مناظر اسلام حضرت مولانا حافظ ولی اللہ لاہور قدس سرہ
حافظ قرآن،محافظ اسلام حضرت مولانا علامہ حافظ ولی اللہ لاہوری ریاست جموں و کشمیر میں پید اہوئے ریاست کے سکھ راجہ کے مظالم سے تنگ آکر دوسرے کشمیری مسلمانوں کی طرح آپ کے والدین بھی نقل مکانی پر مجبور ہو گئے اور چند روز پسرور(ضلع سیالکوٹ)رہنے کے بعد لاہور آگئے حضرت حافظ صاحب کی عمر ابھی پانچ سال تھی کہ چیچک کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے،اس منحوس بیماری میں آپ کی ظاہری بصارت زائل ہو گئی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حیرت انگیز قوتوں کا حصۂ و افر عطا فرمایادیا ۔آپ کے والدین بچپن میں داغ مفارقت دے گئے اور آپ کی کفالت آپ کے مفلوک الحال بھائیوں کے کندھوں پر آپڑی،آپ کے چاروں با ہمت بھائیوں نے پوری تند ہی سے محنت و مشقت کی اور جوان ہونے پر تمام کشمیری خاندانوں میں مقبول ہو گئے۔
ان دنوں لاہور میں قلعہ مہیاں سنگھ والے مشہور فاضل مولانا غلام رسول تشریف لائے تو ازراہ کرم حافظ ولی اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ لے گئے اور اپنی نگرانی میںقرآن پاک حفظ کرایا۔حافظ صاحب نے حفظ قرآن مجید کے بعد تمام کتابیں پڑھیں اور عبو رحاصل کرلیا۔مولانا غلام رسول کے علاوہ مولانا نور احمد ساکن کھائی کوتلی اور مولانا احمد دین بگوی سے بھی استفادہک یا۔
حضرت حافظ صاحب نہ صرف قرآن مجید بلکہ انجیل کے بھی حافظ تھے۔ انہیں انجیل کے مختلف ایڈیشنوں کے صفحات اور سطریں تک ازبر تھیں۔۱۸۴۹ء میںپنجاب بھی انگریزوں کے زیر نگیں آگیا تو لارڈ ڈلہوزی نے یورپ کے عیسائی پادریوں کو ایک خاص منصوبے کے تحت مشنری مراکز قائم کرنے کی دعوت دی،خاص طور پر لاہور میں جن پادریوں نے اپنے مشن کو زور شور سے شروع کیا ان میں پادری فور مین (بانی ایف سی کالج لاہور )پاوری فونڈ اور اپادری عماد الدین خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ان پادریوں نے عیسائیت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اسلام پر کھلم کھلا ر کیک حملے شروع کردئے جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ عام مسلمانوںمیں اضطراب پایا جانے لگا۔ ان دنون حافظ ولی اللہ گوجرانوالہ سے لاہور پہنچے اور شاہی مسجد کے نائب خطیب مقرر ہوئے اور جب حالت کی سنگینی ملاحظہ فرمائی تو مردانہ وار میدان میں آگئے اور تقریر و تحریر کے ذریعے عیسائیوں کے شکوک وشبہات کی دھجیاں بکھیر دیں۔میدان مناظرہ میں عیسئای پادریوں کی وہ درگت بنائی کہ بات بات پر دین اسلام کا تمسخرا اڑانے والے اور بے سروپا اعتراضات وارد کرکے مسلمانوں کی متاع دزیز لوٹنے کی کوشش کرنے والے بڑے بڑے جغادری پادریوں پر سناٹا چھا گیا اور حالت یہاں تک پہنچی کہ نامی گرامی عیسائی مناظر حافظ صاحب کا نام سن کر میدان مناظرہ سے بھاگ جاتے تھے۔
ایک دفعہ آپ لاہور سے باہر گئے ہوئے تھے،واپسی پر پتہ چلا کہ آج تین دن سے مسلمانوں کے علماء اور پادری فونڈر کے درمیان مناظرہ ہو رہا ہے۔آپ آتے ہی میدان مناظرہ میں پہنچ گئے اور علماء سے اجازت لے کر تن تنہا مقابلے میں آگئے۔ فرمایا چونکہ میں نابینا ہوں اس لئے اپنے مد مقابل کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں چنانچہ آپکو پادری کے پاس لیجایا گیا۔آپ نے اس کے چہرے کو ٹٹولا اور اس کے منہ پر ایسا زنانے دار تھپڑ رسید کیا کہ پادری کے منہ سے خون بہنے لگا،بس پھر کیا تھا،مناظرہ ہنگامے کی نذر ہوگیا۔
’’دوسرے دن انگریز مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’مجھ پر یہ الزام غلط ہے کہ میں نے ارادئہ قتل سے تھپڑ مارا ہے، میں تو دیکھنا چاہتا تھا کہ پادری صاحب انجیل مقدس پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں کیونکہ انجیل میں لکھا ہے کہاگر تمہیں ایک تھپڑ مارا جائے تو دوسرا گال پیش کردو مگر پادری صاحب نے انجیل کی تعلیم پر عمل کرنے کی بجائے مقدمہ دائر کردیا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی حافظ صاحب نے انجیل کے ۱۲۱ ایڈیشنوں کے حولاے صفحہ وسطر ی قید سے سنادئے اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ فلاں ایڈیشن فلاں لائبریری میں اور فلاں ایڈیشن فلان پادری کے پاس ہے۔
پادری فونڈ رجواب دینے کے لئے اٹھا تو اس نے حافظ صاحب کے بیان کی تائید کی اور مقدمہ واپس لے لیا۔
حافظ صاحب نے نا بینا ہونے اور بے انداز مصروفیات کے باوجود رد عیسائیت میں یہ کتابیں لکھیں ہیں جن پر ااپ کے شاگرد رشید مولانا فقیر محمد جہلمی (مؤلف حدائق الحنفیہ)نے حواشی لکھے ہیں:۔
۱۔ مباحثۂ دینی
۲۔ صیانۃ الانسان عن دسوتہ الشیطان۔
۳۔ ابحاث ضروری۔
۲۴جمادی الاولیٰ(۱۲۹۶ھ؍۱۸۷۹ئ) کو آپ کا وصال ہوا،آپ کی آخری آرامگاہ فلمینگ روڈ کے کنارے ایک مختصر احاطے ہے[1]۔ایضاً : تذکرہ علماء اہل سنت و جماعت لاہور: ص۱۶۰۔۱۶۵۔
[1] اقبال احمد فاروقی ،پیر زادہ: مناظر اسلام حضرت حافظ ولی اللہ،ماہنامہ ضیائے حرم،دسمبر ۱۹۷۲ئص۴۷۔۵۱
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)