حضرت مولانا ہادی حسن نعیمی

حضرت مولانا ہادی حسن نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

خطیب اسلام مولانا محمد ہادی حسن نعیمی بن صوفی مسافر علی ایوبی انصاری غیاث پور ضلع چھپرا صوبہ بہار ( انڈیا) میں تولد ہوئے۔ اور ضلع ہگلی ( بنگال ) میں زمینداری کرتے تھے۔

تعلیم و تربیت:

ابتدائی تعلیم کلکتہ ۲۴ پر گنہ جگدل کی جامع مسجد میں مولانا عبدالستار ہاشمی سے حاصل کی ، پھر یوپی اور بہار کے مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں داخلہ لیا ،جہاں صدر الافاضل ، مفسر قرآن ، نعیم ملت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی ؒ سے دورہ حدیث پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔

بیعت :

آپ سلسلہ قادریہ اشرفیہ میں حضرت صدر الافاضل سے بیعت ہوئے اور ڈھاکہ ( بنگلہ دیش) کے قیام کے دوران حضرت پیر مولانا عبدالسلام نقشبندی سے متاثر ہوئے تو ان کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔

اولاد :

آپ کو پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تولد ہوئیں ۔

۱۔ مولانا محمد مظاہر حسن ایوبی نعیمی خطیب جامع مسجد ایئر پورٹ

۲۔ مختار حسن

۳۔ مرغوب حسن

۴۔ منظور حسنین

۵۔ حکیم محمد اختر الحسنین عطاری ، مالک قادری دواخانہ ، اسٹار گیٹ شاہراہ فیصل ، کراچی

 

تحریک پاکستان :

آپ نے تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ اہل سنت کے ساتھ بھر پور کردار ادا کیا، قیام پاکستان کی تحریک کو مضبوط بنانے کیلئے ملک گیر دورے کئے ، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کی صدا گھر گھر پہنچانے کیلئے تن من دھن کی قربانیاں دیں ۔ آپ کی انہی قربانیوں کے پیش نظر آپکو ۲۴ پر گنہ کے مسلم لیگ کا صدر اور گنائزر مقرر کیا گیا۔

۲۱ مارچ ۱۹۵۰ء کو مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے سید پور ضلع رنگ پور میں انڈیا سے نقل مکانی کرکے آئے۔ یہاں بھی آپ چین سے نہیںبیٹھے دینی علمی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ سردار عبدالرب نشتر آپ کے لیگی دوست تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران مل کر کام کیا تھا سید پور کے علاقہ میں آپ نے نشتر صٓحب سے مل کر ۵۰۰ سو گھروں کی آباد کاری کرائی۔ یہ گھر ان مہاجرین کو دلائے جو کہ سید پور (بنگلہ دیش) نقل مکانی کر کے آئے تھے۔

پاکستان:

جب ہندو بنیئے کی سازش سے تحت پاکستان کا بازو ٹوٹا، مشرقی پاکستان جداگانہ ملک کا نعرہ لگا کر بنگلہ دیش بن گیا ت ومولانا ۱۹۷۲ء میں کراچی تشریف لے آئے اور ڈرگ کالونی میں کرایہ کے مکان میں رہائش اختیار کی اور چند ماہ کے بعد سی، اے ، اے کی جامع مسجد (ایئر پورٹ) میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے اور یہاں پر سرکاری کوارٹر میں رہائش اختیار کی۔

امامت و خطابت:

آپ نے ۲۴ پر گنہ عادل پور (انڈیا) کی جامع مسجد سے خطابت و امامت کا آغاز کیا۔ مسجد کے متصل مدرسہ کو چلاتے تھے۔

سید پور ضلع رنگ پور (بنگلہ دیش) میں بھی امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی سر انجام دیئے۔ آگے چل کر سید پور بانس باری میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذریعہ دینی علمی و فلاحی حدمات سرانجام دیتے رہے ان خدمات میں سر فہرست دینی درسگاہ ہے جو کہ آپ نے ’’جامعہ رضویہ اہل سنت و جماعت‘‘ کے نام سے قائم فرمائی جو کہ آج بھی دنی خدمات میں پیش پیش ہے اور آپ کیلئے صدقہ جاریہ ہے۔

جس وقت آپ نے جامع رضویہ کی بنیاد رکھی تو اس علاقہ میں وہابیت کا راج تھا ، ان کا مدرسہ تھا، مدرسہ کیلئے انہوں نے ڈھیر سارے ڈبے چندے کیلئے بنوائے تھے پھر ہر ایک گھر پر دو ڈبے رکھوا کر انہیں ترغیب دی گئی کہ آپ لوگ روزانہ روٹی چاول کھاتے ہیں لہٰذا روزانہ ایک ڈبہ میں ایک مٹھی بھر چاول کی دوسرے ڈبے میں ایک مٹھی آٹے کی ڈٓل لیا کریں اس طرح مدسہ کو کافی امداد مل جاتی تھی۔

آپ نے مدرسہ قائم کیا تو جلسہ کیا جس میں دور دراز علاقوں سے عوام اہل سنت جمع ہوئے آپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حٰرت میں ڈٓل دیا کہ ہمیں مدرسہ کیلئے آپ کے آٹے اور چاول کی ضرورت نہیں، ہم آپ غریب لوگوں پر بھاری ذمہ داری عائد نہیں کریں گے لیکن صرف اتنی گزارش ہے کہ آپ ہفتہ میں دو دن اتوار اورع جمع گھر میں گوشت پکاتے ہیں ہم جامعہ رضویہ کے ڈبے آپ کے گھر رکھواتے ہیں آپ وہ ہڈیاں دھو کر ڈبہ میں ڈال لیا کریں۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ نے ہڈیوں کے کارخانے سے بات کی اور وہ تمام ہڈیاں بیچ کر اس سے حاصل کردہ رقم سے مدرسہ کی دیواریں بنوائیں۔ یہ جذبہ دیکھ کر حاجی عابد حسین اور دیگر احباب اہلسنّت نے خطیر قم پیش کی جس سے مدرسہ کے سات کمروں پر چھت ڈالی گئی۔

اس طرح جہاں بھی آپ رہے ایک مجاہد کی طرح رہے ار بھر پور بیدار مغزی سے اہل سنت و جماعت کی ترقی و ترویج کیلئے خلوص و جذبہ کے ساتھ کام کرتے رہے۔

کراچی میں آپ نے تقریباً گیارہ سال کا مختصر عرصہ گزارا اس دوران بھی خاموش نہیں بیٹھے سول ایوی ایشن کی چھوٹی مسجد کو شہید کراکے خوبصورت جامع مسجد بنانے میں کامیاب ہوئے جہاں آپ کے صاحبزادے امام و خطیب ہیں۔

تصنیف و تالیف:

آپ کا تمام اثاثہ اور کتب خانہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں رہ گیا۔ آپ جیسے صٓحب درد عالم دین، جادو بیان خطیب، باذوق شاعر، حاذق حکیم اور تعمیری سوچ کے حامل شخصیت سے بعید نہیں ہے کہ بھارت کے قیام کے دوران اور بنگلہ دیش کے بارہ سال کے قیام کے دوران تصنیف و تالیف کے میدان میں کام نہ کیا ہو اور یقیناً جامعہ نعیمیہ مرادآباد کے ترجمان ’’سواد الاعظم‘‘ میں آپ کے علمی و فکری مضامین بھی شائع ہوئے ہوں گے۔ بہر حال تمام مواد محفوظ نہیں حالات کی نظر ہوگیا۔ اپنوں کی غلفت کا شکار ہوگیا۔

آپ کے صاحبزادے مظاہر حسن صٓحب کے پاس آپ کے دو قلمی رسائل محفوظ ہیں۔ انہوں نے مجھے دکھائے جس کے مطالعہ سے مولانا کی علمی شخصیت اور اجاگر ہوئی۔ کیونکہ تحریر انسان کا عکس ہوتی ہے اللہ کرے مولانا مظاہر صاحب ان رسائل کی اشاعت میں کامیاب ہوں۔

۱۔ فیض سرکار فضائل ابرار محررہ ۱۳۸۱ھ/ ۱۹۶۱ء

۲۔ فیض سرکار زیارت مزار محررہ ۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء

سن سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ نے مذکورہ دونوں رسائل سید پور قیام کے دوران تحریر فرمائے تھے۔

شاعری:

مولان اسید نعیم الدین مراد آبادی پر رب کریم کا خاص فضل و کرم تھا کہ ان کے تربیت یافتہ شاگرد تمام خوبیوں کے جامع تھے۔ عالم، فاضؒ ، مدرس، خطیب، حکیم، مناظر، مدبر، سیاستدان، شاعر، صحافی، محقق، مصنف وغیرہ تمام خصائل پر حاوی تھے مثلاً: مفتی احمدیار خان نعیمی، مفتی غلام محی الدین نعیمی ، مفتی سید غلام معین الدین نعیمی، تاج العلماء محمد عمر نعیمی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح مولانا ہادی حسن نعیمی بھی اسی دریائے نعیم سے سیراب تھے لہٰذا مولانا شاعری کا پاکیزہ ذوق بھی رکھتے تھے لیکن آپ کا کلام بھی حالات کی نذر ہوگیا۔

انہوں نے سید پور کے نوجوانوں کے اسرار پر ایک نظم لکھی تھی اور نوجوان رمضان المبارک میں سحری کے وقت یہ اشعار پڑھ کر مسلمانوںکو جگاتے تھے۔جس کے دو مصرعے آپ کے صاحبزادے کو یاد ہیں وہ نذر قارئین ہے!

حسن خوباں چلا، ماہ تاباں چلا، حق کا مہماں چلا

الوداع الوداع الوداع الوداع

دل سپیتا، سوَد ، چشم گریاں، نالہ بر لب، کند ہر مسلمان

حسن خوباں چلا، ماہ تاباں چلا، حق کا مہماں چلا

الوداع الوداع الوداع الوداع

وصال:

حضرت مولانا ہادی حسن نعیمی نے ۲۱ ، جمادی الآخر ۱۴۰۴ھ/ ۲۵ جنوری ۱۹۸۴ء بروز بھد ۷۵ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ امیر دعوت اسلامی حضرت مولانا محمد الیاس عطارؔ قادری نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے اور شاہ فیصل کالونی گیٹ والے قبرستان میں مدفون ہوئے۔

وہ تحریک پاکستان کے سر گرم کارکن تھے، وہ قیام پاکستان کے چشم دی گواہ تھے ان کے سینہ میں نہ معلوم کتنے راز، حقائق اور مشاہدے پوشیدہ تھے ، لیکن ان کے انتقال سے وہ سب کچھ مرحوم کے ساتھ دفن ہوگیا۔ کاش ! ان کی زندگی میں ان کی شخصیت پر کام ہوتا۔

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )

تجویزوآراء