حضرت شیخ محی الدین محمد بن علی بن العربی

حضرت شیخ محی الدین محمد بن علی بن العربی علیہ الرحمۃ

        آپ وحدہ الوجود کے قائلین کے پیشوا ہیں۔بہت سے ظاہری فقہاء اور علماء نے ان پر طعنہ کیا۔تھوڑے فقہاء اور صوفیوں کی ایک جماعت نے ان کو بزرگ مانا ہے۔فخموہ تفخیما عظیما ومد حوا کلامہ مدحا کریما ووصفوہ بعلو المقامات واخبر واعنہ بما بطول عنہ ذکرہ من الکرامات ھکذاذکرہ  الامام الیافعی رحمہ اللہ فی تاریخہ۔یعنی ان کی بڑی تعظیم کی ہےاور اس کے کلام کی اچھی تعریف کی ہے۔ان کی علو مقامات کی تعریف کی ہے۔ان کی نسبت بہت سی کرامات کا ذکر کیا ہے۔جن کی شرح طویل ہے۔ایسا ہی امام یافعی نے اپنی تاریخ  میں بیان کیا ہے۔ان کے لطیف غریب اشعار ہیں۔ا کی بہت سی تصانیف ہیں۔بغداد کے ایک بڑے شیخ نے ان کی تعریف مین ایک کتاب لکھی ہےاور وہاں لکھا ہے کہ حضرت شیخ کی تصنیفات پانچ سو سے زیادہ ہیں۔حضرت شیخ نے بعض دوستوں کی التماس سے ایک رسالہ کی فہرست میں اپنی تصانیف کا ذکر کیاہے۔وہاں پر دوسوپچاس سے کتاب سے زیادہ کا نام لیا ہے۔وہ اکثر تصوف ہی میں ہیں اور بعض دوسرے علم میں بھی ہیں۔اس رسالہ کے خطبہ میں لکھا ہےکہ میرا ارادہ ان کتب کی تصنیف میں اور مصنفوں کی طرح نہیں تھا۔بلکہ بعض تصنیفات اس لیے ہوئیں کہ مجھ کو حق سبحانہ کی طرف سے ایسا امر وارد ہوتا تھا کہ قریب تھا مجھے جلا دیے اس لیے اپنے آپ کو اس کے بیان میں مشغول رکھتا تھااور بعض دیگر تصانیف کایہ سبب تھا کہ خواب یا مکاشغہ میں حق سبحانہ کی طرف سے حکم ہوتا تھا۔امام یافعی ؒ کی تاریخ میں مذکور ہے کہ کہتے ہیں۔ان کا شیخ شہاب الدین سہروردی  علیہ الرحمۃما کے ساتھ ملنے کا اتفاق ہوا۔ہر ایک نے ایک دوسرے کو دیکھا ہےاور پھر اسی وقت ایک دوسرے سے جدا ہوگئے ہیں۔ان میں کوئی کلام گفتگو واقع نہیں ہوئی۔اس کے بعد ان سے شیخ شہاب الدین سہروردی کا حال پوچھا گیا تو فرمایا،رجل مملو من قرنہ الی قدمہ من السنۃیعنی وہ ایک مرد ہے کہ سے سے پاؤں تک سنت سے بھرا ہوا ہےاور شیخ شہاب الدین سے ان کاحال دریافت کیا گیا تو فرمایا،ھوالبحر الحقائق یعنی وہ حقائق کے سمندر ہیں۔تصوف میں ان کے خرقہ کی نسبت ایک واسطہ سے شیخ محی الدین عبدالقادر گیلانی علیہ الرحمۃ تک پہنچی ہے اور خرقہ میں دوسری نسبت خضر علیہ السلام کو ایک واسطہ سے پہنچتی ہے۔قال رضی اللہ عنہ لبست ھذھ الخرقۃ المعروفۃ من یدابی الحسن علی بن عبداللہ جامع ببتانہ بالمقلی خارج الموصل سنۃ احدی  وستمایۃ و لبسھما ابن الجامع من یدالخضر علیہ السلام وفی المواضع التی البسہ ایاھا البسھا ابن جامع وعلی تلک الصورۃ من غیر  زیادۃ و نقصان یعنی شیخ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ مشہور خرقہ ابوالحسن علی بن عبداللہ بن جامع کے ہاتھ سے ان کے باغ عقلی میں جو کہ موصل سے باہر ہے،۶۰۱ھ میں پہنا ہےاور ابن جامع نے خضر علیہ السلام کے ہاتھ سے اور جس موضع میں خضر علیہ السلام نے ان کو پہنایا ہے۔اسی موضع میں انہوں نے مجھ کو پہنایا ہےاور اسی صورت میں بفیر زیادتی نقصان کے اس کی دوسری نسبت خضر علیہ السلام سے بغیر واسطہ کے پہنچتی  ہے۔قال رحمتہ اللہ علیہ صحبت انا والخضر علیہ السلا، وتادیت بہ واخذت عنہ فی وصیۃ اوصانیھا شفاھا السلیم لمقالات الشیوخ وغیر ذالک ورایت منہ ثلثۃ اشیاء ومن خرقۃ العواید رایتہ عینی علی البحر فطی الارض ورایتہ یصلی فی الھواء یعنی آپ فرماتے ہین کہ میں خضر علیہ السلام کی صحبت میں رہا ہوں۔ان سے ادب سیکھا ہےاور ان سے وصیت حاصل کی۔جو انہوں نے صاف طور پر مجھے کیں کہ شیوخ کے مقالات کو تسلیم کرنا چاہیے وغیرہ ذالک۔میں نے ان سے تین باتیں دیکھیں۔جو کہ خرق عادت میں تھیں۔ایک تو یہ کہ وہ سمندرپر چلتے تھے۔دوم زمین کو لپیٹ لیتے تھے۔سوم ہوا میں نماز پڑھتے تھےاور طعن کرنے والوں کے طعن کے اسباب میں سے "کتاب فصوص الحکم"ہے اور بے شک طعن کرنے والوں کا منشا یا تنقید ہے یا تعسب یا یہ کہ ان کی اصطلاحات سے نا واقفیت یا ان حقائق و معانی کی باریک باتیں،جو اپنی تصنیفات میں درج کی ہیں اور جس قدر معارفت و حقائق کہ ان کی تصنیفات میں"بالخصوص فصوص"اور"فتوحات"میں سے ہیں اور کسی کتاب میں نہیں پائی جاتیں اور اس گروہ میں سے کسی سے اسقدر ظاہر نہیں ہوئیں۔اس فقیر نے حضرت خواجہ برہان الدین ابو نصر پارسا علیہ الرحمۃ سے سنا ہے۔وہ کہتے تھے کہ فصوص جان ہے اور فتوحات دل ہےاور جہاں کے ان کے والد بزرگوار"کتاب فضل الخطاب"میں کہتے ہیں۔قال بعد الکبراء العارفینتو مراد اس سے حضرت شیخ علیہ الرحمۃ ہوتے ہیں۔روی الشیخ مویدالدین الجندی فی شرحہ الفصوص الحکم من شیخہ الشیخ صدرالدین القونوی علیہ الرحمۃ انہ روی عن الشیخ رحمۃ اللہ علیہ انہ قال لما وصلت الی بحر الروم من بلا داندلس عزمت علی نفس ان لا ارکب البحر الا بعد ان اشھد تفاصیل احوال الظاھرۃ والباطنۃ الوجودیۃ مما قبر اللہ سبحانہ علی ولی و منی الی اخر عمری فتوجھت الی اللہ سبحانہ بحضور تام و شھود عام و مراقبۃ کاملۃ فاشھد نی اللہ سبحانہ جمیع احوالی مما یجری ظاھر اوبا طنا الی اخر عمری حتی صحبت  ابیک اسحق بن محمد و صبحتک واحوالک وعلومک واذوقک ومقاماتک وتجلیاتک ومکاشفاتک وجمیع حظوظک من اللہ سبحانہ ثم رکبت البحر علی بصیرۃ ویقین وکان ماکان ویکون من غیر اخلال واختلال یعنی شیخ موید الدین جندی اپنی شرح فصوص الحکم میں اپنے شیخ صدر الدین قونیوی علیہ الرحمۃ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے شیخ رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جب میں بحر روم تک پہنچا۔جو کہ اندلس کے مالک میں ہیں ہے تو میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ مین سمندر پر سوار نہ ہوں گا۔جب تک میں ظاہری باطنی حالات معلوم نہ کرلوں۔جو خدا نے مجھ پر اور میرے لیے اور مجھ سے آخر عمر تک مجھ پر ظاہر کردئیے۔یہاں تک میں نے مصاحبت  کی تیرے باپ اسحق بن محمد ؑ اور تمہاری صحبت اور تمہارے حالات و علوم و ذوق مقامات ،تجلیات،مکاشفات اور تمام تمہارے نصیبے جو اللہ سبحانہ سے ہیں۔فتوحات میں یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ جو اپنی حکایت ہے۔ولقد امنا باللہ و برسولہ وما جاء بہ مجملا و مفصلا مما وصل الینا تفصیلہ وما لم یصل الینا ولم یشت عندنا فنحن مومنون  بکل ماجاء فی نفس الامر اخذت ذلک عن ابوی اخذ تقلید ولم یخطر  ماحکم النظر العقلی فیہ من  جوازواحالۃ ووجوب فعلمت علی ایمانی بذلک حتی عملت من این امنت وبما ذا امنت  و کشف اللہ عن بصری و بصیر تی و خیالی فرایت بعین البصر مالا یدرک الایہ ورایت  بعین البصیرۃ مالا یدرک الایہ ورایت بعین الخیال مالا یدرک الایہ فصارالامر مشھو داوالحکم المتخیل المتوھم بالتقلید موجودافعلمت  قدر من اتبعتہ وھوالرسول المبعوث الی محمد صلی اللہ علیہ وسلم وشھدت جمیع الانبیاء کلھم من ادم الی محمدؑ علیہ الصلوۃ و السلام واشھدنی اللہ تعالیٰ المومنون بھم کلھم حتی مابقی من احد ممن کان وھو یکون  الی یوم القیمۃ خاصتھم وعا متھم ورایت مراتب الجماعہ کلھا فعلیت اقدارھم واطلعت علی جمیع ماامنت بہ مجملا مما ھوفی العالم العلوی وشھدت ذلک کلہ فماذ حذحنی علم مارایتہ وعانیۃ عن ایمانی فلم ازل اقول واعملہ مااقوالہ واعلم لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابعلمی ولا یعنی ولا شھودی فواجبت بین الایمان والعیان وھذا عزیز الوجود فی الاتباع فان مزلۃ الاقدام للا کابر انما یکون ھنا اذا وقعت المعانیۃ لماوقع بہ الایمان فتعمل علی عین لا علی ایمان فلم یجمع بینھا ففاتہ من الکمال ان یعرف قدرہ من الکمال ان یعرف قدرہ و منزلۃ فھووانکان من ال الکشف فما کشف اللہ لہ عن قدرہ و منزلۃ فجھد نفسہ فعمل علی مشاھدۃ والکامل من عمل علی الایمان مع ذوق العیان وماانتقل ولا اثر فیہ العیان ومارایت بھذالمقام ذاتھابا لخال وان کنت اعلم ان لہ رجالافی العالم لکن ما جمع اللہ بینی وبینھم فی رویتہ اعیانھم واسمائھم فقد یمکن ان یکون رایت منھم وما جمعت بین عینہ واسمعہ وکان سبب ذالک انی ما علقت نفسی قط الی جانب الحق ان یطلعنی علی کون من الاکوان ولا حادثہ من الحوادث وانما علقت نفسی مع اللہ یستعملنی  فیما یر ضیہ جمیع من فی العالم لن تناثر بذلک فانی عبد محض لااطلب التفوق علی عبادہ بل جعل اللہ فی نفسی من  الفرح انی تمنی ان یکون العالم کلہ علی قدم واحدۃ فی اعلی المراتب فخصنی اللہ بخائمۃ امرلم یخطرلی ببا فتسکوت اللہ تعالی بالعجز عن شکرہ مع توفیقی الشکر حقہ وماذکرت ماذکرتہ من حالی للفخر لا واللہ انما ذکرتہ لامربن الامر الوحد لقولہ تعالی واما بنعمۃ ربک فحدث وایۃ نعمت اعظم من ھذہ والا مر الاخر یسمع صاحب ھمتہ فتحدث فیہ ھمۃ  لاستعمال نفسہ فیما استعملتھا فینا مثل ھذا فیکون معی وفی درجتی وانہ لا ضیق ولا حرج الافی المحسوس  یعنی بے شک ہم ایمان لائے،اللہ اور اس کے رسول پر اور جو کچھ کہ آپ لائے،اجمال اور تفصیل سے جو ہم کو اس کی تفصیل پہنچی ہے۔وہ تفصیل کے ساتھ اور جو نہ پہنچے اور نہ ہم کو ثابت ہوئے۔ان سب پر ہم ایمان لاتے  ہیں،جو کہ حقیقت میں ہے۔

          اس عقیدہ کو میں نے والدین سے تقلید کے طور پر سیکھا تھااور میرے دل میں اس وقت یہ نہ تھا کہ اس میں عقلی نظر کیا کہتی ہے۔جوازیامحال یا واجب تھا۔میں نے اس پر اپنے ایمان سے عمل کیا۔یہاں تک کہ میں نے جان لیا کہ یہ میں نے کہاں سے لیا ہے۔اور کس چیز پر ایمان لایا ہوں۔خدائے تعالیٰ نے میری آنکھ اور دل اور خیال سے پردہ اٹھا دیا۔تب میں نے اپنی آنکھ ظاہری سے وہ باتیں دیکھیں۔جو اس کے سوا ان کو معلوم نہیں کرسکتے۔اور دل کی آنکھ سے وہ باتیں دیکھیں جو اس کے سوا اور کس سے دیکھ نہیں سکتے۔خیال کی آنکھ سے وہ باتیں دیکھیں جو کہ سوا اس کے نہیں دیکھ سکتے۔تب یہ امر ظاہر ہوگیااور حکم خیالی وہمی جو تقلید سے تھا۔وہ موجود ہوگیا۔پھر میں نے معلوم کرلیا۔اس کی قدر جس میں نے اتباع کی تھی۔یعنی اس رسول کی جو کہ بھیجا گیا تھا۔محمدﷺ کی طرف اور میں نے تمام انبیاء علیہ السلام کو آدم علیہ السلام سے لے کر محمدﷺ تک دیکھا اور مجھ کو خدائے تعالیٰ نے وہ مومن بھی دکھائے کہ جو ان انبیاء علیہم السلام  پر ایمان لا چکے تھے۔یہاں تک کہ ان مین سے کوئی باقی ہ رہا۔جوسو چکا تھااور جو سونے والا تھا۔قیامت تک خاص و عام سب دیکھے اور جماعت کے سارے مرتبوں کو دیکھ لیا۔تب ان کے سبب مراتب کو دیکھ لیااور جس پر مجملاً ایمان لا چکا تھا۔جوکہ عالم علوی میں ہے اور ان سب کو میں نے دیکھا۔مجھے اس بات کا علم جس کو میں نے ایمان کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔ورنہ نہ ہوا۔پس میں ہمیشہ وہی کہتا اور وہی کرتا تھاھو نبیﷺ  کا قول اور عمل ہے اپنے علم و عمل شہور سے نہیں کہتا تھاپس ایمان اور مشاہدہ کو میں نے لازم ملزوم  کردیا اور ایسی اتباع بہت کم پائی جاتی ہے۔کیونکہ بڑے بڑے لوگوں کے قدم اس لیے یہاں پھسل جاتے ہیں کہ ان کو مشاہدہ اس چیز کا ہوتا ہے،جس پر ایمان ہوتا تھا۔پس وہ مشاہدہ پر عمل کرتا ہے،نہ ایمان پر ۔اب ان دونوں میں جمع واقع نہ ہوااور فوت ہو جاتا ہے۔اس سے یہ کمال کہ پہچانے اس کی قدر منزلت ۔پھر وہ اگرچہ اہل کشف سے ہوتا ہے۔لیکن خدائے تعالیٰ نے اپنی قدر و منزلت کو ا سپر ظاہر نہیں کیا۔تب اس کا نفس جاہل ہوتا ہےاور مشاہدہ پر عمل کرتا ہے،مگر کامل وہ ہے کہ موجودات کے ذوق کے ساتھ ایمان پر عمل کرتا ہے۔اس سے وہ جاتا نہیں رہتا۔اس میں موجودات کچھ اثر نہیں کرتے ہیں۔میں نے اس مقام میں کسی حال کے مزہ چکھنے والےکو نہیں دیکھا۔اگرچہ میں جانتا ہوں کہ جہان میں اس کے مردبھی ہیں،لیکن خدا نے ان کی ملاقات نہیں کرائی کہ ان کو اعلانیہ ان کو صورتوں اور ناموں سے دیکھ لوں۔کیونکہ ممکن ہے کہ میں نے ان کو دیکھا ہو،لیکن ان کے جسموں اور ناموں کو یاد نہ رکھا ہو اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنے نفس کو خدا کی طرف معلق نہیں کیا کہ مجھ کو موجو دات اور حادثات پر مطلع کردے۔بلکہ میرا دل تو اس بات پر لگا ہوا تھا کہ خدا مجھ کو ایسے کام میں لگائے،جس میں اس کی خوشنودی ہوایسے کام میں نہ لگائے کہ اس سے دوری ہو جائے اور یہ کہ مجھ کو ایسے مقام سے خاص نہ کردے کہ کوئی تابعداداس سے اعلی درجہ پر نہ ہو،اگرم یرے ساتھ اس میں تمام جہان شریک ہوجائے۔تاہم میں اس سے ہرگز متاثر نہ ہوں گا۔کیونکہ میں صرف ایک بندہ ہوں،خدا کے تمام بندوں پر فوقیت نہیں چاہتا۔بلکہ خدا نے میرے دل میں یہ خوشی دی ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں،تمام جہان ایک قدم پر اعلیٰ مراتب ہوں۔پس خدائے تعالیٰ نےمجھ کو امر کے ایسے انجام سے مخصوص کیا کہ جس کا میرے دل میں خیال تک نہ تھا۔تب میں نے  خدا کا شکر ادا کیا۔جس شکر سے میں عاجز تھا۔جاوجود اس کے توفیق کے شکر میں پورے طور پر اور جومیں نے اپنے خیال کا شکر کیا ہےتو خدا کی قسم کچھ فخر یہ نہیں کیا،بلکہ اس کا ذکر دو وجہ سے کیا ہے۔ایک خدا کے اس قول پر عمل کیا ہے۔واما بنعمۃ ربک فحدث یعنی آپ اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو اس نعمت سے بڑھ کر اور کونسی نعمت ہوگی۔دو یہ کہ کوئی صاحب ہمت اس حال کو سنے تو اس میں بھی یہ ہمت پیدا ہوکہ جو کچھ مین نے کام کیے ہیں۔وہ بھی کرے اور میری طرح نعمت پائے۔میرے ساتھ اور میرے درجہ میں رہےاور تنگی اور حرج محسو س میں ہی ہوا کرتا ہے۔

          شیخ صدر الدین علیہ الرحمۃ "کتاب فکوک" میں لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ کی خاص نظر تھی کہ جب چاہتے کہ کسی کے حال سے واقف ہوجائیں تو اس کی طرف دیکھ کر اس کی آخرت و دنیاوی حالات کی خبر سے یاد کرتے ۔"فتوحات"کے ۴۴باب میں مذکور ہے۔شیخ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھ کو مجھ سے لے لیا گیا۔ایک عرصہ مجھ رپر ایسا گزرا کہ نماز باجماعت سے پڑھا کرتا ۔میں خود امام ہوتاتھا اور نماز کے تمام اعمال جیسے چاہے بجالاتا تھا،لیکن مجھے اس کی خبر نہ ہوتی تھی۔جماعت وغیرہ محسوس چیزوں کی بھی کچھ خبر نہ ہوتی تھی اور جو کچھ میں کہتا ہوں۔میرے ہوش میں آنے کے بعد لوگوں نے مجھے بتلایا تھا۔کیونکہ مجھے خود معلوم نہ تھاکہ مجھ سے کیا کیا ہوتا ہے۔دو سوتے ہوئے شخص کی حرکات کی طرح تھیں۔مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے میرے وقت کو محفوظ رکھاہوا تھااور میرے ساتھ وہ معاملہ کیا ہوا تھا کہ جو شبلیؒ سے کیا تھاکہ ان کو نماز کے اوقات میں واپس دے دیا کرتے تھے،لیکن میں نہیں جانتا کہ ان کو اس کا شعور تھا یا نہیں۔حضرت عبیدؒ سے لوگوں نے کہا تو یہ فرمایا کہ الحمدللہ الذی لم یجر علیہ لسان ذنب یعنی اس خدا کا شکر ہے کہ اس پر گناہ کی زبان کو جاری نہ کیا ۔"فتوحات"میں بھی مذکور ہے کہ حضرت شیخ نے یہ بھی شعر فرمایا تھا۔

                    یامن رانی ولا اراہ     کم ذا اراہ ولا یرانی

          یعنی اے وہ ذات کہ مجھ کو دیکھتی ہےاور میں اس کو نہیں دیکھتا۔کب یہ بات ہوگی کہ میں اس کو دیکھوں گا اور وہ مجھے نہ دیکھے گا۔شیخ کے ایک مرید نے کہا کہ یہ آپ نے کیسے کہا،ولا یرانی کہ وہ مجھے نہیں دیکھے گا۔حالانکہ جانتے ہوکہ وہ آپ کو دیکھتا ہے۔تب شیخ نے فی الفوریہ کہا۔

                   یامن یرانی مجرما ولا یراہ احد        کم ذا اراہ منعما ولا یرانی لا یذا

          یعنی اے وہ ذات ہ مجھ کو گناہ گار دیکھتی ہے اور اس کو کوئی نہیں دیکھتا۔کس قدر یہ ہوگا کہ میں اس کو نعمت دینے والا دیکھوں گا اور وہ مجھے پناہ مانگنے والا نہ دیکھے گا۔"فتوحات" میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے بعد طواف کرتا تھا۔میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ طواف کرتا تھا،لیکن وہ کسی سے مزاحمت نہیں کرتااور نہ اور کوئی اس کی مزاحمت کرتا ہے۔دو آدمیوں کے درمیان آجاتا ہےاور ان کو جدا نہیں کرتا۔میں نے جانا کہ یہ ایک روح ہے،جو جسم دار بنی ہوئ ہے۔میں نے راستہ میں اس کا خیال رکھااور اس کو سلام کہا۔اس نے مجھے جواب دیا۔میں اس کے ہمراہ ہولیا۔میری ا س کی باتیں ہوئی ہے۔میں نے جانا کہ احمد سیتی ہیں۔میں نے اس سے پوچھا کہ کیو ں سات دنوں میں سے تم نے ہفتہ کو کسب کے لیے مخصوص کیا۔کہا،اس کے لیے خدائے تعالیٰ نے اتوار کے دن پیدائش عالم کی ابتداء کی اور جمعہ میں فارغ ہوا۔پس ان چھ دنوں میں جو ہمارے کام میں لگا ہوا تھاتو میں اس کے کام میں تھا۔میں نے اپنے نفس کے مزہ کے لیے کام نہیں کیا تھا۔جب ہفتہ آیا تو اس کو اپنے لیے مقرر کیااور اس میں اپنے نفس کے کسب کے لیے مشغول ہوا۔کیونکہ دوسرے چھ دن فوت ہوچکے تھے۔میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے وقت میں قطب زمان کون تھا؟کہا،میں تھا۔تب مجھے اس نے رخصت کردیااور خود چلا گیا۔جب اس جگہ پر جہاں کہ بیٹھا تھا،واپس آیا تو میرے دوستوں میں سے ایک دوست نے کہا کہ آج میں نے ایک مسافر شخص کو دیکھا کہ مکہ میں پہلے اس سے اس کو نہ دیکھا تھا۔آپ سے طواف میں باتیں کررہا تھا۔وہ کون شخص تھا اور کہاں سے آیاتھا؟میں نے سارا قصہ سنا یا تو حاضرین نے تعجب کیا۔"فتوحات"میں یہ بھی مذکور ہے کہ ایک شیخ نے مجھ کو کہافلاں ابدشاہ کی لڑکی ہے۔جس سے لوگوں کو بہت فائدہ ہےاور تمہاری نسبت اس کا پورا اعتقاد اور اخلاص ہے۔وہ بیمار ہے۔وہاں جانا چاہیے۔شیخ وہاں پر گئے۔اس کے شوہر نے استقبال کیا اور شیخ کو اس کے سرہانے لاکر بٹھایا۔شیخ نے دیکھا کہ وہ حالت نزع میں ہے۔شیخ نے کہا،اس کو جلد پکڑو یہ تو چلی۔اس کے خاوند نے کہا کہ حضرت میں اس کو کیونکر پکڑوں؟کہا،اس کو پھر خرید لیاہے۔اس کاخون بہا پورا لائے۔نزع اور جان کی حالت میں توقف پڑگیا۔لڑکی نے آنکھ کھولی اور شیخ کو کہا۔شیخ نےاس کہا کہ تمہیں کچھ خوف نہ کرنا چاہیے،لیکن یہاں ایک دقیقہ اور نکتہ ہے۔وہ اس کے بعد کہ ملک الموت آجائے تو وہ خالی واپس نہیں جاتا۔سو تیرے بدلہ میں دینے سے گریز نہیں ہوسکتی۔ہم نے تم کو اس سے چھڑا دیا،لیکن وہ ہم سے اپنا حق مانگتا ہے۔واپس نہ جائے گا،مگر یہ کہ کوئی جان قبض کرے۔اگر تو زندہ رہے گی تو لوگوں کوتجھ سے فائدہ بہت ہوگااور تو بڑی قدر و مرتبہ والی ہے۔اب تیرے بدلہ میں بھی کوئی بڑی قدر کی چیز ہونی چاہیے۔میری ایک لڑکی ہے،جو کہ مجھ کو بہت پیاری ہے۔میرے نزدیک اس کو تجھ پر قربان کردیں۔اس کے بعد ملک الموت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ تم بغیر اس کے کہ کوئی جان نہ لے جائے،اپنے پروردگار کے نزدیک نہ جاؤگے۔اچھا میری لڑکی کی جان اس کے بدلہ میں لے لو۔میں نے اس کو خدائے تعالیٰ سے خرید لیا ہے۔اس کے بعد شیخ اپنی لڑکی کے پاس گئے۔اس کو کوئی بیماری نہ تھی۔جاکر کہا،اے بیٹا تم اپنی جان مجھے بخش دو۔کیونکہ تم بادشاہ کی بیٹی کے نفع میں قائم مقام نہیں ہوسکتی۔اس نے کہا ،اے باپ میری جان آپ کے حکم میں ہے۔مل الموت سے کہا،اس کی جان لے لے ۔اس وقت شیخ کی دختر گرپڑی اور مرگئی۔

          پھر شیخ ابن العربی رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس سے تو گریز نہیں کہ مریض کی جان خریدیں اور کچھ اس کو دے دیں،مگر ہاں یہ لازم نہیں کہ اس کے عوض می ندوسری جان ہی دیں۔کیونکہ ہم نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے کہ ہم نے کسی کی جان خریدی ہے اور کوئی جان اس کے بدلہ میں نہیں دی۔"فتوحات"میں یہ بھی لکھا ہے کہ ۵۳۶ھ میں ہماری مجلس میں ایک عالم آیا،جو کہ فلاسفہ کے مذہب پر چلتا تھااور نبوت کا اثبات جیسے کہ مسلمان کرتے ہیں،نہیں کرتا تھا۔خوارق عادات اور انبیاء علیہ السلام کے معجزات کا منکر تھا۔اتفاقاً جاڑے کا موسم تھااور مجلس مین انگیٹھی جلتی تھی۔اس فلسفی نے کہا۔عام لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا گیا اور وہ نہ جلے،لیکن یہ امر محال ہے۔کیونکہ آگ کا کام بالطبع یہ ہے کہ ان چیزوں کو جو جلنے کے قابل ہوں،جلادے۔پھر تاویل کرنے لگااور کہا کہ اس آگ سے جو قرآن میں مذکور ہے ۔نمرود کے غضب کی آگ ہےاور ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں دالنے سے وہی غضب کی آگ مراد ہے۔جو ان ہر ہوا اور ا نکو نہ جلنے سے مقصودیہ ہے کہ اس غضب کو ان پر نہ برتا۔ککیونکہ ابراہیم علیہ السلام دلیل و حجت سے اس پر غا لب آئے تھے۔جب فلسفی یہ کلام کہہ کر فارغ ہوا تو مجلس کے بعض حاضرین نے کہا ،ظاہر ہے کہ شیخ اس سے پوچھیں گے۔شیخ نے کہا تم اس قرآن کے قصہ کا انکار کرتے ہو۔میں تمہیں یہ بات دکھا دیتا ہوں،مگر میرا مقصود صرف یہ ہے کہ معجزہ کے انکار اٹھا دیا جائے،نہ اپنی کرامت کا اظہار ۔اس کے منکر کہا،یہ ہو نہیں سکتا۔شیخ نے کہا کہ یہ آگ جو اس انگیٹھی میں ہے۔وہی آگ ہے کہ جس کو تم کہہ رہے ہوکہ بالطبع جلانے والی ہے۔کہا،ہاں وہی ہے۔آپ نے انگیٹھی کو اٹھایااور اس کی آگ اس منکرکے دامن میں ڈال دیا ۔ایک عرصہ تک چھوڑ رکھا اور اپنے ہاتھ سے اس کو ہر طرف لوٹاتے رہے۔اس کا کپڑا بالکل نہ جلا۔آپ نے پھر اس آگ کو انگیٹھی میں ڈال دیااور منکر سے کہا کہ اپنا ہاتھ اس میں ڈال ۔جب اس کا ہاتھ آگ کے پاس پہنچا تو جلنے لگا۔تب آپ نے فرمایا کہ اب یہ بات روشن ہوگئی کہ آگ جلانا یا نہ جلانا۔خدائے تعالیٰ کے حکم میں ہے،نہ یہ کہ اس کی طبیعت کا تقاضا ہے۔منکر نے قرار کیا اور ایمان لے آیا۔"فتوحات"میں یہ بھی لکھا ہےکہ شیخ ابو العباس جریری نے ۶۰۳ھ میں مصر میں مجھ سے کہا کہ ہم شیخ ابو عبداللہ قربانی کے ساتھ بازار جارہے تھےاور اس نے اپنے چھوٹے فرزند کے لیےقصیر یہ لیا تھا۔قصیر یہ ایکشیشہ کا برتن ہوتا ہےکہ جس میں بچہ پیشاب کیا کرتے ہیں۔نیک بختوں کی ایک جماعت ہمارے ساتھ مل گئی ۔ہم ایک جگہ بیٹھ گئے کہ کچھ کھائیں۔اس بات پر اتفاق ہوا کہ سالن کے لیے قدر شکر کا شیرہ لیں۔کوئی برتن موجود نہ تھا۔لوگوں نے کہا،یہ نیا قصیر یہ ہےاور ابھی اس میں کسی قسم کی ناپاکی نہیں پہنچی۔اس شیرہ کو اس میں ڈال دیا۔جب ہم نے کھالیا اور لوگ چلے گئے۔ابو عبداللہ کے ساتھ ہم جا رہے تھے اور قصیر یہ ان کے ہاتھ میں تھا۔واللہ کہ میں نے ابو عبداللہ دونوں نے یہ سناکہ اس میں سے آواز آئی کہ ا س کے بعدمجھ میں خدا کے اولیاء نے کچھ کھایا ہو۔پیشاب و ناپاکی کی جگہ نہ بنوں گا۔خدا کی قسم ایسا نہ ہوگا۔وہ برتن ان کے ہاتھ سے کودا اور زمین پر گر کر ٹوٹ گیا۔

          اس واقعہ سے ہمارا عجیب حال ہوا۔شیخ کہتے ہیں کہ میں نے شیخ ابو العباس سے کہا کہ تم اس قصیریہ برتن کی نصحیت سے غافل رہے۔اس کا مقصود یہ نہ تھا،جو تم نے وہم کرلیا ہے۔بہت سے ایسے برتن ہوئے ہیں کہ تم سے بہتر لوگوں نے اس میں کھایا ہےاور وہ ناپاکی کی جگہ بنے ہیں۔بلکہ اس سے مقصود تمہاری نصحیت اور آگاہی تھی کہ اس کے بعد کہ تمہارے دل خدائے تعالیٰ کی معرفت کی جگہ ہوچکے ہوں۔چاہیے کہ ان کو اغیار کہ جگہ نہ بنانا اور اس میں ایسی چیزوں کو جب سے خدائے تعالیٰ نے منع کیا ہے،جگہ نہ دینا اور وہ ٹوٹ گیا۔یہ اشارہ اس طرف ہے کہ خدائے تعالیٰ کے سامنے اس  طرح  شکستہ خاطر اور عاجز بنے رہو۔شیخ ابو العباس نے انصاف سے کہا کہ جو کچھ آپ نے فرمایا،ہم اس سے غافل تھے۔"فتوحات" میں یہ بھی لکھا ہےکہ میرے بھائیوں میں سے ایک شخص تلسمان کا بادشاہ ہوا ہے۔اس کا نام یحییٰ بن بغان تھا۔اس کے وقت میں ایک شیخ تھا۔جس کو ابو عبداللہ تونسی کہا کرتے تھے۔اس نے لوگوں سے قطع تعلق کیا ہوا تھا۔تلسمان کے باہر ایک جگہ عبادت میں مشغول تھا۔ایک دن اس جگہ سے تلسمان میں گیا۔یحییٰ بن  بغان اپنے لشکر کے ساتھ ان کو راستہ میں ملے۔اس سے کہا گیا کہ  یہ عبداللہ تونسی ہیں۔گھوڑے کو واپس لایا اور ان کو سلام کہا۔عمدہ کپڑے پہنے ہوئے تھا۔شیخ نے پوچھا کہ اے شیخ جن کپڑوں کو میں نے پہنا ہوا ہے۔ان می نماز جائز ہے؟شیخ ہنس پڑے۔یحییٰ نے کہا،ہنستے کیوں ہو؟کہا،تمہاری بے وقوفی اور کم عقلی پر۔کیونکہ تمہارا حال اس کتے کا ہے کہ مردار میں پڑا ہوا۔اس سے پیٹ بھر کر کھاتا ہے۔سر سے لے کر پاؤں تک نجاست و خون سے آلودہ ہورہا ہو۔جب اس کو پیشاب آتا ہے تو اپنے پاؤں کو اٹھا لیتا ہےکہ اس کہیں اس پر پیشاب کا قطرہ نہ پڑجائے۔تمہارا پیٹ حرام سے بھرا ہوا ہےاور لوگوں کے ظلم تمہاری گردن پر بہت سے ہیں اور اب تم پوچھتے ہو کہ ان کپڑوں میں نماز جائز ہے یا نہیں۔یحییٰ یہ بات سن کر رو پڑا اور گھوڑے سے اتر پڑا۔سلطنت کو چھوڑدیا اور شیخ کا خادم بن گیا۔جب تین دن تک شیخ کے پاس رہا تو شیخ ایک رسی لائے اور کہا کہ مہمانی کے دن پورے ہوگئے۔اٹھ اور لکڑیاں لا اور ان کو بیچ۔رسی لے لی اور گٹھر لکڑیوں کا اٹھا کر بازار میں لایااور لکڑیوں کو بیچنے لگا۔لوگ اس کو سلطنت کے بعد اس حال میں دیکھتے اور روتے تھے۔لکڑیوں کو بیچتا تھااور اپنے کھانے کی مقدار لیا کرتا تھا۔باقی صدقہ کردیتا تھا۔ہمیشہ اپنے شہر میں رہا۔یہاں تک فوت ہوگیا۔جس وقت کوئی شیخ سے دعا کی التماس کرتا تو شیخ فرماتے کہ دعا کی التماس یحییٰ سے کیا کرو۔کیونکہ وہ بادشاہی چھوڑکر زاہد بنا ہے،اگر اس میں مبتلا رہتے تو شاید زاہد نہ بنتے۔شیخ رکن الدین علاؤعدولہ علیہ الرحمۃ نے حضرت شیخ رضی اللہ عنہ کی بزرگی اور کمال کا اقرار کیا ہے۔چنانچہ اس کو یوں خطاب کیا ہے۔ایھا الصدیق وایھا المقرب وایھا الولی وایھا العارف الحقانی یعنی اے صدیق،اے مقرب خدا،اے ولی،اے عارف حقانی اور اب تک یہ حواشی ان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ،"فتوحات"کے حاشیہ پر موجود ہیں،لیکن ان کو اس مطلب میں یہ کہ حضرت حق سبحانہ کو وجود مطلق کہا ہے۔ان کی نسبت خطا ،بلکہ تکفیر کی نسبت کی ہےاور ایک ہمعصر کہ جس نے ہر دوشیخ کو باتوں کی بہت چھان بین کی تھی اور دونوں سے پورااخلاص و اعتقاد رکھتا تھا۔

          اپنے بعض رسالہ میں لکھا ہے کہ درحقیقت توحید میں ان دونوں حضرت میں اختلاف نہیں اور شیخ رکن الدین کا تکفیرو تخطیہ اس مجلس کی طرف راجع ہے کہ انہوں نے شیخ کا کلام سے ایسا سمجھ لیا ہے،نہ اس معنی کو کہ شیخ کی وہ مراد ہے۔کیونکہ جوود عام ہے۔تیسرا تو آخر معنی کے لحاظ سے کہا ہےاور شیخ رکن الدین علاؤعدولہ نے اس کو عام وجود پر حمل کرکے اس کے انکار کی نفی میں مبالغہ کیا۔باوجود یہ کہ انہوں نے وجود ذات کے اطلاق کو آخری معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔چنانچہ اپنے ایک رسالہ میں فرمایا ہے،الحمداللہ علی الایمان بوجوب وجودہ ونزاھتہ عن ان یکون مقید امحدود اومطلقا لایکون لہ بلا مقیداتہ وجود۔یعنی خدا کی طرف ہے کہ ہم اس کے وجوب وجود پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کو پاک سمجھتے ہیں۔اس سے مقید محدود ہو اور اس سے کہ ایسا مطلق ہو۔جس کا مقیدات کے بغیر وجود ہے۔جب مقید محدود نہ ہوا تو مطلق بھی نہ ہوگا۔کیانکہ اس کا وجود مقیدات پر موقوف ہوتا ہے تو اب ضرور ایسا مطلق ہوگا۔جو کہ لایشرط شے ہےکہ کسی مقید عموم سے مشروط نہ ہو۔قیود تعینات اس کے ظہور کی شرط ہیں۔مراتب مین نہ یہ کہ اس کے وجود کے لیے فی حدذاتہ شرط ہیں اور جو نزع کہ شیخ رکن الدین علاؤ عدولہ اور شیخ کمال الدین عبدالرزاق کاشی رحمہا اللہ تعالی میں پہلے اس سے مذکور ہوئی۔وہ بھی اس طرح کی ہوسکتی ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالسرائر۔رسالہ اقبا لیہ میں مذکور ہےکہ ایک درویش نے شیخ رکن الدین علاؤعدولہ کی مجلس میں پوچھا کہ شیخ مھی الدین ابن العربی نے جو خدا کا وجود مطلق کہا ہے۔کیا قیامت مین اس با تپر مواخذہ ہوگایا نہیں؟شیخ نے فرمایا میں اس قسم کی باتوں کو قطعاً زبان پر لانا نہیں چاہتا۔کاش کہ وہ بھی ایسا نہ کہتے۔کیونکہ مشکل بات کا کہنا جائز نہیں،لیکن جب کہی گئی تو ضرور اس کی تاویل کرنی چاہیے ۔تاکہ درویشوں کے دل پر کچھ شبہ نہ پڑےاور بزرگوں کے حق میں بے اعتقاد نہ ہوں۔میں جانتا ہوں کہ محی الدین ابن العربی کا اس بات سے یہ مقصود تھاکہ وحدت کو کثرت میں ثابت کرے۔انہوں نے وجود مطلق کہا ہے۔تاکہ دوسرے معراج کو بیان کرسکیں۔کیونکہ معراج دو ہیں۔ایک تویہکان اللہ ولم یکن معہ شئ یعنی خدائے تعالیٰ تھا اور اس کو ساتھ اور کوئی چیز نہ تھی۔اس کا دریافت کرلینا تو آسان ہے۔دوم یہ کہ والان کما کان یعنی وہ اب بھی ویسا ہی ہے۔جیسا کہ پہلے تھا۔اس کی شرح بہت مشکل ہے۔اس نے چاہا کہ یہ ثابت کرے کہ مخلوقات کی کثرت خدا کی وحدت میں کچھ زیادتی نہیں کرتی۔وجود مطلق اس کے دل میں پڑا ہوا ہے۔جب اس کی ایک مشق  اس معنی پر درست نکل آئی تو اچھی معلوم ہوئی،لیکن دوسری مشق سے جو نقصان لازم آتا تھا،غافل رہا۔پس جب ان کا قصہ وحدانیت کا اثبات ہی ہوگاتو خدائے تعالیٰ نے ان کو معارف کردیا ہوگا۔کیونکہ اہل قبلہ میں سے جس نے کمال حق میں اجتہاد کیا ہے،اگر خطا بھی کی ہے تو میرے نزدیک چونکہ اس کا مقصود کمال حق ہےتو وہ اہل نجات سے ہوگااور حصیب اور درجہ والوں میں سے ہوگا۔ولد الشیخ رحمۃ اللہ علیہ بمرسیہ  من بلاداندلس  لیلۃ الاثنین السابع عشر من رمضان سنۃ ستین وخمساتہ وتوفی لیلۃ الجمعۃ الثانیۃ والعشربن من شھر ربیع الاخر سنۃ ثمان و ثلاثین وستما یۃ بدمشق ودفن بظاھر ھافی سفح الجبل فاسیون وحلایا عن موضع الصالحیۃ یعنی شیخ رحمتہ اللہ علیہ مرسیہ میں جو کہ شہر اندلس کے علاقہ میں ہے۔پیر کی رات ۱۷رمضان شریف ۵۶۰ھ میں پیدا ہوئے اور جمعرات کے د ن۲۲ربیع الاخر ۶۳۸ھ میں دمشق میں فوت ہوئے۔دمشق سے باہر پہاڑ فاسیون وحالیا میں جو صالحیہ موضع سے مشہور ہے ،دفن کئے گئے۔

(نفحاتُ الاُنس)

تجویزوآراء