حضرت مولانا مہر محمد اچھروی

حضرت مولانا مہر محمد اچھروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 امام المحققین استاذ المدرسین حضرت مولانا مہر محمد اچھروی ابن عبد اللہ ۱۳۱۴ھ؍۱۸۹۶ء میں موضع چوکھنڈی(مضافات کیمبل پور ) میں پیدا ہوئے،آٹھ سال کی عمر میں والد ماجد کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا،موضع تھو ہامحرم خاں (کیمبلپور) میں قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا بعد ازاں مولانا حافظ عطاء الرسول کی خدمت میں خوشاب چلے گئے اور قرآن مجید حفظ کرلیا۔استاذ مکرم کے وصال کے بعد ان کی م سند پر بیٹھ کر قرآن مجید پڑھانا شروع کیا،کچھ عرصہ بعد فوجی ملازمت کا شوق پیدا ہو چنانچہ فوج میں بھری ہو گئے،کسے خبر تھی کہ ایک وت یہ فوجی مرجع علمء و فضلاء ہوگا۔

ایک دفعہ کچھ قیدی دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے آپ کے سپرد کئے گئے جو راست ہم میں موقع پاکر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اس بنا پر آپ کو ملازمت سے بر طرف کردیا گیا۔اب تحصیل علم کے شوق میں مولانا سلطان محمود نامی کی خدمت میں بندیال (سرگودھا)حاضر ہوئے اس زمانے میںفارسی پڑھانے میںان کی بہت شہرت تھی،پھر بمقام قاضیاں (ضلع مظفر گڑھ) مولانا سید غلام حسین سے کچھ کتابیں پڑھیں بعد ازاں مولاناغلام حمد گھوٹوی کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے تلیذ رشید علامہ محمود سے استفادہ کیا اور اکثر کتابیںشیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمہ اللہ تعالیی سے پڑھیں جب شیخ الجامعہ حضرت کے لئے تشریف لے گئے تو کچھ کتابیں قصبہ انھی (ضلع گجرات) میں مولانا غلام رسول سے پڑھیں اور حضرت شیخ الجامعہ کے واپس آنے پر انہی سے تمام کتب کی تکمیل کی۔گھوٹہ میں تحصیل علم کے دوران شیخ الاسلام حضرت خواجہ پیر مہرعلی شاہ گولڑوی قدس سرہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔

فراغت کے بعد جامعہ فتحیہ (اچھرہ،لاہور) میں صدر مدرس مقرر ہوئے، کچھ زمانہ کے بعد ستو کی(مضافات لاہو )چلے گئے ،پھر جامعہ فتحیہ اچھرہ کے مہتمم جناب قمر الدین مرحوم کے اصرار اور استاذ محتم علامہ گھوٹوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایماء پر واپس جامعہ فتحیہ تشریف لے آئے اور تمام عمر اسی جگہ درس و تدریس میں صرف کردی، حضرت مولانا مہر محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کو درس و تدریس اور کاص طور پر معقولات میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ہمیشہ معقول و منقول کی انتہائی کتب کا درس دیا کرتے تے،دور دراز سے تشنگان علوم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سیراب ہوا کرتے تھے آپ کے تلامذہ آسمان علم و فٗضل پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے ،حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اجلد مدرسین کی بہت بڑی جماعت تیار کی جنہوں نے علوم دینیہ کی مسلک اہل سنت و جماعت کی قابل قدر خدمات انجام دیں۔آپ کے چند مشاہیر تلامذہ کے نام یہ ہیں:۔

۱۔ حضرت علامہ مولانا عطا محمد بندیالوی دامت برکاتہم العالیہ زیب مسند تدریس دار العلوم مظہریہ امدادیہ بندیال شریف ضلع سرگودھا۔

۲۔ استاذ الافاضل مولانا غلام مہر علی گولڑوی مصنف ’’دیوبندی مذہب‘‘ ،الیواقیت المہر یہ وخطیب جامع مسجد نور چشتیاں شریف (بہاولنگر(

۴۔ استاذ العماء مولانا محمد مہر الدین،مصنف تسہیل المبانی شرح مختصر المعانی،

۵۔ مولانا محمد عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ (خطیب کا چھو پورہ لاہور(

۶۔ مولانا عنایت اللہ چشتی،کالا باغ (ضلع میانوالی(

۲ربیع الثانی،۲۹نومبر(۱۳۷۴ھ؍۱۹۵۴ئ) بروز پیر آپ کا وصال ہوا اور جامعہ فتحیہ اچھرہ،لاہور کے قریبی قبرستان میں مدفون ہوئے[1]

[1] غلام مہر علی،مولانا: الیواقیت المہریہ ،ص۹۸۔۹۹

(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

تجویزوآراء