حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی

حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ

نادرۃ الزمان علامہ فضل حق ۱۲۱۲ھ میں خیر آباد میں پیدا ہوئے، والد ماجد اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث سے ۱۳سال کی عمر میں درسیات پڑھ کر فراغت حاصل کی، حضرت شاہ دھومن دہلوی سے سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں مرید تھے، حضرت علامہ علوم عقلیہ کے مسلم الثبوت امام ہی نہ تھے بلکہ عربی کے فقید المثال ناثم وناشر بھی تھے، مولوی رحمان علی نے تذکرۂ علمائے ہند میں لکھا ہے کہ اُن کا عربی کا کلام چار ہزار اشعار سے زیادہ پر مشتمل ہے، کمشنر دہلی کے دفتر میں پیشکار تھے،عرصہ تک ریاست جھجر الور ثونک، اور رام پور کے درباروں کی رونق وزینت رہے، ۱۸۵۷ء میں لکھنؤ میں صدر الصدور تھے، جنگ آزادی میں مجاہدین کے قائد رہے،گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، دریائے شور کی سزا ہوئی، انڈمان بھیجے گئے، وہیں ۱۲صفر ۱۲۷۸ھ میں انتقال ہوا، جزیرۂ انڈمان میں مدفون ہوئے

حضرت علامہ اپنے دل میں حمایت اسلام کا خاص جذبہ رکھتے تھے، مولوی اسماعیل دہلوی نے جب اپنے خنجر طلم سے مسلمانوں کے دین وایمان پر حملہ کرنا چاہا اور مسئلہ امکان کذب اور امکان نظیر آنحضرتﷺ کا قفیہ کھڑا کیا، اور بات بات پر مسلمانوں کو مشرک و مرتد کہنا شروع کیا تو پہلے علامہ نے فہائش کی، ہر طرح سمجھایا، لیکن وہ نہ مانے تو تحریری اور تقریری رد فرمایا،

حضرت علامہ کے حالات راقم السطور نے اپنی کتاب ‘‘علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کا عربی کلام’’ میں تفصیل اور تحقیق سے لکھے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔ حضرت تاج الفحول مولانا شاہ عبدالقادر بد ایونی، حضرت مولانا شاہ عبد الھق ابن مولانا شاہ غلام رسول، رسول نما کانپوری، حضرت مولانا سید عبداللہ بلگرامی، حضرت مولانا سید ہدایت علی بریلوی، حضرت مولانا شاہ خیر الدین دہلوی حضرت استاذ العلماء مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، حضرت شمس العلماء مولانا عبدالحق خیر آبادی فرزند اجمند نادرۂ روزگار علماء شاگرد رشید تھے۔

(اکمل التاریک، باغی ہندوستان، خیر ﷜آباد کی ایک جھلک،تذکرہ علمائے ہند)

مولانا فضل حق بن فضل امام عمر خیر آبادی: بڑے عالم فاضل،فقیہ، محدث،خصوصً علم ادب و لغت و حکمت و فلسفہ میں گویا امام وشیخ رئیس تھے۔ ۱۲۱۲ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کا نسب حضرت عمر بن الخطاب پر منتہیٰ ہوتا ہے۔علوم معقول و منقول اپنےوالد ماجد سے حاصل کیے اور حدیث کو شاہ عبد القادر  سے سنا، قران شریف کو چار ماہ مین حفظ کیا،تیرہ سال کی عمر مین تمام علوم کی تحصیل سے فراغت پائی دور دور سے لوگ آپ کے درس میں آتے تھے چنانچہ آپ سے ایک جماعت کثیرہ نے علم اخذ کیا۔معقولات میں تصنیفات معتبرہ کیں اور دہلی وغیرہ میں مناصب جلیلہ پر مقرر رہےعربی و فارسی میں نظم رائق اور نثر فائق کہتے تھے،چار ہزار اشعار آپ کے شمار کیے گئے ہیں اور اکثر فصائد آپ کے مدح آنحضرت اور ہجو کفار میں ہیں،آپ کے اور استاذی مفتی صدر الدین خاں صدر الصدور دہلوی کے درمیان بڑی دوستی تھی۔

آپ کی تصنیفات سے رسالہ الجنسالعالی فی شرح جوہر الغالی،حاشیہ شرح سلم قاضی مبارک،حاشیہ افق المبین اور حاشیہ تلخیص الشفاء اور ہدیہ سعیدیہ حکمت طبیعیہ میں اور رسالہ تحقیق العلوم والمعلوم اور رسالہ روض المجودفی تحقیقی حقیقۃ الوجو، رسالہ تحقیقی الاجسام،رسالہ تحقیق الکلی الطبعی،رسالۃ التشکیک،رسالہ اطاہیات، تاریخ فتنہ ہندوستان وغیرہ ہیں۔وفات آپ جزیرہ رنگون[1] میں بحالت قید سرکان انگریز ۱۲؍ماہ صفر ۱۲۷۸ھ میں واقع ہوئی۔

1۔ علامہ فضل ھق بن فضل امام بن محمد ارشد بن محمد صالح بن عبد الواحد بن عبد الماجد بن قاضی صدر الدین ہرگامی ثم خیر آبادی کی وفات کالاپانی(جزائر انڈیمان) میں واقع ہوئی۔

(حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء