حضرت مخدوم قاضی محمد عاقل فاروقی چشتی
حضرت مخدوم قاضی محمد عاقل فاروقی چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کے آباوٗ اجداد مغل دور حکومت میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ اسی خاندان کے ایک بزرگ حضرت محبوب اللہ الصمد مخدوم نور محمد تھے۔ شاہجہان کے وزیر ارادت خان آ پ کے نہایت عقیدت کیش تھے۔ شاہجہاں کی طرف سے لنگر خانہ کیلئے پانچ ہزار ایکڑ زمین بطور جاگیر دی گئی تھی ۔ آپ کا حسب نسب یوں ہے:’’شیخ عالم ، صالح محمد عاقل بن محمد شریف بن محمد یعقوب بن نور محمد بن محمد زکریا یا عمر ی ‘‘۔
آپ کوٹ مٹھن میں تولد ہوئے جو کہ سندھ و بہاولپور کی سرحد پر واقع ہے اسی لئے آپ کو سندھی کہا گیا اور سندھ کی کوریجہ قوم سے رشتہ داری تھی ۔
تعلیم و تربیت:
سب سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد قراٗ ت دلچپسی لی اس کے حصول کے بعد اپنے والد ماجد مخدوم محمد شریف کے پاس درسی نصاب سے فراغت پائی ۔ حضرت خواجہ فخر الدین دہلوی سے بعض صوفیانہ کتب کا درس لیا اور خواجہ نور محمد مہاروی سے سند حدیث حاصل کی۔
درسگاہ :
بعد فراغت مٹھن کوٹ میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس میں زندگی بھر درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ چولستان ریگستان میں جہالت کے خلاف سینہ سپر ہو کر علم کے چراغ اپنے خون پسینہ سے چلاتے رہے۔ ( الرحیم مشاھیر نمبر ۱۹۶۷ ء )
بیعت و خلافت :
آپ سلسلہ عالیہ چشتہ میں شیخ المشائخ خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہ (مہار شریف ضلع بہاولنگر ) سے دست بیعت ہوئے اور بعد میں خلافت سے نوازے گئے۔
عادات و خصائل :
مخدوم صاحب عالم باعمل اور صاحب برکت تھے۔ ( مناقب المحبوبین صفحہ ۱۱۹)
خواجہ گل محمد احمد پوری فرماتے ہیں : مخدوم صاحب زہد و ورع میں لاثانی تھے ۔
( تکملہ سیر الاولیاء صفحہ ۱۳۸)
آپ انتہائی سخی تھے شب و روز لنگر جاری تھا۔ مدرسہ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے تھے۔ حافظ جمال لکھتے ہیں :’’مخدوم صاحب جیسے مجاہدات شاید کوئی بزرگ کر سکے ‘‘۔
نواب غازی الدین خان ’’اسماء الابرار‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’قاضی صاحب کے ذکر شریف کی آواز مہار شریف سے باہر فرید گوٹھ تک پہنچتی تھی جو کہ تین میل کی مسافت تھا۔ ( مناقب المحبوبین )
انتقال سے قبل آپ نہر رحمت مقصود کائنات ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آقاعلیہ السلام نے فرمایا: تو مارا بسیار خوش کر دی کہ ھمگین سنتہائے مارا زندہ کردے ۔ (مناقب المحبوبین )
حضرت خواجہ جلال پوری فرماتے ہیں : خواجہ محمد عاقل فنافی الرسول کے مقام پر فائز تھے۔ (ذکر حبیب صفحہ ۸۰)
آپ نماز باجماعت ادا فرماتے بعد نماز مغرب ذکر شریف میں مشغول ہوتے ۔ بعد فراغت کھانا تناول فرماتے اس کے بعد عشاء ادا فرماتے ۔ اس کے بعد فقراء طالبان حق کے حلقہ قائم ہوتے جس میں باطنی تربیت کا سامان ہوتا۔ آدھی رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرماتے ۔ اس کے بعد تلاوت قرآن مجید میں مشغول ہو جاتے ۔ نماز فجر تا عصر مدرسہ کے طلباء کو درس دیتے تھے۔ اس طرح شب و روز عبادت الہی میں مصروف رہتے تھے۔
مغل بادشاہ شہزادے آپ کے نہایت عقیدت مند تھے۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی آپ سے انتہائی عقیدت تھی وہ اس عقیدت کا ایک شعر میں اظہار کرتے ہیں :
دل فدا کرتے ہیں نام فخر دیں پر اے ظفر
ہم ہیں عاقل ربط ’’عاقل‘‘ سے دل رکھتے ہیں
(مناقب فریدی )
تلامذہ :
آپ کی عظیم و مشہور درسگاہ کے سینکڑوں فارغ التحصیل ہوں گے ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
٭ خواجہ محمد سلیمان پٹھان چشتی ؒ بانی خانقاہ تونسہ شریف ۔ ( شمیم ولایت صفحہ ۳۵۸)
خلفاء :
آپ کے خلفاء کرام میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں :
٭ خلیفہ اکبر:خواجہ محمد عاقل کے پہلے خلیفہ ’’اکبر‘‘ تھے۔
٭ مولانا عبداللہ احمد پوری
٭ مولانا محمد اعظم
٭ میاں محمد شریف الدین
٭ مولانا گل حسن ، شاعر خوش گو تھے۔ قاضی عاقل کو ان کا کلام پسند تھا۔ وحدت الوجودان کا خاص موضوع تھا۔
٭ خواجہ گل محمد احمد پوری ( ضلع رحیم یار خان ) ، بڑے عالم و عارف تھے۔ ’’تکملہ سیرالاولیائ‘‘ آپ کی یاد گار تصنیف ہے۔
٭ میاں تاج محمود
اولاد:
مخدوم عاقل کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے خواجہ احمد علی ؒ سجادہ نشین ہوئے۔ خواجہ احمد علی کودوفرزند ہوئے۔
۱۔ میاں خواجہ خدا بخش
۲۔ خواجہ تاج محمود
میاں خدا بخش کے بعد ان کے بڑے فرزند میاں غلام فخر الدین سجادہ نشین ہوئے۔ میاں غلام فخر الدین کے بعد ان کے چھوٹے بھائی بحر عشق سراپا دردو سوز خواجہ غلام فرید قدس سرہ العزیز چاچڑاں شریف۔ ( شمیم ولایت صفحہ ۲۸۰)
وصال :
مخدوم محمد عاقل ۸ رجب المرجب ۱۲۲۰ھ؍ جون ۱۸۱۴ء کو انتقال کیا اور دربار مٹھن کوٹ میں تدفین ہوئی ۔ خواجہ گل محمد احمد پوری ؒ نے قطعہ تاریخ وصال کہا:
دل ز داغ درد پرسوز و لھب
جان بلب شد چوں سخن گوید بلب
رفت از دار فنا سوئے بقا
رھبر دین ھدیٰ، عالی نسب
مظہر نور محمد، فخر دین
شیر محمد عاقل محبوب رب
ھادی خلق خدا رفت از جہاں
حسرتا درد دریغا صد عجب
آہ داویلا و صد افسوس و درد
کز جہاں نور جہاں شد محتجب
خم تہی گشت و نماندہ صاف درد
درد باقی بھر انسان مضطرب
چونکہ تاریخ و مہ سال وصال
از دل پردرد خود کردم طلب
سرز حبیب بیخودی بر کرد و گفت
روز ھشتم بود از ماہ رجب
(تکملہ سیرالاولیاء صفحہ ۱۵۵)
[اس مضمون کے سلسلہ میں ڈاکٹر قریشی حامد علی خانائی کے مضمون بشمولہ سہ ماہی مہران جام شورو مارچ ۱۹۷۵ء سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)