حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی

 حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمۃ

اپنے وطن دیوہ شریف، ضلع بارہ بنکی میں ۹؍شوال المعظم ۱۲۲۸؁ھ میں پیدا ہوئے، ۱۲۴۰؁ھ میں بعمر تیرہ برس علماء کی سنت ثمرہ کے مطابق رام پور کا تعلیمی سفر کیا، مشہور وہابی مولوی حیدر علی ٹونکی رام پوری، مولانا سید محمد بریلوی اور مولانا نور الاسلام سے درسی کتابیں پڑھیں، حدیث کا دور شاہ اسحاق دہلوی سےکیا، علی گڈھ میں مولانا بزرگ علی مارہروی سےریاضی پڑھی، فراغت کے بعد علی گڈھ ہی میں سرکر انگریزی میں مفتی و منصف کے منصب پر مقرر کیے گئے، ایک سال کے بعد بریلی تبادلہ ہوا، بریلی مجاہدین استخلاص وطن کا خاص مرکز تھا، ۱۸۵۷؁ھ کی آتش سعی انقلاب سرد ہونے کے بعد بغاوت کے الزام میں بعبور دریائے شور کی سزا تجویز ہوئی اور ۱۸۵۸؁ھ میں مفتی صاحب کالاپانی بھیجدیئے گئے، وہاں پہلے سے حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی اور حضرت مولانا مفتی مظہر کریم دریا بادی م وجود تھے، یہاں ان دونوں کا ساتھ رہا، زندان کی کلفت اور غریب ابو طنی کیاذیت و محن کے باوجود حفظ قرآن پاک کیا، اور سیرت نبوی میں ‘‘تواریخ حبیب الہ، بغیر کتابوں کی مدد مراجعت کے تالیف کی، مقابلہ کے بعد سارے واقعات صحیح نکلے، ۱۲۷۷؁ھ میں حافظ وزیر علی داروغۂ جیل کی کوشش سے رہا کیے گئے۔

کاکوری میں تھوڑا عرصہ قیام کرنے کے بعد کانپور آئے، اور اسی سنہ میں مدرسہ فیض عام قائم کیا، مولانا لطف اللہ علی گڑھی مشہور زمانہ عالم وبزرگ مدرسہ کے پہلےفارغ طالب علم تھے ۱۲۷۹؁ھ میں بذریعہ ہوائی جہاز حج وزیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے، ۷؍شوال المکرم ۱۲۷۹؁ھ کو جہاز جدہ پہونچ کر پہاڑ سے ٹکڑا کر ڈوب گیا، مفتی صاحب بحالت نماز احرام باندھے ہوئے غریق بحر رحمت ہوئے،

(استاذ العلماء تذکرہ علمائے ہند، الیٹ انڈیا کمپنی اور باغی علماء)

تجویزوآراء