مخدوم مِلّت حکیم اہل سنت حکیم محمد موسیٰ امر تسری لاہور

حضرت مخدوم مِلّت حکیم اہل سنّت حکیم محمد موسیٰ امر تسری، لاہور علیہ الرحمۃ

 

مخدومِ ملّت حکیم اہل سنّت مجموعۂ اخلاق و آداب جناب حکیم محمد موسیٰ امر تسری بن فخرالاطباء حکیم فقیر محمد چشتی نظامی (متوفی ۱۳۷۱ھ مدفون بجوار حضرت میاں میر صاحب رحمہ اللہ) ۲۸؍ صفر المظفر ۲۷ ؍ اگست ۱۳۴۶ھ / ۱۹۲۷ء میں بمقام امر تسر (ہندوستان) پیدا ہوئے۔

آپ کے والد ماجد علیہ الرحمہ ماہر طیب اور شب زندہ دار زاہد تھے، انہوں نے اپنے رشتہ کے ایک چچا حکیم مولوی فتح الدین سے سلسلۂ چشتیہ میں فیض حاصل کیا اور پھر انہی کے کہنے پر حضرت مولانا الحاج میاں علی محمد خان رحمہ اللہ سجادہ نشین بسّی شریف (متوفی ۱۵؍ محرم الحرام ۲۸؍ جنوری (۱۳۹۵ھ / ۱۹۷۵ء) سے بیعت ہوئے اور خود حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ نے بھی حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔[۱]

[۱۔ محمد ایّوب قادری، پروفیسر: سہ ماہی مجلّہ ’’العلم‘‘ کراچی، جولائی تا ستمبر ۱۹۷۱ء، ص ۴۷۔]

حکیم صاحب قبلہ کے خاندان کے تمام بزرگ مذہباً حنفی اور مشرباً صوفی تھے۔ طبابت آپ کا خاندانی مشغلہ ہے۔ آپ کے تین بڑے بھائی اور ایک چھوٹے بھائی بھی طبیب ہیں، اگرچہ وہ مطب نہیں کرتے۔

آپ نے قرآن مجید ناظرہ استاذ القرأ جناب قاری کریم بخش مرحوم سے پڑھا فارسی کی، کتابیں کریما، پندنامہ، گلستاں، بوستاں، سکندر نامہ، زلیخا (جامی) احسن القواعد، اخلاق محسنیٰ وغیرہ اور عربی صرف کی کتابیں مفتی عبدالرحمٰن ہزاروی مدرس مدرسہ نعمانیہ امر تسر سے پڑھیں۔ علاوہ ازیں حضرت مولانا محمد عالم آسی رحمہ اللہ سے بھی استفادہ کیا۔

طِب کی تمام کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں مثنوی شریف کے پہلے دوفتر بھی والد صاحب سے پڑھے اور مطب بھی انہیں سے سیکھا۔ [۱]

[۱۔ محمد ایّوب قادری، پروفیسر: سہ ماہی مجلّہ ’’العلم‘‘کراچی، جولائی تا ستمبر ۱۹۷۱ء ص ۴۷۔]

آپ نے ریاضی اور حساب کی باقاعدہ تحصیل کی اور بہی کھاتے کا حساب محمد شفیع پاندھے سے سیکھا۔ [۱]

[۱۔ محمد اقبال فاروقی پیر زادہ: ’’تذکرہ علماء اہل سنّت و جماعت لاہور‘‘، ص  ۳۹۶۔

۱۲ ؍ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان تشریف لائے، چھ ماہ تک سرگودھا رہے اور پھر حضرت والد صاحب رحمہ اللہ کے بلانے پر لاہور آگئے۔ [۱]

[۱۔ محمد ایوب قادری، پروفیر: سہ ماہی مجلّہ ’’العلم‘‘ کراچی، جولائی تا ستمبر ۱۹۷۱ء ، ص ۴۷۔]

لاہور آنے کے بعد آپ نے والد صاحب کے ساتھ مل کر لوہاری دروازہ کے باہر (یہاں آجکل نہایت مصروف چوک ہے) مطب شروع کیا۔ ۱۹۴۹ء میں آپ نے رام گلی میں علیحدہ مطب جاری کیا۔ ان دنوں آپ ۵۵؍ ریلوے روڈ لاہور میں مطب چلا رہے ہیں۔[۱]

[۱۔ محمد اقبال فاروقی پیر زادہ: ’’تذکرہ علماء اہل سنّت و جماعت لاہور‘‘ ص ۳۹۷۔]

در حقیقت یہ صرف جسمانی بیماریوں ہی کا شفا خانہ نہیں، بلکہ علم و حکمت کا عظیم مرکز ہے، جہان علماء ادیب، شاعر غرضیکہ علمی دنیا کا ایک متعدبہ حصّہ ہر  وقت موجود رہتا ہے اور بقول جناب راجا رشید محمود حکیم صاحب کی دوکان ’’ہیڈ کوارٹر‘‘ ہے۔

آپ نے اپنے مطب میں اہلِ علم احباب کا حلقہ پیدا کیا، جہاں علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی اور حکیم صاحب سے مفید مشورے حاصل کیے جاتے اور یہ  سلسلہ آج بھی جاری ہے تصنیف و تالیف، تحقیقی مقالات، نشر و اشاعت غرضیکہ ہر مسئلے پر حکیم صاحب کا مشورہ لابدی امر ہوچکا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، جبکہ حکیم صاحب نے ملّی و دینی خدمات کے لیے اپنا  سب کچھ قربان کردیا ہے اور کوئی بھی آنے والا شخص آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حکیم صاحب کی ذات برّ صغیر پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہے۔

آپ نہایت بلند پایہ  ادیب اور علم  و حکمت کا  قیمتی ذخیرہ ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ’’تذکرہ علماء امر تسر‘‘ (غیر مطبوعہ) ’’مولانا غلام محمد ترنّم رحمہ اللہ‘‘ ’’مولانا نور احمد امر تسری‘‘ ’’ذکر مغفور‘‘ (تذکرہ سیّد مغفور القادری رحمہ اللہ) ’’اذکار جمیل‘‘ (تذکرہ سیّد برکت علی شاہ خلیجیانوی) بہت ہی مشہور ہوئیں۔

آپ نے کئی علمی کتابوں پر زور دار دیباچے لکھے۔ مقدمہ ’’کشف المحجوب‘‘ مقدمہ ’’مکتوب مجدّد الف ثانی‘‘ رحمہ اللہ اور مقدّمہ ’’عباد الرحمٰن‘‘ اہلِ علم کی توجہ کا مرکز بن گئے۔[۱]

[۱۔ محمد  اقبال فاروقی پیر زادہ: ’’تذکرۃ علماء اہل سنّت و جماعت لاہور‘‘ ص ۳۹۷۔]

آپ کا سب سے بڑا علمی اور  اعتقادی کار نامہ ’’مرکزی مجلسِ رضا‘‘ کا قیام ہے۔ اس مجلس کو علمی رنگ دینے کے لیے آپ نے صبح و شام کام کیا۔  اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کی شخصیت کو متعارف کرانے کے لیے جلسے،  جلوس ترتیب دیے۔ مقالات اور مضامین کے علاوہ کئی کتابیں لکھوائیں اور خوبصورت انداز میں طبع کرا کے تقسیم کروائیں۔ [۱]

[۱۔ محمد  اقبال فاروقی پیر زادہ: ’’تذکرۃ علماء اہل سنّت و جماعت لاہور‘‘ ص ۳۹۷۔]

اُردو کے علاوہ  انگریزی زبان میں اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کے تعارف پر  مبنی کتابچہ جناب ڈاکٹر مسعود احمد (پی۔ ایچ۔ ڈی) سے لکھوایا اور چھپوا کر اسے پیرونِ ملک بھیجا تاکہ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کی شخصیت کے خلاف خارجیوں (وہابیوں) کی تلبیس کا پردہ چاک ہو اور  آپ کی شخصیت کے حقیقی خدّو  خال  سے لوگ روشناس ہو سکیں۔

آپ نے ’’مجلس رضا‘‘ کے زیرِ اہتمام نوری جامع مسجد ریلوے اسٹیشن میں ہر سال ’’یومِ رضا‘‘ منانے کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ یہ  تقریب نہایت شان و شوکت سے منائی جاتی ہے۔ عوام کے علاوہ علماء کا ایک جمِّ غفیر ہوتا ہے اور نغماتِ  رضا سے مسجد گونج اٹھتی ہے۔ ’’مجلس رضا‘‘ کے زیر اہتمام آپ نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے کئی رسالے طباعت کرائے اور آپ کی شخصیّت کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں طبع کرائیں۔ اب آپ کی سر پرستی میں سنّی اہل قلم کی ایک تنظیم ’’سنی رائٹرز گلڈ‘‘ بھی قائم ہوچکی ہے۔

۱۹۷۴ء میں آپ نے حج بیت اللہ شریف اور  زیارت گنبدِ خضراء کا  شرف حاصل کیا اور  پیر طریقت حضرت مولانا ضیاء الدّین مدنی دامت برکاتہم العالیہ سے دلائل الخیرات اور  ’’قصیدہ بُردہ شریف‘‘ کی اجازت حاصل کی۔ شیخ محمد ہاشم شقرون مدنی، شیخ محمد حسین رمدی یمنی آفندی کی مجلس ذکر و وظائف میں شرکت کی اور اجازتِ خاص حاصل کی۔[۱]

[۱۔ محمد اقبال فاروقی پیرزادہ: ’’تذکرہ علماء  اہل سنّت و جماعت لاہور‘‘ ص ۳۹۷۔]

حکیم محمد موسیٰ امر تسری نہایت وسیع القلب اور خلیق و شفیق انسان ہیں، اور  اہل سُنّت کے نوخیز اہلِ قلم حضرات کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔

آپ کے اخلاق و اوصاف کے متعلق پروفیسر محمد ایّوب قادری لکھتے ہیں:

’’حکیم صاحب نہایت وسیع الاخلاق، مہمان نواز، علم و ادب کے شیدائی، معارف پرور، پُرانی قدروں کے محافط اور مجموعۂ اخلاق و آداب ہیں۔ان کا مطب، طبّی مرکز سے زیادہ علم و ادب اور تہذیب  و  ثقافت کا مرکز ہے۔ [۱]

[۱۔ محمد ایوب قادری، پروفیسر: سہ  ماہی  مجلّہ ’’العلم‘‘ کراچی، جولائی تا  ستمبر ۱۹۷۱ء۔]

(تعارف علماءِ اہلسنت)

تجویزوآراء