مولوی حافظ ولی اللہ  

 

 

          مولوی حافظ[1] والی اللہ لاہوری: عالم فاضل،فقیہ متجر مباحث، مناظر، واعظ،جامع علوم عقلیہ و نقلیہ تھے۔تردید عقائد نصاری میں آپ کو وہ ملکہ اور ید طولیٰ ھاصل تھا کہ بڑے بڑے پادری آپ کے مقابلہ سے کنارہ کشی کر جاتے تھے،حافظہ کا وہ حال تھا کہ وہ آپ کو بھول جائے فوراً باتادیتے کہ فلاں مسئلہ یا مضمون فلاں کتاب کے فلاں صفحہ وسطر میں ہے۔علوم آپ نے مولوی غلام رسول قلعہ والاومولی نور احمد ساکن کھائی کوٹیلی اور نیز مولوی احمد الدین بگوی سے پڑھے۔ چونکہ آپ کو فقہی مسائل کے استنباط میں بڑی دستر تھی اس لیے اکثر لوگ فتاویٰ کے لیے آپ کے پاس آتے تھے اور ہر جمعہ کو جامع مسجد لاہور میں اہل، اسلام کو اپنے پُر اثر وعطم سے مستفیض کرتے تھے۔

          آپ کی تصنیفات سے مباحثہ دینی،صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیطان، ابحا ضرور وغیرہ یادگار ہیں جن پر راقم الحروف کے حواشی چڑھے ہوئے ہیں،وفات آپ کی بمرض اسہال یوم جمعہ وقت ظہر ۲۴؍جمادی الاولیٰ ۱۲۹۶؁ھ میں ہوئی اور قطعۂ تاریخ وفات حسبِ ذیل ہے  ؎

آں حافظ شیریں زباں واں واعظ خوشتر بیاں

شد روز آدینہ رواں زیں دار پُر رنج وعنا

بوداز جمادی اولیں تاریخ بست و چار میں

پنہاں شدہ زیرِ زمیں آں صاحبِ فہم و ذکا

یاسین پے سالش ورق بگرفت دل گغتش سبق

بنولیس جاں وادہ بہ حق حافظ ولی اللہ ولی

 

 

1۔ آپ نابینا تھے۔(تاریخ لاہور از کنہیا لال)(مرتب)

(حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء