حضرت مولانا نسیم احمد دہلوی

حضرت مولانا نسیم احمد دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مولانا نسیم احمد صاحبکے دادا جان مولانا حسن علی صاحب نے حضرت شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شیخ عبدالقادر سے علوم دینی کی تعلیم حاصل کی تھی اور دہلی میں فوت ہوئے۔ مولانا حسن علی کے بیٹے مولانا حبیب احمد تھے جو دہلی میں ۱۲۷۰ھ کو پیدا ہوئے۔ مولانا محمد کرامت اللہ دہلوی سے تکمیل علوم کے بعد مدرسہ فتحپور دہلی میں مدرس دوئم ہوئے۔ بعد میں صدر مدرس مقرر ہوئے۔ دہلی میں آپ کا انتقال ہوا۔ مولانا حبیب احمد کے چار صاحبزادے ، ۱۔ بشیر احمد ۲۔ مولانا نسیم احمد۔ ۳۔ حافظ جمیل احمد اور ۴ شفیق احمد ہوئے۔ بشیر احمد پہلے دہلی میں ملازم ہوئے ، دہلی سے ملتان میں تبادلہ ہوا۔ ریٹائرڈ ہونے کے بعد دلی واپس چلے گئے۔ ملک کی تقسیم کے بعد ۱۹۴۷ء میں ملتان چلے گئے۔ وہیں انتقال ہوا۔

حافظ جمیل احدم نقشہ نویس تھے۔ اسی کام میں زندگی بسر کی شفیق احمد، مولانا مفتی مظہر اللہ دہلوی امام مسجد فتحپوری کے داماد تھے۔ اور یہ بھی نقشہ نویس تھے یہ دنوں بھائی ملک کی تقسیم کے بعد ۱۹۴۷ء کو کراچی چلے گئے۔ وہیں شفیق احمد ۱۹۶۷ء اور حافظ جمیل احمد ۱۹۷۱ء کو انتقال کیا۔

تعلیم و تربیت:

حضرت مولانا نسیم احمد نے قرآن حکیم اپنے والد ماجد مولانا مفتی حبیب احمد صاحب دہلوی سے حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ عربیہ فتحپوری دہلی میں اپنے والد کی نگرانی میں پائی۔ دہلی سے لاہور چلے گئے تو وہاں ایک مقامی کالج میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کرکے دہلی تشریف لے گئے تو آپ کے والد ماجد نے اپنی جگہ شاہی سنہری مسجد چاندنی چوک دہلی کی امامت آپ کے سپرد کردی۔ مثنوی شریف کا درس آپ نے اپنے مرشد مولان امحمد کرامت اللہ خان سے لیا تھا۔

امامت و خطابت:

اس سنہری مسجد کی امامت کا سلسلہ حافظ اسلام صاحب کے پر دادا محمد معظم اور دادا حافظ عبدالرزاق کے زمانے سے چل رہا ہے۔ یہ حضرا ت اس مسجد کے امام رہے جو بعد میں مولانا مفتی حبیب احمدکو منتقل ہوگیا۔ مولانا حبیب حمد ، حافظ السام کے پھوپھا تھے۔ حافظ اسلام پہاڑی املی کی ایک برج کی مسجد کے قریب رہتے تھے جہاں ان کا رہائشی مکان ہے۔ ان کے مکان کے نزدیک مولانا نسیم احمد کا مکان تھا عرصہ تک مولانا نے اس میں قیام کیا۔ آپ نے ایک برج کی مسجد میں ۳۰۔۳۵ سال تک محرم کے مہینے میں ۱۵ ، محرم تا ۲۵ محرم الحرام تک دس روز شہادت کاذکر فرمایا آپ سے پہلے اس مسجد میں حضرت مولانا قاری محمد کرامت اللہ دہلوی نے انہی دنوں میں عرصہ تک شہداء کربلا کا بیان فرمایا۔

۱۹۴۷ء کے پر آشوب زمانہ میں مولانا نسیم احمد دہلی سے کراچی چلے گئے تو اس وقت سے حضرت مفتی مظہر اللہ دہلوی کے صاحبزادے مولانا مشرف احمد نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے جو آج تک جاری ہے۔

تاریخ:

ایک برج کی سجد ۱۱۳۱ھ بمطابق ۱۷۱۸ء سے قبل شاہی زمانہ میں تعمیر ہوئی تھی جس میں ایک مقرہ ہے اس مقبرہ میں تین مزار ہیں

۱۔      ایک مزار حضرت شاہ محمد علی کا ہے

۲۔     دوسرا ان کے بھائی حضرت اسد اللہ کا ہے

۳۔     تیسری قبر زمین کے برابر ہوئی ہے وہ نہ معلوم کس کی ہے غالباً شاہ صاحب کے کسی معتقد کی ہوگی۔

حضرت شاہ محمد علی علیہ الرحمۃ بڑے بزرگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد وعظ و تلقین ہی رکھا تھا۔ آپ گجرات میں وعظ فرمایا کرتے تھے ، گجرات کے صوبیدار چنیت سنگھ کے مظالم سے تنگ آکر آپ مع اپنے ساتھیوں کے دہلی چلے آئے تھے۔ یہاں آنے کے بعد چنیت سنگھ کے اشتعال دلانے اور غلط قسم کی اطلاع دینے پر فرخ سیر نے آپ کو قلعہ کی چوبی مسجد میں قید کردیا تھا۔ بادشاہ کو اس ناشائستہ حرکت کرنے پر خوا ب میں عتاب ہوا۔ اس سے متاثر ہو کر بادشاہ فرخ سیر نے آپ کو آپ کے ساتھیوںسمیت فوراً باعزت رہا کردیا۔ اس کے بعد آپ جامع مسجد دہلی میں رہنے لگے اور وہیں درس و تدریس  اور وعظ کا سلسلہ جاری کیا۔ سینکڑوں لوگ آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر سیدھے راستے پر آئے۔ شاہ صاحب ، عالمگیر ثانی کے مرشد بھی تھے ۔ ۱۱۳۱ھ بمطابق ۱۷۱۸ء  میں آپ کا انتقال ہوا۔

بیعت و خلافت:

سلسلہ صابریہ چشتیہ میں آپ حضرت مولانا محمد کرامت اللہ خان دہلوی کے دست بیعت ہوئے اور بعد خلافت سے بھی نوازے گئے۔

شادی و اولاد:

مولانا کرامت اللہ دہلوی کو آپ سے بے حد محبت تھی۔ مولانا نے اپنی منجھلی صاحبزادی سے (اپنے مریدیعنی) آپ کا نکاح کردیا تھا۔

تبلیغ و تدریس:

۱۳۱۰ھ بمطابق ۱۸۹۲ء کو دہلی میں ’’انجمن موئید الاسلام ‘‘ قائم ہوئی۔ جس کے بانی مشنی کرم اللہ خان، مولانا عبدالحق مؤلف تفسیر حقانی، حافظ عبدالغنی اور حافظ محمد اسحاق صاحبان وغیرہ تھے۔ اس انجمن کے  مقاصد یتیم خانہ قائم کرنا، لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیم دلانا، نو مسلموں کو تربیت دلانا اور اس کی نگرانی کرنا اور لا وارث مسلمان میتوں کو اپنے ہاتھوں دفنانا تھا۔ یہ انجن، اسلام کی تبلیغ کیلئے مبلغ بھی رکھتی تھی۔ اسی کام کیلئے مولانا نسیم احمد نے بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے کافی عرصہ تک تبلیغ کا کام کیا۔ مبلغ کی حیثیت سے انجمن کی طرف سے آپ رنگون و برما وغیرہ میں بھی تشریف لے گئے تھے۔ والد صاحب کی علالت کی وجہ سے آپ نے بہار کے تبلیغی دورے منسوخ فرما دیئے اور دہلی تک تبلیغیکام محدود کردیا اور مستقل طور پر سنہری مسجد کی امامت کی ذمے داری لے لی۔

مولانا کرامت اللہ کے انتقال کے بعد چھوٹی مسجد باڑہ ہندودائو میں مسلسل بیس تال تک بعد نماز فجر ترجمہ قرآن مجید اور مثنوی شریف کا درس  دیتے رہے۔ آپ روزانہ بعد نماز عشاء مسجد نواب دو جانہ ہائوس بازار مٹیا محل میں درس دیا کرتے تھے اور بعد نماز عصر شاہ مسجد سنہری چاندنی چوک متصل فوارہ اپنے حجرہ میں مخصوص حضرات ۱۔ مولانا احمدغزالی بنگالی کوارٹرز کی ایک اونچی مسجد میں مقیم تھے۔ ۲۔ دوسرے مولانا عبدالرحمن کاملی، ۳۔ اور مولانا عبدالحق کاملی وغیرہ کو مثنوی مولانا روم علیہ الرحمہ کا درس دیا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ آپ دہلی میں سخت بیمار ہوئے تو آپ نے ا پنے بھتیجے اورچھوٹے داماد مولانا حافظ شبیر احمد دہلوی کو اپنی جگہ سنہری مسجد کی امامت سپرد کی تھی۔

۱۹۴۷ء کو پاکستان تشریف لے آئے، کراچی میں سکونت اختیار کی یہاں مارٹن روڈ پر ایک مسجد کی بنیاد ڈالی اس کا نام ’’موتی مسجد‘‘ رکھا اور وہاں تقریباً دس سال امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے اور خان صاحب محمد اشرف حانی کے ساتھ اس مسجد کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا۔

اس مسجد میں بھی بعد نماز فجر درس قرآن حکیم اور درس مثنوی شریف دیتے رہے اس طرح اری زندگی اسلام و سنیت کی تبلیغ ، ترویج وا شاعت میں بسر فرمائی۔

وصال:

انتقال سے ایک سال قبل آپ پر فالج کا حملہ ہوا۔ حکیم سید اشفاق احمد اشرفی نے علاج کیا۔ قدرے طعیت سنبھلی آپ نے پھر اس مسجد کی امامت کے فرائض اور درس کا کام شروع کر دیا، چھ ماہ بعد دوبارہ فالج کا حملہ ہوا۔ آپ کے بھتیجے اور چھوٹے داماد مولانا شبیر احمد دہلوی کے مکان پاکستان کوارٹرز چلے گئے۔ ڈاکٹر میجر حسن، ڈاکٹر عبدالصمد اور ڈاکٹر عبدالرحیم پراچہ وغیرہ نے آپ کا علاج کیا۔ کمزوری بے حد بڑھتی چلی گئی۔ بیماری کے ایام میں بھی مثنوی شریف کا مطالعہ کرتے رہے اور نماز پنجگانہ ادا کرتے رہے۔ آپ کی یکم ربیع الاول ۱۳۷۵ھ/۱۹۵۷ء کو طبیعت قدرے زیادہ خراب ہو گئی۔ گیارہ اور بارہ ربیع الاول کی درمیانی شب صبح صادق چار بج کر دس منٹ پر اس دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے۔ خاموش کالونی (فردوس کالونی) کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔

[علامہ جمیل احمد نعیمی صاحب نے مذکورہ حالات مہیا فرمائے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے]

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )

تجویزوآراء