حضرت مولانا قاضی عبد السبحان ہزاروی

حضرت مولانا قاضی عبد السبحان ہزاروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ہری پور میں ہزارہ سے چھ میل دور، موضع کھا بٹ، میں ۱۸۹۸؁ءمیں ہاشمی علوی خاندان میں آپ کی ولادت ہوئی، آپ کی ولات سے پہلے آپ کی والدہ نے خواب دیکھا کہ میری گود میں ایک حسین وجمیل پھول پڑا ہے، اور کوئی صاحب کہہ رہےہیں کہ بیٹی اس کو سنبھال لے۔

آپ کے والد ماجد قاضی مظہر جمیل اور دادا بزرگوار مولانا مفتی محمد غوث ‘‘صاحب ردتقویۃ الایمان وتاریخ وہابیہ’’ نامور مبلغ اسلام اور صوفی صافی بزرگ تھے۔۔۔۔۔۔ کیمل پور میں کسی قاری سےناظرہ قران مجید ختم کر کےچند ابتدائی کتابوں کا والد ماجد سے سبق لیا، مدرسہ خلیلیہ ٹونک میں علامہ حکیم سید برکات احمد سے اخذ علوم کیا، چھ ماہ دیوبند کےمدرسہ میں بھی رہے، مولانا غور غشتوی المتوفی ۱۹۵۱؁ھ اور مولانا حمید الدین مانسہروی بھی آپکےمثق استاذوں میں تھے، حدیث وتفسیر کا درس اپنے چچا وخسرحضرت مولانا محمد خلیل محدث ہزاروی سےلیا۔

فراغت کےبعد ایک زمانہ تک مختلف مدارس میں درس دیا۔ آپ کو درس نظامی کےجملہ فنون میں دستگاہ حاصل تھی، صلابت دینی میں بھی اپنی مثال آپ تھے، معاندین و مخالفین اہلسنت کو متعدد مقامات پر آپ نےزبردست شکستیں دیں۔ مرض الموت میں ہری پور کے مشہور و معروف حکیم سے صرف اس لیےعلاج نہیں کرایا، کہ وہ بدقسمتی سےدینِ دیوبند کا پیرو تھا۔

۱۲؍شوال المکرم ۱۳۷۷؁ھ مطابق ۲؍مئی ۱۹۵۸؁ء کو جمعرات کی شام کو آپ کی آفتاب عمر غروب ہوگیا جناب حکیم مظفر علی صاحب مدظلہٗ ساکن عمر چک ضلع گجرات نےیہ قطعہ تاریخ میں کہا۔

شد روانہ جانب خلد بریں

 

آں جناب عبد سبحاں بے مثال

عالم وفاضل، فقہیہ بے نظیر

 

پاک صورت،نیک سیرت، خوشخصال

بُد مرید غوث اعظم، ہم شہاب

 

مظہر شانِ محمد لازوال

چوں بپر سیدم زدل تاریخ او

 

‘‘مخزن جودوسخا’’ گفتا بسال

آپ نےتفسیر وتصوف اور رد وہابیہ میں بہت سی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں، آپ پاکستان کے اکابر علماء اہل سنت میں سے تھے،

تجویزوآراء