استاذ العلماء حضرت مولانا محمد قدیر بخش بدایونی

استاذ العلماء حضرت مولانا محمد قدیر بخش بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت مولانا علامہ محمد قدیر بخش ابن مولانا مفتی حافظ بخش رحمہا اللہ تعالیٰ ۱۳۰۷ھ؍۱۸۸۹ء میں آنولہ (مضافات بریلی) میں پیدا ہوئے،والد ماجد نے تاریخی نام منظور الحبیب (۱۳۰۷ھ) تجویز کیا درس نظامی اکثر و بیشتر کتابیں مدرسہ شمس العلوم، بدایوں میں حضرت والد ماجد سے پڑھیں شرح جامی کی ابتداء مولانا شاہ عبد المتقد ر بد ایونی قدس سرہ سے کی اور بعض درسی کتابیں بھی ان سے پڑھیں۔ ۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۹ء میں حضرت تاج الفحول شاہ عبد القادر بد ایونی قدس سرہ کے عرس کے موقع پر سند اور دستار فضیلت حاصل کی ، بعد ازاں حکیم سید حسن مراد آبادی سے دو سال میں طب کی کتابیں پڑھیں۔۱۹۱۲ء میںمدرسہ شمس العلوم ، بد ایوں میں مدرس مقرر ہوئے، ۱۹۲۰ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاض کا امتحان پاس کیا ، ۱۹۲۴ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام،جے پور میں صدر مدرس مقرر ہوئے اور ۳۲ سال تک نہ صرف محنت و جانفشانی سے علوم دینیہ پڑھائے بلکہ سماجی اور اصلاحی کاموں میں بھی گرانقدر خدمات انجام دیتے رہے ۔

حضرت علامہ مولانا محدم قدری بخش قدس سرہٗ ۱۹۵۶ء میںمستقل طور پر پاکستان (حیدر آباد ، سندھ) تشریف لے آئے اور یہیں آپ کا وصال ہوا۔ تمام زندگی آپ کا مقصد علمو دینیہ کی اشاعت رہا،

پروفیسر محمد ایوب قادری کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’میرنی زندگیکا نصب العین علوم دین کی اشاعت ہے ،بحمد اللہ تعالیٰ میںاپنے اساتذہ کے مسلک کے مطابق اس باب میں جدو جہد عمل میں لارہاہوں، میں نے درس نظامی کے مروجہ نصاب کی ہی تعلیم جاری رکھی جو بڑی با برکت ہے اور جامعیت علوم فنون کے اعتبار سے درس نظامی اکمل ترین نصاب ہے، اس نصاب کی تکمیل سے تمام علوم و فنون کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ درس نظامی ملانظام الدین سہالوی علیہ الرحمۃ کی زندہ کرامت ہے جن کا فیض ہمیشہ جاری رہے گا،اس درس کے ساتھ ساتھ زمانہ کی رجحانات کے پیش نظر پنجاب اور الہٰ آباد کی یونیورسٹیوں کے نصابوں کی تعلیم بھی جاری رکھی جو درس نظامی ہی میں قدر ے ترمیم کے بعد ترتیب دئے گئے ہیں۔‘‘

آپ کی تصانیف میں سے ایک رسالہ کتاب النکاح و الطلاق ۱۹۵۶ء میں حیدر آباد، سندھ سے شائع ہوا، ایک اور رسالہ علم الفراض کا مسودہ آپ کے فر زند مولوی عبد الباری کے پاس محفوظ ہے۔

آپ کے طویل عرصۂ تدریس میں سینکڑوں علماء نے آپ سے اکتساب کیا، چند تلامذہ کے نام یہ ہیں:

۱۔ حضرت مفتی عزیزاحمد مدظلہ العای خطیب جامع مسجد جامعہ نعیمیہ گڑھی شا ہو لاہور۔

۲۔ مولانا محمد عبد الرشید نعمانی

۳۔ مولانا عبد الحامد بد ایونی

۴۔ مولانا عبد الواحد عثمانی

۵۔ مولانا عبد الحلیم چشتی

۶۔ مولانا نادر حسین بد ایونی

۷۔ مولانا محمود الحسن بد ایونی

۸۔ مولانا عبد القیوم ناطق ، جے پوری

۹۔ مولانا سر فراز علی جے پوری

۱۰۔ مولانا حکیم نسیم الدین نقوی (حیدر آباد،سندھ)

۱۱۔ پروفیسر کے ۔ ایل دتہ (مہاراج کالج جے پور)

۱۲ ۔ حافظ مبارک علی نا بینا(سابق ایم ایل اے ، حیدر آباد سندھ )وغیر ہم۔

حضرت مولانا محمد قدری بخش قدس سرہ کا وصال ۹ربیع الثانی، ۱۳ نومبر (۱۳۷۶ھ؍۱۹۵۶ء بروز ہفتہ حیدر آباد،سندھ میں ہوا، پروفیسر محمد ایوب قادری نے تاریخ وفا کہی:

’’ہائے ہائے مولانا قدیر بخش‘‘ (۱۳۷۶ھ)

مولانا محمد یعقوب حسین ضیاء القادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے قطعۂ تاریخ وصال کہا جس میں مولانا کی ساری زندگی کا عکس موجود ہے ؎

ولی صفت تھے محمد قدیر بخش،ضیاء

تھے علم و فضل میں یکتاء عصر بے مثال

بدر بھی آپ کے تھے عالم و ولی وفقیہ

تھے آپ بھی ہمہ علم و فضل و زہدو کمال

حدیث و منطق و فقہ علم کلام،

غرض تھے ماہر ہر فن بغیر قیل وقال

تھے آپ پاہمہ اوصاف علم و زہد سلوک

خلیق و نیک صفت،فرشنہ خصال

سند فراغ کی تھی دست مقتدر سے ملی

رہے مفرس اعلیٰ وطن ہی میں کچھ سال

چلے بد ایوں سے جے پور میں اقامت کی

تھے قدرد ان ریاست کے سارے اہل کمال

برائے چندے،ریاست سے آئے پاکستان

یہاں مقیم تھے ممدوح کے کچھ اہل و عیال

پسر تھے آپ کے مسکن گزین حیدرآباد

یہیں قیام پذیر آپ بھی ہوئے فی الحال

نثار شان قضاء وقدر بحکم قدیر

پدر کا ہو گیا نور نظر کے گھر میں وصال

ہزار حیف !سدھارے بہشت کو مرحوم

ہیں قادریوں کے دل ان کے غم میں محو ہلال

مرے حبیب و صدیق و ولی تھے مولانا

میں ان کی دید سے محروم رہ گیا امسال

کریم،بعد فنا مغفرت کرے ان کی

سکون و صبر عطا ہو برائے اہل و عیال

ضیاء تلاش ہے تاریخ کی تو کہد یجے

’’ولی حبیب محمد قدیر بخش‘‘ ہے سال[1]

[1] محمد ایوب قادری ،پروفیسر : قلمی یادادشت۔

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء