حضرت مولانا قاضی سعیدالدین فاروقی نظامی

حضرت مولانا قاضی سعیدالدین فاروقی نظامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

 

مولانا قاضی سعید الدین احمد بن قاضی امین الدین بن قاضی نادر علی قاروقی یلم شعبان المعظم ۱۲۹۲ھ بمطابق ۲، ستمبر ۱۸۷۵ء بروز جمعرات قصبہ گھاٹم پور ضلع کا نپور یو پی (انڈیا)میں تولد ہوئے ۔ سلسلہ نسب بتیس (۳۲ )پشتو ں کے بعد امیر المومنین خلیفہ المسلمین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم سے جا ملتا ہے۔

آپ کے جدا مجد حضرت قاضی سراج الدین ، زنجان میں جہاں سر زمین حجاز مقدس سے نقل مکانی کے بعد آپ کا خاندان گذشتہ چند پشتوں سے آباد تھا اور فرح و زنجان کی امارت اور شیخ الشیوخ کے عہدوں پر فائز المرام تھا ، بوجوہ نقل مکانی کر کے ۵۹۸ھ ؍۱۲۰۲ میں قطب الدین ایبک کے عہد حکومت میں بحیثیت مورث اعلی وارد ہند ہوئے ۔ مورث اعلی قاضی سراج الدین سے قبل انفرادی حیثیت سے آپ کے جدامجد حضرت شیخ حسن زنجانی بغرض تبلیغ و اشاعت دین ہند تشریف لا چکے تھے اور شہر لاہور میں اقامت گزین تھے ۔ آپ منصب ولایت پر فائز اور اپنے وقت کے نامورولی اللہ تھے ۔ حضرت شیخ حسن زنجانی ؒ کا مزار مقدس آج بھی لاہور میں مرجع خلائق ہے۔

قاضی سراج الدین نہایت متبع شریعت اور صاحب ورع (تقویٰ) بزرگ تھے ۔ فرخ و زنجان کے امیر و کبیر اور شیخ الشیوخ ہونے کے علاوہ آپ کو خاندان قادریہ میں براہراست خلافت باطنی حضرت غوث الاعظم دستگیر سید عبدالقادر جیلانی سے اور سلسلہ شہروردیہ میں حضرت شیخ ابونجیب سہروردی قدس سرہ سے حاصل تھی جیسا کے اس کا تفصیلی ذکر ’’مجالس الابرار ‘‘مصنفہ مولانا جامی اور ظہرت نامہ مصنفہ حضرت ابوالقاسم گر گانی میں در ج ہے ۔

شہر کانپور کے قریب علاقہ جاجمئو کے راجہ جاج کی سرکوبی کے لئے آپ کو فوج کشی کرنا پڑی جس کی قیادت خود آپ نے فرمائی لیکم دور ان مہم آپ کو بہ تائید غیبی یہ معلوم ہوا کہ قلعہ کی فتح آپ کے بیٹے علاوالدین کے ہاتھ پر ہوگی۔ ا س لئے آپ نے انہیں طلب فرمایا اور یہ بشارت سناتے ہوئے علم انہیں عنایت فرمایا ۔ ابھی مہم جاری تھی کہ آپ نے ۱۵، رجب المرجب ۵۹۸ھ؍۹، اپریل ۱۲۰۲ ء ایک سو سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ وہیں ماجمئو میں آپ کی تدفین ہوئی ۔ قطب الدین ایبک جو اس مہم میں آپ کا معاون اور عقیدت مند تھا ، اس نے تین بار کوشش کی کہ آپ کا پختہ مزار مقبرہ تعمیر کرائے لیکن تینوں بار عمارت گر گئی تا آنکہ آپ کی بشارت پر تعمیر روک دی گئی ۔ البتہ ایک وسیع چبوترہ میں مزار شریف اور ساتھ ہی ایک مسجد شریف اور کچھ فاصلہ پر عید گاہ کی تعمیر کرادی گئی۔

مولانا سید الدین خواجگی کے چا ر فرزند گان میں سے ایک قاضی تاج الدین نے قصبہ گھائم پور ضلع کانپور کو اپنا مسکن بنایا اور تبلیغ و رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا اور آپ کی اولاد امجاد نے نسل در نسل اسی سلسلہ کے جاری رکھا اور آگے چل کر اسی قصبہ میں قاضی سعید الدین پیداہوئے ۔

تعلئم وتربیت :

وقت کے مشاہیر علماء کی زیر سر پرستی حصول علم کی جدو جہد جاری رکھی بالآخر فارغ التحصیل ہوئے ۔ دینی علوم میں کا مل دستگاہ رکھتے تھے ۔

بیعت و خلافت :

سلاسل عالیہ قادریہ ، چشتیہ نظامیہ، فخریہ صابر یہ و نقشبندیہ میں آپ نے جن مشائخ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ و خلافت سے مشرف ہوئے ان میں سے (۱)حضرت نور محمد قادری فتح پوری (۲) مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی (۳) حضر ت مولانا نور محمد محبوب قلندر دہلوی ثم نیاولی (۴) حضرت مولانا شر ف الدین فاروقی صابری (۵) اور حضرت مولانا کریم الدین قادری وغیرہ مشہور ہیں ۔

عہدہ قضائ:

دستاویزات و فرامین سلاطین ہندو غیر مظہر ہیں کہ علاقہ مسکونہ میں آپ کے آباء واجداد کرام ہمیشہ منصب عہدہ قضا پرنسل درنسل فائزرہے ، چنانچہ آپ بھی پاکستان نقل مکانی تک اس خدمت پر ماموررہے ۔

خطابت و امامت:

جمعہ و عیدین کے مواقع پر خطابت و امامت کے منصب پر بھی آپ پاکستان نقل مکانی تک فائز المرام رہے۔

کسب معاش:

اپنے اکابرین کی طرح ہمیشہ تبلیغ و اشاعت دین اور شکتہ دلوں کی دستگیر ی کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ، مگر اس کے بدلے مالی مفادات کا حصول عار جانتے ۔ ابتداعا سرکاری ملازمت سے منسلک ہوئے اور کورٹ آف وارڈز میںبحیثیت ضلعدار فرائض منصبی ادا کرتے رہے لیکن بعض خوارق کے ظہور کی وجہ سے ملازت کو خیر باد کہہ کر موروثی اراضی کی کاشت پر قانع ہو گئے اور اسی سے اپنی اور اہل و عیال کی کفالت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔

استغناء :

تمول پسندی کبھی مزاج نہیں رہا۔ نہ کبھی اہل تمول کی صحبت پسند فرمائی ۔ اہل ثرو ت و اقتدار کی آمد سے کبھی خوش نہ ہوئے بلکہ بادل ناخواستہ ان سے ملتے یا اجازت دیتے ۔

معمولات شب و روز:

آخری تہائی رات سے فجر تک مصروف عبادت رہتے ۔ جس میں طویل مراقبہ بھی شامل ہوتا ۔ بعد نماز بھی اور ادواشغال کا سلسلہ جاری رہتا۔ البتہ طلوع آفتاب کے بعد اگر موقعہ میسر آتا تو قدرے آرام کر لیتے ۔ دلائل الخیرات ، دعائے حزب البحر ، دعا سریانی ، حرز یمانی، دعائے سیفی ، دعامغنی ، دعا حیدری ، درود مستغاث ،دعا کن فیکون ،تکسیر عاشقان ، حرز سعید ین ، اذکارواشغال سلاسل عالیہ، اسمائے حسنی اور شجرات سلاسل وغیرہ روز مرہ معمولات میں شامل تھیں ۔

اولاد:

آپ کو چھ (۶) بیٹے تولد ہوئے :

۱۔ حافظ محمد احمد فاروقی (مرحوم )                          

۲۔ قاضی بشیر احمد

۳۔ رفیق احمد (مرحوم)                                   

۴۔ قاضی شفیع احمد

۵۔صاحبزادہ قاضی شفیق احمد فاروقی مدنی (سجادہ نشین )      

۶۔ وصی احمد (مرحوم )

خلفائ:

ہندو پاک میں آپ کے درج ذیل خلفاء مصروف عمل ہیں:

انیس مجتبی زبیری ، حاجی شبراتی میاں ، پروفیسر خواجہ منظور احمد ، سید نجیب اللہ قادری ، سید غلام محمد رضوی ، صوفی مولانا محمد صدیق، شیخ محمد الیاس سر شار ، صوفی عبدالمجید ، مولانا سید مشتاق احمد ، مولانا سید عبدالخالق ، مولانا عبدالستار ، محمد حبیب وغیرہ

شاعری :

آپ کو ذوق شعر و شاعری بھی یوں تو وراثتا ہی ملا تھا لیکن شعر گوئی کا یہ ذوق مروجہ غزل سرائی یا مشاعر ہ دادو تحسین سے بہت بالاتر تھا ، جو کچھ تھا ، حال تھا ۔ واردات قلبی کو بیان کرتے پھر جب دل چاہتا تو کسی سے پڑھوا کر اپنا کلام ترنم کے ساتھ سماعت فرماتے ۔

تصنیف و تالیف:

نثر و نظم میں آپ کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں :

٭     مجمع انشائے فیض           تصوف           غیر مطبوعہ

٭     حیات السعید                      کلام منظوم        مطبوعہ

٭     مناجات سعید             منظوم            مطبوعہ

٭     گوہر عقیدت حصہ اول      کلام منظوم        مطبوعہ

٭     گوہر عقیدت حصہ دوم      کلام منظوم        مطبوعہ

٭     گوہر عقیدت حصہ سوم      کلام منظوم        غیر مطبوعہ

٭     وصیت نامہ               ہدایاو وصایا      غیر مطبوعہ

منظوم مجموعہ کلام توحید باری تعالی ، نعت سر ورکائنات ﷺ اور مناقب اولیا ء اللہ پر مشتمل ہے ۔ اور یہ سب کچھ تصوف کے رنگ میں ہے ۔ غزل، مخمس،مسدس، مثنوی ، رباعی اور قطعہ غرض یہ کہ ہر اسلوب بیان موجود ہے۔ کلام کا تقریبا چوتھائی حصہ فارسی میں ہے اور بقیہ حصہ اردو میں ، نیز کچھ کلام ہندی (پوربی ) میں ہے ۔ من حیث المجموع کلام میں بے ساختگی اور وارفتگی کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی چاشنی بھی پوری طرح جلوہ گر ہے۔

پاکستان میں قیام:

تقسیم ہند کے بعد ۱۹۵۰ء میں آپ نے سفر حج سے واپس آکر ترک وطن کرکے باب الا سلام سندھ (پاکستان) میں تشریف لے آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے ۔ اس طرح آپ نے پاک سر زمین پر فقط نو سال کا مختصر عرصہ مقیم رہ کر انتقال کیا۔

ارشادات :

۱۔  فرمایا: محض قبل و قال سے کیا فائدہ میکدہٗ مذاق میں آوٗ۔ معلوم ہوا کہ ابھی تک مطلوب کوئی اور ہے، ذراغور تو کرو کہ دعویٰ تو خدا پرستی کا اور سر میں سودا کسی اور کا ہے یہی شرک حقیقی ہے اور یہی حجاب عظیم ۔

۲۔  فرمایا: فقیر وہ ہے جو دنیا کی طرف ملتفت نہ ہو ۔ نہ عقبی پر راضی ہو اور نہ کفایت کرے ، مگر اپنے مولیٰ پر ۔

۳۔  فرمایا: نماز خشوع و رجوع الی اللہ کا نام ہے۔ یہ بھی کوئی نماز ہے کہ تن تو نماز میں ہوا اور دل نیاز دوست سے غافل ہو ۔

۴۔  فرمایا: بندگی یہ ہے کہ جو اس کا آقا کھلائے کھائے ، جو پہنا پہن لے تاکہ آقا راضی رہے۔ یہ بھی کوئی بندگی ہے کہ ہم چاہیں کہ سب کام ہماری مرضی سے سر انجام پائیں ۔

۵۔  وصال سے قبل دونوں ہاتھ اٹھا کر پوچھا میرے ہاتھوں میں کیا ہے کہا گیا کہ کچھ نہیں فرمایا: دنیا سے جو بھی جاتا ہے خالی ہاتھ جاتا ہے ۔ نہ کوئی کچھ لے کے آتا ہے اور نہ دنیا سے کچھ لے کر جاتا ہے۔ یہاں کا سب یہیں رہ جاتا ہے ، جو ساتھ جاتاہے وہ نیک عمل ہے مگر جو خالص ہو۔

وصال:

مولانا قاضی سعید الدین فاروقی نظامی نے ۱۲، ربیع الآخر ۱۳۷۹ھ؍۱۶،اکتوبر ۱۹۵۹ ء بروز جمعہ بوقت شام اذان مغرب کے ساتھ ۸۷ سال کی عمر میںانتقال کیا۔ پالوش نگر قبرستان ناظم آباد کراچیمیں گلزار سعیدیہ مسجد میںآپ کی خانقاہ مرجع خلائق ہے۔

[۱۸، جولائی ۲۰۰۴ بروز اتوار گلزار سعید مسجد و خانقاہ جانا ہوا جہاں ان کے خلف سے مجلہ گلزار سعیدیہ مطبوعہ کراچی ۱۴۲۴ھ دستیاب ہوا، جس سے یہ مضمون تیار کیا گیا۔]

(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)

 

تجویزوآراء