حضرت مولانا مفتی محمد مبین الدین محدث امروہی

حضرت مولانا مفتی محمد مبین الدین محدث امروہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ولادت

حضرت علامہ مولانا الحاج محمد مبین الدین رضوی بن شیخ احمد الدین بن شیخ معین الدین عرف سلطان احمد کی ولادت جمادی الآخر ۱۳۳۷ھ؍مارچ ۱۹۱۹ء امروہہ ضلع مراد آباد میں ہوئی، ہاجرہ خاتون کے بطن سے مبین الدین کی اس پہلی اولاد نزینہ کو چونکہ دین کا معین بنتا تھا۔ اس لیے مبین الدین نام تجویز ہوا۔

تعلیم وتربیت

بسم اللہ خوانی کے بعد قرآن شریف کی تعلیم شروع ہوئی۔ ذہن رسا اور قوت حافظہ سنِ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی حافظ بنادیا۔ حالانکہ اس دوران مولانا حاجی مبین الدین علیہ الرحمہ کو والدہ ماجدہ کے سایہ عاطفت سے محروم ہونا پڑا اور اس کی وجہ سے چند سال تک تعلیمی مشاغل کا تسلسل باقی نہ رہ سکتا۔ شفقت مادری سے محرومی، اور مالی حالت کی ابتری کی وجہ سے مولانا حاجی مبین الدین کو بچپن میں بہت سے مسائل ومصائب برداشت کرنے پڑے۔ لیکن تعلیم کے شغف نے اپنی راہیں مسدود نہ ہونے دیں۔ امروہہ کے ایک عالم نے توجہ خاص سے تعلیم دینی شروع کی۔ مگر موصوف کا طریقۂ تعلیم کچھ ایسا تھا کہ تکمیل علم کے لیے عمر خضر درکار تھی، پانچ چھ سال کی مشقت کے بعد بھی ابتدائی کتب کی تکمیل ہوئی۔ کہ حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ مجددی اعظمی علیہ الرحمہ، قاضی محبوب احمد عباسی مجددی کےمشورہ وایماء سے مولانا حاجی مبین الدین کو صدر الشریعہ مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ کے پاس بھیج دیا گیا [1] ۔ لائق اُستاد نے جوھر قابل کو پہچاننے اور اسے جلادینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا توجہ خاص سے نزواز اور امروہہ میں ہوئی بے ربط تعلیم کے باوجود بڑے درجات میں جگہ عطا فرمائی اور مشورہ دیا کہ بقیہ کتابوں کی تکمیل دوسرے اوقات میں مکمل کرلیں۔

ابھی تعلیمی مراحل کر رہے تھے کہ چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا، گھریلو حالات نے بھی مجبور کیا کہ گھر پر رہ کر والد ماجد کا ہاتھ بٹائیں۔ اس لیے وہاں کے سلسلۂ تعلیم کو ختم کرنا پڑا لیکن طلب علم کب چین سے بیٹھنے دیتی ہے۔ اس دوران امروہہ کے مدرسہ محمدیہ حنفیہ میں ہدایہ، جلالین، مشکوٰۃ، مدرک وغیرہ کے اسباق پڑھتے رہے۔

فراغت از علوم عربیہ

حضرت مولانا حاجی مبین الدین علیہ الرحمہ شوال ۱۳۶۱ھ میں ایک بار پھر اور بلند پایہ اُستاد سے تعلیم حاصل کرنے دادوں پہنچے، اور ۲۴؍شعبان ۱۳۶۴ھ؍۱۴؍اگست ۱۹۴۴ء کو سند فراغت حاصل کر کے واپس ا مروہہ تشریف لائے [2] ۔

انعامات

حضرت مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ شروع سے ہی انتہائی عقیل و فہیم تھے۔ قوت حافظہ وقوت آخذہ بدرجہ اتم تھی۔ دادوں کے دوران تعلیم ہر سال اپنے درجہ میں اول آتے اور انعام پاتے رہے۔ پہلے سال مولانا حاجی مبین الدین کو نقد دس روپے انعام سے نوازا گیا۔ دوسرے سال آنے پر کتاب کبریٰ اور تیسرے سال مختصر المعانی انعام میں دی گئی، نواب صدر یا جنگ حبیب الرحمٰن خاں شیروانی اپنی کتابوں کا ایک پور اسیٹ بھی بطور انعام دیا۔ مدرسہ حافظیہ سعیدیہ وقف دادوں علی گڑھ کی رپورٹ سالانہ نمبر ۱۵۱۴ھ ص ۱۱، بابت شعبان ۱۳۵۷ھ پر ممتحن مولانا سلامت اللہ نے کیفیت کے خانے میں مولانا مبین الدین اور ایک ہم جماعت مولانا محمد خلیل خاں کے بارے میں تحریر فرمایا۔

کامیاب اول ان دونوں نے بہترین جواب دیئے۔

اسی رپورٹ کے ص ۱۱پر ممتحن مذکور نے ۵، ۶؍شعبان ۱۳۵۸ھ؍ ۱۹؍ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۳۹ء کو منعقد مختصر المعانی کے امتحان میں مولانا مبین الدین علیہ الرحمۃ کے جواب سے انتہائی خوش ہوکر ممتاز بالائے صد لکھا۔ انہوں نے کیفیت کے خانے میں تحریر فرمایا۔

اس کتاب کے سات سوالات دیئے گئے تھے۔ جن میں سے صرف پانچ کا جواب طلب کیا تھا۔ مگر مولوی مبین نے جواب میں لکھا کہ سات جوابوں میں سے کوئی پانچ دیکھ لیجئے۔ ماشاءا للہ [3]

اساتذۂ کرام

۱۔ حضرت مولانا سید محمد کاظمی علیہ الرحمہ محدث امروہوی متوفی ۱۳۹۰ھ

۲۔ صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ

۳۔ حضرت مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ

۴۔ مولوی حکمت اللہ صدیقی متوفی ۱۳۸۱ھ؍۱۹۶۱ء

۵۔ حافظ تمیز الدین امروہوی

درس وتدریس

تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ نے سب سے پہلے دہلی کے ایک مدرسہ تجوید القرآن میں یکم محرم ۱۳۶۴ھ؍۲۹؍دسمبر ۱۹۴۳ء سے تدریس کا آغاز کیا۔ جلد ہی امام النحو مولانا سید غلام میرٹھی علیہ الرحمہ نے مولانا مبین الدین کو اپنے مدرسہ اندر کوٹ میرٹھ کے لیے منتخب کرلیا، وہاں ۴؍ذی الحجہ ۱۳۶۴ھ؍۲۱؍نومبر ۱۹۴۴ء سے رجب ۱۳۷۳ھ؍ ۳۱؍مارچ ۱۹۵۶ء تک مدرس دوم کے فرائض انجام دیتے رہے۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبدالمصطفیٰ علیہ الرحمہ کی تحریک پر ۵؍جولائی ۱۹۵۶ء؍۳۰؍ذی القعدہ ۱۳۷۳ھ سے دارالعلوم شاہ عالم احمد آباد میں تدریس کی خدمت انجام دینے لگے۔ وہاں مولانا مبین الدین پانچ سال تک رہے۔ ۱۴؍جون ۱۹۵۹ء؍ ۶؍ذی الحجہ ۱۳۷۸ھ کو وہاں سے مستعفی ہوگئے۔ اس کی و جہ یہ تھی کہ حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی اور حاجی سلیمان ابراہیم مہتمم دارالعلوم میں سخت اختلافات رونما ہوگئے تھے۔ عبدالمصطفیٰ اعظمی کو اس ی لیے دارالعلوم سے الگ ہونا پڑا۔ مہتمم اگر چہ مولانا عبدالمصطفی اعظمی کو کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے آمادہ نہ تھے مگر مولانا مبین الدین، مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی کی دیرینہ رفاقت کی وجہ سے یہ مروت سے بعید جانا کہ مولانا عبدالمصطفیٰ کی عدم موجودگی میں بھی وہاں رہیں۔ اگر چہ اس موقع پر خاص مالی فوائد سے ہاتھ دھونا پڑا اور اس کے بجائے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف کا قلیل تنخواہ قبول کرنی پڑی۔ مگر مولانا مبین الدین کے یہاں دوستی ومحبت مقدم تھی جرص و ہوس کا ذرا بھی دخل نہ تھا۔

۱۵؍اگست ۱۹۵۹ء؍۹؍صفر المظفر ۱۳۷۹ھ سے دارالعلو مظہر اسلام بریلی میں مدرس دوم کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ دو تین سال بعد مولانا ثناء اللہ کے چلے جانےکے بعد مولانا مبین الدین کو شیخ الحدیث صدر مدرس بنادیا گیا۔ اس منصب پر تقریباً ۱۴سال تک فائز رہے ۱۹۴۷ء میں مدرسہ محمدیہ حنفیہ شاہی چبوترہ امروہہ ضلع مراد آباد میں صدر مدرس کی حیثیت سے تشریف لے آئے۔ یہاں بھی تقریباً پانچ سال تک رہے۔ ااکین مدرسہ میں اختلاف ہوجانے پر جامعہ نعیمیہ مراد آباد تشریف لے گئے۔ وہاں ۱۹؍ستمبر ۱۹۷۹ء سے ۴؍فروری ۱۹۸۸ء تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اراکین جامعہ اور اساتذہ وطلبہ نے جس محبت وعقیدت کا ہمیشہ اظہار کیا۔ مولانا مبین علیہ الرحمہ اس سے بڑے متاثر تھے، اور ہمیشہ ان کے حق میں دعائے خری کرتے تھے [4] ۔

بیعت وخلافت

مولانا حاجی مبین الدین علیہ الرحمہ ۲۴؍صفر المظفر ۱۳۷۰ھ؍ ۵؍دسمبر ۱۹۵۰ء کو حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کے دستِ حق پرست پر داخلہ سلسلہ ہوئے۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ نے مولانا مبین الدین کو ۸؍شعبان المعظم ۱۳۸۱ھ؍۱۵؍جنوری ۱۹۶۲ء میں اپنے سلسلہ کی اجازت مرحمت فرماکر اپنا نامزد فرمایا۔

اور جب مولانا مبین الدین زیارت حرمین شریفین کے لیے تشریف لے گئے تو قطب مدینہ حضرت مولانا الشاہ ضیاء الدین احمد مدنی رضوی قدس سرہٗ نے بھی خلافت واجازت سے نوازا [5] ۔

خلفاء

حضرت مولانا مبین الدین نے کسی کو داخل سلسلہ نہیں کیا، ا ور لوگوں کے بے پناہ اصرار وخواہش کے باوجود حد درجہ محتاط اور تقوی پسند طبیعت نے کسی کو مرید کرنا پسند نہیں کیا۔ جب تک حضور مفتئ اعظم قدس سرہٗ دنیائے ظاہری میں موجود تھے تو لوگوں کو ان کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے وصال کے بعد بھی چند اور نام تجویز کر دیتے اور خود کو ہمیشہ بلطائف بچالیتے تھے۔ بعض لوگ اس روش پر کبھی کبھی معترض بھی ہوتے اور یہ خیال کرتے کہ

‘‘مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ کسی کوفیض پہچانا نہیں چاہتے’’

یوں تو مولا مبین الدین کا فیض دینی وعلمی ان کے ہزار ہا شاگردوں اور ان کے اخلاف کے ذریعہ تا قیامت جاری رہے گا۔ مگر انتہائی احتیاط کے باوجود اپنا روحانی سلسلہ منقطع کرنا بھی پسند نہیں کیا۔ گذشتہ سال ۵؍محرم الحرام ۱۴۰۷ھ کو مولانا مبین الدین نے اپنے لائق متقی شاگرد حضرت مولانا صوفی نظام الدین رضوی صدر المدرسین تنویر الاسلام امڑوھا ضلع بستی، قاری احمد جمال قادری جامعہ نعیمیہ مراد آباد کو سلسلۂ قادریہ رضویہ کی سند اجازت سے نوازا۔

حضور مفتی اعظم کی نواز شات

مولانا مبین الدین علیہ الرحمۃ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ بے پناہ خوش تھے، اور ہمیشہ انتہائی قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ کردار وگفتار میں انتہائی محتاط تھے۔ اس لیے کسی کے بارے میں رائے دیتے وقت بھی بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ کسی بہت ہی متقی اور صالح آدمی کا ذکر ہوتا تو فرماتے کہ ولی صفت ہیں۔ مگر مولانا مبین الدین کے بارے میں فرمایا تھا کہ:

اگر کسی کو زندہ ولی دیکھنا ہو تو وہ حاجی مبین الدین کو دیکھ لے [6]

اس جملے سے مولانا مبین الدین کی قدر و منزلت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، اس علاوہ بھی اکثر مواقع پر مولانا مبین الدین کے لیے مدحیہ کلمات اور بہترین رائے کا اظہار فرماتے تھے۔

حضور مفتی اعظم سے محبت

حضرت مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ کو حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ سے ایسی والہانہ عقیدت تھی کہ جس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں چند سطور میں اس دارفتگی کو خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔

آہ سب سے پہلے ہم اپنے اس شہر کو سمجھیں جس شہر میں ہمارا محبوب، ہمارے دلوں کی دھڑکن، ہماری آنکھوں کا نور، ہماری تمناؤں کا مرکز، ہماری جانوں کا چین ہماری آرزوؤں کا قبلہ، ارمانوں کا کعبہ جلوہ فرما ہے، وہ کون سا شہر ہے، ہاں ہاں وہ شہر بریلی ہے [7] ۔

یہ پورا مضمون حضور مفتی اعطم قدس سرہٗ سے غایت محبت کا نمونہ ہے جس کو پڑھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ اپنے مرشدِ برحق کے قریب رہ کر بھی کیسی والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔

حج وزیارت

احمد آباد کے دوران قیام مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ کو کسی قدر آسائش حا‎صل ہوئی تو سفر حج کے لیے روپیہ جمع کرنا شروع کردیا۔ اگر چہ اس وقت آپ کم عمر ہی تھے اور بوسیدہ اور شکستہ مکان کی تعمیر بھی ناگیز تھی، جس کی وجہ سے مولانا مبین الدین کو دوسرے اعزاء کے یہاں رہنا پڑتا تھا۔ احمد آباد میں ہی شروع ہوئی اختلاج قلب کی بیماری نے بھی ساتھ نہ چھوڑا تھا۔ مگر ان مسائل کے باوجود ۱۳۷۹ھ؍۱۹۶۰ء میں زیارت حرمین کا مصم ارادہ کرلیا اور بالآخر اس سے مشرف ہوگئے۔

کوائف زیارت حرمین

اس سال حج جون میں تھا۔ حجاز مقدس میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ ایک کمزور اور بیمار آدمی کے لیے تو یہ موسم سخت جاں گساں بن جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود مولانا مبین الدین نے ۲۷۳ طواف ۹ نو عمرے، بیس قرآن پاک ختم کیے، سخت گرمی کے باوجود مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں روزے بھی رکھے ۱۶۳ نمازیں مسجد حرام میں، اور ۷۹ نمازیں مسجد نبوی میں ادا کیں، مکہ معظمہ ۵۰دن اور مدینہ منورہ میں ۱۶دن قیام کیا۔ موسم کی سختی کے باوجود جبل احد، جب نور، جبل رحمت، جعرانہ تنعیم، مسجد قبا، مساجد خمسہ، مسجد غمامہ، مسجد قبلتین وغیرہ کی بھی زیارت کی [8] ۔

تصنیفات

آخری دور میں مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ نےخدماتِ دین کے لیے جامعہ نعیمیہ مراد آباد کو منتخب فرمالیا تھا۔ آخری لمحات تک یہاں رہ کر ہی انہوں نے اسلام کی آبیاری کے لیے بہت کچھ کیا۔ تدریسی مشاغل کے ساتھ ساتھ یہاں تصنیفی کام بھی انجام دیا۔ اور اپنےپیچھے قوم و ملت کے لیے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جو آج بھی ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں، سب سے پہلے مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ نے ایک عیسائی پادری کے رد میں افضل المرسلین تصنیف فرمائی جو مولانا مبین الدین کی تحقیق وتدقیق علم وفضل کا بہترین شاہکار ہے۔ سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی انبیاء ومرسلین پر فضیلت کے اثبات میں یہ کتاب اعلیٰ درجہ کی تحقیق سے مزین ہے۔ مولانا مبین الدین نے پادری جی کی جہالت و گمراہی کو اس کتاب میں بے نقابل کر کے یہ واضح کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے افضل بتانا اور پھر قرآن پاک سے ثابت کرنا آیات قرآنی سے ثابت کرنا وانی پر مبنی ہے۔ مولانا مبین الدین نے قران پاک کے بے شمار ایات سے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا افضل المرسلین ہونا ثابت فرمایا ہے۔

دوسری کتاب شہید معظم جس میں انتہائی محققانہ عالمانہ انداز میں بہت ہی مختصر طور پر ایک دیوبندی یزیدی کی کتاب محرم کا جواب تحریر فرمایا ہے۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حق پر تھے۔ یزید ا ور یزیدوں کو حق پر ماننا غلط وبے بنیاد، جہالت وبکواس ہے۔ ایسا لکھنے والا دیوبندی ہی نہیں یزیدی ہے۔

آخری ایام میں تفسیر بیضاوی کی شرح تصنیف فرمارہے تھے۔ یہ سلسلہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کے اختتام تک ہی پہنچا تھا کہ دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ یہ کتاب بھی تحقیق سے لبریز ہے اور کثیر تفاسیر کا خلاصہ ونچوڑ ہے۔ مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ پہلے ایک نشست میں تفسیر کا مطالعہ فرماتے، اور پھر دوسری نشست میں بغیر کسی کتاب کے سامنے رکھے تحقیق کے دریا بہاتے تھے۔ ایک خصوصیت اس کتاب کی یہ بھی ہے جو خود مولانا مبین الدین نے بیان فرمائی ہے۔

دیوبندیوں نے جو تفسیر بیضاوی کی شروح لکھیں ہیں ان میں جہلول زمانہ نے جو غلطیاں کی ہیں اور جہالت کا مظاہرہ کیا ہے ان کی نشاندہی بھی میں نے کردی ہے [9] ۔

مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ نے حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ کی سیرت پر ایک مقالہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ جو مقالات نعیمی حصہ اول میں چھپ چکا ہے۔

اس مقالے نے مولانا مبین الدین کے علمی جواہر پارے کو اجاگر کردیا اور عوام وخواص میں بہت ہی مقبول ہوا۔ اعلیٰحضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ کا نعتیہ کلام قصیدہ غوثیہ کی شرح لکھنے کا بھی ارادہ تھا۔ قصیدۂ غوثیہ کی شرح لکھنے کے لیے رمضان المبارک کا مہینہ منتخب فرمایا تھا۔ مگر وہ ارادہ پہلے ہی منقطع ہوگیا اور وہ یہ ارمان لے کر اس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔

مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ نے ایک اور کارہائے نمایاں انجام دیا کہ امام احمد رضا قادری فاضل بریلوی قدس سرہٗ کے ترجمہ قران پاک مسمٰی کنز الایمان کی کتابت وطباعت کی سینکڑوں غلطیاں انتہائی عرق ریزی کے بعد واضح کیں، یہ اصلاح شدہ ترجمہ قرآن کمپنی بریلی سے شائع ہوچکا ہے جس کے پشت پر مولانا مبین الدین کا اسم گرامی تحریر ہے۔

علم وفضل

مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ بہترین حافظ، بلند پایہ، عالم، محدث اور فقیہہ تھے مدارس میں رائج علوم عقلیہ منطق وفلسفہ میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے، اور برسہابرس تک اُن کی تدریس میں مشغول رہے۔ مولانا مبین الدین علم وحلم، زہد وتقویٰ، صدق وصفاء، صبروشکر، توکل ورضا اور تہذیب وشائستگی کا ایک بلند وروشن منارہ بن گئے تھے۔ جو تقریباً نصف صدی تک نور کی ضیاء پاشیاں کرتا رہا اور جس کا فیض تاقیامت جاری رہے گا۔

ایڈیٹر ماہنامہ رضائے مصطفیٰ رقمطرازہیں:

ایک ملاقات میں غیر مقلدین کی جانب سے کیے گئ ے اعتراض کے بارے میں دریافت کیا تو حضرت (مولانا مبین الدین) نےچند منٹ میں اس پیچیدہ مسئلہ کو ایسا سلجھادیا کہ میں حیران وششد رہ گیا۔ جبکہ اس سلسلہ میں میں کافی پریشان تھا [10] ۔

خصائل وعادات

مولانا مبین الدین شب وروز کے بیشتر اوقات درودوسلام کےنذرانے بھیجنے میں بسر ہوتے تھے۔

۲۔ دلائل الخیرات، حزب البحر اور سلسلۂ قادریہ رضویہ کے دیگر اور اد کے بڑے پابند تھے۔

۳۔ اس کے صلہ میں حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دیدار پر انوار سے بار بار مشرف ہوئے۔

۴۔ حضرات شیخین اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیدار سے نوازا۔

۵۔ مستقل بیماری کے باوجود رمضان المبارک میں تقریباً چالیس تراویح میں قرانِ کریم سُنایا۔

۶۔ تراویح کے علاوہ بھ ی رمضان المبارک میں مولانا مبین الدین پندرہ سولہ قرآن کریم ختم فرماتے۔

چند تلامذہ

مولانا مبین الدین علیہ الرحمہ نے پوری زندگی تدریس میں گزاری اس لیے تلامذہ فہرست کثیر ہے، اور عرصۂ دراز تک دارالعلوم منظر اسلام بریلی کے ممتحن رہے۔ تاحیات دارالعلوم منظر اسلام کے دورۂ حدیث کے طلبہ امتحان لیتے رہے۔ چند مشہور تلامذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

۱۔ حضرت مولانا محمد صالح رضوی مدرس دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف

۲۔ مولانا صوفی نظام الدین رضوی مہتمم تنویر الاسلام بستی

۳۔ قاری محمد ظہور احمد تنویر الاسلام بستی

۴۔ مولانا عبدالرحمٰن مجددی انور العلوم تسلشی پور گونڈہ

۵۔ مولانا زاہد علی رضوی سلامی سرائے ترین سنبھل مراد آباد

۶۔ مولانا امین الدین خاں مظفر العلوم گونڈہ

۷۔ مولانا چراغ عالم رضوی اجمل العلوم سنبھل مراد آ﷜باد

۸۔ مفتی عبدالجلیل رضوی علیہ الرحمہ مہتمم جامعہ نوریہ اسلامیہ مدھوبنی بہار

۹۔ مفتی مطیع الرحمٰن رضوی پور نوی مدیر عام ادارۃ الحنفیہ گشن گنج بہار

۱۰۔ مولانا تفسیر القادری رضوی مدرس دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی ضلع بستی

۱۱۔ مولانا امام الدین مصطفوی اظہار العلوم فیض آباد

۱۲۔ مولانا قاری حبیب اشرف رضوی سنبھل مراد آ﷜باد

۱۳۔ مولانا نظام الدین

۱۴۔ مولانا صوفی خالد علی خاں رضوی مہتمم دارالعلوم مظہر العلوم بریلی

۱۵۔ مولانا محمد سیف الحق نعیمی مدرس حنفیہ قادریہ امروہہ مراد آباد

۱۶۔ مولانا بشیر احمد نعیمی دارالعلوم دیوان شاہ بھیونڈی مہار اشٹر

۱۷۔ مولانا نسیم احمد مدرس حنفیہ قادریہ امروہہ مراد آبد

۱۸۔ قاری سمیع اللہ امروہہ

۱۹۔ مولانا زین الحق

۲۰۔ مولانا شاہد حسین امروہہ

۲۱۔ مولانا محمد شمس الحق رضوی پور نوی

۲۲۔ مولانا آفتاب الدین ناظم اعلیٰ حنفیہ قادریہ امروہہ

انتقال پُر ملال

۲۵؍جمادی الآخر ۱۴۰۸ھ؍ ۴؍فروری ۱۹۸۸ء م بروز اتوار سہ پہر تین بج کر ۳۵ منت پر مولانا مبین الدین محدث امروہوی علیہ الرحمہ کا وقت موعود آپہنچا۔ جس سے کسی کو انکار نہیں رات کو ٹیلی فون کے ذریعہ جانشین حضور مفتی اعظم حضرت علامہ محمد اختر رضا خاں ازہری قادری بریلوی برکاتہم القدسیہ کے دولت کدہ پر خبر ملی۔ اس وقت حضرت جانشین مفتئ اعظم مدطلہ باہر تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے تھے۔ فوراً برادر زاد مفتی اعظم علامہ تحسین رضا قادری بریلوی مدظلہ کو خبر کی گئی۔ وصال کے ۲۶گھنٹے بعد بروز پیر بعد نماز عصر تدفین عمل میں آئی۔ اور نماز ِجنازہ علامہ تحسین رضا خاں قادری مدظلہ العالی بریلوی نے پڑھائی۔ اور دنیائے سنیت ایسے زندہ ولی سے محروم ہوگئی۔

تاریخ وصال

حضرت مولانا الحاج مبین الدین محدث امرہوی علیہ الرحمہ کے وصال پر عالم با عمل حضرت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی اُستاذ دارالعلوم منظر اسلام بریل یشریف نے مندرجہ زیل تاریخی مادے استخراج فرمائے۔

وارث علم ودانش حامی عالم، عرفان فضل وکمال، فیض جمال پاک رضا

۔۔۔۔۔۱۴۰۸ھ۔۔۔۔،۔۔۔۔۱۴۰۸ھ۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۱۹۸۸ء۔۔۔۔۔۔

آہ مختار گوشہ نشین، علامہ مبین الدین صاحب چشم اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۸ء۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۸۸ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رضی اللہ الموسع عنہ [11]

۔۔۔۔۱۴۰۸ھ۔۔۔۔



[1] ۔ جو اس وقت ریاست دادوں ضلع علی گڑھ کے مدرسہ حافظیہ سعیدیہ میں سدر مدرس تھے۔ ۱۲،رضوی غفرلہٗ

[2] ۔ شجاعت الدین فاروقی، عالم با عمل ص ۱۸، ۱۹

[3] ۔ شجاع الدین فاروقی، عالم باعمل ص ۹، ۱۰

[4] ۔ شجاع الدین فاروقی، عالم باعمل ص ۹، ۱۰

[5] ۔ شجاع الدین فاروقی، عالم باعمل ص ۹، ۱۰

[6] ۔ بروایت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی استاد منظر اسلام بریلی شریف

[7] ۔ زاہد علی رضوی سلامی، مولانا: مقالات نعیمی ص۱۰

[8] ۔ شجاع الدین فاروقی، عالم با عمل

[9] ۔ ماہنامہ رضائے مصطفیٰ، بہیڑی ضلع بریلی ص ۵۹، ۶۰بابت ماہ جون ۱۹۸۸ء شوال ذالقعدہ ۱۴۰۸ھ مضمون مولانا محمد حنیف خاں رضوی بریلوی

[10] ۔ ماہنامہ رضائے مصطفیٰ بہیڑی ص ۵۸، بابت جون ۱۹۸۸ء شوال ذیعقدہ ۱۴۰۸ھ

[11] ۔ قلمی یاد داشت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی، نزد راقم ۱۲رضوی غفرلہٗ

 حضرت مولانا محمد مبین الدین امروہوی مدظلہٗ رحمۃ اللہ علیہ

حافظ قرآن، امروہہ ضلع مراد آباد کے ساکن، دار العلوم حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ میں حضرت صدر الشریعہ مولانا شاہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے اخذ علوم کیا، مدرسہ اسلامیہ میرٹھ اور دار العلوم شاہ عالم احمد آباد میں مدرس دوم رہے، مرجع افاضل مولانا شاہ مصطفیٰ رضا بریلوی مفتی اعظم ہند نے اپنے مدرسہ جامعہ مظہر اسلام کے لیے بعہدۂ صدارت المدرسین آپ کا انتخاب کیا، ۱۹۵۹؁ء سے اسی جگہ کام کر رہے ہیں، افہام وتفہیم کا خاص ملکہ پایا ہے،

غایت پرہیزگار متقی ہیں اور اپنے شاگردوں میں اسی خوبی کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۹۵۹؁ء میں حج وزیارت سے مشرف ہوئے، حضرت مفتئ اعظم کے مرید وخلیفہ ہیں، راقم اوراق نے احمد آباد میں آپ کی زیارت کی تھی۔

تجویزوآراء