حضرت میاں علی محمد چشتی
مجمع علم و عرفان حضرت الحاج میاں علی محمد خان ابن حضر محمد عمر خاں قد س سرہما ۱۲۹۹ھ؍۱۸۸۱ء میں بلسی عمر خاں ، متصل ہر یانہ ضلع ہوشیار پور(بھارت) میں پیدا ہوئے ، مشہور تاریخ گو بزرگ پیر غلام دستگیر نامی نے غالباً ۱۳۷۶ھ میں آپ کی ولادت مبارکہ کا قطعۂ تاریخ لکھا تھا جس کا تاریخی شعر یہ ہے ؎
رقم کن ’’ظہور علی زیب ہند‘‘
پئے سال تو لید آں خوش سپر
آپ کے والد ماجد حضرت محمد عمر خان رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب علم و فضل ، فقیر منش زیندارت تھے،یا د پیر ‘‘ اور’’تہذیب دھرم‘‘ (رد ہنود ) وغیرہ تصانیف یادگار ہیں۔ آپ کے ناناحضرت خواجہ میاں محمد خاں المعروف میاں محمد شاہ چشتی نظامی فخر ی قدس سرہ اپنے دور کے ولی کامل تھے،ان کا مزار لبسی نو ، متصل ہوشیار پور میں مرجع خلائق ہے ۔
حضرت میاں علی محمد خاں نے اپنے نانا کی نگرانی میں افاضل اساتذہ سے درس نظامی کی تعلیم حاصل کی ، علم طب اور فنون سپر گری پر بھی خصوصی توجہ فرمائی ۔ ااپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا دین محمد (مدفون لبسی نو)، مولانا حکیم محمد عبد اللہ جگراونی اور مولانا مرید احمد خاں انے دور میں علم و فضل کے آفتاب دماہتاب ہوئے ہیں ، مروجہ علمو سے فارغ ہو کر ا پنے نانا اور مرشد گارمی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلوک و معرفت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے نانا اور مرشد گارمی کی خدمت میں حاضر ہوکر اکتساب کرتے رہے ۔
۱۳۳۲ھ؍ ۱۹۱۴ء میں حضرت خواجہ محمد خاں رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال پر حضرت خواجہ میاں علی محمد خاں قدس سرہ مسند شیخ پر فائز ہوء اور سجاد گی کا حق ادا کردیا ، حضرت ملک الشعراء گرامی مرحوم نے ایک قطعہ لکھا ؎
محرم نکتہ خفی و جلی جانشین محمد است
آفتاب ، آفتاب راست ولیل درخور مسند ولی است ولی
حضرت گرامی ، میاں صاحب کے عقیدت مندوں میں سے تھے،انہوں نے کئی رباعیوں میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔حضرت میاں صاحب موجودہ دور میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے سب سے معمر بزرگ تھے۔علم و فضل ،جود سخا،زہد و تقویٰ، اتباع شریعت اور اسقامت میں نادر روزگات تھے ، خاموشی سے گرانقد دینی خدمات انجام دیتے اور کسی کو خبر تک نہ ہونے دیتے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں بے پناہ حسن ظاہری عطا فرمایا تھا جو ان کے بابنی حسن و جمال کا آئینہ دار تھا ، مجیب الرحمن شامی لکھے ہیں :۔
’’چاند سی صورت کا محاروہ پڑھا بھی تھا او دیکھا بھی ۔۔۔لیکن سچ پوچھئے تو جس طرح میاں صاحب ) اس پر پور ے اترت تھے ، بہت کم لوگ اتر تے ہوں گے ، صورت اور لباس ،صفائی اور پاکیز میں ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔۔۔ ایک بار ان کی طرف دیکھٰن تو دوسری بار دیکھنے کے لئے دل مچل مچل جائے۔اگر یہ درست ہے کہ چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے تو پھر میاں صاحب ایسے صاحب دل تھے کہ جو اس دور میں انگلیوں پر بنے جا سکیں[1] ‘‘
حضرت میاں صاحب قدس سرہ بزم رشد و ہدایت کی شمع نورانی تھے ، ملکی سیاست کبھی تعلق نہ رکھا البتہ تحریک پاکستان کے ایام میں مکمل طور پر تحریک کے حامی اور معاون رہے ۔۱۹۴۵ء میں پیر صاحب مانکی شریف ، پاکپتن شریف عرس کے موقع پر مشائخ کرام سے ملے اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں مشورے کرتے رہے ۔ حضرت میاں صاحب سے بھی ملے اور ایک گنٹہ سے زیادہ وقت تک گفتگو ہوتی رہی، بعد ازاں ان کا ایک نمائندہ بسی نو پہنچا اور علیٰحدگی میں کچھ گفتگو ہوتی رہی،بعد ازاں کا ایک نمائندہ بسی نو پہنچا اور علیٰحدہ گی میں کچھ گفتگو کر کے فوراً واپس چلا گیا ، انتخاب بالکل قریب آگئے تو عقید تمندوں اور تحریک کے قائیدین نے اصرار کیا کہ آپ ایک بیان کے ذریعے اپنے نیاز مندوں کو حکم دیں کہ ووٹ مسلم لیگ کو دیں ، چنانچہ آپ کا بیان نوائیوقت میں شائع ہوا تحصیل امر تسر سے چوہدری نصر اللہ اور ہوشیار پور سے رانا نصر اللہ خاں محض آپ کی حمایت کی بنا پر منتخب ہوئے تھے ۔لدھیانہ میں یونینسٹ پارٹی کی نمائندہ آپ سے تعلق رکھتا تھا ،اس نے ہزار کوشش کی کہ حضرت میاں صاحب اس کی حمایت فرمائیںلیکن آپ کسی طور پر رضا مند نہ ہوئے اور مسلم لیگ کا نمائندہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گیا۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت میاں صاحب لاہور تشریف لے آئے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری قدس سرہ کے ایر سایہ اپنی قیام گاہ میں دیڑھ دو ماہ قیام کیا ۔ ایک موقع پر فرمایا ہمیں حضرت داتا گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہی اپنے پاس ٹھہر ائیں گے ۔‘‘پھر حضرت فرید گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایسے حاضر ہوئے کہ آپ کا مزار بھی انہی کے مبارک قدموں میں بنا۔
حضرت میاں صاحب اور ادو وثائف کی بے مثال پابندی کے ساتھ ساتھ کتب تصوف کے پڑھنے میں بڑی دلچسبی رکھتے تھے۔ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی قدس سہر کی تصنیف لطیف فصوص الحکم سے تو آپ کو عشق تھا ۔ مولانا فیض احمد (قبولہ شریف) نے فصوص الحکم آپ سے سبقاً پڑھی تھی۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے حضرت میاں صاحب کے چہلم مختصر مگر جامع تاثر لکھا تھا ‘‘ذیل میں اس کا کچھ حصہ پیش کیا جاتا ہے :
’’ میاں صاحب کی زندگی تو بندگی سے عبارت تھی ، ان کے ہاں عجز ہی عجز تھا ، غرور اور گھمنڈ کو ان کے دربار میں حاضری کی اجازت ہی نہ ملی تھی ۔
کوئی ایک مہینہ پہلے میاں صاحب ۹۴ سال ایک ماہ کی عمر میں وصیت کے مطابق دفن ہوئے دل کا عارضہ تھا اور مرگ کا بستر ، ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دے رکھا تھا ، بستر سے اٹھنا اور چلنا پھر نا تو زہر قاتل ٹھہر ا تھا لیکن نماز کا وقت آیا تو اٹھنے لھے تاکہ وضو کر کے نماز پرھ سکیں ، ڈٖاکٹرنے منع کیا تو بولے‘‘ ڈاکٹر صاحب یہ زندگی اسی لئے تو درکار ہے کہ فرائض ادا کر سکیں ، اگر فرائض ادا نہ ہوں تو ایس زندگی کس کام کی ؟‘‘ اس پر ڈاکٹر صاحب پیچھے ہٹ گئے اور میاں صاحب نے اٹھ کر نماز ادا کی تکلیف بڑھی تو رات دو بجے پیتھیڈین کے ۲ انجکشن لگائے گئے ، جو نہی چار بجے ، اٹھ بیٹھے تاکہ تہجد ادا کر سکیں ، اٹھتے ہوئے مسکرائے اور فرمایا:
’’یہ دو سوئیاں میری ۷۲ سال کی عادت نہیں بدل سکتیں۔‘‘
اپنے رب سے اس اہتمام سے ملاقا ت کی کہ دھڑکن بند اور نبض بھی ،بند ڈاکٹر طبعی طور پر موت کا اعلان کر چکے ہیں لیکن میاں صاحب اس دنیا میں م وجود ہیں ، دل کے دھڑکنے کی آواز نہیں آرہی ،نبض کی ٹک ٹک نہیں چل رہی لیکن وہ ہیں کہ زندہ ہیں کہ سلامت ہیں ، دو گھنٹے تک اسی کیفیت میں لیٹنے کے بعد وہ عالم مکمل طور پر طاری ہوا جسے عالم مرگ کہتے ہیں ۔
عملی طور پر سیاست سے ہمیشہ دور رہے ، نہ کسی گروہی مناقشے میں حصہ لیا ، نہ سرکار دربار میں جانا مناسب سمجھا ،جس کو آنا ہوتا ان کے پاس چل کر آتا جنہیں دنیا برا مانتی ہے میاں صاحب کے پاس چھوٹے بن کر ، سر جھکا کر آتے ، کمونسٹ سر گرم ہوئے، امن چین درہم برہم ہوا اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کو خطرہ لاحق ہو گیا تو میاں صاحب نے کمونسٹوں کے خلاف جد و جہد پر زور دیتے ہوئے با قاعدہ ایک اعلان پر دستخط کئے ، عقید تمندوں اور مریدوں کو کمونزم کے خلاف جہاد کی ہدایت جاری ہوئی اور یہی ہدایت ان کا پیغان مسلسل ہے :۔
’’جہاں بھی ہو ، جس جگہ پر بھی ہو ،وطن عزیز کے نظریاتی کردار کی حفاظت کرو، اس کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادو[2]۔‘‘
تمام معاصر علماء و مشائخ آپ کو محبت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ امام المحدثین مولانا سید دیدار علی شاہ قدس سرہ سے ملاقات کرنے کے لئے حزب الاحناف لاہور تشریف لائے ، اس وقت امام المحدثین یہ حدیث بیان کر رہے تھے:
’’ النظر الیٰ علی عبادۃ ‘‘( الصواعق المحرقہ ، ص ۱۲۳)
اور اس کا ترجمہ یہ فرمارہے تھے:
حضرت میں صاحب نے بے ساختہ فرمایا ، حضرت یوں کیوں نہیں کہتے:
’’دیدار علی عبادت ہے[3] ۔‘‘
’’حضرت علامہ مولانا احمد رضا خاں قادری بریلوی قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات محتاج بیان نہیں
آفتاب آمد دلیل آفتاب
الداعی
علی محمد بلقم خود[4]
حضرت میاں صاحب قدس سرہ ذکر و فکر اور رشدو ہدایت کی بے انداز مصرفیات کے باوجود تین رسالے یادگار ہیں :۔
۱۔ راہ فردا
۲۔ تفسیر سورئہ نون المعروف بہ میلاد نامہ
۳۔ مکتوب در مسئلۂ وحدۃ الوجود
۱۵ محرم الحرام ، ۲۸ جنوری (۱۳۹۵ھ؍۱۹۷۵ئ) بروز منگل آفتاب شریعت و طریقت وحید العصر ، فرید الدہر حضرت میاں علی محمد خاں چشتی نظامی فخری قدس سرہ کا لاہور میں وسال ہوا ، دوسرے دن تین بجے بعد نماز ظہر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر قد س سرہ العزیز کی خانقاہ شریف میں نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں علماء مشائخ کی کثیر تعداد کے علاوہ ہزاروں تمندوں نے شرکت کی ، ان کی آخری آرام گاہ حضرت خواجہ گنج شکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درگاہ شریف میں بنائی گئی۔
استاذ العلماء مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البرکات دام ظلہ العالی نے تعزیب نامہ میں فرمایا:۔
’’ حضرت میاں علی محمد خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ چشتیہ کے بزرگ ، سلف صالحین کی یاد گار ، تقویٰ ، پرہیش گاری کی جیتی جاگتی قصوری تھے ، حضرت میاں صاحب علیہ الرحمہ جید عالم دین ،واقف رموز معرفت و اسرار تصوف اور عالم با عمل تھے۔آہ ! اب وہ پیکر حسن سیرت و صورت ، ظاہری آنکھوں سے اورجھل گئے[5]۔‘‘
نوٹ : پیغامات یوم رضا اور ادا کار کے حوالوں کے علاوہ تمام حالات مکرمی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ العالی کے مضمون سے ماخوذہیں ( ہفت روز ہ الہام، بہاولپور ، مشائخ نمبر،۲۱فروری ۱۹۷۵ء
آپ کے وصال پر اہل سنت کے معروف و مشہور دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع ساہیوال میں فقیہ اعظم مولانا الحاج ابو الخیر محمد نور اللہ نعیمی مدظلہم العالی نے متواتر چالیس دن تک بییسوں علماء حفاظ سے آپ کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کرائی۔
مخدومی حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ العالی نے مادہ ہائے تاریخ استخراج کئے :
فخر ملک ، فرد عالم سلطان کشور طریقت
[1] مجیب الرحمن شامی : ہفت روزہ ادا کار ، لاہور،۲تا۸؍مارچ ۱۹۷۵ء،ص۴
[2] مجیب الرحمن شامی : ہفت روزہ ادا کار ، لاہور،۲تا۸؍مارچ ۱۹۷۵ئ،ص۴
[3] منظور احمد شاہ ، مولانا ابو النصر : اسلامی جمہوریہ ، ساہیوال ، اشاعت خاص بیا دی میاں علی محمد قدس سرہ ، ص۴
[4] محمد مقبول احمد قادری: پیغامات یوم رضا ، مطبوعہ مرکزی مجلس رضا ، لاہور ، ۱۹۷۲ء ص۱۴
[5] منظور احمد شاہ ، مولانا ابو النصر : اسلامی جمہوریہ ، ساہیوال ، اشاعت خاص ص۴
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)