حضرت مولانا اکبر چشتی بصیرپوری

حضرت مولانا اکبر چشتی بصیرپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مولانا خواجہ محمد اکبر ابن مولانا خواجہ محمد مقیم ابن مولانا خواجہ محمد عظیم ابن خواجہ محمد یار(المعروف بہ حافظ بڈھا) ۹؍شوال بروز یکشنبہ ۱۲۸۲ھ؍۱۸۲۶ء کو تہجد کے وقت بصیر پو رمیں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم کے علاوہ شرح جامی تک کتب درسیہ کی تحصیل والد ماجد سے کی،مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہند کے مدارس کا قصد کیا،شملہ اور ڈلہوزی وغیرہ مقامات پر ممتاز علماء سے تکمیل کی، ڈہلوزی میں ایک قادری سہر وردی بزرگ سے کسب فیض کیا۔آپ تین مرتبی حج و زیارت کے شرف سے بہرہ ور ہوئے اور کئی کئی ماہ مدینہ طیبہ میں قیام پذیر رہے،تقریباً بائیس سال کے بعد واپس بصیر پور آئے۔پہلے والد ماجد خواجہ محمد مقیم(جو سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت تھے)سے بہت ہوئے،پھر حضرت خواجہ اللہ بخش توسنوی قدس سرہ العزیز کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے۔حضرت خواجہ تونسوی نے آپ کو غریب نواز کا لقب عطا کیا۔آپ نے بصیر پور میں جامع مسجد برنے والی(جو اَب مسجد خواجہ محمد اکبر کے نام سے مشہور ہے) میں مدرسہ قائم کیا،جہاں علیم و تدریس کے علاوہ عرصۂ دراز تک افتاء کے فرائض انجام دیتے رہے،آپ کی بہت سی عالانہ تصانیف فی الحال طبع نہیں ہو سکیں۔

۱۔ ثمرۃ الحیات

۲۔ یاقوت اکبر

۳۔ تحفۃ النبی

۴۔ تحفۂ محمدی،وغیرہ مشہور تصانیف ہیں۔

مولانا محمد صادق ابن مولانا صد الدین چشتی نظامی،مولانا ھافظ محمد رمضان بصیر پوری،مولانا عبد الرحمن (یکے والی)،مولانا جان محمد بصیر پوری اور مولانا نصیر الدین رکن پوری وغیر ہم آپ کے مشہور شاگرد ہوئے،آپ کے بہت سے خلفاء ہوئے،۱۶؍رجب المرجب،۸؍مئی(۱۳۳۵ھ؍۱۹۱۷ئ)کو آپ کا وصال ہوا،آپ کی کوئی اولاد نہیںہوئی، اس وقت ااپ کے چچا زاد بھائی مولانا خواجہ محمد سعد اللہ مرحوم کے صاحبزادے مولانا محمد ظہوراللہ خدمت دینی میں مصروف ہیں۔

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء