مجاہد ملت مولانا شاہ محمد  عبد الحامد قادری بد ایونی قدس سرہ

 

 

          تحریک پاکستان کیت ممتاز راہنما حضرت مولانا شاہ محمد عبد الحامد قادری بد ایونی ابن مولانا حکیم عبد القیوم شہید (م ماہ رجب ۱۳۱۸)ابن مولانا حافظ فرید جیلانی ابن مولانا محی الدین ابن مولانا سیف اللہ الملوم شاہ فضل رسول بد ایونی[1]

قدست اسرارہم ، ۱۳۱۸/۱۹۰۰ء میں دہکی میں اپنے ننھیال کے ہاں پیدا ہوئے محمد ذوالفقار حق( ۱۳۱۸ھ) تاریخی نام تجویز ہوا[2]ابھی آپ کی عمر بیس دن ہی کی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا ۔ ان ے وصال کا واقعہ برا روح پرور ہے ۔ پٹنہ ، بہار میں ایک عظیم الشان اجلاس منعقد ہو راہا تھا جس  میں شرکت کے ل ئے آپ تین سو علماء کے ہمراہ تشریف لے جار ہے تھے ،راستے میں ایک اسٹیشن پر عصر کی نماز ادا کی اتنے میں گاڑی چل دی ، آپ سوا ر ہوتے ہوئے پیوں میں پھنس گئے ،زخم اس قدر تھے کہ ستر ٹانکے لگائے گئے ، اسی حالت میں اجلاس میں شریک ہوئے ، تمام تقریریں سنیں ، اختتام پر صلوٰۃ و سالم پڑھن ے کے لئے اٹھ کر کھڑے ہوگئے،رقت کے عالم میں ٹانکے ٹوٹ گئے اور صلوٰۃ و سلام پڑھتے ہوئے مالک حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے[3]

          آپ کے خاندان شریعت و طریقت کے اعتبار سے نہ صرف بد ایوں بلکہ پورے ہندوستان میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا، مسلک اہل سنت و جماعت کی ترویح وچاعت اور فرق باطلہ کی تردید میں اس خاندان کی مساعئی جمیلہ نا قابل فراموش ہیں ۔

          مولانا عبد الحامد بد ایونی اور ان کے بڑے بھائی مولانا عبد الماجد بد ایونی کی تعلیم و تربیت کا تمام تر انتظان ان کی والدہ ماجد ہ ( سیدی بہاء الدین دہلوی کی ہمشیرہ ) نے کیا ۔ابتداء اپنے آبائی مدرسہ ، مدرسہ قادریہ میں تعلیم حاصل کی ، آخری دو سال الٰہیات کی تکمیل اور فن قراء ت کی تحصیل کے لئے مدرسئہ الٰہیہ ، کانپور میں رہے ۔ آپ کے اساتذہ میں آپ کے مرشد بر حق حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی قدس سرہ کے علاوہ حضرت مولانا محب احمد قادری ، مولانا حافظ بخش بد ایونی ، مولانا قدری بخش بد ایونی مولانا مفتی محمد ابراہیم ، مولانا مشتاق احمد کانپوری ، مولانا واحد حسین اور مولانا عبد السالم فلسفی کے نام ملتے ہیں ۔

           تکمیل کے بعد مدرسہ شمس العلوم ، بد ایوں کے نائب مہتمم مقرر ہوئے اور تین سال تک مدرسہ کے انتظام و انصرام اور ترقی میں کوشاں رہے ۔ اسی زمانے میں تحریک خلافت شروع ہوئی تو مولانا عبد الباری فرنگی محلی نے لکھؤ سے مولانا محمد علی جوہرا اور مولانا شوکت علی کو حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر بد ایونی کی خدمت م یں بد ایوں بھیجا ، انہوں نے مہمانوں کی خرب خاطر مدارات کو حکم دیا کہ انگریزی استعمار کے خاتمے کے لے علی برادران اور ان کے رفقا ء کے ساتھ دیں ، پیر و مرشد کے حکم کے مطابق مولانا عبد الماجد بد ایونی اور مولانا عبد الحامد بد ایونی  نے ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں جاکر تحریک خلافت کا پیغام پہنچایا ، مولانا عبد الحامد بد ایونی ،ڈسڑکٹ خلات کمیٹی،بدایوں کے جزل سکر ٹری رہے ، خلافت پر وانشل کمیٹی اور سنٹرل خلافت کمیٹی ، بمبئی کی مجلس عاملہ کے رکن رہے ۔

          گاندھی نے تحریک خلافت میں شریک ہو کر قائد نہ پوزیشن حاصل کرلی تی ، مسلمان ا پنی سادہ لوحی کی بنا پر ہندئو وں کو انا ہمدرد و تصور کر بیٹھے تھے لیکن شد ھی تحریک شروع ہونے پر منکشف ہوا کہ ہندو کے عیار ذہن میں مسلمانوں کے خلاف کیا کیا منصوبے پر ورش پارہے ہیں ۔ مولانا عبد الحامد بد ایونی شدھی تحریک کے شروع ہوتے ہی کانگریس سے الگ ہو گئے اور مرکزی تبلیغ الاسلام ، انبالہ اور آگرہ میں شریک ہو کر ہر اس جگہ می پہنچے جہاں شد ھی تحریک کام کر رہی تھی[4]

ہندئووں کی تنگ نظری اور اسلام دشمنی کے پیش نظر ضرورت محسوس کی گئی کہ مسلمانوں کی الگ جماعت قائم ہونی چاہئے چنانچہ جب مسلم کانفرنس قائم کی گئی تو مولانا عبد الحامد بد ایونی اور تحریک خلافت کے اکثر مسلم رہنما مسلم کانفرنس میں شریک ہو گئے ۔ لندن کانفرنس کے بعد دہلی میں مولانا شوکت علی کی قیام گاہ پر مسلم زعماء کا اجلاس ہوا تو م ولانا عبد الحامد بد ایونی نے بھی اس میں شرکت کی ، اس اجلاس میں طے ہو کہآئندہ اننتخابات میں صرف مسلم لیگ مسلمانون کی نمائندگی کرے گی ۔ مولانا عبد الحامد بد ایونی نے یوپی ، سی پی ، بہر ، اڑلیہ ، بنگال ، آسام ، بمبئی، کراچی ، سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقوں میں جارعامۃ المسلمین کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر تیار کیا پیر صاحب مانکی شریف کے ایماء پر قائد اعظم نے انہیں صوبہ سرحد میں بھیجا،جہاں آپ نے خان برادران کے اثرات کو زائل کر کے مسلم لیگ کی مقبولیت کو چار چاند لگادئے ، انہی خدمات کی بنا پر آپ کو فاتح سرحد کا لقب دیا گیا تھا۔ سلہٹ اور بنگال میں مولوی حسین احمد ٹانڈوی کا بڑا اثر و ر سوخ سمجھا جا تا تھا ، مولانا بد ایونی کی ولوہ انگیز تقریروں نے کانگیسی طلسم کو توڑ کر مسلم لیگ کے نمائندہ کو کامیاب کرایا[5]

          حافظ بشیر احمد غازی آبادی لکھتے ہیں :۔

’’آج کے بہت سے (کانگریسی) علماء جو پاکستان میں نظریۂ پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں اور مختلف سیاسی پلیٹ فارموں سے اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈ ورا پیٹ رہے ہیں ، آل اندیا یا نیشنل کانگریس کے ہمنوا تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے مقابلے میں حریفانہ سیاسی چالیں چل رہے تھے ، خدا مولانا عبد الحامد بد ایونی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ،انہون نے اس محاذ پر نیشنسٹ علماء کا مقابلہ کیا اور مسلم لیگ میں اپنی بہترین صلاحتیں صرف کیں [6]‘‘

          ۲۳مارچ ۱۹۴۰ ئکو منٹو پارک ، لاہور کے تاریخی اجلاس میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تو مولانا عبد الحامد بد ایونی مسلم لیگ کے ان زعماء میں شامل تھے جنہوں نے قرار داد کی تائید میں تقریر کی ۳۰ اگست ۱۹۴۱  ؁ء کو لدھیانہ میں آپ کی صدارت میں پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی ، اس کا نفرنس میں آپ نے پاکستان کے حق میں بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جو بعد میں نظامی پریس ، بد ایوں سے چھپ کر ملک بھر میں تقیسیم ہوا ۔ ۱۹۴۵ء میں قائد اعظم اور میر عثمان علی خاں فرمانر وائے دکن کے بہمی اختلافات نازک صورت اختیار کر گئے تو قائد ملت خان لیاقت علی خان  نے مولاناعبدالحامد بد ایونی کو منتخب کیا تاکہ اختلافات تم کر انے کے لئے دونوں راہنمائوں کی ملاقات کا راستہ ہموار کریں، والئی دکن ، م ولانا بد ایونی کی بڑی قدر د منزلت کرتے تھے اور انہیں دینی جلسوں میں تقریری کے لئے مد عو ک یا کرتے تھے مولانا فرنر واء دکن سے ملاقات کی اور طویل گفتگو کے بعد انہیں قائد اعظم سے ملاقات کرنے پر آمادہ کیا[7]

          ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس ، بنارس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اسے کامیاب بنانے میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ ۱۹۴۶ء میں علماء کا ایک وفد حجاز مقدس گیا جس کے قائد مبلغ اسلام مولانا شاہ محمد عبد العلیم صدیقی میر ٹھی اور جزل سیکریڑی مولانا بد ایونی تھے ، اس وفد نے نہ صرف حجاج پر عائد کر دہ ٹیکس ختم کرنے کے سلسلے میں حکومت سعودیہ سے مذکرات کئے بلکہ عالم اسلام کے دینی اور سیاسی راہنمائوں کے سامنے نظریۂ پاکستان کو مؤثر طور پر پیش کر کے پاکستان کی حمایت پر آمادہ کیا۔

          قیام پاکستان کے بعد آپ آل انڈیا مسلم یگ کے اجلاس میں شرکت کے لء کراچی تشیر لائے تو ز علماء پاکستان کے اصرار پر مستقل طور پر یہیں قیام پذیر ہو گئےك[8] جب آپ نے دیکھا کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمان کسمپرسی میں مبتلاہیں تو آپ نے ایک اجلاس میں ہندوستان کے تمام صوبوں اور مقامی نمائندوں پر مشتمل’’ مرکزی مہاجرین کمیٹی ‘‘ کی بنیاد ڈالی جو عوامی اور سرکاری سطح پر مہاجرین کی آباد کاری اور ان کی ضروریات کی فراہمی کے لے مسلسل کو شش کرتی رہے ۔

          ۱۹۴۷ء میں آپ کی تحریک پر ویدرٹا ور ، کراچی سے میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عظیم الشان جلوس نکلا جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ محمد ایوب کھوڑو بھی پاپیدادہ شریک ہوئے ، اس کے علاوہ خلفاء راشدین اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ایام شاہ و شوکت سے منانے کا اہتمام بھی آپ ہی نے شروع کیا ،ان اجتماعات میں پاکستان کے گورنر جزل اور وزیر اعظم نے بھی شرکت کی ۔

          ۱۹۴۸ء میں مولانا شاہ عبد العلیم میر ٹھی کی قیادت میں سندھ کے علماء مشائخ کے ایک وفد نے قائد اعظم سے ملاقات کی جس میں مولانا بد ایونی بھی شریک تھے اور تفصیلی یادداشت پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا :

’’ملک پاکستان کا دستور کتاب و سنت کی روشنی میں تیار کیا جائے اور دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی وزارت امور مزہبیہ قائم کی جائے[9]۔‘‘

 

          جمعیۃ العلمائ، پاکستان کے قیام اور استحکام کے لئے ابتداء ہی سے آپ نے اپنی کوششیں وقف کر رکھی تھیں ، حضرت علامہ ابو الحسنات قادری کے وصال کے بعد جمعیۃ کے مرکزی صدر بنے اور اپنی شبانہ روز محنت سے جمعیۃ کر چار چاند لگا دئے ، مولانا ان علماء میں شامل تھے جنہوں نے ۲۲ نکات پر مشتمل دستوری خاکہ مرتب کیا تھا ، ۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم ن بوت شروع ہوئی تو اس میں ااپ نے کھل کر حصہ لیا اور انتہائی علالت کے با وجود فر وری ۱۹۵۳ء میں اسلامی مشارقی کونسل کے رکن نامزد ہوئے ، اس ضمن میں انہوں نے کونسل کو اہم سفارشات پیش کیں ، ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو ااپ نے علماء اہل سنت کی ایک جماعت کے ساتھ ملک بھر کا دوراہ کیا اور تین لاکھ روپے کے کرکپڑے اور دیگر ضروری سازد سامان مہاجرین کشمیر میں تقسیم کیا ۔

          مولانا عبد الحامد بد ایونی نے قدیم اور جدیدی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا کی اہم زبانوں کی تعلیم کے لئے کئی لاکھ روپے صرف کر کے منگھو پیر رود ، کراچی میں جامعہ تعلیمات اسلامیہ کے نام سے عظیم درس گاہ قائم کی ، آپ کی اپیل پر صدر مملکت اور اسلامی مملاک کے سر براہوں نے دل کھول کر امداد کی ، یہ ادارہ آج بھی علوم دینیہ کی خدمت میں مصروف ہے ۔

          آپ چین ، روس ، مصر ، ترکی ، تیونس ، نائجیریا ، کویت ، عرا ، ایران اور حجاز مقدس گئے[10]

اور مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو واضح کیا ۔ آپ نے بائیس مرتبہ حرمین شریفرین کی حاضری کی سعادت حاصل کی [11]

آپ کے شاہ فیصل ، صدر ناصر ، ڈاکٹر محمد حمتی ، عبد السلام عارف (عراق ) مفتی ٔ اعظم فلسطین سید امین الحسینی اور مسلمانان روس کے مفتئی اعظم سے ذاتی مرادم تھے اور ان حضرات نے ااپ کی وفات پر تعزیتی بیغامات میں ااپ کی دینی اور علمی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا[12]

          آپ نے بے انداز ہ ملکی و ملی مشاغل کے باوجود قابل قدر تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑ ا، چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔

۱۔ فلسفہ عبدات اسلامی                 

۲۔ تصحیح العقائد                           

۳۔ نظام عمل                         

۴۔ کتاب و سنت غیروں کی نظر میں

۵۔ اسلام کا رزاعتی نظام

۶۔ اسلام کا معاشی نظام

۷۔ مرقی کانگریس( مطبوعہ ۱۹۳۸ء)

۸۔ مشرقی کا ماضی و حال

۹۔انتخابات کے ضروری پہلو           

۱۰۔ الجواب المشکور (عربی)            

۱۱۔ اسلامک پیرئرز ( انگریزی)

۱۲۔ حرمت سود   

۱۳۔ تاثرات دورئہ

۱۴۔ تاثراب دورئہ چین

۱۵ ۔ مشیر الحجاج [13]

          ۱۵ جمادی الاولیٰ ، ۲۰ جولائی ( ۱۳۹۰ھ /۱۹۷۰ئ) کو تحریک پاکستان کے صف اول کے مجاہد ، عالم با عمل مولانا شاہ محمد عبد الحامد بد ایونی قادری قدس سرہ کا ناح ہسپتال ، کراچی میں وصال ہوا ۔آپ کی آخری آرام گاہ جامعہ تعلیلمات اسلامیہ ، منگھو پیر روڈ ، کراچی کے احاطہ میں بی ، پسماند گان میں اہلیہ محترمہ ، دو صاحبزادے جناب محمد عابد القادری (جنہوں نے مولانا کے بارے میں معلومات فراہم کرنے میں بڑا کرم فرمایا ، راقم ان کا شکر گزارہے) اور جناب محمد زاہد القادری اور ایک صاحبزادی یادگار ہیں[14]

حضرت مولانا عبد الحامد بد ایونی کے وصال پر سفیر عراق نے یہ پیغام تعزیت بھیجا :

’’مولانا بد ایونی کے اچانک انتقال کی خبر مجھے ابھی ابھی معلوم ہوئی ہے، مولانا بد ا یونی علیہ الرحمۃ جید عالم و فاضل تھے اور مسلمان قوم میں ان کا بہت بڑا مقام تھا، خدا تعالیٰ مولانا کی روح پر رفتوح پر اپنے فضل و کرم کی بارش کرے ۔‘‘

’’ افسوس کہ پاکستان اور پاکستانی قوم ایک مقتدر مذہبی پیشوا اور جید عالم اور فاضل سے محروم ہو گئی ، باری تعالیٰ مولانا علیہ الرحمۃ کے خاندان کواس غیر معمولی سدمہ کو برداشت کرنے کی ہمت دے اور مرحوم پر اپنے فضل و کرم کی بارش فرمائے ، آمین۔‘‘

مولانا جمال میاں فرنگی محلی ابن حضرت مولانا عبد البری فنگی محلی ( قدس سرہ نے) ان الفاظ میں تعزیت کا پیغام بھیجا

’’علامہ مولانا عبد الحامد القادری الب ایونی کے انتقال کی خبر سیمیں غیر معمولی طور پر قلبی صدمہ محسوس کرتا ہوں ، یہ حادظہ نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری ملت پاکستان کیل ئے ایک ناقابل تلانی نقصان ہے [15]۔‘‘

          جناب سید سیفی ندوی نے قطعۂ تاریخ کہا   ؎

عبد حامد سراپائے جہد و یقیں

عالم دین و سرمایۂ اہل دیں

سرفراز ے کہ ملت ازبیر بلند

واشت بر آستان محمد حبیں

خوش برفت از جہاں سئے دار البقا

ش جہاں از جدائی ذالش غمیں

ہا تفم گفت سیفیؔ زسال وصال

’’منبر عبد حامد بہشت بریں[16]

جناب صابر برادری قادری نے عیسوی سن قلمبند کیا    ؎

سال رحلت کو ہے صابرؔسبز گنبد کی صدا

’’عالم مشہور ، حامد ، عازم باغ جناں[17] ‘‘

 

[1] محمد ایوب قادری ، پروفیسر : مدرسہ شمس العلوم ، بد ایوں ، مجلہ علم و آگنی کراچی ، خصوصی شمار ۵۵۔ ۱۹۷۴ئ، ص ۹۴

[2] محمد احمد قادری ، مولانا : تذکرہ علمائے اہل سنت ص ۱۵۹

[3] محمد فاروق احمد ، سید : گلدستہ عقیدت ( مرتبہ محمد عابد القادری ، مطبوعہ کراچی ۱۹۷۱ء) ص ۴۱ ۔ ۴۰

[4] محمد فاروق احمد سید : گلدستہ عقیدت ،ص ۴۲۔۴۱

 

[5] محمد فاروق احمد ، سید : گلدستہ عقیدت ص ۴۳

[6] بشیر احمد غازی آبادی، حافظ : گلدستہ عقیدت ص ۳۲

[7] امیر علی ، امام سید : مولانا عبد الحامد بد ایونی پر ایک نظر ( مطبوعہ مضمون )

[8] ایضاً ۔

[9] امیر علی امام ، سید : مولانا عبد الحامد بد ایونی پر ایک نظر

[10] امیر علی امام ، سید : مولانا عبد الحامد بد ایونی پر ایک نظر

[11] بشیر احمد غازی آبادی : گلدستہ عقیدت ، ص ۳۵

[12] امیر علی اما م سید : مولانا عبد الحامد بد ایونی پر ایک نظر

[13] بحمدہ تعالیٰ کراچی میں مولانا بد ایونی اکیڈمی ائم ہو چکی ہے ، امید ہے کہ ااپ کی تصانیف کو از سرنو شائع کرنے کو اولیت دی جائے گی۔

[14] ایضاً ۔

[15] گلدستہ عقیدت : ص ۱۱۔ ۱۲

[16] ایضاً : ص ۳۳

[17] ایضاً : ص ۲

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء