حضرت مولانا کفایت علی کافی شہید

حضرت مولانا کفایت علی کافی شہیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

نگینہ ضلع بجنور کے خانوادۂ سادات کے رُکن، علمائے بد ایوں وبریلی سے اکتساب علم کیا، حدیث حضرت شاہ ابوحید مجددی رام پوری قدس سرہٗ سےپڑھی، اور طب مؤلف تزکرہ علمائے ہند کے والد مولانا حکیم شیر علی قادری سے حاصل کی، ۱۸۵۷؁ء سے قبل آگرہ اکبر آباد میں قیام تھا، انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا ، بریلی کے اطراف میں جہاد کے لیے تبلیغی دورے کیے، مراد آباد پر قبضہ کے بعد امیر شریعت بنائے گئے، ۲۵؍اپریل ۱۸۵۸؁ء میں مجاہدوں کو شکست ہوئی، گرفتار یاں ہوئیں، خانہ تلاشی ہوئی، حضرت کافی بھی فخر الدین کلاں کی مخبری پرگرفتارہوئے، مقدمہ قائم ہوا، پھانسی کی سزا تجویز ہوئی، حضرت پھانسی کےحکم کی خبر سےبہت مسرور ہوئے، جب پھانسی کےلیےلیجایا جارہا تھا، حضرت بآواز بلند اپنی تازہ لغت جس کا مطلع کوئی گل باقی رہے گانےچمن رہ جائیگا پر رسول اللہ کادین حسن رہ جائیگا پڑھتےجارہےتھے،یہ واقعہ رمضان المبارک ۱۲۷۴؁ھ مطابق ۱۸۵۸؁ء کا ہے، آپ شیخ مہدی علی ذکی مراد آبادی کےشاعری میں شاگرد تھے، لغت گوئی میں کمال کی فاضلِ بریلوی نے داد دی ہے؏ کافی سلطان لغت، رضا وزیر اعظم۔

( سہ ماہی ام لعم جنگ آزادی نمبر کراچی، باغی شعراء)

تجویزوآراء