سیّد کرمانی سید یوسف حسنی، حمید شاعر قلندر، امیر خسرو دہلوی امیر حسن علائی سنجری،قاضی فخرالدین الجبوری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔

نظام الدین نظام الدین احمد

ولی محبوب حق گو حق بیں

عجب تاریخ تو لیدش عیانست

ز محبوب الٰہی سرور دین

۶۳۴ھ

تاریخ وفات:

خربد ملک سلطان السلاطین (۷۲۵ھ) عدیم المثل (۷۲۵ھ) حسن فقر سلطان الولی (۷۲۵ھ) شمع دین سلطان الکریم (۷۲۵ھ) پیراہل دین سلطان الکبیر (۷۲۵ھ) شہنشاہِ حلال (۷۲۵ھ) حبیب چشت (۷۲۵ھ) سردارِ حق قطب الہدیٰ (۷۲۵ھ) مقتدا مسعود (۷۲۵ھ) مسکین مقتدا (۷۲۵ھ) شاہ سلطان کریم (۷۲۵ھ) زندہ دل سرِ الٰہی پیشوا (۷۲۵ھ) محبوب الٰہی بحر عرفانی (۷۲۵ھ)

تجویزوآراء