خواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی

حالاتِ مبارکہ

شیخ المشائخ، غیاث العاشقین، سند الکاملین، محبّ اللہ بالکمال، خواجۂ خواجگان، حضرت سیدنا

خواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی

نام و نسب:

آپ کا اسمِ گرامی حضرت محمد جمال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اور آپ کے والد مکرم کا نام محمد یوسف اور آپ کے دادا کا نام حافظ عبد الرشید تھا۔ آپ کا اصلی وطن "آوان قار" تھا اور آپ کی ذات آوان (المشہور اعوان) تھی۔

آپ کے دادا "آوان قار" کے علاقے سے ہجرت کرکے ملتان شریف تشریف لائے اور قلعہ کہنہ ملتان شریف کی شرقی جانب قیام فرمایا۔

سلسلہء تعلیم:

آپ نے قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد علومِ دینیہ کی تحصیل کی طرف توجہ کی اور درجہء کمال کو پہنچے، انتہائی ذہین اور ذکی الطبع تھے، چنانچہ آپ سے اگلی کلاس کے طلباء کو بھی آپ سے مباحثہ کی جرات نہیں ہوتی تھی۔

بیعت و خلافت:

وقت گزرنے کےساتھ ساتھ جب آپ کی توجہ مالکِ حقیقی کی طرف مبذول ہوئی تو آپ کے دل میں کسی ولی اللہ کے ہاتھ پر بیعت ہونے کا شوق پیدا ہوا، لہذا آپ کی چودہ تاریخ کو شیخ الاسلام و المسلمین حضرتِ شاہ رکن الدین والعالم سہروردی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر حاضری دیتے اور ساری رات اعتکاف میں گزارتے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شیخ الاسلام حضرتِ شاہ رکن عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے حضرتِ قدوۃ الاولیاء، شمس العرفاء خواجہء خواجگان، حضرتِ قبلہء عالم خواجہء خواجگان، حضرتِ قبلہء عالم خواجہ نور محمد مہاوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شبیہِ مبارک خواب میں دکھاتے ہوئے فرمایا کہ:

"یہ"نور محمد" ہیں اور مہار شریف میں قیام پذیر ہیں، اِن کی خدمت میں حاضری دو اور انہیں کے ہاتھ پر بیعت کرلو"۔

جونہی آپ نیند سے بیدار ہوئے فورا ً مہار شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب آپ حضرت قبلہء عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے کچھ قدم آگے چل کر حضرت قبلہء عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استقبال فرمایا اور پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں؟ اور آپ کا وطن کہاں ہے؟ آپ نے عرض کی حضور! میرا وطن ملتان ہے اور میں آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہونے کی غرض سے آیا ہوں، چنانچہ حضور قبلہء عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بیعت سے سرفراز فرمایا۔

اس کے بعد حضرت حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرشدِ پاک کے ارشادات کی روشنی میں ریاضت و عبادت میں مشغول رہے۔ عرصہء دراز تک سفر و حضر میں اپنے شیخ کے ساتھ رہے حتی کہ معرفت کے درجاتِ اعلیٰ پر پہنچے۔

مرشد کی عنایات:

"اسرار کمالیہ" میں خود حضرت حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل ہے، فرماتے ہیں:

"ایک بار اجمیر شریف کے سفر میں میرے جوتے پرانے تھے اور چلنے میں وقت ہوتی تھی کہ اچانک ایک آدمی نے حضور قبلہء عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں نئے جوتے پیش کیے تو میں نے سوچا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ حضور اپنے پرانے جوتے مجھے عنایت فرمادیں اور خود نئے جوتے زیبِ پا فرمالیں، لیکن آپ نے وہ جوتے ایک اور خادم کو عنایت فرمادیئے، میں نے سوچا اس میں بھی کوئی حکمت ہوگی۔"

جب سفر ختم ہوا اور آپ اپنے دولت سرائے پر پہنچے تو آپ نے کپڑوں کا ایک نیا جوڑا مرحمت فرمایا اور ساتھ ہی گھوڑا جس پر آپ سوار تھے وہ بھی عنایت فرمایا نیز باطنی نعمتعوں سے مالا مال فرما کر حکم فرمایا کہ"اب آپ ملتان چلے جاو"۔

روایت ہے کہ:

ایک بار بہت سے لوگ حضور قبلہء عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بغرضِ زیارت جمع ہوگئے، آپ نے لانگری غلام رسول سے دریافت فرمایا کہ ان سب نے کھانا کھالیا ہے؟ غلام رسول نے عرض کی"حضور! سب نے کھالیا ہے مگر حضرت حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابھی تک تناول نہیں فرمایا" آپ نے فرمایا: آپ نے فرمایا: "عجیب بات ہے کہ جو شخص پورے فقر (درویشی) کا بوجھ اٹھانے آیا ہے تم نے اس کو باابھی تک کھانا ہی نہیں دیا"۔

چند علمی نکات:

سید زاہد شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ:

ایک روز آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ قرآن مجید کی آیتہِ کریمہ "وَجَزَاءُ سَیِّئۃٍ سَیِّئۃ  مِثلُھا" کے دو مفہوم ہیں ایک ظاہری ایک باطنی۔

ظاہری مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی سے زیادتی کرے اُسی قدر زیادتی اُس کے ساتھ کی جائے اور باطنی مطلب جس کو اہل اللہ مراد لیتے ہیں یہ ہے کہ بدی کے بدلے بدی کرنا گناہ ہے بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کردینا چاہیے۔

ایک دن آپ دستر خوان پر بیٹھے کھانا تناول فرمارہے تھے کہ اسی دوران آپ نے حاضرین سے سوال فرمایا کہ حدیث شریف میں آتا ہے "لِکَلِّ شَیءِ سِترّ وَللطِّعامِ اَستار"(ہر چیز کا یک پردہ ہے اور طعام کے لیے کئی پردے ہیں) اس کا مطلب کیا ہوگا؟ انہوں نے عرض کی "کھانے کے وقت نظر غیر سے مکمل پردہ کرنا چاہیئے"۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کھانا جب سامنے آئے تو اعتراض و تنقید کی نظر سے اسے پردہ میں رکھا جائے یعنی جو کچھ بھی ہو خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے تناول کرنا چاہیے۔

ایک دن آپ نے بطورِ خوش طبعی مجھ(سید زاہد شاہ صاحب) سے دریافت فرمایا کہ اس مصرع کا مطلب کیا ہوگا "وَضور ادروِضو کردہ وُضو کن" میں نے عرض کی حضور! آپ ہی ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمائیں، آپ نے فرمایا: "پہلے لفظ "وضو" واو ہر زبر ہے مراد وضو کا پانی اور دوسرے لفظِ "وضو" کے نیچے زیر ہے، اس سے مرادوضو کا برتن اور تیسرے لفظِ "وضو" کی واو پر پیش ہے، اس سے مراد وضو کرنا ہے۔ یعنی وضو کا پانی وضو کے برتن میں لے کر وضو کرو۔

اسی موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا "الوضوءُ سِلاحُ المومنین"(وضو مومنوں کا اسلحہ ہے) آپ نے فرمایا ہمیشہ باوجود رہنے سے مصائب اور تنگیء رزق قریب نہیں پھٹکتی۔

آپ کے معمولات:

آپ کا معمول تھا کہ ظہر و عشاء کے وضو کے بعد فوراً کنگھی فرمایا کرتے تھے اس  طرح کہ پہلے دائیں ابرو پر، پھر بائیں پر، اس کے بعد داڑھی کی دائیں جانب پھر بائیں جاب، پھر درمیان میں کنگھی فرماتے اور اسی دوران سورۃ "الم نشرح" پڑھتے اور فرمایا کرتے کہ اس عمل سے رزق و سعت اور قرض کی ادائیگی آسان ہو جاتی ہے، حدیث شریف میں اس کی وضاحت ہے۔

نیز آپ وضو میں مسواک ضرور فرماتے اور ساتھ ہی فرماتے لا وُضوءَ لِمَن لا سِواکَ لہ جو شخص مسواک نہیں کرتا اس کا وضو مکمل نہیں ہوتا۔

خلافت و اجازت:

روایت ہے کہ:

جب حضور قبلہء عالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرتِ محبِ اللہ بالکمال حافظ جمال صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت سے نواز اور آپ کو ملتان شریف جانے کا حکم دیا تو حضرت حافظ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی حضور! وہاں حضرت غوث العالمین غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکمل راج ہے، اگر کوئی اور سلسلہ والا ملتان میں اپنا مرکز بنانا چاہے تو آپ اُسے پسند نہیں فرماتے۔

حضور قبلہء عالم مہاوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: حافظ صاحب! ایک رات صبر فرمالیں۔

صبح کو آپ نے ارشاد فرمایا:

"آج کی رات حضرت محبّ النبی، مولانا فخر الدین دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سید العالنبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ملتان ہم کو لے کردے دیا ہے، آپ جائیں اور حضرت غوث العالمین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار شریف ہی میں بیعت کریں وہ اب آپ کو نہیں روکیں گے"

کرامت:

روایت ہے کہ ایک بار آپ کے کسی دوستدار نے آپ کے آستانے پر رات گزارنے کا ارادہ کیا، صرف اس لیے تاکہ دیکھے کہ آپ کے رات کے معمولات کیا ہیں، وہ فرماتے ہیں:

جب آدھی رات ہوئی تو آپ اپنی دولت سرائے سے باہر تشریف لائے اور قلعہ کہنہ کی طرف روانہ ہوئے، وہ بھی چپکے چپکے آپ کے پیچھے چلتا رہا، آپ سیدھے حضرت شیخ الاسلام و المسلمین، غوث العالمین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار شریف پر تشریف لائے، دربار شریف کا دروازہ اُس وقت بند تھا، جوں ہی آپ دروازے کے قریب ہوئے تالا خود بخود کھل گیا اور آپ اندر تشریف لے گئے، کچھ دیر بعد واپس تشریف لائے اور شیخ الاسلام والمسلمین حضرتِ شاہ رکن الدین والعالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دربار شریف کی طرف چل دئیے، وہاں بھی عین اُسی طرح کی صورت پیش  آئی، پھر جب آپ اپنے معمولات مکمل فرماتے کے بعد اپنے دولت کدہ کی طرف روانہ ہوئے تو میں عقیدت کے مارے چپ نہ رہ سکا اور آپ کے قدموں میں گر پڑا، آپ نے جوں ہی مجھے دیکھا تو فرمایا: تو یہاں کیسے؟ اگر تونے سب کچھ دیکھا ہے تو وعدہ کر کسی کو نہیں بتلائے گا پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد اُس نے اِس کا اظہار کیا۔

وصال:

"اسرارِ کمالیہ" (جو کہ آپ کے حالات و واقعات پر حضرت سید زاہد شاہ صاحب کی تالیف ہے) میں لکھا ہے کہ آپ کو مرضِ وفات میں صفراوی بخار تھا، آٹھ دن تک مسجد میں تشریف لے جاتے رہے، لیکن بعد میں تکلیف کی شدت کی وجہ سے آپ مسجد نہیں جاسکے، رفتہ رفتہ مرض زور پکڑتا گیا حتیٰ کہ ۵ جمادی الاول ۱۲۲۶ھ میں آپ کا وصال ملتان شریف میں ہوا، نمازِ جنازہ کی امامت آپ کے خلیفہ حضرت محبوب اللہ خواجہ محمد خدا بخش ملتانی الخیر پوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمائی، اسکے بعد آپ کے حجرہء خاص میں دفن کیا گیا۔

بعد ازاں قل خوانی کے موقع پر حضرت خواجہ محمد خدا بخش ملتانی ثم الخیر پوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دستار بندی ہوئی۔

الٰہی! تابہ ابد آستانِ یار رہے

یہ آسرا ہے غریبوں کا برقرار رہے

 

اگر کسی نے آپ کے تفصیلی حالات سے آگاہی حاصل کرنی ہو تو "گلشن اِبرار" اور "مخزنِ چشت" کا مطالعہ کرے۔ یہاں صرف تعارف ہی مقصود تھا۔

(سرّدلبراں)مولانا عبیداللہ ملتانی

(ماخوز از "مخزنِ چشت" مطبوعہ چشتیہ اکیڈمی فیصل آباد)

 

شرفِ ملت تذکرہ اکابر ِاہلسنت میں فرماتے ہیں!

مرجع الفضلاء والا کا بر حضرت مولانا حافظ محمد جمال الدینملتانی قدس سرہ

          تاج الاصفیاء امام الاولیاء حضرت مولانا حافظ محمد جمال الدین بن محمد یوسف ابن حافظ عبد الرشید ( قدست اسرارہم ) تقریباً ۱۱۶۰ھ/۱۷۴۷ء میں ملتان شریف میں پیدا ہوئے[1]

اپنے دور کے اجلہ فضلاء سے علوم وفنون کی تحصیل کی ۔ آپ دور طالب علمی ہی میں علم و فضل ، ذکاوت و فطانت میں تمام طلبہ پر فوقیت رکھتے تھے ، جو بھی آپ سے مباحثہ کرتا اسے ناکامی کا منہ دیھنا پرتا ۔ کتاب دائرۃ الا صول تک علم حاصل کیا تھا کہ آپ کو شرح صدر حاصل ہو گیا اور جذبۂ الٰہیہ اس قدر غالب ہوا کہ عبادا ت دریاضات میں منہمک ہو گئے[2]

مرشد کامل کا شوق پیدا ہوا ، اسی تلاش میں حضرت شیخ رکن الدین ملتانی قدسرہ کے مزار پر انوار پر حاضر ہوئے ، ہر روز ایک قرآن کریم ختم کرتے اور پیر کامل کیلئے دعا مانگ کر سوجاتے ایک رات حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہ کی خدمت میں حاضریکا ارشاد ہوا ، فوراً مہار شریف حاضر اور سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں مرید ہو گئے ۔حضرت حافظ صاحب کو اپنے شیخ سے عشق کی حد تک محبت تھی ، سفرمیں  حاضر خدمت رہتے اور وضو کرانے کی خدمت انجام دیتے[3]

          ایک دفعہ حضرت شاہ فخر دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ ملتان میں حضرت خواجہ بہاء الدین زکریا سہر وردی قدس سرہ کی عظمت کے سامنے کسی ولی کا تصرف کام نہیں کرتا اور دوسرے سلسلے کا کوئی بزرگ وہا ں کسی کو بیعت نہیں کرتا ۔ حضرت شاہ فخر رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجۂ عالم مہاروی قدس سرہ کو فرمایا:۔

          ’’ اب تک ملتان حضرت بہاء الحق کی ولایت میں تھالہٰذہ وہاں کسی دوسرے ولی کا تصرف کا ر گر نہیں ہوتا تھا ۔ اب ملتان ہمارے حوالہ کردیا گیا ہے ، اب ضروری ہے کہ تم وہاں اپنا کوئی مرید بھیجو اور کہو کہ حضرت شیخ بہاء الدین کی خانقاہ میں جاکر کر مخلوق کو مرید کرے اور اپنا تصرف جاری کرے ۔

          چناچہ حضرت خواجہ مہاوری نے دہلی سے واپس آکر حضرت مولانا حافظ محمد جمال الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کو ملتان بھیجد یا ، انہوں نے مولانا خدا بخش کو خانقاہ حضرت شیخ بہاء الحق بیٹھ کر مرید [4]

حضرت حافظ صاحب علم و فضل کے بحر ذخار تھے ، دقیق سے مسائل کو اس طرح بیان کرتے کہ کند ذہن طلبہ بھی بآسانی سمجھ لیتے ۔ مسئلہ وحدۃ الوجود پر حیر انگیز عبور رکھتے تھے ۔ شیخ اکبر محی الدین ، ابن عربی اور مولانا جامی کی کتابوں کو بہت محبوب رکھتے تھے ۔ نفحات الانس ، مثنوی شریف ، لوائح جامی ، اشعۃ اللمعات اورفصوص الحکم  نہایت ہی پسند تھیں ، خاص طور پر فصوص الحکم کے فص محمدی سے تو یہان تک محبت تھی کہ اگر کوئی شخص آپ کے سامنے ذکر بھی کر دیتا تو جھوم جاتے[5]

آپ نہایت با اخلاق شخصیت کے مالک تھے ، بچوں کے ساتھ حددرجہ شفقت سے پیش آتے ، غرباء کی دلجوئی کو بہت اہمیت دیتے ، اگر کسی غریب کے ہاں دعوت پر تشریف لے جاتے تو خوشی کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوتے۔

          ایک دفعہ روزہ سے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو مدعو کیا ، آ پ اسی طرح تشریف لے گئے ، کھانے کے وقت روٹی کے لقمے توڑ توڑ کر رکھتے رہے اور پاس بھٹیے ہوئے احباب کھاتے رہے حتی کہ چند ہمراہیوں کے علاہ کسی کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا[6]

          حضرت حافظ صاحب علامہ وقت اور شیخ طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ مرد حق اور مرد میدان بھی تھے ۔ آپ کے دور میں پنجاب سکھوں کے تسلط میں آچکا تھا، سکھوں نے کئی مرتبہ ملتان پرحملہ کیالیکن آپ کی زندگی میں ملتان پر قابض نہ ہو سکے ۔ ایک رات آپ کو معلوم ہوا کہ سکھ ملتان کا محاصرہ کر کے حملہ کرنے والے ہیں ۔ یہ خبر ملتے ہی آ پ شمشیر و سناں سے مسلح ہو کر جوانوں سے بھی آگے نکل گئے اور ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کیا ۔ محاصرہ سے پہلے بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں یہاں سے دوسری جگہ جانا چاہئے تاکہ کافروں کے  حملے سے محفوظ رہیں ، اس پر حضرت حافظ صاحب نے فرمایا:

          ’’اب عام ابتلاء کا دور ہے اور جہاد فرض عین ہو چلاہے اس وقت ہم کہیں نہیں جائیں گے ، اب ہمارے لئے دوہی محمود انجام ہیں کہ ہم غازی ہوں گے یا شہید۔[7]‘‘

          حضرت حافظ صاحب خوف و ہر اس سے نا آشنا تھے ، تیرا اندازی میں اس قدر ماہر تھے کہ دوسروں کو یہ فن سکھایا کرتے تھے ۔  آپ بہت لطیف مزاج تھے ، عمدہ لباس زیب تن فرماتے ، آپ کی انگوٹھی پر ان اللہ جمیل یحب الجمال ‘‘ نقش تھا [8]

آپ فرماتے تھے کہ خرق عادت یہ ہے کہ نفس کی عادات مثلاً شکم سیری ، بے فائدہ گفتگو اور عبادات میں سستی کو خوراک کی کمی ، خاموشی اور ریاضت سے توڑ دے ، نیز فرمایا کرتے تھے جوا مر بھی ظاہر ہو یہی سمجھنا چاہئے کہ یہ ر حقیقت اللہ عزوجل کا فعل ہے اور مائو شما صرف وہم ہے [9]

          حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سلا سل اربعہ میں مجاز تھے لیکن سلسلۂ عالیہ چشتیہ سے زیادہ انس رکھتے تھے اس لئے اکثر و بیشتر اسی سلسلہ میں مرید کیا کرتے تھے[10]

          ۵ جمادی الاولیٰ، ۲۹ مئی ( ۱۲۲۶ھ/۱۸۱۱ء) کو آپ نے وصال فرمایا اور ملتان میں محو استراحت ابدی ہوئے ، کسی نے تاریخ وصال کہی    ؎

خرد سال وصائش چو جست و جوئے کرد

ندائے داد سروشم کہ ’’یافت کوب وصال ‘‘[11]

          آپ کے بعد حضر ت مولانا خدا بخش ملتانی مصنف رسالہ تو فیقیہ ( توحید کے موضوع پر) سجادہ نشین ہوئے۔

          حضرت حافظ صاحب کے مریدین کا حلقہ بہت وسیع تھا [12]

خلفاء:

۱۔       علامۃ الدہر عبد العزیز پرہاروی ( صاحب نبر اس ،شرح شرح عقائد و کتب عدیدہ )

۲۔      مولانا زاہد شاہ ۔

۳۔      مولانا غلام حسن ۔

۴۔      مولانا قاضی عیٰسی خان پوری ۔

۵۔      مولانا عبیداللہ ملتانی ۔

۶۔      مولانا حامد

۷۔      مولانا غلام فرید   وغیر (رحمہم اللہ تعالیٰ)

[1] عبد الحق مہر  ،  ڈاکٹر  : نور جمال (سرئیکی ادبی بورڈ  ، ملتان  ، ۱۹۷۴ئ) ص ۱۷۔

[2] عبد العزیز ہاروی ، علامہ العصر : گلزار جمالیہ ( مطبع ابو العلائی ، آگرہ ۱۳۲۵ھ) ص ۷۔۸

[3] خلیق احمد نظامی : تاریخ مشائخ حیثیت  ( بحوالہ مناقب المحبو بین ) ص۵۹۹۔ ۶۰۱

[4] خلیق احمد نظامی ، پروفیسر   :   تاریخ مشائخ چشت ص ۵۹۸۔ ۵۹۹۔

[5] عبد العزیز پر ہاروی علامۃ العصر  :  گلزار جمالیہ  ص ۸۔

[6] عبد العزیزپر ہاروی ، علامۃ العصر  :   گلزار جمالیہ   ص   ۱۰۔

[7] خلیق احمد نظامی ، پرفیسر   :   تاریخ مشائخ چشت   ص  ۲۰۳۔ ۶۰۴۔

[8] عبد العزیز پر ہاروی ، علامۃ العصر:    گلزار جمالیہ    ص ۱۷۔

[9] ایضاً                  :           ص   ۱۹  ۔  ۲۱۔

[10] عبد العزیز پر ہاروی ، علامۃ العصر  :  گلزار جمالیہ   ص  ۱۸۔

[11] خلیق احمد نظامی ، پرفیسر   :   تاریخ مشائخ چشت   ص ۶۰۶۔

[12] ایضاً     :           ص   ۲۰۶۔

ماخذومراجع:

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

سرِّ دلبراں

 

تجویزوآراء