صوفی قلندر علی سہروردی لاہوری

صوفی قلندر علی  سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ

خاندان

          آپ موضع کوٹلی لو ہاراں کے گیلانی سادات کے چشم و چراغ تھے،سلسلہ نسب سیدنا حضرت ابوالحسن قاری شاہ بدیع الدین آغا شہید اور حضرت ابوبکر عبدا لرزاق رحمتہ اللہ علیہ کے واسطہ سے محبوب سبحانی غوث صمد انی سید عبدالقا در جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ تک جا ملتا ہے،چار برس کی عمر سے ابتدائی تعلیم شروع کی ،آٹھ سال کی عمر میں سرسے سایہ پدری اٹھ گیا مگر انتہائی غیر مساعد حالات کے باوجود آپ نے اپنا سلسلہ تعلیم و تدریس جاری کیا۔

تعلیم و تربیت

          عام تعلیم مڈل تک تھی لیکن بچپن سے ہی دینی تعلیم کی طرف رجوع نے آپ کو مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی ،چنانچہ آپ دیو بند  میں ایک رات قیام کے بعد بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وہاں آپ کا قیام تقریباً اڑھائی برس رہا، تفسیر ،حدیث،فقہ،قانون اور کلام کی تعلیم آپ سے حاصل کی،وہاں سے ہی آپ کو شوق پیدا ہواکہ اپنا کوئی پیر طریقت ہونا چاہئے چنانچہ آپ کی تلاش میں گولڑہ شریف میں پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،وہاں سے مختصر قیام کے بعد آپ حیات گڑھ ضلع گجرات تشریف لائے اور حضرت میاں غلام محمد صاحب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،ان سے بیعت سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں کی اور خلافت حاصل کی اور اپنے وطن مالوف کوٹلی لوہا راں واپس چلے گئے،آنجناب نے حضرت میاں شیر محمد صاحب نقشبند ی شر قپو ری رحمتہ اللہ علیہ سے بھی استفا دہ فرمایا تھا۔

لاہور میں آمد اور قیام

          لاہور میں آپ اپنے وطن کوٹلی لوہاراں مشرق سے جوکہ سیالکوٹ سےنو میل کے فاصلہ پر ہے،تشریف لائے اور اپنے ایک پیر بھائی عبدالعزیز صاحب محلہ ادیاں قلعہ گوجر سنگھ کے پاس قیام کیا جو کہ محکمہ دستکا ری میں افسر تھے،یہاں آپ مختلف اولیائے کرام کے مزارت پر حاضری دیتے رہے،بالخصوص حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمتہ  اور شیخ حسو تیلی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اولیائے عظام کے مزارت پر آپ بالخصو ص حاضری دیا کرتے تھے جن میں حضرت قطب عالم سید عبد الجلیل چوہڑ بندگی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ شیخ موسیٰ آہنگر سہروردی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

خطابت جامع مسجد حضرت شاہ ابو المعالی رحمتہ اللہ علیہ

          کچھ عرصہ بعد آپ نے جامع مسجد حضرت شاہ ابوالمعای قادری لاہوری رحمتہ اللہ علیہ میں خطابت اور امامت کا سلسلہ شروع کیا،آپ کے وعظ دلپذیر سے بیشمار خلقت حاضر ہونے لگی،یہ ناچیز بھی خطبہ میں آپ کے کلام معجز بیان سے بیحد متاثر ہوتا تھا اور آپ سے ربط وضبط بھی رہا۔

اپنا ذاتی مکان

          اس دوران آپ نے اپنے  پیرو مرشد باباجی کے فرمان کے مطابق محلہ ادیاں قلعہ گوجر سنگھ میں تھو ڑی سی اراضی خرید کر اپنا ذاتی مکان بنوایا اور خطابت و امامت چھوڑ کر تصوف اور طریقت کے طرف مائل ہوئے، چونکہ گزشتہ صدی سے سہروردی طریقے کا لاہور میں کوئی عروج نہیں ہوا تھا اس لیئے آپ نے اس سلسلہ ک ترویج و تجدید میں بے پناہ کوشش کی اور اس میں آپ نے نمایا ن طور پر کا میابی حاصل کی،اس طرح آپ نے چند سال مزید گزارے اور مسجد چو ہدریاں قلعہ گوجر سنگھ میں دوبا رہ خطابت شروع کردی، یہاں بھی لوگوں کے ٹھٹھ لگنے شروع ہوگئے اور بے پناہ خلقت نے آپ سے فیوض و برکات حاصل کیئے۔

نمونہ تحریر

          چونکہ آپ نے بیشمار کتب تصنیف فرمائی تھیں اس لیئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تحریر کا بھی نمونہ دے دیا جائے کیونکہ آپ کی کتب کی اشاعت عام نہیں ہے بلکہ خلفاء اور مریدین تک ہی محدود ہے،بازار میں آپ کی کتب نہیں بکتییں،جمال الہیٰ،میں اسماء اللہ الحسنی کے زیر عنوان،الکریم ،کے زیر تحت لکھتے ہیں۔

          کریم کرم سے ہے،کرم کے معنی جود و سخا اور انہتا ئی عزت و عظمت کےہیں،اہل زبان کے محا ورہ میں صفت کریم پریوں اطلاق ہوتا ہے کہ وعدہ میں وفا، باوجود قدرت و طاقت کے عفو و درگزر،عیب دیکھنے پر بھی پردہ پوشی اور گناہ معلوم ہونے پر در گز ر کرنا،اللہ تعالیٰ کریم ہے اور جملہ معانی کے اعتبا ر سے کریم ہے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معبو ث فرمانا، قرآن کریم کا نزول،اجر کریم کا عطا کیا جانا، مدخل کریم کا داخلہ،رزق کریم کی ارزانی، ،تمام تر مخلوق پر انعام وا کرام کی بارش اس کی شان کریمی میں داخل ہے،وہی حقیقتاً مالک جودو کرم، جواد مطلق ارو غنی برحق ہے جو امید سے زیادہ عطا فرما کر امید وار کو سر فرازی بخشتا ہے۔

          جمال رسول۔صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ۳۵۲صفحات پر مشتمل ہے اسماء شافیہ مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریح کے زیر عنوان محمد صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم کے زیر تحت لکھتے ہیں۔،،

          اللہ تعالیٰ نے آپ کویہ خصو صیت دی ہے کہ اسماء کے ضمن میں آپ کے تعریف فرمائی ہے،آپ کے ذکر کے اثنا میں آپ کے بڑے شکر کا ذکر مخفی رکھا ہے، اس اسم شریف میں چو بروزن مفصل ہے،کثرت حمد میں مبا لغہ ہے یعنی حضور حمد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کرہیں اور ان سب سے افضل ہیں جن کی تعریف کی جاتی ہے،اس لیئے کائنات کاذرہ ذرہ آج تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ثنا گستر و مدح خواں ہے اور ان کے پیارے نام کی نوبت شاہانہ رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ مرتبہ مساجد کے بلند ترین مینا روں سے سامعہ نواز ہے اور قیامت کے دن بھی حمد کا جھنڈا حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوگا تاکہ کمال حمد آپ کےلیئے پورا ہو،اس میدان میں آپ حمد کی صٖفت سے مشہور ہوجائیں، آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر اٹھا ئے گا اس مقام میں آپ سب کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ کی تعریفوں کے وہ دروازے کھلیں گے جوکسی پرنہ کھلے ہوں اور نہ کھولے جائیں گے۔

          ایک تیسری کتاب،سیاح لامکان،میں لیلتہ الا سراء،میں مقام ادائیگی اور انتخاب سواری کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں۔

          جس قادر قیوم نے آسمانو ں کو بے ستون اور زمین کو بے میخ قیام بخشا،جس نے قطرہ آب سے اشر ف المخلو قات پیدا کیا، جس نے خون کو پستان مادر میں شیر شیریں بنایا، جس نے پشہ سےلشکر نمرود کو ہلاک کیا،جس نے طیرا ابابیل سے اصحاب فیل کو مروایا،جس نے کشی نوح کو طوفان سے نجات دی،جس نے دریائے نیل سے موسیٰ کو پار لگایا اور فرعون کو غرق کیا،جس نے بھڑکتی  آگ کو اپنے خلیل پر گلزار کیا، جس نے یونس کو بطن حوت میں سمند ر کی سیر کرائی، جس نے شاہ سکندر ذوالقرنین کو مشرق و مغرب کو زمین دکھائی، جس نے تخت سلیمان کو ہوا میں  معلق کیا، نے داؤد کے ہاتھ میں لوہے کو موم کردیا، جس نے موسیٰ کلیم اللہ  بناکر جبل طور پر بلایا۔جس نے عیسیٰ کو چرخ چہا رم پر اٹھا یا،جس نے بلعم بن با عور کو نا ر دوزخ میں جلایا اور سا حران فرعون کو معہ آسیہ کے جنت میں پہنچا یا وہی اب سجانی ذات پاک معبود اپنے بندے محبوب و مقبول بندے، ممتاز و مختا ر بند ے محمد صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم کو بعض حصہ رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور وہاں سے سدرۃ المنتہی اور سد رۃ سے عرش اعظم تک اور وہاں سے لامکان تک مع الجسم لے گیا، سوتے کو جگا کرلے گیا،شان وا حترام سےلے گیا، خانہ ام ہانی سے لے گیا، بیت الحرام میں لے گیا، شب دو شنبہ میں ستا ئیسو یں رجب شریف کو قرب خاص میں لے گیا اور قرآن شاہد ہے کہ سرکار کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا رب عالم بالا پر لے گیا،سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد حرام الی المسجد القصی۔

          ملا حظہ فرمائیں کہ آپ کے کلام معجزہ بیان میں کس قدر شرینی اور صد اقت ہے جولکھنے والے کی علمیت ،قابلیت اور سلجھے ہوئے طرز بیان کی ترجمانی کرتی ہے نیز معلوم ہوتا ہے کہ یہ کس عالم باعمل صوفی کی تحریر ہے جو خود شریعت کے رموز کو جانتا ہے اور دوسر وں کو بتانا بھی جانتا ہے۔

خلفا ئے نا مدار

          آپ نے اپنے مشن کی مکمل رہنمائی کی اور سلسلہ سہروردیہ کی ترویج میں بڑا حصہ لیا، آپ کے ہزاروں کی تعداد میں مرید ہیں جن میں سے صوفی مولوی سعید احمد سہروردی مرحوم۔ صوفی فیروز الدین مزنگ،محمد حمید کراچی،چوہدری محمد شفیع لائل پور فیصل آباد بٹالہ کالونی مرزا غلام  محی الدین سہروردی مرحوم، حاجی معراج الدین سمسانی ہنجر والی،مولوی غلام نبی سہروردی خطیب جامع مسجد گوجرہ بہت ممتاز شخصیت کے مالک ہیں ان کے علاوہ آپ کے مریدین میں حاجی یوسف علی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ گڑھی شاہو اس سلسلہ کے مبلغ ہیں،ریاض صاحب کا اسم گرامی آپکے محب شاعروں میں شما  ر ہوتا ہے۔

اولاد

          آپ کی اولاد کی تفصیل اس طرح ہے۱سید فیض احمد سہروردی۲سید فیاض احمد سہروردی ۳صاحبز ادہ سید امتیا ز احمد تاج سہروردی ۴ سید اعجا ز احمد سہروردی ۵سید سجا د احمد سہروردی رحمتہ اللہ علیہ اس کی علاوہ آپ کی چار صاحبز ادیاں تھیں۔

وفات

          آپ کی وفات حسرت آیات آنجناب کے آبائی مکان محلہ آدیاں میں ہوئی، بخا ر ہوا تھا مگر اتر گیا بعد میں کمزوری کافی تھی چنانچہ آخری چہار شنبہ ۲۷ صفر المظفر ۱۳۷۷ھ بمطابق ۱۰ ستمبر ۱۹۵۸ء کو وصال فرمایا۔

          اس وقت آپ کی عمر ۶۳ سال کی تھی پہلے کچھ اصحاب کا خیال تھاکہ قبرستان حضرت بی بیاں پاکد امناں  محمد نگر میں مدفون کیا جائے۔قبر بھی کھد چکی تھی مگر حاجی معراج الدین سہروردی ساکن ہنجروال کے اصرار پر میت ہنجر وال لے جائی گئی اور وہاں ہی دفن کیئے گئے،نماز جنازہ پولیس لائنز قلعہ گوجر سنگھ لاہور کی گراؤنڈ میں ادا کی گئی جو علامہ ابوالبر کات سید احمد قادری مدظلہ صدر مرکزی انجمن حز ب الا حناف پاکستان نے ادا کی،نماز جنازہ میں بے پناہ خلقت تھی۔

تصا نیف

          آپ نے بہت سی تصنیفات چھو ڑی ہیں جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں،جمال الہیٰ،جمال رسول،الفقر فخری،مو عظتہاللمتقین،سیاح الا مکان دعوت الحنیفہ پر دہ نسواں،حلیتہ النبی،لباس تقویٰ،رسالہ غیب،قمیض یوسفی،تذکرہ سہروردیہ ،تعا رف سہرور دیہ، انوار سہروردیہ،صحیفہ غوثیہ،میلا د الرسول، شعبان المعظم ،کتاب الصوم ،صو ت ہادی،اسلامی عورت ،زکوٰۃ کا اسلامی نظام، شرح قصید ہ غوثیہ،اس کے علاوہ نور مستو ر کا مسو دہ بھی تیا ر تھا جو اشاعت پذیر نہیں ہو سکا وہ صاحبز ادہ سید امتیا ز احمد سہروردی کے پاس محفوظ ہے،ماہنا مہ رسالہ، الفاطمہ ،بھی آپ کی زیر ادارت نکلا تھا،جن ایام میں کہ آپ حضرت شاہ ابو المعالی قادری رحمتہ اللہ علیہ کی مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے آپ فارسی اور اردو کے بہترین شاعر بھی تھے۔

مقبرہ

          مقبرہ ہنجر وال برلب سڑک ملتان روڈ ساتو یں میل پر واقع ہے جوکہ ابھی زیر تعمیر ہے،گنبد بہت بڑا ہے،ایک محتاط اندا زے کے  مطابق تقریباً ساٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے،روپیہ آپ کے خلفا اور مریدین وغیرہ خرچ کررہے ہیں۔سنگ بنیاد ۶جون ۱۹۶۱ء کو صاحبز ادگان حضرت صوفی قلندر علی صاحب سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے رکھا۔

(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)

تجویزوآراء