حضرت مولانا سید مغفور القادری
آپ کی پیدائش ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۶ء کو گڑھی اختیار خاں صۂع رحیم یار خاں، مغربی پاکستان میں سندھ کےمشہور بزرگ حضرت سید عثمان مروندی مشہور بہ لعل شہباز قلندر کے خاندان میں ہوئی، آپ کےوالد ماجد حضرت مولانا سید سردار احمد القادری علیہ الرحمۃ بھاول پور سندھ کےمشہور مرجع خلائق شیخ تھےار متعدد زبانوں میں حمد و نعت کےشعر کہتے تھے، انہوں نے پا ییادہ سات حج کیے، سرکاراعظم کے حکم سےتین برس مدینہ منورہ میں حاضر رہے، وہاںکےباشنگاناور اہل علم میں وہ شیخ احمد ہندی کےنام سے متعارف و مشہور تھے، ان کو علم جفر، نجوم، ہئیت اور تصوف سےخصوصی شغف و لگاؤ تھا، اُن فنون میں تصانیف مطبوعہ اور غیر مطبوعہ موجود ہیں، انہوں نے ۱۱؍شعبان المعظم ۱۲۵۰ھ میں وفات پائی، مرقد خانقاہ قادریہ شاہ آباد شریف میں ہے۔
حضرت مولانا پیر مغفور القادری نےدربار بھر چونڈی شریف میں حضرت مولانا عبدالکریم ہزاروی سےاوّلاً اکتساب علم کیا، اس کےبعد مشہور فقیہ وعالم مولانا سراج احمد مکھن بہلوی سے فقہ کا درس لیا، اور حضرت مولانا مفتی محمد حیات ساکن گڑھی اختیار خاں سے تفسیر وعلم کلام حاصل کیا، اور دورۂ حدیث مدرسہ شمس العلوم بستی مولویان سابق ریاست بھاولپور کےعلماء سے کیا ۲۵؍برس کی عمر میں ۱۳۵۲ھ کو درسیات کی تکمیل سے فراغت پائی، قطب الوقت حضرت شیخ محمد عبداللہ ساکن بھر چونڈی شریف ضلع سکھر صوبہ سندھ کے خلیفہ حضرت حافظ محمد صدیق قدس سرہما بھرچونڈی شریف سے بیعت کی، قطب الوقت کے خلیفہ وجانشین مجاہد اسلام حضرت پیر عبدالرحمٰن المتوفی ۱۹۶۰ء نے خلافت مرحمت فرمائی، آپ کو اپنے والد ماجد سے خاندانی پیر عبدارلرحمٰن المتوفی ۱۹۶۰ء نے خلافت مرحمت فرمائی، آپ کواپنے والد ماجد سے خاندانی سلسلہ قادریہ میں اجازت تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو مسلک اہل سنت کی ترویج وتبلیغ کی طرف خاص توجہ تھی، اس سلسلہ میں سندھ اور بھاول پور میں تبلیغی دورے کیے، مناظرے کیے، مسجدیں تعمیر کرائیں، مدارس قائم کرائے، مسجد منزل گاہ کے مشہور تنازعہ میں پیش پیش رہے، آپ کی قائم کردہ جماعت احیاء اسلام نے عقائد واعمال واخلاق میں نمایاں کام کیا، ‘‘الجماعۃ’’ کے نام سے اخبار جاری کیا، قیام پاکستان کے بعد مملکت کو دستور اسلامی میں ڈھالنے کےلیے تنظیم المشائخ کے نام سےمشائخ کی انجمن قائم کی۔
آپ کی ذات فقر ودرویشی کا پیکر اور عشق رسول کا مجسمہ تھی، استغناء اور بے نیازی آپ کی خصوصی شان تھی، آواز میں بلاکا سوز و سحر تھا، قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو خود بے خود ہوتے، اور سامعین کو بھی بے خود کردیتے،۔۔۔ بروز دو شنبہ ۱۳۹۰ھ ماہ صفر المظفر میں آپ کی وفات ہوئی، حضرتعلامہ پیر شریف احمد صاحب شرافت نوشاہی سجادہ نشین ساہن پال شریف گجرات نے خوب قطعۂ تاریخ وفات کہا ہے ؎
جنابِ مقدس ولئ زماں |
کہ اسم گرامیش مغفور شد |
|
بعلم ودرع کاملِ وقت بود |
بہ زہدو کرامات مشہور شد |
|
زہے زبدۂ حلقۂ قادری |
غلام درش جملہ پُر نور شد |
|
وجدش دسبتاں بدو انجمن |
بہر جاکہ شد جائے معمور شد |
|
شرافت چوں پرسند سال وصال |
بگو ‘‘ہادئ عصر مستور شد’’ |