حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان رضوی
حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
ولادت
یادگار سلف استاذ العلماء جامع معقول و منقول حضرت مولانا مفتی تقدس علی خان بن الحاج سردار ولی خاں بن مولانا ہادی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں (جد امجد اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خاں بریلوی) رجب، اگست ۱۳۲۵ھ؍۱۹۰۷ء میں بمقام آستانہ عالیہ رضویہ محلہ سوداگران بریلی شریف پیدا ہوئے۔ مولانا رضا بریلوی نے آپ کا تاریخی نام تقدس علی خاں، ۱۳۳۵ھ استخراج فرمایا۔
فاضل بریلوی سے رشتہ
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیز مفتی تقدس علی کے والد محترم کے چچا زاد بھائی تھے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے آپ کےنانا تھے۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ماموں اور سُسر تھے۔
تعلیم وتربیت واساتذہ گرامی
آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا خلیل الرحمٰن بہاری، مولانا ظہور الحسن فاروقی مجددی (صدر مدرس مدرسہ عالیہ رام پور ودارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف) اور ان کے صاحبزادے مولانا نور الحسین رامپوری سے حاصل کی۔ متوسط کتب درس نظامی برادر زادہ اعلیٰ حضرت مولانا حسنین رضا خاں قدس سرہٗ سے پڑھیں اور اعلیٰ تعلیم حضرت مولانا رحم الٰہی، مولانا عبدالمنان (مردان) مولانا عبدالعزیز خاں، اور حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی (مصنف بہار شریعت) سے حاصل کی اور تکمیل حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں رحمۃ اللہ سےکی۔ حجۃ الاسلام نے آپ کو درسیات کے علاوہ رد المختار کا مقدمہ بھی پڑھایا اور فتویٰ نویسی کی مشق بھی کرائی۔
۱۳۴۵ھ میں آپ نے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے سند فراغت حاصل کی۔ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خاں بریلوی سے مفتی تقدس علی نے شرح جامی کا خطبہ پڑھا۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ العزیز سے بالواسط شرف تلمذ حاصل کرنے کے لیے مدارس کے منتہیٰ طلباء آپ سے شرح جامی کا خطبہ پڑھتے تھے۔محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد رضوی رحمۃ اللہ نے بھی آپ سےیہ خطبہ پڑھا۔ چنانچہ جب اس تدریس کا شہرہ ہوا تو اس کا مادہ تدریس تقدس علی استخراج کیا گیا۔
تدریسی آغاز
دوران تعلیم میں ہی دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے نائب مہتمم مقرر ہوئے اور حضرت مفتی تقدس علی نگرانی میں مشہور علماء کی دستار بندی ہوئی۔ جن میں حضرت شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی قدس سرہٗ قابل ذکر ہیں۔ الٰہ آباد یونیورسٹی میں آپ نےعلوم شرقیہ کے امتحانات کا سلسلہ جاری کرایا۔ جامعہ نظامیہ حیدر آباد دکن اور الٰہ آباد یونیورسٹی کےممتحن رہے۔
منظر اسلام کا اہتمام
فراغت کے فوراً بعد دارالعلوم منظر اسلام میں تدریس شروع کی اور بے شمار فضلاء کو فیضیاب کیا۔ حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ کے وصال کے بعد حضرت مفتی تقدس علی دارالعلوم کے مہتمم مقرر ہوئے۔ اس طرح پچیس سال کا عرصہ بریلی شریف میں پڑھانے کےبعد ۱۳۷۱ھ میں کراچی (پاکستان) تشریف لے آئے۔
بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت اور حضرت حجۃ الاسلام رحمہا اللہ کے اعراس اور مشاعروں کا اہتمام کبھی آپ کے ذمہ ہوتا تھا۔
مدرسہ قادریہ اور جامعہ راشدیہ
۱۳۷۲ھ میں حضرت مفتی تقدس علی خاں نے پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میں مدرس قادریہ کا اجراء کیا اس وقت حضرت پیر صاحب پاگارہ لندن میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔
۱۹۵۲ء میں پیر صاحب کی تاج پوشی ہوئی اور ۵؍مئی ۱۹۵۲ء کو جامعہ راشدیہ کا افتتاح ہوا۔ آپ اس جامعہ کے پہلے شیخ الجامعہ اور حضرت پیر صاحب پاگارہ کے اتالیق ُستاد مقرر ہوئے۔ اس وقت سے تازیست حضرت مفتی تقدس علی جامعہ راشدیہ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے سینکڑوں طلباء آپ سے پڑھ کر مختلف مساجد اور مدارس بالخصوص جامعہ راشدیہ کی مختلف شاخوں میں دینی فرائض انجام دہی میں مصروف ہیں۔
آپ نے بیس سال سےزیادہ عرصہ مدینہ مسجد عید گاہ، پیرگوٹ ضلع خیر پور میں خطابت اور امامت کے فرائض انجام دیے۔
تحریک پاکستان میں حصہ
مفتی تقدس علی کاں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ مراد آباد سنی کانفرنس میں آپ نے شرکت کی۔ جبکہ بنارس سنی کانفرنس میں مفتی تقدس علی خاں کے برادرِ خورد حضرت مولانا مفتی اعجاز ولی خاں رضوی رحمۃ اللہ علیہ شریک ہوئے۔ حضرت مفتی تقدس علی خاں نے تحریک ختم نبوت میں دیگر علماء اہلسنت کے شانہ بشانہ کام کیا۔
سنی کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ (دارالسلام) میں حضرت مفتی تقدس علی نے پیر صاحب پارگاہ کی نمائندگی اور ان کا پیغام پڑھ کر سُنایا۔ کل پاکستان سنی کانفرنس ملتان ۱۶؍۱۷؍اکتوبر ۱۹۷۸ء میں آپ پہلے اجلاس کے مہمان خصوصی تھے۔
حضرت مفتی تقدس علی جمعیت علماء پاکستان پیرگوٹ (سندھ) کے صدر رہ چکے ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں آپ بنیادی جمہوریت کے انتخاب میں کامیاب ہوئے اور چھ سال تک یونین کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے قوم و وطن کی خدمت کرتے رہے۔
تصانیف وتراجم
حضرت مفتی تقدس علی کی بعض علمی تصانیف ہندوستان میں رہ گئیں۔ پاکستان آنے کے بعد آپ نے کتب کے تراجم کیے۔ ان میں سے مکاشفتہ القلوب کا ترجمہ چھپ چُکا ہے۔
بیعت وخلافت
حضرت مفتی تقدس علی خاں کو ۱۳۲۲ء میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے بیعت اور تمام سلاسل میں خلافت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خاندان قادریہ کے اور ادو وظائف کی اجازت دے کراپنا مجاز فرمایا اور خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور اپنے دست مبارک میں آپ کا ہاتھ لے کر مصافحہ فرماتے ہوئے حدیث مصافحہ سنائی جو سات واسطوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے [1] اور مزید خلافت واجازت شہزدۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی مصطفیٰ رضا نوری قدس سرہٗ سے بھی حاصل ہے۔ اور اسی محبت وعقیدت کی بنا پر مفتی تقدس علی رضوی مکاشفۃ القلوب کا ترجمہ کر کے جب فارغ ہوئے تو اسکا انتساب حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کےن ام نامی سے کیا [2] ۔
حج وزیارت
۱۳۶۷ھ میں حضرت مفتی تقدس علی رضوی نے بغداد شریف، کاظمیہ شریف، کربلائےمعلیٰ ونجف اشرف میں حاضری دی اور ۱۳۶۸ھ میں پہلا ھج ہندوستان سے کیا۔ پاکستان سے ۱۳۸۸ھ میں دوسرا اور ۱۳۹۲ء میں تیسرا حج کیا۔ ۱۳۹۵ھ سے آپ مسلسل ہر سال ماہ رمضان المبارک میں عمرہ وزیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہوتے رہے۔
چند مشہور تلامذہ
آپ کے تلامذہ بیشمار کالجوں، یونیورسٹیوں اور دینی مدارس ومساجد میں دینی و مذہبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
۱۔ مولانا محمد ابراہیم خوشتر قادری رضوی، سابق خطیب جامع مسجد مار یشس، افریقہ حال لندن۔
۲۔ مولانا رجب علی رضوی مفتی ن انپارہ ضلع بہرائچ
۳۔ مولانا مفتی اشفاق حسین نعیمی، مفتی جودھ پور
۴۔ مولانا مفتی اعجاز ولیرضوی، رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث جامعہ نعمانیہ لاہور
۵۔ مولانا مفتی غلام قادر، مدرس جامعہ راشدیہ
۶۔ مولانا مفتی غلام قادر،مدرس جامعہ راشدیہ
۷۔ مولانا سفتی عبدالحمید آنولوی (مرحوم) خطیب جامع مسجد نواب شاہ
۸۔ مولانا محمد صالح رحمۃ اللہ علیہ خطیب جامع مسجد درگاہ شرف، سابق مہتمم جامعہ راشدیہ
۹۔ مولان مفتی عبدالرحیم مدرس مدرسہ شاہ پور چاکر
۱۰۔ مولانا مفتی در محمد شیخ الحدیث مدرسہ صبغۃ الاسلام سانگھڑ
۱۱۔ مولانا محمد ہارون ایم۔ اے، معلم عربی، ضلع خیر پور [3]
۱۲۔ محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد رضوی بانی جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آبادل
۱۳۔ بحر العلوم مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری سابق مفتی منظر اسلام بریلی
۱۴۔ علامہ ارشد القادری رضوی جمشید پور بہار
۱۵۔ شیخ الحدیث علامہ مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی گھوسی [4]
۱۶۔ حضرت پیر شاہ مردان شاہ، سجادہ نشین درگاہ شریف حضرت پیر صاحب پاگارہ پیر جوگونٹھ
انتقال پُر ملال
حضرت مفتی تقدس علی رضوی علیہ الرحمۃ ۲۲؍فروری بروز پیر ۳؍رجب المرجب ۱۴۰۸ھ ۱۹۸۸ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے [5] ۔
[1] ۔ محمد صدیق ہزاروی، مولانا: تعارف علمائےاہلسنت ص ۶۹تا۷۱
[2] ۔ بروایت استاد محترم علامہ مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی، اُستاذ منظر اسلام بریلی
[3] ۔ محمد صدیق ہزاروی، مولان: تعارف علمائےاہلسنت ص ۷۲
[4] ۔ مترجم تقدس علی رضوی، مفتی: مکاشفۃ القلوب ص ۱۸
[5] ۔ مکتوب گرامی مکرمی حضرت علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری بنام راقم، ۱۲،رضوی غفرلہٗ
------------------------------------------
حضرت مو لانا الحاج تقدس علی خان بریلوی ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی کے چچا زاد بھائی الحاج سردار ولی خان (مدفون پیر جو گوٹھ ) کے فرزندارجمند تھے۔ رجب المرجب ۱۳۲۵ھ بمطابق اگست ۱۹۰۷ء میں خانقاہ رضویہ قادر یہ محلہ سودا گراں بریلی شریف (یوپی ، انڈیا) میں تولد ہوئے ۔ مولانا حسنین رضا خان نے آپ کا تاریخی نام ’’تقدس علی خان ‘‘(۱۳۲۵ھ)رکھا۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا خلیل الرحمن بہاری، مو لانا ظہور الحسن فاروقی مجدوی (صدر مدرس مدرسہ عالیہ رامپور)اور ان کے صاحبزادے مولانا نور حسین سے حاصل کی ۔متوسط کتب درس نظامی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے بھتیجے حضرت مولاانا حسنین وضا خان (ابن حضرت مولانا حسن رضا خان بریلوی موٗ لف ذوق نعت ) سے پڑھیں اور اعلیٰ تعلیم حضرت مولانا رحم الہیٰ ،مولاناعبدالمنان ، مو لانا عبدالعزیز اور صدرالشریعہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی ( موٗ لف بہار شریعت )سے حاصل کی اور تکمیل حجۃ الاسلام مولانا مفتی حامدرضا خان بریلوی سے کی ، انہوںنے آپ کو درسیات کے علاوہ دالمحتار کا مقدمہ بھی پڑھایا اور فتویٰ مویسی کی مشق بھی کرائی ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی سے آپ نے ’’شرح جامی‘‘کا خطبہ پڑھا ۔
بعد میں محدث اعظم حضرت مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد فیصل آبادی اور دیگر بہت سے اکابر علماء نے اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے بالواسطہ شرف تلمیذ حاصل کرنے کے لئے اسی خطبہ کا درس آپ سے لیا ۔۱۳۴۵ھ میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے آپ درس نظامی سے فارغ التحصیل ہو کر سند الفراغ حاصل کی ۔ آپ دوران تعلیم ہی اس دارالعلوم کے نائب مہتمم مقرر ہوئے اور آپ کی نگرانی میں مشہور علماء کی دستار فضیلت ہوئی۔
بیعت و خلافت:
مو لانا تقدس علی خان ۱۳۳۲ھ میں امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے جب کہ آپ کی عمر صرف سات سال تھی ۔مولانا مفتی حامد رضا خان بریلوی ؒ نے آپ کو خاندان قادریہ کے اور ادووظائف کی اجازت دے کر اپما مجاز فرمایا اور خرقہ خلافت عظا فرمایا ۔ نیز اپنے ہاتھ میں آپ کا ہاتھ لے کر مصافحہ فرماتے ہوئے ’’حدیث مصافحہ‘‘سنائی جو کہ سات واسطوں سے حضور پر نور سید عالم ﷺ تک پہنچتی ہے ۔ اس کے علاوہ قطب مدینہ شیخ المشائخ حضرت مولانا محمد ضیاء الدین مدنی قادری قدس سرہ نے بھی اجازت و خلافت سے سر فراز فرمایا۔
سفر حرمین شریفین :
۱۳۶۷ھ میں آپ نے بغداد شریف ، کا ظمیہ شریف ، کر بلا معلیٰ و نجف الاشرف، میں مزارات مقدسہ پر حاضری کی سعادت حاصل کی ۔ ۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۹ء میں پہلا حج ہندوستان سے کیا پھر پاکستان سے ۱۳۸۸ھ؍۱۹۶۸ء میں دوسری اور ۱۹۷۲ء میں تیسری مرتبہ حج کیا ۔ ۱۳۹۵ھ؍۱۹۷۵ء سے تاوصال آپ مسلسل ہر سال ماہ رمضان المبارک میں عمر ہ و زیارت کی سعادت سے بہرہ ور ہو تے رہے ۔
درس تدریس :
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں دریس شروع کی اور اس کا مادہ ’’تدریس تقدس علی ‘‘(۱۳۴۸ھ) استخراج کیا گیا ۔ یہاں بے شمار علماء آپ سے فیضیاب ہوئے ۔ حضرت حجۃ الاسلام کے وصال کے بعد آپ دارالعلو م کے مہتمم مقرر ہوئے ۔ اس کے علاوہ جامعہ نظامیہ حیدر آباددکن اور الہ آباد یونیورسٹی کے ممتحن بھی رہے اور الہ آباد یونیورسٹی میں آپ نے علوم شرقیہ کے امتحانات کا سلسلہ شروع کرایا ۔ ۲۵ سال کا عرصہ بریلی شریف میں پڑھانے کے بعد آپ ۱۳۷۱ھ؍۱۹۵۱ء میں کراچی (پادکستان ) تشریف لے آئے اور دارالعلوم امجد یہ میں قیام پذیر رہے ۔
۱۳۷۲ھ؍۱۹۵۲ء میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الحدیث حضرت مفتی محمد صاحبداد خان جمالی ؒ کی کوششوں سے سید شاہ مردان شاہ راشدی المعروف صاحب پگارا(صدر پاکستان مسلم لیگ سوت سجادہ نشین درگاہ راشدیہ پیران پگارہ پیر جو گوٹھ )کے اتالیق کی حیثیت سے درگاہ شریف پیر جو گوٹھ (ضلع خیر پور میرس ، سندھ) تشریف لے گئے ۔ ۵، مئی ۱۹۵۲ء کو پیر صاحب پگارا نے درگاہ شریف راشدیہ پیران پا گارہ کے متصل صاحب آستانہ کے نام مقدس امام العارفین ، غوث العالمین،تیرہویں صدی کے مجدد برحق ، محی السنۃ، ماحی البدعۃ۔ شیخ الشیوخ ،سند الکاملین حضرت خواجہ سید محمد راشد شاہ المعروف حضرت پیر صاحب روزے دھنی قدس (رحلت ۱۲۲۴ھ) سے منسوب ’’جامعہ راشدیہ‘‘کا افتتاح کیا ۔ (جو کہ دربار مقدس پر بر سوں سے قائم تھا لیکن انگریز نے جب سندھ پر قابض ہو ئے تو اس دربار مقدس کے مریدین کو نشانہ بنایا جو کہ سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں بستے ہیں اور تاریخ میں ’’حر تحریک ‘‘کی خدمات اور روزروشن کی طرح عیاں ہیں ، اس تحریک نے انگریز سے جہاد کیا تو انگریز نے اس درگاہ مقدس کو زبردست نقصان پہنچایا درگاہ مدرسہ کو سیل کیا موجودہ پیر صاحب پاگارہ اور ان کے بھائی جو کہ ان دنوں چھوٹے بچے تھے کوروپوش کر کے انگلستان لے گئے اور ان کے والد ماجد امام انقلاب ، بطل حریت، شمشیر بے نیام شیخ طریقت حضرت پیر سید محمد صبغب اللہ شاہ راشدی قدس سرہ کو رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر حر تحریک کے جانباز سرفرووشوں سے درتے ڈرتے شہید کر دیا ) جس کے پہلے شیخ الجامعہ پیکر تقکس حضرت علامہ مفتی تقدس علی خان رضوی مقرر ہوئے اور تاحیات اسی منصب جلیل پر فائزر ہے ۔آپ نے ساٹھ سال تک تدریسی فرائض سر انجام دیئے اور ایک عالم کو سیراب کیا ۔
تلامذہ:
آپ کے بکثرت تلامذہ ملک و بیرون ملک کالجوں یونیوسٹیوں اور دینی مدارس و مساجد میں دین اسلام مسلک حقہ اہل سنت و جماعت کی تبلیغ ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں ۔ چند ممتازتلامذہ کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔
٭ برادراصضر مفتی اعجازولی خان بریلوی
سابق شیخ الحدیث دارالعلو م نعمانیہ لاہور
٭ مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی
سابق شیخ الحدیث دارالعلو م فیض الرسول براوٗ ن شریف (انڈیا )
٭ مولانا مفتی سید محمد افضل حسین قادری
سابق شیخ الحدیث جامعہ قادریہ فیصل آباد
٭ مفکر اسلام رئیس التحریر علا مہ ارشد القادری
مہتمم جامعہ نظام الدین اولیاء دہلی
٭ مو لانا اشفاق حسین نعیمی مفتی اعظم جودھپور (انڈیا)
٭ مولانا جب علی مفتی نان پارہ ریاست (انڈیا)
٭ حضرت مولانا قاضی دوست محمد صدیقی
المعروف مولانا بلبل سندھ لاڑکانہ
٭ مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی خطیب مانچسڑ ( انگلینڈ )
٭ حضرت مو لانا محمد صالح قادری سابق مہتمم جامعہ راشدیہ درگاہ شریف
٭ مناظر اسلام مفتی عبدالرحیم سکندری
مہتمم مدرسہ صبغۃ الھدیٰ شاہ پورچاکر سندھ
٭ مفتی محمد رحیم سکندری
مہتمم جامعہ راشدیہ (مترجم : کنزالایمان سندھی )
٭ مولانا مفتی در محمد سکندری
شیخ الحدیث و مہتمم مدرسہ صبغۃ الاسلام سانگھڑ سندھ
٭ مفتی غلام قادر سکندری سابق مدرس جامعہ راشدیہ
٭ استاد العلماء مولانا سوفی علی شیر سکندری
مہتمم مدرسہ حزب الاسلام تلو بھانڈو
٭ مولانا مفتی عبدالحمید مرحوم
سابق خطیب جامع مسجد نواب شاہ سندھ
٭ مناظر اہل سنت مولانا محمد قاسم مصطفائی
مہتمم مدرسہ انوار اصطفیٰ میر پور ماتھیلو سندھ
خطابت:
آپ نے مدینہ مسجد پیر جو گوٹھ (ضلع خیر پور میرس سندھ )میں چوبیس (۲۴) سال خطابت اور امامت کے فرائض سر انجام دیئے ۔ اس کے بعد پیر جو گوٹھ کی بازار میں ــ’’مسجد رضا ‘‘تعمیر کروائی اور پھر عمر بھر اسی مسجد شریف میں ذمہ داری نبھاتے رہے ۔
سیاسی خدمات:
آپ نے تحریک پاکستان میں بھر پو ر حصہ لیا ، مراد آباد سنی کانفرنس (منعقدہ ۴، اکتوبر ۱۹۳۹ئ)میں آپ مے شرکت کی ۔ اس موقع پر حجۃ الاسلام مو لا نا حامد رضا خان بریلوی اور مولانا سید فتح علی شاہ قادری کھر وٹہ سیداں ضلع سیالکوٹ (پنجاب ) نے اپنے خطابات میں دو قومی نظریہ کی اہمیت و افادیت واضح کی ۔ ( سنی کانفرنس ص ۹ کراچی ) آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس (۲۷تا ۳۰اپریل ۱۹۴۶ئ)میں آپ اپنے برادر اصغر مولانامفتی اعجازولی خان کے ہمراہ شریک ہوئے ۔ اس کانفرنس میں بر صغیر کے دو ہزار سے زائد علماء و مشا ئخ اور لاکھوں عوام اہل سنت جے فیصلہ دیا کہ پاکستان بن کر رہے گا ۔ اوراگر قائداعظم محمد علی جناح اس تحریکسے دست بردار بھی ہو گئے تو علماء و مشائخ اس کی بھاگ دوڑ سنبھا ل کر تحریک کو منزل مقصود تک پہنچائیںگے۔
تصنیف و تالیف :
علامہ تقدس علی خان کو درس و تدریس سے عشق تھا اور عشق کی آ بیاری میں دن رات طلباء کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی۔ اس لئے تسنیف و تالیف کے لئے وقت کم ملا ۔ آپ کی بعض قلمی تصانیف ہندوستان میں رہ گئی یا ضائع ہو گیئں ۔ پاکستان آنے کے بعد بعض کتب پر تقار یظ و تصدیقا ت کی ، چنانچہ حجۃالا سلام حضرت امام محمد غزالی قدس سر ہ کی تزکیہ نفس کے موضوع پر بلند پایہ کتاب کا بلند پا یہ اردو ترجمہ کیا۔
٭ مکاشفۃ القلو ب از : امام غزالی مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱۹۷۶ء
عادات و خصائل :
محترم پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب ایک مکتوب میں رقمطراز ہیں:
حضرت علامہ مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمۃ سے پہلی ملاقات کی تقریب یہ ہوئی کہ ۱۹۷۳ئکے لگ بھگ فقیر کو امام احمد رضا ؒ کے آثار علمیہ پر مشتمل حضرت علامہ محمد ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ کی تالیف ’’المجمل المعدد لتالیفات المجدد‘‘ کی سخت ضرورت تھی، معلوم ہوا کہ ایک مطبوعہ پرانا نسخہ حضرت علامہ صاحب کے پاس ہے۔ فقیر نے خط لکھا، چند روز کے بعد غریب خانے پر ایک سادہ لباس بزرگ تشریف لائے، ایک گھنٹے مکان تلاش کرتے رہے، پسینہ پسینہ ہوگئے ان بزرگ نے جب اپنا تعارف کرایا تو علوم ہوا کہ یہی بزرگ حضرت علامہ تقدس علی خان تھے، فقیر نادم و شرمسار ہوا کہ علامہ کتاب لے کر خود غریب خانے پر تشریف لائے اور فقیر کو سرفراز فرمایا۔ یہ تھی ان کی بے مثال شفقت اور علم پروری۔ (آج یہ چیز علماء میں عنقا نظر آرہی ہے)
حضرت علامہ سے یہ پہلی ملاقات تھی اس کے بعد ملاقاتیں ہوتی رہیں، حضرت نے ازراہ کرم امام احمد رضا کے چالیس پچاس مطبوعہ رسائل بھی مستعار عنایت فرمائے اور ایک قدیم مطبوعہ نسخہ ’’دوامع الحمیر ‘‘ کا بھی عطا فرمایا، یہ نہایت اہم تاریخی اور سیاسی دستاویز ہے جس سے علماء اہل سنت کی مساعی جمیلہ کی تفصیلات کا علم ہوتا ہے۔‘‘
ان نایاب رسایل کے حصول کے بعد پروفیسر صاحب کو رضویت پر کام کرنے میں آسانیاں اور معلومات میں وسعت ہوئی۔
حضرت علامہ بڑے مدبر ارو متحمل مزاج تھے، ایک کرم فرما کی شادی میں تشریف لائے، فقیر بھی موجود تھا، از دہام کی وجہ سے صاحب خانہ عاجز ہوگئے اور تین بجے سہہ پہر تک کھانا پیش نہ کیا جاسکا۔ مگر حضرت علامہ نے کچھ نہ فرمایا بلکہ مجلس علماء میں اپنی خوش طبعی سے سب کے دل خوش کرتے رہے۔
آپ نے ایک ملاقات میں ڈاکٹر مسعود احمد کو بتایا کہ امام احمد رضا نے ایک رسالہ حضرت شیخ احمد فاروقی سر ہندی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ النورانی پر بھی لکھا تھا، جس کا عنوان تھا ’’اطائب الھتمانی فی مجدد الف ثانی‘‘ (۱۳۲۵ھ)، علامہ محمد صدیق ہزاروی ایک مضمون میں رقمطراز ہیں: بظاہر ان کا قدچھوٹا تھا لیکن وہ کتنی قد آور شخصیت تھے کہ بڑے بڑے سرو قد ان کے سامنے سر نیاز خم کردیتے ھتے، علم وفضل، زہد و تقویٰ اور خوش خلقی و ملن ساری ، سادہ مزاج اور سادگی پسند جیسی صفات عالیہ سے ان کی زندگی مزین تھی۔ مولانا حامد رضا بریلوی آپ کے ماموں، استاد ، سسر اور مرشد کریم تھے۔
وصال:
حضرت علامہ تقدس علی خان کی ۲۱ ، فروری ۱۹۸۸ء بمطابق ۲، رجب ۱۴۰۸ھ بروز اتوار ۸۱ سال کی عمر میں پر جو گوٹھ میںطبیعت ناساز ہوئی، رات کی گاڑی سے کراچی روانہ ہوئے، اگلے روز صبح سات بجے کراچی پہنچے ، ہسپتال میں طبی امداد دی گئی، مگر افاقہ نہ ہوا، گردوں نے کام کرنا بند کردیا پونے بارہ بجے مدینہ منورہ کی کھجور تناول فمائی، آب زمزم شریف نوش فرمایا، لب پرذکر شریف جاری تھا اپنے ایک ارادت مند سے فرمایا ’’سورۂ یٰسین شریف سنائو‘‘ سورۂ یسٰین شریف سنائی جارہی تھی ، جب سورت ختم ہوئی تو کمہ شریف پڑھا، اپنے ایک عقیدت مند ڈاکٹر عبدالغفار صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے بارہ بج کر دس منٹ پر عازم خلد بریں ہوئے۔
غسل و کفن کے بعد عصر کی نماز کے بعد جنازہ آرام باغ لے جایا گیا ارو نماز مغرب کے بعد مولانا مفتی وقار الدین قادری علیہ الرحمۃ (شیخ الحدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی) نے نماز جنازہ پڑھائی۔
اگلے روز (۲۳ فروری) صبح پونے چھ بجے جسد اطہر پیر جو گوٹھ لے کر پہنچے، سوا نو بجے حضرت علامہ مفتی محمد رحیم سکندری نے حضرت قبلہ عالم امام العارفین قدس سرہٗ کے روضہ مبارک کے زیر سایہ نماز جنازہ کی امامت فرمائی، ساڑھے دس بجے اپنے والد ماجد کے پہلو میں محو خواب ابدی ہوئے۔
(ماخوذ: پیکر تقدس رضا کیڈمی لاہور)
نامور تاریخ گو شاعر جناب ابو الطاہر فدا حسین فداؔ (لاہور) نے قطعہ تاریخ وصال کہا:
ہوئے دار فانی سے رخصت ہیں آہ!
تقدس علی خان میرے محترم!
جدا ہو کے خویش و اقارب سے اپنے
ہوئے عازم سوئے ملک عدم
اتالیق، مرداں شہ ذی وقار
تھے مفتی، محدث وہ مشہور عالم
ہیں سب معترف ان کے ارباب دانش
ہوں اہل عرب یا کہ اہل عجم
کرم پیر پیراں کا ہے ہمدمو!
رہا ان پہ تا زندگی دم بدم
دعا ہے سر حشر حامی ہوں ان کے
شہ انبیائ، تاجدار حرم
سن وصل ان کا ’’فدا‘‘ بر محل
’’تقدس علی خلد‘‘ میں کر رقم
۱۴۰۸ھ
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)