حضرت مولانا شاہ محمد نور اللہ فریدی
حضرت مولانا شاہ محمد نور اللہ فریدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
بچھراؤں ضلع مراد آباد کے ساکن حضرت مخدوم دائم الحضور شاہ عبدالغفور صاحب اعظم پوری خلیفہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہما آپ کی آٹھویں پشت کے بزرگ ہیں، آپ کے نانا حضرت شاہ مقبول عالم محب النبی حضرت مولانا شاہ محمد فخر الدین چشتی دہلوی کے خلیفہ تھے، اور حضرت گنج شکر کان نمک قدس سرہٗ کی اولاد سے تھے، ابتدائی درسیات کی تعلیم گھر پر حاصل کی، بعدہٗ رام پور میں حضرت مولانا مفتی شرف الدین سے اور لکھنؤ میں حضرت مولانامرزا ھسن علی محدچ سے اخذِ علوم کیا، سرکار انگریزی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے اور غازی الدین حیدر کے زمانہ میں نو برس کامل معزز عہدوں پر کام کیا، ۱۲۳۹ھ میں حضرت رئیس الموحدین، واقف اسرار قاب قوسین مولانا سید شاہ عبدالرحمٰن صوفی قدس سرہٗ سے مرید ہوئے اجازت وخلافت پائی اور حریم راز کے مَحَرم ہوئے۔۔۔۔ آپ کو اپنے مرشد کےمزاج و بارگاہ میں بہت رسوخ حاصل تھا، مسئلہ وحدۃ الوجود میں جب کلام فرماتے تو جاننے والے کہتے کہ حضرت مولانا کلام فرمارہے ہیں،۔۔۔۔۔۔ ۱۳؍رمضان المبارک ۱۲۶۷ھ میں لکھنؤ میں وصال ہوا، اور مرشد کے زیر قدم دفن کیے گئے۔
تصانیف میں انوار الرحمٰن ملفوظ مولانا سید شاہ عبدالرحمٰن، نور مطلق شرح کلمۃ الحق یہ دونوں اکابر صوفیاء اور علماء میں مقبول و متداول ہیں۔ ھدایۃ الوھابین، نغمۂ عشاق جو از سماع میں (محمد اکبر بادشاہ غازی نے اس کتاب کے مطالعہ کے بعد شاہی فرمان کے ذریعہ) زبدۃ الموحدین، مشیر الدولہ، محسن الملک مفتی محمد نور اللہ خاں بہادر مناظر جنگ کا خطاب دیا۔