حضرت مولانا محمد یوسف نوشاہی

حضرت مولانا محمد یوسف نوشاہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 مولانا بابو محمد یوسف ابن حافظ کرم الٰہی۱۳۰۴ھ؍۱۸۸۶) میں موضع ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔آپ کے اجداد میں سے جگجیت سنگھ کھو کھرراجپوت،بجوڑہ کے حاکم تھے۔حضرت اورنگ زیب عالمگیر رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے توان کا نام نواب محمد رحمت اللہ رکھاگیا۔مولانا محمد یوسف سن شعور کو پہنچنے کے بعد جب علوم دینیہ سے بہرہ ور ہوئے تو زاراہ انکسار آیۂ مبارکہ ’’وکلبہم باسط ذراعیہ بالوصید‘‘(۱۳۰۴ھ) سیاپنی تاریخ ولادت نکالی۔

سلسلۂ عالیہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت مولانا محمد اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ سے بیعت ہوئے اور مجاز ہوئے ۔اپنے سلسلے کے اور ادو وظائف پابندی سے ادا کرتے اور ہر ماہ ختم گیارہویں شریف کا اہتمام کرتے،حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والہانہ عقیدت و محبت رکھتے تھے،چونکہ ابجد کے حساب سے ’’بابو‘‘ کے عدد گیا رہ ہیں اس لئے انہوں نے یہ لفظ اپنے نام کا جزو بنا لیا تھا۔حصول معاش کے لئے پوسٹل کلرک کے فرائض انجام دیتے رہے۔

ایک مرتبہ انہوں نے ذہنی طور پر حضرت حافظ شیرازی کو مخاطب کرتے ہوئے دیوان حافظ سے فال نکالی کہ آپ کا زمانہ حضرت سید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مؤخر ہے،پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے ان کی توصیف میں کچھ نہیں کہا؟ چنانچہ یہ شعر نکلا:

حافظؔ از معتقد انست،گرامی دارش

زانکہ بخشائش بس روح مکرم با اوست

’’حافظ معتقدین میں سے ہے اس کی عزت کرو کیونکہ بہت ہی مکرم روح کی عنایت اس کے شامل حال ہے۔‘‘

مولانا محمد یوسف نوشاہی دو مرتبہ حج و زیارت سے مشرف ہوئے،اسی دوران بغداد شریف،کربلا معلّٰی اور نجف اشرف گئے اور بزرگان دین کے مزارات پر حاضر ہو کر استفاضہ کیا تھا۔
۱۔ تجلی بغداد۔        
۲۔ حسنات اعظم عرف برکات یازدہم ۔
۳۔ بارہویں نامہ۔
۴۔ گیارہویں نامہ۔
۵۔ فیضان اعظم ترجمہ متطومہ قصیدہ امام اعظم۔
۶۔ احسان اعظم
۷۔ عرفان اعظم
۸۔ ذکر الصالحین۔
۹۔ ترجمہ قصیدہ غوثیہ مع چہل کاف۔
۱۰۔ حلیہ شریف۔
۱۱۔ مناجات بد گاہ قاضی الحاجات

۲ صفر،یکم مارچ(۱۳۶۰ھ؍۱۹۴۱ئ) ۵۶سال کی عمر میں مولانا با با محمد یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کا وصال ہوا،مزار شریف موضع مردانہ تحصیل فیروز والا ضلع شیخو پورہ میں ہے مادئہ تاریخ وفا ت یہ ہے:
’’مغفور آداب آگاہ‘‘
مولانا حکیم نذیر حسین آپ کے سجادہ نشین ہیں۔

 (تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

تجویزوآراء