مؤرخ اہل سنت حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی
مؤرخ اہل سنت حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت پیر غلام دستگیر نامی ابن پیر حامد شاہ (م۱۳۱۲ھ/۱۸۹۴ئ) رحمہااللہ تعالیٰ ۲۳ جمادی الا خری یکم،مئی(۱۳۰۰ھ؍۱۸۸۳ئ) بروز سہ شنبہ ، دن کے گیارہ بجے اپنے نانا پیر غلام محی الدین اکے گھر رتہ پیراں (ضلع شیخو پورہ) میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پھوپھی نے محسن اہل سنت مولانا غلام دستگیر قصوری (م ۱۳۱۵ھ؍)کے نام پر آپ کا نام رکھا خود فرماتے ہیں :۔
زادم و گشتم غلام دستگیر
من شدم نامی بنام دستگیر
بنام نیک مولانا قصوری
غلام دستگیر نام کر دند
آپ لاہور کے قدیم علمی و روحانی خادنان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے مورث اعلیٰ قطب العالم حضرت شیخ عبد الجلیل چوہڑ بندگی (م۹۱۰ھ) داماد سلطان بہلولو لودھی ، لاہور کے اولین مبلغ اسلام سہر وردی بزرگ ہیں جن کی بدولت پنجاب میں سلسلۂ عالیہ سہر وریہ کو بہت فروح حاصل ہوا اور کی قبائل مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان کے علاوہ اس خاندان میں اور بھی متعدد صاحب علم و فضل روحانی پیشوا ہوئے ہیں۔
نومبر ۱۸۹۰ء میں مولانا می کو مسجد ملا مجید محلہ چلہ سیپیا ں ( لاہور) میں مولانا محمد بخش بلبل (م۱۳۱۰ھ؍۱۸۹۲ئ)برادر اکبر مولانا غلام دستگیر قصوری کے پاس قرآن مجید پڑھنے کے لئے بٹھایا گیا ، نومبر ۱۸۹۱ء میں آپ نے قرآن ختم کرلیا ، پھر والد ماجد نے اسلامیہ سکول کی برانچ واقع حویلی کا ملی مل کی دوسری جماعت میں دخل کرادیا ۔ کچھ عرصہ بعد پیر حامد شاہ کا تبادلہ قصور ہو گیا چنانچہ مولانا نامی ۱۸۹۴ء کے درمیانی ربع میں قصر گورنمنٹ سکو میں پڑھتے رہے ، وہیں ۱۱ ،اکتوبر ۱۸۹۴ء میں آپ کے والد گامی کا وصال ہو گیا اور آپ داغ یتیمی لیکر رتہّ پیراں چلے گئے ۔
۱۸۹۵ء میں آپ اسلامیہ سکور شیرا نوالہ گیٹ لاہور کی پانچویں جماعت میں داخل ہوئے اور ۱۹۰۳ء میں فرسٹ ڈویژن میں انٹرنس پاس کیا ، سکول کی تعلیم کے دوران لاہور ک ممتاز فضلاء مـثلاً پروفیسر شجاع الدین صدر شعبۂ تاریخ دیال سنگھ کالج ، لاہور (م ۱۹۶۵ئ) کے نانا محمد نجم الدین اور مولانا علامہ اصغر لی روحی سے اکتساب فیض کیا ، ان کے علاوہ دیگر متعد د اہل علم کے فیض صحبت سے مستفید ہوئے جن کی صحبت نے آپ کے ذوق علمی کو نکھار عطا کیا۔
مولانا نامی نے کسی دینی درس گاہ میں باقاعہ تلیم حاصل نہیں کی تھی اس کے با وجود اردو،فارسی اور انگیرزی میں مہارت کے ساتھ ساتھ عربی سے بھی اچھی طرح آشنا تھے ، چونکہ قدرت نے آپ کو ابتداء سے ہی ذہانت و فطانت کے جوہر اعلیٰ سے نوازا تھا اس لئے بہت جلد بہترین مضمون نگار ،مصنف ، شاعر، تاریخ گو،ماہر قانور وراثت اور ماہر علم الانساب کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔
تحصیل علم کے بعد چندہ ماہ محکمہ ریلوے میںملازمت کی پھر محکمہ ڈاک میں بھرتی ہو کر ٹیلی گرام کی ٹریننگ حاصل کی ،اسی اثناء میں ڈپٹی کمشز لاہور نے انٹرنس پاس مسلمانوں کو ضلع کچہری کی ملازمت کے لئے طلب کیا چنانچہ آپ ضلع کچہری میںچھہ ماہ تک بلا تںخواہ کام کرتے رہے بالآخر مئی ۱۹۰۵ء میں مستقل ملازمت مل گئیلیکن یہاں کی رشوت آلودہ فضا آپ کو پسند نہ آئی اور آپ ۱۹۰۶ء میں محکمہ تعلیم میں منتقل ہو گئے اور آخر تک اسی محکمہ میں مختلف کاموں پر مامو رہے بالآخر سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں تبادلہ ہو گیا اور یہاں خازن ۔ رہ کر ۱۹۳۸ء میںریٹائر ہو گئے۔
مولانا نامی کو بچپن ہی سے اپنے خاندانی بزرگوں کے حالات،علمی کمالات اور نسب معلوم کرنے کا شو تھا ۔اس سلسے میں آپ نے اپنے بزرگوں کے نادر مخطوطات اور دیگر کتب تاریخ کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کیا حتٰی کے تاریخی تجسس اور کتب بینی کا ذوق لازم اندگی بن گیا ، بارہا کاوٹین پیدا ہوئیں مگر ہر بار آپ کے پہاڑ ایسے عزم و اسقلال سے ٹکراکر پسیا ہوگئیں اور آپ کے تصنیف و تالیف اور مطالعہ کے ذوق میں بدستور اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ملازمت کے زمانہ میں فارغ وقت تالیف اور مضامین نویسی میں صرف کرتے اور ریٹائر ہونے کے بعد تو گویا آپ اس کام کے لئے وقف ہو گئے۔ آپ نے ایک سو سے زائد کتابیں اور رسائل لکھے جنہیں قدرو وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ ان میں ے بعض تصانیف تو لازوال اہمیت کی حامل ہیں ۔ مختلف اخبارات و رسائل میںشائع ہونے والے مضامین کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ تاریخ جلیلہ: خاندانی بزرگوں کے ھالات اور دیگر اہم تاریخی معلومات۔
۲۔ بزرگان لاہور : لاوہر کے ڈیڑھ سو بزرگان دین کے حالات
۳۔ نسب نامۂ رسول انام و صحابۂ کرام ۔
۴۔ مناقب خلفائے راشدین (منظوم)
۵۔ اسلامی قانون وراثت ۔
۶۔ تاریخ نجدیہ : یعنی حقیقت وہابیہ۔
۷۔ صدیق اور فاروق مستشر قین کی نظر میں،
وغیرہ وغیرہ
ان مستقل تصانیف کے علاوہ آپ نے کئی کتابو ں کو جامۂ اردو بھی پہنایا۔
جناب نامی کو شعر گوئی کا ملکہ ورثے میں ملاتھا ۔ پہلے پہل ازخود طبع آزمائی کرتے رہے۱۹۰۷ء میں علامہ اصغر علی روحی رحمہ اللہ تعالیٰ کو اپنا کلام سناتے رہے اور بہت جلد بختہ کلام پر دسترس حاصل کرلی۔ ابتداء غزل نگاری کی جانت میلان تھا پھر نعت ، منقبت اور تاریخ گوئی سے لگائو پیدا ہو گیا ، تاریخ گوئی میں آپ کو کمال حاصل تھا ، بلاشبہ آ پ نے اپنی زندگی میں ہزاروں منظوم تاریخیں کہی ہیں۔
مالانا نامی نے اپنے بعض مخلص دستوں کے تعاون سے ۱۵۔۱۹۱۴ء میں اصلاح رسوم اور اصلاح اخلاق کی غرض سے دائرۃ الاصلاح کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت لڑیچر شائر ہو کر مفت تقسیم ہوتا رہا ، پھر اس ادارے کی طرف سے فضائل صحابۂ کرام اور تحاد بین المسلمین کے موضوع پر رسائل طبع ہونے لگے ۔ اس ادارے کی طرف سے تقریباً نوے کتب اور رسائل طبع ہوکر مفت تقسیم کئے جا چکے ہیں جن میںسے دس بارہ کے علاوہ باقی سب مولانا نامی کی کاوش قلم کا نتیجہ ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت نامی کے ماموں اور خسر جناب پیر محمد اشرف عالم شاہ (م۱۳۵۱ھ؍ ۲۹۳۲ئ) متولی کانقاہ حضرت عبد الجلیل چوہڑ شاہ بندگی نے اپنی وفات سے قبل وصیت لکھ دی تھی کہ میرے بعد اوقاف کے متولی نامی صاحب ہوں گے چنانچہ آپ نے اس ذمہ داری کو بری خوش اسلوبی سے نبھایا اور نہ صرف بزرگوں کے مزارات کی دیکھ بھال کی بلکہ ان کے علمی تبر کات کو شائع کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا،غرض جناب نامی نے ایک پیر زادہ او مزارات کا متولی ہونے کی حیثیت سے وہ کارہائے نمایا انجام دئے کر ان کا طرز عمل موجودہ دور کے بعض مشائخ کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
۷رجب المرجب ۱۶ ؍دسمبر(۱۳۸۱ھ؍۱۹۶۱ئ) کو ایک ماہ صاحب فراموش رہنے کے بعد اسلام کے مخلص خادم اور مسلمانوں کے محسن جناب پیر غلام دستگیر نامی کا انتقال محلہ چلہ سبیاں لاہور میں ہوااور آپ کی میت رتہ پیراں (ضلع شیخو پورہ) لے جاکر حضرت قلندر شاہ کے پائیں میں دفن کی گئی ۔
قطعۂ تاریخ وفات ازجناب حضرت مولانا شریف احمد شرافت نوشاہی مدظلہ العالی ؎
غلام دستگیر آں پیر نامی
بہ جنات المعلیٰ کردہ مسکن
زتر حیلش شرافت گفت تاریخ
’’بفر دوس بریں شد شاد محسن‘‘
جناب حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ العالی نے ان الفاظ سے تاریخ وصال کا استخراج کیا:
’’بجھا آج ہائے چراغ علوم[1]‘‘
[1] محمد موسیٰ امرتسری ،حکیم اہل سنت :مقدمہ بزرگان لاہور
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)