حضرت مولانا سید احمد سری کوٹی
حضرت مولانا سید احمد سری کوٹی علیہ الرحمۃ
حضرت مولانا سید احمد سر یکوٹ ابن سید صدر شاہ رحمہما اللہ تعالیٰ اپنے وقت کے اجل عالم اور نہایت متقی اور پرہیز گار تھے ، علم و فضل کے با وجود اپنے شیخ طریقت غوث زماں حضرت خواجہ عبد الرحمن چھو ہروی قدس سرہ العزیز بانی دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہر ی پور ہزارہ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اسی لئے آپ اپنے مرشد کامل کی خد مت میں کوئی وقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے۔
آپ ہری پور سے اٹھارہ میل مغرب کی جانب واقع موضع سر یکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ابتدا ء تجوید کے ساتھ قرآ ن کریم حفظ کیا ، بعد ازاں اپنے عالاقہ کے جید فضلاء سے تحصیل علم کی اور دیوبند جا کر درس حدیث لیا لیکن اس کیبا وجود دیو بندی معتقدات و نظریات کا بڑی شدت سے روکیا کرتے ت ھے ، تکمیل علوم کے بعد ایک عرصہ تک افریقہ کے شہر کیپ ٹائو ن،زنجبار اور ممباسہ میںتبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ وہاں سے وقپس آنے پر غوث زماں حضر خواجہ عبد الرحمن چھو ہر وی قدس سرہ کے دست اقدس پر سلسلۂ عالیہ ادریہ میں بیعت ہوئے،۱۳۳۹ ھ/۱۹۲۰ء میں پھر تبلیغ دین کے لئے رنگون تشریف لے گئے اور مرکزی مسجد ، مسجد نا خدا میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔آپ کی شخصیت اس قدر پر کشش ت ھی کہ وہاں کے لوگ جوق در کباب کے رسیانہ صرف فسق و فجور سے تائب ہو گئے بلکہ نمازی اور تہجد گزراین گئے[1]
حضرت مولانا سید احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کو اپنے شیخ سے بڑی عقیدت تھی چنانچہ آپ اکثر و بیشتر محبت بھے الفاظ میں مرشد کامل کا تذکرہ فرماتے ، اس کا اثر یہ ہو ا کہ بہت سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت خواجہ چھوہری قدس سرہ کو دعوت دیں تاکہ ہم ان کی زیارت مشرف ہوں اور حلقۂ اراوت میںداخل ہونے کی سعادت حاصل کریں ۔آپ نے یہ صورت حال حضڑت خواجہ چھوہروی قدس سرہ کی خدمت میں لکھ بھیجی ، انہوں نے جو اباً اپنا ایک رو مام بھجوادیا اور فرمایا جو شخص سحری کے وت با وضو ہو کر اس پر ہاتھ رکھے گا وہ میرا مریدین جائے گا۔ اس طرح بے شمار افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے ، تین سال بعد آپ نے اجازت و خلافت سے مشرف فرمایا[2]
اس دوران آپ نے اپنے مرشد کام کی تصنیف جلل مجموعہ صلوات الرسول شریف تین ضخیم جلدوں میں شائع کروا کے پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم کی اور اس پر تفصیلی مقدمہ لکھا جس میں حضرت خواجہ چھوہروی کے حالات شرح وبسط سے تحریر کئے۔ پہلا ایڈیشن ختم ہونے پر آٹھ نو ہزار روپے کی لاگت سے طبع ثانی کا انتظام کیا اور اپنے دور کی عظیم الشان کتاب کو منظر عام پر لانے کے اسباب فراہم کئے۔
۱۳۴۴ھ/۱۹۲۵ء میں آپ نے چٹا گانگ میں انجمن شوریٰ قائم کی اور جامعہ احمدیہ سنیّہ کی بنیاد رکھی ۔ جامعہ کی سہ منزلہ حسین و جمیل عمارت میں سینکڑوں طلباء کیلئے رہائش کا انتؓام کیا جہاں ج دید نصاب کے مطابق علوم دینیہ کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ بعد ازاں آپ کے فرزند اجمند حضرت الحاج صاحبزادہ محمد طیب زیدمجدہ (شتا لو شریف،سریکوٹ ہری پور ہزارہ ) کی سر پرستی میں ڈھاکہ جامعہ طیبہ کی تعمیر بڑی تیزی سے جاری تھی کہ غداروں کی غداری کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان ہم سے ج دا ہوگیا، نہ معلوم اس وقت وہاں دینی مدارس اور مساجد کی کیا حالت ہوگی۔
مولانا سید احمد قدس سرہ چٹا گانگ میں مدرسہ قائم کرنے کے باوجود اپنے شیخ و مرشد کے قائم کردہ دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور میں دلچسپی لیتے رہے چنانچہ دار العلوم کی موجودہ بلند و بالا عمار ت میں ااپ کا بہت بڑا حصہ ہے ۔آپ نے تقریباً سولہ سال تک مشرقی پاکستان میں قیام کیا ،اس عرصہ میں بلا مبالغہ لاکھوں افراد حلقۂ ارادت م یں داخل ہوئے۔آپکے مریدین کا امتیازی نشانمسلک اہل سنت پر ثابق قدمی ،ایک پاکستان سے سچی محبت اور دین متین کے ساتھ گہرا لگائو ہے۔اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ شہید و فاجناب فضل القادر چودھری خدا انہیں غریق رحمت کرے ) آپ کے نیاز مندوں میں سے تھے[3]
آخر دین کا یہ جانبا زم مجاہد پانی تمام عمرا شاعت اسلام میں صرف کر کے ۱۱ذیعقدہ،۲۷اپریل ( ۱۳۸۰ھ/۱۹۶۱ئ) بروز جمعرات عازم فر دوس ہوا[4]
ہری پور سے مغر ب کی جانب اٹھارہ میل کے فاصلہ پر شتا لو شریف سر یکوٹ میں آپ کی آخری آرام گاہ ہے جہاںآپ کے فرزند ارجمند حضرت الحاج محمد طیب قادری مدظلہ،مہتمم دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہر پور کی سر پرستی میں ہر سال عر س منایا جاتا ہے جس میں بکثرت عقدی تمند شمولیت کرتے رہیں اور فیض قادری کا اکتساب کرتے ہیں:۔
[1] راریخ محمد مظہر صدیقی قادری ، مولانا : مجموعہ شجرئہ عالیہ قادریہ حافظیہ ، مطبوعہ ۱۳۹۵ھ ، ص ۹
[2] محمد امیر شہ ، مولانا سید : تذرہ علماء مشائخ سر حد ، ج ۲ ، ص ۲۹۰
[3] محمد عبد الحیکم شرف قادری : آغاز شرح الحقوق (مطبوعہ ہر ی پور مزارہ ، مارچ ۱۹۷۰ء
[4] محمود احمد قادری : مولانا تذکرہ علمائے اہل سنت ، ص ۴۸
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)
اولاً حفظ قرآن کیا،اس کے بعد اپنے علاقہ ردہ بار کے علماء سے تحصیل علم کرکے دیوبند پہونچے،مگر وہاں سے جلد ہی واپس چلے گئے،دیوبند کا غلط ماحول آپ دیکھ چکے تھے،اس لیے دیوبندیوں سے آپ سخت بیزار تھے اپنی ہر مجلس میں ان کا شدیدی رد فرماتے تھے،بیعت کا شرف آپ کو حضرت قدوۂ ارباب کا ملاں خواجہ عبد الرحمٰن چھوھروی قدس سرہٗ سے حاصل تھا،امر بالمعروف ونہی عنالمنکر کے لیے آپ نے دور دراز کا سفر کیا،رنگون بھی تشریف لے گئے،کثیر تعداد میں تارک صلوٰۃ اور شرابیوں نے آپ ی ہدایت سے راہِ راست اختیار کی، ۱۹۲۵ھ میں چٹا گانگ میں جامعہ احمدیہ قائم فرمایا،آپ کے پیرو مرشد کے قائم کردہ دار العلوم رحمانیہ ہری پور ہزارہ کی پختہ و شاندار عمارت کی تعمیر آپ ہی کی توجہ کا نتیجہ ہے،۔۔۔۔
سابق صدر پاکستان محمد ایوب خاں ۱۹۶۳ھ میں دار العلوم پہونچے اور ایک جم غفیر کو خطاب کیا،اور ایک لاکھ چندہ دیا،۔۔۔۔آپ کی ذات مرکز شریعت و طریقت تھی،آپ کے صاحبزادگان بھی آپ کے نقش قدم پر ہیں، بروز جمعرات گیارھویں ذی قعدہ ۱۳۸۰ھ کو آپ نے وصال فرمایا۔