حضرت مولانا عبدالصمد مقتدری

حضرت مولانا عبدالصمد مقتدری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مولانا عبدالصمد مقتدری ابن مولانا غلام حامد کی ولادت بدایون (انڈیا)کے مشہور حمیدی خاندان میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت:

مدرسہ عالیہ قادریہ دارالعلوم شمس العلوم بدایوں میں مولانا محب احمد قادری، مولانا مفتی حافظ بخش بدایونی و دیگر اساتذہ سے علوم متداولہ میں فراغت حاصل کرنے کے بعد الہ آبا دیونیوسٹی سے ’’ملا‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔

بیعت و خلافت:

حضرت علامہ مولانا عبدالمقتدر بدایونی قدس سرہ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں ۱۳۳۴ھ بمطابق ۱۹۱۵ء کو بیعت کی اور حضرت مولانا عبدالقدیر بدایونی قدس سرہ سے ۳۱ مارچ ۱۹۶۳ء کو اجازت و خلافت پائی۔

سیاسی خدمات:

آپ نے اپنی مذہبی مصروفیات کے باوجود برصغیر کی ہر مسلم مفاد تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔ تحریک خلافت، شدھی تحریک اور تحریک پاکستان میں حضرت مولانا عبدالماجد بدایونی علیہ الرحمۃ کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور انہی سے ہی سیاست کے رموز و نکات سیکھے۔

جب جمعیت علماء ہند اپنے نصب العین سے ہٹ کر کانگریس کی بچہ جمہورا بن گئی تو آپ نے علماء حق کے ساتھ مل کر ’’جمعیت علماء ہند کانپور‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ صدارت کا سہر آپ ہی کے سر باندھا گیا اور آپ آخروقت تک اس منصب پر فائز رہ کر ملک و قوم کی مقدور بھر خدمت کرتے رہے۔

اس جمعیت کے زیر اہتمام ہر سال سیرت کانفرنسیں بدایوں، کانپور و دیگر شہروں میں منعقد ہوتی رہیں جن میں مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا مطہر الدین ، ایڈیٹر اخبار الامان اور مولانا عبدالقیوم کانپوری و دیگر اکابرین شرکت فرما کر کانگریس کے مکرو فریب کو تار تار کرکے مسلم لیگ کے پیغام کو گھر گھر پہنچاتے، الغرض آپ نے اس طرح مذہب و ملت کی جو بے مثال خدمت کی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔

۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو دیگر مسلم لیگی لیڈروں کی طرح آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری ہوگئے ۔ چنانچہ ۱۳ ، دسمبر ۱۹۴۷ء کو بچ بچا کر بمعہ اہل خانہ کراچی تشریف لے آئے۔ ان دنوں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس خالقدینا ہال (بندر روڈ کراچی) میں ۱۳،۱۴،۱۵ دسمبر کو ہورہا تھا چونکہ پاکستان بننے کے بعد یہ پہلا اجلاس تھا لہٰذا آپ بال بچوں کو بندرگاہ پر ہی چھوڑ کر سیدھے اس اہم اجلاس میں شامل ہوئے۔ اس اجلاس میں آپ نے نمایاں طور پر حصہ لیا۔ اس کے بعدآپ کو پاکستان مسلم لیگ کا کونسلر منتخب کیا گیا اس کے علاوہ کراچی مسلم لیگ می آپ کو وہی مقام نصیب ہوا جو بدایوں مسلم لیگ میں تھا۔

کراچی مسلم لیگ کی تنظیم کے بعد آپ نے ’’آل پاکستان انجمن مہاجرین و الانصار‘‘ کی بنیاد ڈالی جس کے آپ سیکریٹری جنرل منتخب کئے گئے۔ اس انجمن کا مقصد مہاجرین کی فلاح و بہبود تھا۔ چنانچہ آپ نے اس مقصد کیلئے مقدور بھر کوششیں فرمائیں۔ اس کے علاوہ بہت سے تعلیمی امور میں بھی نمایاں حصہ لیا۔

صحافت:

آپ کو صحافت سے ابتداء سے ہی تعلق خاطر تھا۔ قیام آگرہ کے دران ایک چھاپہ خانہ قائم کرکے ماہنامہ ’’الھدی‘‘ جاری کیا تھا ۔ جس میں حکومت پر سخت تنقید کی جاتی تھی اور مسلم لیگ کی دل کھول کر تبلیغ کی جاتی تھی۔ اس سلسلہ میں آپ کو متعدد بار قید و بند کی تکالیف بھی برداشت کرنا پڑیں ۔ لیکن آپ کی حق گوئی و بے باکی میں کوئی فرق نہ آیا علی برادران کے حکم پر آگرہ کو اپنا مسکن بنایا اور دو اخبارات ’’تبلیغ‘‘ اور ’’خلافت‘‘ کا اجراء کرکے خلافت کے پیغام کو بر صغیر کے کونے کونے میں پہنچایا۔ کراچی آنے پر بھ آپ نے روزنامہ ’’خورشید‘‘ اور ماہنامہ ’’ترجمان‘‘ جاری کئے ار اپنی حق گوئی کو مسلسل اپنا مقصد حیات بنائے رکھا (اکابر تحریک پاکستان)

تصنیف و تالیف:

ان سب کاموں کے علاوہ آپ نے بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائیں۔ ہمیں صرف مندرجہ ذیل نام ہی معلوم ہو سکے۔

۱۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی قدس سرہ کا مشہور قصیدہ ’’چراغ انس‘‘ (در مدح حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی قادری قدس سرہ) آپ نے مرتب کرکے شائع کیا تھا۔ (تذکرہ اکابر اہل سنت)

۲۔ مباحث الاذان۔ یہ کتاب بدایوں سے مولانا عبدالواحد عثمانی نے چھپوائی۔

۳۔ بریلوی تحریر کا شافی جواب (مطبوعہ بدایوں)

۴۔ تحقیق البیان (مطبوعہ بدایوں)

۵۔ علامہ مولانا عبدالقدیر بدایونی علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد نا کی سوانح حیات مرتب کی تھی جو چھپ نہ سکی۔

وصال:

مولانا عبدالصمد مقتدری ۱۵، رجب المرجب ۱۳۸۴ھ بمطابق ۲۰ نومبر ۱۹۶۴ء کو راہی جنت ہوئے۔ حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمۃ نے نماز جنازہ پڑھائی اور میوہ شاہ قبرستان (کراچی) میں سپرد خاک کئے گئے (بزرگان قادریہ)

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

تجویزوآراء