فقیہ العصر مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری
فقیہ العصر مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت
حضرت مولانا عبدالجلیل رضوی بن مولوی سخاوت علی نے یکم فروری ۱۹۳۴ھ کو ایک اعلیٰ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدماجد مولوی سخاوت علی بہترین فارسی داں اور اپنے زمانے کے میلاد خواں تھے۔
تعلیم وتربیت
مولانا مفتی عبدالجلیل ج ب سخن آموزی کی منزل عبور کرچکے تو اپنے والد گرامی سے بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کر کے ابتدائی تعلیم تا قرآن شریف کی تعلیم مکمل کر کے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے متعدد ومدارس اسلامیہ کا سفر کیا۔ پھر جامعہ نعیمیہ مراد آباد تشریف لے گئے، خصوسیت کے ساتھ مولانا الحاج محمد یونس اشرفی مفتی حبیب اللہ نعیمی بہاری اور مولانا طریق اللہ قادری کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے فراغت حاصل کی۔
مفتی حبیب اللہ نعیمی بہاری کی دور بین نگاہوں نے مولانا عبدالجلیل کی ذہنت و فطانت کا جائزہ لیا اور دور طالب علمی میں دارالافتاء کی ذمہ داری آپ کے دوش ناتواں پر ڈال دی جسے مولانا عبدالجلیل بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ اور زمانۂ طالب علمی کی تربیت آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز اور پوری زندگی مسائل کی جانکاری کے لیے مرجع خلائق بنے رہے۔
مستقل قیام
یوں مولانا عبدالجلیل کا آبائی وطن مدھوبنی ضلع کا نہایت پسماندہ علاقہ مہتیا ہے لیکن مستقل سکونت مدھوبنی کےایک مردم خیز گاؤں موضع پچہی میں اختیار کی اور یہاں مولانا عبدالجلیل نے زمین بھی خریدی اور اس میں ایک شاندار عمارت بھی بنوائی۔ مذکورہ گاؤں ہی میں آپ نے فراغت کے بعد مدرسہ اسلامیہ نوریہ کی بنیاد ۱۹۵۶ء میں ڈالی جو آج ایک تناور درخت کی شکل میں موجود ہے۔
شکل وصورت
مولانا عبدالجلیل میانہ قد، انتہائی حسین تھے اور چہرۂ بارعب کہ بڑے سے بڑے لوگوں پر ان کا ایک دبدبہ طاری رہتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چہرے پر ایک مسکراہٹ قائم رہتی، اور اتنی سنجیدگی طاری رہتی کہ لوگ ادب کے دائرے سے باہر جانے کی جرأت نہیں کرتے۔
اخلاق وعادات
حضرت مولانا عبدالجلیل کے اخلاق بڑے وسیع تھے جو بھی ان سے ملاقات کےلیے آیا متاثر ہوئے بغیر نہیں گیا اور ہر کوئی یہی کہتا خواہ بڑا ہو چھوٹا اپنا ہو یا پرایا۔
فقیہہ العصر مفتی عبدلجلیل علیہ الرحمہ ہم سے زیادہ محبت کرتے تھے اور اہم سے زیادہ کسی دوسرے سے اتنی محبت نہیں کرتے۔
اس قدر ہر ایک کے دلوں میں ان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور خیالات اتنے بلند کہ مولانا عبدالجلیل جو فرماتے سننے والے یہ سمجھتے کہ گویا یہ میرے دل کی بات ہے۔ چنانچہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈپٹنہ کے چئرمین جناب ڈاکٹر محمد یونس حسین حکیم نے اپنے معائنہ میں مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۸۵ء کو اپنی رپورٹ میں لکھا:
مدرسہ اسلامیہ نور پچہی میں شانتی نیک تین بھرمات ہے اور مولانا عبدالجلیل کے لیڈر شپ کا یہ اثر ہے کہ انہیں بہار کے بہت سارے مدارس میں دوسرے اساتذہ ٹریننگ دینے کے لیے بھیجا جائے۔
انداز مطالعہ کتب
مولانا مفتی عبدالجلیل کو کتابوں کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور نظر بڑی محققانہ تھی کتابوں کی کثیر تعداد ان کی ذاتی ملکیت میں تھی۔ مطالعہ کتب کا حال ایسا کہ کوئی مسئلہ در پیش ہوا خواہ عوام سے یا کسی کاص شاگرد کے ذریعہ تو تحقیقی کا دروازہ کھُلا ہوتا کتابوں کا انبار سامنے ہوتا اور مسائل حل ہوتے ہر مسئلہ پر ایسی باریک نظر کی تاخیر تام کی نہیں، دلائل سامنے لاتے اور تشنگان علم دفن کی خوب خوب سیر یابی ہوتی، عربی فارسی کی بہترین صلاحیت مولانا عبدالجلیل میں تھی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ریاضی میں کافی درک عطا فرمایا تھا۔ ریاضی کا وہ مسئلہ جس کاحل ہونا ہر ایک سے مشکل ہوتا آپ اسے منٹو میں حل کردیتے۔
زہد وتقویٰ
ہرجگہ شریعت مطہرہ کا خیال کہ کوئی بات جو شریعت کے خلاف ہو برداشت نہیں کرتے تھے اور ہم عصر علماء میں اپنے زہد وتقویٰ کےلحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ حق یہ ہے کہ سلف وخلف میں اس دور کے کامل زہد وتقویٰ کی بنیاد پر علماء نے متفقہ طور پر امامت آپ کے سپرد کردی۔
مہمان نوازی
مولانا عبدالجلیل کی مہمان نوازی کا یہ عالم ہوتا کہ راتوں کو جاگ جاگ کر مہمان کی خاطر میں لگے رہتے۔ ویسے آپ کا معمول تھا کہ رات کا کھانا دیر سے کھاتے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مدرسہ نوریہ اسلامیہ کے تمامی طلبہ اور اساتذہ کھانا کھا چکےہیں۔ صرف مولانا عبدالجلیل کا کھانا رکھا ہے۔ بیک وقت چار مہمان آگئے۔ آپ نے اظہار خیال کیا۔ کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ رات کے گیارہ بچ گئےہیں اور مہمان آگئے ہیں۔ اب چونکہ کھانا موجود نہیں فوری باورچی کو حکم فرماتے اور کھانا تیار کرواتے۔ اسی اثناء میں کئی بار خود مولانا عبدالجلیل چولھے تک گئے۔ مہمان کو کھلا کر ہی و مرلیتے تھے۔ اگر یہ بھی میسر نہ ہوتا تھا تو ناشتہ کے لیے جو بھی سامان مہیا ہوتا آپ مہمانوں کی نظر کرتے اگر پاس نہ ہوتا تو طالب علم کو سنے سے جگاتے اور بطور قرض طالب علم سے ناشتہ نکلواکر مہمان نوازی میں حصہ لیتے، مگر بغیر کھلائے کسی مہمان کو آرام نہیں کرنے دیتے۔
بیعت وخلافت
حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ ایک جلسہ میں پچہی تشریف لائے تو مولانا عبدالجلیل کو ۱۵؍ربیع الاول ۱۳۹۲ھ میں تمام سلاسل کی خلافت اور عملیات کی اجازت سے نوازا۔ آپ حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی کے سلسلے میں بیعت کرتے۔ مولانا عبدالجلیل کا حلقۂ ارادت بہت وسیع ہے۔
اولاد امجاد
حضرت مولانا عبدالجلیل رضوی کے دو صاحبزادے ہیں۔ بڑے صاحبزادے مولانا فخر الدین رضوی بہت اچھے عالم دین ہیں۔ اور آپ کی ہر ہر ادا ان کےرگ و پے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کیونکہ مولانا عبدالجلیل نے اپنے فرزند کی تعلیم منظر بریلی میں کرائی۔ دوسرے صاحبزادے مولوی شرف الدین نوری جو اس وقت منظر اسلام میں زیر تعلیم ہیں۔
مولانا کی یادگاریں
مولانا مفتی عبدالجلیل جہاں تبلیغ وارشاد کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں ایک دینی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے۔ آپ کی تھریک متاثر ہوکر رئیس التحریر مولانا ارشد القادری رضوی نے ادارۂ شرعیہ کا چیف آرگنازنگ سکریٹری منتخب فرمایا۔ مولانا عبدالجلیل نے پورے بہار کے علماء سے رابطہ کر کے ان میں ایک ملی دینی روح پھونک دی۔
اس کے علاوہ ایک وفد جس میں قاری عبدالمجید رضوی جامعہ امانیہ موام دربھنگہ (بہار) علامہ رستم القادری خصوصیت کے ساتھ شریک تھے۔ صوبہ بہار کے شہروں اور قصبوں ودیہاتوں کا سخت سے سخت سفر کیا اور اپنی تحریک کو تیز سے تیز تر کیا۔ مولانا عبدالجلیل نے اپنے پچپن سالہ زندگی میں جن دینی اداروں کی سرپرستی کی ان کی مختصر فہرست یہ ہے:
۱۔ مدرسہ غوثیہ فریدیہ مدھوبنی بہار
۲۔ مدرسہ انصار العلوم گنگاساگر
۳۔مدرسہ غوثیہ نینا گھاٹ
۴۔ مدرسہ اسلامیہ غوثیہ گھاٹ دربھنگا
۵۔ دارالعلوم حبیبیہ کچھوا
۶۔ مدرسہ رضائے مصطفیٰ بلوا
۷۔ مدرسہ غوثیہ بلونجہ مدھوبنی
۸۔ مدرسہ انوار العلوم بدراہی
۹۔ دارالعلوم سراج العلوم جھنجار پور
۱۰۔ جامعہ حبیبیہ قادریہ بلہد پنڈوں
۱۱۔ مدرسہ دارالقرآن بیر سائر مدھوبنی
۱۲۔ مدرسہ زہرۃ الاسلامیہ عمری
۱۳۔ مدرسہ سعیدیہ کٹہرہ دربھنگہ
۱۴۔ مدرسۂ البنات عمری
۱۵۔ مدرسہ نور محمدی آدت ڈیہیہ
۱۶۔ مدرسۃ البنات مدھے پور
۱۷۔ تعلیم القرآن پھلواری
۱۸۔ مدرسۃ البنات بھیم پور
۱۹۔ مدرسہ مظہر العلوم لکھنؤ
۲۰۔انجمن اصلاح البیان جامعہ نعیمیہ مراد آباد
۲۱۔ تحفظ شریعت کمیٹی پچھی
۲۲۔ مدرسۃ العابدین دھوکر ٹولے جمیلہ بازار
۲۳۔ غوثیہ اصلاح النبات پچہی
۲۴۔ مدرسہ اسلامیہ عثمانیہ اسلام آباد بانکی
چند تلامذہ
مولانا عبدالجلیل رضوی علیہ الرحمہ سے کسب فیضان علم کرنے والوں کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ مولانا قاری محمد شفیق احمد خلیفہ شاہ محمد یوسف چاند پور ویشالی
۲۔ مولانا محمد عیسیٰ رضوی مدرسہ اسلامیہ نوری پچہی مدھوبنی
۳۔ مولانا محمد صدیق پرنسپل اسلامیہ نوریہ پچہی
۴۔ مولانا انوار الحق رضوی مدرسہ اسلامیہ نور پچہی
۵۔ مولانا فخر الدین رجوی صاحبزادہ مفتی عبدالجلیل رضوی
۶۔ مولانا پرویز عالم راحت مدرس اسلامیہ نور پچہی
۷۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن ایف، آر، سی سعودیہ عربیہ
۸۔ ڈاکٹر محمد جہانگیر قدری ایم۔ بی بی۔ ایس سعودیہ عربیہ
۹۔ انجئینر جناب انیس الرحمٰن سندری دھناد
انتقال پر ملال
اس تاریخ ساز شخصیت کا وصال ۲؍جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ؍ ۱۱؍جنوری ۱۹۸۹ء بروز جمعرات شب ۹بج کر ۴۰ منٹ پر ہوا [1]۔