حضرت مولانا ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری

 

عالمی مبلغ اسلام علامہ ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن انصاری بن مولانا محمد خلیل انصاری ۱۲، شعبان المعظم ۱۳۳۳ھ بمطابق ۱۴، اگست ۱۹۱۴ء کو جمعہ کے دن مظفر نگر (یوپی ، بھارت ) میں پیدا ہوئے ۔

آپ کا سلسلہ نسب صحابی و میزبان رسول حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری سے ملتا ہے۔ آپ کے بزرگوں میں شیخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصاری رحمتہ اللہ علیہ ( ہراٗت۔ افغانستان ) اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کے حضرت مولانا کریم بخش انصاری المعروف میاں جی رحمیہ اللہ علیہ ( مظفر نگر بھارت ) اپنے دور کی مشہور شخصیات ہوئے ہیں ۔

تعلیم و تربیت :

۱۹۲۱ء میں آپ نے مدرسہ اسلامیہ مظفر نگر سے حفظ قرآن کی سند لی۔ اسی سال آپ کے والد ماجد مولانا محمد خلیل انصاری اپنے خاندان سمیت مظفر نگر سے میرٹھ جابسے ، یہاں علامہ انصاری نے مدرسہ اسلامیہ میرٹھ میں داخلہ لیا۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ۱۹۲۴ء میں پرائیویٹ طور پر انگریزی تعلیم حاصل کی اور بعد میں میرٹھ کالج میں داخلہ لیا۔ ۱۹۳۳ء میں آپ نے میرٹھ کالج سے ایف ۔ ایس ۔ ای کا امتحان پاس کیا اور اسی سال مدرسہ اسلامیہ میرٹھ سے فارغ التحصیل ہو کر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا ۔ ۱۹۳۵ء میں آپ نے بی ۔ ایس۔ ای کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا، دوسراگولڈ میڈل فلسفہ میں ۹۸ فی صد نمبر حاصل کرنے پر ملا۔ برصغیر میں فلسفہ میں اتنے نمبر حاصل کرنے کا نیار یکارڈ قائم کیا جواب تک برقرار ہے ۔ آپ نے علامہ سید سلیمان اشرف بہاری  صدرشعبہ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑ ھ کی نگرانی میں قرآن و حدیث کے علاوہ علم الکلام اور تصوف کی کتابون کا مطالعہ کیا۔ ۱۹۴۱ ء میں آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے علوم دینیہ کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ آپ اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی جانا چاہتے تھے کہ دوسری عالمی جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے نہ جاسکے ۔ اس کے بعد آپ نے ۱۹۳۹ء میں بیچولر آف تھیالوجی کا کورس اختیار کیا۔ ۱۹۴۲ء میں آپ نے میٹافزکس ، ایتھکس ، سیکالوجی ، ہسٹری آف فلاسفی اور مسلم فلاسفی میں ایم ۔ اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اسی سال آپ فلاسفیکل سوسائٹی آف علی گڑھ یونیورسٹی کے نائب صدر رہے اور اسی سال ماہ اگست میں عالمی شہرت یافتہ فلاسفر ڈاکٹر سید ظفر الحسن ڈائریکٹر آف ریسرچ چنے گئے ۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن کی زیر نگرانی آپ نے اسلامک مورل اور میٹا فزیکل فلاسفی میں ڈاکٹریٹ کے لئے ریسرچ شروع کی۔ ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے علامہ انصاری کے اس تحقیقی کام کی بہت تعریف کی، ان کے علاوہ ڈاکٹر سر ضیاء الدین وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی گڑھ نے کہا: انہیں یقین ہے کہ مولانا فضل الرحمن انصاری کی تحقیق فلاسفی فکر کے لئے بہت اہم ثابت ہو گی ۔ اسی سال آپ کو آفتاب ہوسٹل مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا وارڈن بنایا گیا، ۱۹۴۵ء تک آپ اس ہوسٹل کے وارڈن رہے۔

۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک آپ پی ، ایچ ، ڈی کے لئے تحقیق کرتے رہے۔ جب یہ تحقیق مکمل ہو گئی تو ان دنوں ہندوستان میں ہنگامے شروع ہو گئے ۔ آپ کے استاد ڈاکٹر سید ظفر الحسن کراچی چلے آئے، اس منتقلی میں ان کے پاس آپ کا گراں قدر مقالہ گم ہو گیا۔ پاکستان بننے کے تھوڑے عرصے بعد ۱۹۴۹ء میں ڈاکٹر سید ظفر الحسن کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح علامہ انصاری کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور پی ، ایچ ، ڈی کرنے سے محروم رہ گئے اس تحقیق کی دوسری نقل علامہ انصاری کی ذاتی لائبریری میں تھی ۔ جب آپ نے پاکستان ہجرت کی تو آپ کی لائبریری انتہا پسند ہندووٗں نے لوٹ لی یہ واقعہ نومبر ۱۹۴۷ء کا ہے ۔ اس طرح آپ کے دونوں مسود ے ضائع ہو گئے اور کئی سال کی محنت انیقہ اور تکلیف دہ تحقیق ضائع ہو گئی ۔ آپ نے اپنے طور پر سیاسیات اور اکنامکس میں دوسرا ایم ۔ اے کیا ۔ اس کے علاوہ فزیکل سائنس، میتھالوجی ، ہسٹری آف سولائیزیشن اینڈ کلچرز اور لاء کورسز میں بھی آپ کا وسیع مطالعہ تھا۔

شادی :

آپ کی ۱۹۳۶ء میں میرٹھ میں عالمی مبلغ اسلام ، تاجدار اہل سنت، حضرت علامہ الحاج عبدالعلیم صدیقی قادری ( والد علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ، کراچی ) کی بڑی صاحبزادی امۃ السبوح سے شادی ہوئی ۔ اس کے بطن سے چاربیٹیاں اور ایک بیٹا جناب مصطفی فاضل انصاری ( پی آئی اے میں افسر ہیں ) تولد ہوا ۔

پاکستان میں قیام :

تقسیم ہند کے بعد علامہ عبدالعلیم صدیقی اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان نقل مکانی کر کے آئے تھے ۔ آپ بھی نومبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان آئے اور کراچی میں مستقل رہائش اختیار کی۔

بیعت و خلافت :

۱۹۴۹ء میں علامہ عبدالعلیم صدیقی نے حرمین شریفین سے خط لکھ کر آپ کو بلایا۔ آپ نے اپنی تمام مصروفیات سے مستعفی ہو کر خط لکھا کہ جلد ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں ۔ امام احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ ، سفیر اسلام ، شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج عبدالعلیم صدیقی مدنی نے حطیم کعبہ میں آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ چشتیہ اور شاذلیہ میں بیعت کیا اور خلافت سے سر فراز فرمایا۔

المرکز الاسلامی کا قیام :

علامہ ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کی خواہش تھی کہ دنیا میں اسلامی تبلیغی تحریک کا جال بچھا دیا جائے، چنانچہ انہوں نے ۲۸، اگست ۱۹۵۸ء کو اپنی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک تنظیم ’’ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشن ‘‘ بنائی ۔ آپ نے تنظیم کیلئے ایک مرکز کی ضرورت محسوس کی ۔ کراچی میں اسلام کے موضوع پر انگلش میں مختصر اسباق کا اہتمام کیا یہ ان طلباء کے لئے تھا جو افریقہ ، برطانیہ ، کینیڈا ، اور جزائر عرب الہند( ویسٹ انڈیز ) سے آئے تھے بہت سے پاکستانی طلبہ بھی اس کورس میں شریک ہوئے ۔ ان طلباء کی تعلیم و تربیت کے لئے مرکز کی ضرورت در پیش تھی ۔ آپ نے ۱۹۵۹ء میں بلاک  bشمالی ناظم آباد کھنڈو گوٹھ میں ’’علیمیہ انسیٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز ‘‘؍جامعہ علیمیہ اسلامیہ ؍ اسلامک سینٹر ؍ المرکز الاسلامی کی بنیاد رکھی ۔ اس ادار ے نے جولائی ۱۹۶۴ء سے مکمل طور پر کام شروع کیا۔ ( تذکرہ ڈاکٹر فضل الرحمن ) المرکز الاسلامی کے پرنسپل شیخ محمد جعفر علیمی مرحوم ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں : ’’تعلیمی محاذ پر سوشل محاذ پر فیملی محاذ پر ضروری تھا کہ ہم ’’جامعہ علیمیہ ‘‘ قائم کریں اور ان کے جذبے کو ابھاریں کہ وہ مقامی طور پر زندہ رہیں ، کام کرتے رہیں ہم انہیں یہاں سے لٹریچر بھیجتے رہیں ، رسالے بھتیجے رہیں ۔ ہمارے دستور میں ایک شق ہے ( )(affiliationمصیبت زدہ کی امداد کرنا ) مولانا عبدالعلیم صدیقی اور مولانا فضل الرحمن انصاری نے دنیا بھر کے متعدد سفر کئے ان میں جو کنٹریکٹ ہیں ان میں جہاں جہاں جماعتیں تنظیمیں قائم ہوئیں انہوں نے ہم سے الحاق کیا اور ان کے ساتھ ہمارا تعاون اب تک چل رہا ہے۔ اور اس سے اسلام کو بڑا فائدہ پہنچا کہ وہاں کے مسلمان اب کافر ہونے سے بچ گئے اور وہاں کے غیر مسلمانوں کے شعائر کو قبول کرنے سے بچ گئے ۔ اب وہاں آپ جائیں تو آپ کو وہاں ایک اسلامی معاشرہ نظر آئے گا۔ ہم مسلمان تو کر لیتے ہیں لیکن معاشرے میں ہم نے کبھی اس کو آباد نہیں کیا۔ مولانا انصاری نے اس کی ایک مثال قائم کی کہ جہاں جس کو مسلمان کیا اس کو وہاں کام سے لگا دیتے ، فیملی کو آباد کرتے ۔

( ماہنامہ ساحل دسمبر ۱۹۹۲ء )    

عالمی خدمات :

۱۹۳۱ء مین آپ نے تقریبا سترہ سال کی عمر میں انگریزی میگزین ’’مسلم سٹنڈرڈ آف سیلون ‘‘اور ’’رئیل اسلام آف سنگاپور ‘‘ میں مضامین لکھنے شروع کئے ۔ ۱۹۳۲ء میں آپ نے پہلی کتاب  the becan light تصنیف کی ۔ یہ کتاب ہانگ کانگ کے ایک پادری کے اسلام پر جھوٹے الزامات کے جواب میں لکھی گئی تھی ۔ سنگاپور سے پہلا اسلامی رسالہ ماہنامہ ’’دی جینوئن اسلام ‘‘ انگریزی زبان میں اپنی ادارت میں جاری کیا۔ ملائشیا کی تمام مسلم تبلیغی سوسائیٹیوں کے کام کو یکجا کیا۔ مشرق بعید کی اسلامی تنظیموں کو منظم کیا۔ ۱۹۳۸ء میں ملائشیا کی قانون ساز اسمبلی میں ایک بل کی پیش کیا جس میں اسلامی قانون کی بالا دستی کو تسلیم کیا گیا ۔ ملائشیا کے تمام اخبارات و رسائل نے اس بل کی شدید مخالفت کی ۔ علامہ انصاری نے ’’سٹرٹیس ٹائم ‘‘ میں ہی ان کا جواب دیا۔ آپ کے دلائل اتنے مضبوط تھے کہ انہوں نے بل کے تمام مخالفوں کو خاموش کر دیا۔ ۱۹۳۹ء میں آپ برلن (جرمنی ) کی الیگزنڈر فون ہمبلٹ سٹفٹنگ یونیورسٹی میں بطور ریسرچ فیلو چنے گئے ۔ ۱۹۴۴ء میں آپ قائداعظم محمد علی جناح کے ارشاد پر ایجوکیشن پلاننگ کمیٹی کے رکن بنے اور ۱۹۴۶ء تک کمیٹی کے رکن رہے ۔ ۱۹۴۷ء میں آپ کا سوانحی خاکہ ’’بائیو افیکل انسائیکلو پیڈیا آف ورلڈ ‘‘ میں شامل کیا گیا، اس طرح آپ پوری دنیا میں مصنف اور صحافی کی حیثیت سے متعارف ہوئے ۔ ۱۹۴۸ء میں آپ کراچی میں سندھ انفارمیشن کے ایڈیٹر رہے اس طرح انہوں نے ایک مرتبہ پھر صحافت اور ایڈٹنگ میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ۱۹۵۲ء میں آپ جمعیت الفلاح کراچی کے آرگن ’’وائس آف اسلام ‘‘ کے مدیر بنے اور ۱۹۵۳ء تک اس عہدہ پر فائزر ہے ۔ اپریل ۱۹۵۴ء میں آپ نے لبنان میں منعقدہ ’’ورلڈ کنونشن آف مسلم اینڈ کرسچن ‘‘میں شرکت کی۔ ۱۹۵۷ء میں آپ نے دنیا کے سترہ (۱۷) ممالک ملائشیا، تھائی لینڈ، فلپائن ، ہانگ کانگ ، جاپان ، کینیڈا ، امریکہ ، ٹرینڈ اڈ ، ٹوبیگو، برٹش گیا نا ، سر ینام ( جنوبی امریکہ ) کے تمام معززین شہری ہندو مسلم ، عیسائی ، کیبنٹ کے وزارء ممبران پارلیمنٹ و اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری حکام کو ایک عصر انے پر مدعو کیا گیا جس کے مہمان خصوصی گورنر سر ینام جناب یا ن خان تبرگ تھے۔ اس موقع پر مولانا انصاری نے ایک مختصر لیکن جامع تقریر انگریزی میں کی۔ دارالحکومت ’’مارا مار یبو‘‘ کے شہریوں کی استدعا پر مولانا انصاری نے ایک پبلک ہال میں ’’اسلام اور کمیونزم ‘‘ کے موضوع پر جامع تقریر فرمائی۔ آپ نے سر ینام میں ’’حلقہ ارباب ثقافت ‘‘ قائم فرما کر اس کا اعلان فرمایا اور دیگر مقاصد کے ساتھ خصوصیت سے اس بات پر زور دیا کہ اس حلقہ کا خاص کام یہ ہو گا کہ ’’اسلامی علوم ادب کو ڈچ زبان میں منتقل کیا جائے اس لئے ڈچ زبان ہی یہاں کی موجود ہ سرکاری و عوامی زبان ہے۔ ۱۹۵۹ء میں نیو یارک ( امریکہ ) میں ’’ورلڈ پارلمنٹ آف ریلچن ‘‘ کے اجلاس میں شریک ہوئے ۔ ۱۹۵۴ء سے ۱۹۶۰ء تک سینٹ پیٹرک کالج ، سینٹ جو زف کالج اور کالج آف ہوم اکنامکس میں لیکچرار بھی رہے۔ ان تین مختلف کالجز میں اسلامی میٹا فزکس ، اسلامی اخلاقی فلسفہ ، اسلامی سیاسیات اور اسلامی اکنامکس پڑھاتے رہے۔ ان فرائض کے علاوہ آ پ کراچی یونیورسٹی میں لیکچرار رہے ۔ اسی سال آپ نے تیسرے عالمی تبلیغی دورہ کا آغاز کیا اور ملائشیا ، فلپائن ، ہانگ کانگ ، تائیوان ، جاپان ، کینیڈا ، امریکہ ، ٹرینڈ اڈ ، ٹوبیگو ، برٹش گیانا، سر ینام ( جنوبی امریکہ ) برطانیہ ،سوئٹزر لینڈ ، مصر ، اردن اور حجاز مقدس میں اسلام کے مختلف موضوعات پر لیکچرار دیئے ، یہ تبلیغی دورہ آٹھ ماہ تک جاری رہا۔ ۱۹۶۲ء میں آپ اکیڈمی آف اسلامک اسٹڈیز کوئٹہ کے پروفیسر تھے۔ ۱۹۶۳ء میں آپ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور میں صدر شعبہ تصوف و اخلاق مقرر ہوئے لیکن دوسر ے فرائض کے پیش نظر آپ نے اس ملازمت کو اختیار نہ کیا۔ ۱۹۶۴ء میں آپ نے کراچی سے اردو اور گجراتی زبان میں ماہنامہ ’’منزل ‘‘ جاری کیا اور چوتھی مرتبہ دنیا کے مختلف ممالک کا تبلیغی دورہ کیا جوکہ پانچ ماہ تک جاری رہا ۔ اس مرتبہ آپ نے ہانگ کانگ ، جاپان ، ٹرینڈ اڈ ، ٹو بیگو ، برٹش گیانا ، سر ینام ، کینیڈا اور برطانیہ کا دورہ کیا۔ ان ممالک میں ممتاز مسیحی افراد کو مشرف با اسلام فرمانے کے علاوہ ان ممالک میں لاکھوں افراد کے اجتماعات سے اپنی بصیرت افروز تقاریر اور مذاکرات کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچایا ۔ پینل شہر ( ٹرینڈ اڈ ) میں مولانا انصاری نے ایک عظیم الشان نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جو پندرہ ہزار ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی جارہی ہے ۔ مولانا انصاری نے ٹرینڈ اڈ اور ٹوبیگو ( اسپین ) کے مسلمانوں کے لئے ممتاز علمائے کرام کی ایک مجلس ’’مسلم ایڈوائزری کونسل ‘‘کے نام سے تشکیل فرمائی جس کی ضرورت حضرت مولانا شیخ حاجی رکن الدین رحمتہ اللہ علیہ قاضی و شیخ الاسلام ٹرینڈ اڈ و ٹو کے انتقال پر ملال کی وجہ سے پیش آئی ۔ ۱۹۶۹ء میں آپ نے دنیا کا پانچواں تبلیغی دورہ کیا۔ یہ دورہ تقریبا چار ماہ جاری رہا۔ جن ممالک میں آپ گئے ان کے نام یہ ہیں : سوئٹرز لینڈ، مغربی جرمنی ، ہالینڈ، بیلجیم ،برطانیہ، امریکہ ، بار برڈوس،  ٹرینڈاڈ ، ٹوبا گو ، سر ینام ، گنی ، وینزویلا، جمیکا، کینیڈا، جاپان، سنگاپور، ملائیشیا، انڈو نیشیا وغیرہ ۔ اگست ستمبر ۱۹۷۰ء میں آپ نے جنوبی افریقہ کا یاد گار تبلیغی دورہ کیا یہاں آپ نے ’’وائٹ سٹیلن بش یونیورسٹی آف کیپ ٹاوٗ ن ‘‘ میں خطاب کیا۔ یہ جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے یہاں پر صرف منتخب قسم کے اسکالر تقریر کر سکتے ہیں ۔ ۱۹۷۲ء میں آپ ایک ماہر اسلامک اسٹڈیز کی حیثیت سے بورڈ آف اسلامک اسٹڈیز کراچی یونیورسٹی میں منتخب ہوئے اور آخر وقت تک اس شعبہ سے منسلک رہے ۔ نیز آ پ اسی شعبہ میں ڈائر یکٹر آف ریسرچ بھی رہے۔ اسی سال مئی کے مہینے میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے ایک وفد کے سر براہ کی حیثیت سے یوگنڈا ( افریقہ ) کے دورہ پر بھیجا گیا۔

۱۹۷۳ء میں آپ نے بحر ہند کے جزیرے سائیکلس کا تبلیغی دورہ کیا، علامہ انصاری وہ پہلے مسلمان مبلغ تھے جنہوں نے پہلی بار اس جزیرہ کا دورہ کیا۔

دی قرآنک :

۱۹۷۳ء میں آپ نے انگریزی میں اسلام پر ایک جامع وعظیم شاہکار کتاب ’’دی قرآنک فاوٗنڈیشن اینڈاسٹریکچر آف مسلم سوسائٹی ‘‘ تحریر فرمائی ۔ یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ہر جلد نو سو ( ۹۰۰) صفحات سے زیادہ ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز کتاب ہے جس کی افتتاحی تقریب یکم دسمبر ۱۹۷۳ء کو ہوئی ۔ پاکستان کے بڑے بڑے علماء دانشور اور مفکرین نے اس کتاب اور اس کے مصنف کو خراج تحسین پیش کیا۔

ممتاز قانون دان مسٹر اے کے بروہی مرحوم اپنے تاثرات میں رقمطراز ہیں : میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ کتاب قرآن کو سمجھنے میں معاون ہے اور قرآن کے متعلق جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ، ان میں ایک گراں قدر اضافہ ہے، علامہ اقبال کے انگریزی خطبات ’’تشکیل جدید الہیات‘‘ کے بعد اگر کوئی دوسری کتاب میری نظر میں آتی ہے تو و ہ یہ کتاب ہے ‘‘۔پروفیسر ڈاکٹر عثمان امین قاہرہ یونیورسٹی ( مصر ) رقمطراز ہیں : قرآن حکیم اور اسلامی ثقافت کے متعلق اصولوں پر یہ ایک جامع کتاب ہے‘‘۔

پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد یونیورسٹی آف کراچی لکھتے ہیں : فی الحقیقت قرآن کے اخلاقی ضابطہ قانون پر یہ جامع کتاب ہے اور میرے علم کے مطابق اتنی وسیع النظر کتاب اب تک مسلم ادبی تاریخ میں وضع نہیں کی گئی ‘‘۔

نامور قانون دان خالد اسحاق مرحوم ایڈوکیٹ سپریم کورٹ پاکستان لکھتے ہیں : بلاشبہ یہ اپنی نوعیت کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ مصنف نے نہ صرف یہود و نصاریٰ کے اعتراض پر دلائل دیئے ہیں بلکہ کتاب کا ہر جملہ بالواسطہ اعتراضات پر جواب لئے ہوئے ہے ‘‘۔

تصنیف و تالیف :

علامہ ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری قادری علیمی نے بلند پایہ علمی تحقیقی و ادبی کتب تحریر فرمائیں ۔ جو بیشتر انگریزی زبان میں ہیں ۔

٭     قرآن حکیم کا عمرانی فلسفہ ( سورۃ العصر کی تفسیر ) مطبوعہ المرکز الاسلامی

٭     اسلام اور مارکس ازم

 وصال :

ضیغم اسلام حضرت علامہ فضل الرحمن انصاری بلاشبہ اسلام کے بلند پایہ صوفی ، عظیم مبلغ ، نامور ادیب اور مشہور خطیب و فلسفی تھے۔ آپ کو نہ صرف اردو بلکہ عر بی ، فارسی ، انگریزی اور دنیا کی کئی دوسری زبانوں میں تحریر و تقریر پر پورا عبور حاصل تھا۔ تعلیم یافتہ طبقہ آپ کی سحر انگیز علمی و روحانی شخصیت سے بہت متاثر تھا۔ آپ پاکستان سے باہر افریقی اور یورپی ممالک میں اسلام کی تبلیغی خدمات کے باعث مشہور تھے۔ شیخ جعفر بتاتے ہیں : وہ اپنے وعظ کو بحیثیت ایک واعظ کے اور درسگاہ کے وقت کو پاس کرنے کیلئے استعمال نہیں کرتے تھے ، جیسے بعض علماء کرتے تھے اور تقریریں کر کے چلے جاتے تھے اس طرح انہوں نے کبھی نہیں کیا۔ جن ملکوں میں اسلامی شعار نہیں وہاں انہوں نے قیام کر کے اسلامی معاشرت قائم کی لوگوں کوا سلامی لباس سلوانا، پہنانا سکھایا ، اسلامی اخلاق و آداب سے باقاعدہ ایک ماحول تشکیل دیا۔ مولانا نے اسلام کی راہ میں جہد مسلسل کے ذریعے اپنی جان کھپادی۔ ( ماہنامہ ساحل ) ۱۹۷۴ء میں علامہ انصاری دل اور پھیپھڑوں کی وجہ سے علیل ہو گئے ، اس کے علاوہ انہیں ذیابیطس ( شوگر ) کی بھی تکلیف تھی ، ۳، مئی کو انہیں نیشنل انسٹی ٹیوٹ ہسپتال میں داخل کرایا گیا، ۳۰، مئی کو ڈاکٹر نے بتایا کہ مولانا کے دونوں گردوں نے کام کرنا بند کردیا ہے ۔ اس کے بعد احباب آپ کو گھر لے آئے تاکہ ہومیو پیتھک علاج کی کوشش کی جائے ، مگر وقت آپہنچا تھا۔ ۱۱، جمادی الاول ۱۳۹۴ھ بمطابق ۳، جون ۱۹۷۴ء کو بروز پیردس بجکر پندرہ منٹ پر ساٹھ سال کی عمر میں ان کی نیک روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ نماز جنازہ مولانا سید محمد کریم الجیلانی نے پڑھائی ۔ آپ کا مزار شریف المرکز الاسلامی شمالی ناظم آباد کراچی کے احاطہ میں ہے۔

تبلیغ سے بلند کی اسلام کی شان

تعلیم کی شمعیں بھی جلائیں ہر آن

پوچھو! کوئی محرمان علم دیں سے

’’جولاں کہ علم دین تھے فضل الرحمن‘‘

( ۱۹۷۴ء )


(انوارِ علماءِ اہلسنت )

تجویزوآراء