حضرت مولانا محمد عمر الدین ہزاروی

حضرت مولانا محمد عمر الدین ہزاروی  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

          جبر اہل سنت مولانا عمر الدین ابن مولانا قمر الدین بن علاء الدین بن مراد بخش بن گل محمد کوٹ نجیب اللہ (ہری پور ہزارہ سے چھ میل دور ایک قصبہ) میں پید ا ہوئے[1]

آپ کا ضلع ہزارہ کے مشہور زمانہ فاضل مولانا فیض عالم مصنف ’’وجیز الصراط‘‘ کے چچا زاد بھائی تھے ۔ آپ کے آباء واجداد گجرات کا ٹھیاواڑ (بھارت)سے ہزارہ آئے تھے۔آپ نے ضلع ہزارہ اور بھارت کے مشاہیرے سے کسب فیض کیا اور علم و فضل ، تحریر و مناظرہ میں کمال حاصل کیا ۔ حضرت مولانا تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبد القادر قادری بد ایونی کے مرید خاص اور خلیفہ تھے[2]اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا بریلوی قدس سہر سے آپ کینہایت گہرے تعلقات تھے چنانچہ مولانا کی تصنیف ’’ اہلاک الہوبین‘‘ پر امام اہل سنت نے مبسوط تقریظ تحریر فرمائی تھی ۔

          ولانا ہزاروی عالی مرتبتمدرس اور مرجع انام مفتی تھے ۔آپ کے مقالات اہل سنت کے مو قر جردہ ’’تحفہ حنفیہ‘‘ پٹنہ میں شائع ہوتے رہے ہیں ماہنامہ تحفہ حنفیہ مولانا ابو المساکین ضیاء الدین متوطن پیلی بھیت کی ادارت میں جمادی الاولیٰ ۱۳۱۶ھ کو محلہ لودی کٹرہ پتنہ میں جاری ہوا اور عرصۂ در از تک مسلک اہل سنی کی ترجمانی پوری بے باکی سے کر تا رہا۔ اس جریدے میں امام احمد رضا بریلوی ، مولانا سلام اللہ رامپوری ، ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری ، مولانا عمر الدین ہزاروی وغیر ہم اجلہ علماء کے گرانقدر مضامین شائع ہو کرتے تھے۔

          مولانا محمد عمر الدین ہزاروی کثیر التصانیف عالم تھے،لیکنان کی اکثر و بیشتر تالیفات تک ردائی نہیں ہو سکی ، چند رسائل راقم کی نظر سے گزرے ہیں جن کے نام یہ ہیں:۔

۱۔   الاجازہ جنازہ کے ساتھ ذکر با جہر کے جوز میں ۔

۲۔   اہلاک الوہابین علیٰ توہین قبور المسلمین۔

۳۔   فتوے العلماء بتعظیم آثار العلمائ۔

۴۔   فتوی الثقات بجوا سجدۃ الشکر بعد الصلوٰۃ۔

۵۔   فو المؤمنین بشفاعۃ الشافعین۔

۶۔   صیانۃ العباد عن الخضاب بالسواد(۱۳۲۷ھ)     اس کا قلمی نسخہ کتاب خانہ

گنج بخش راولپندی میںمحفوظ ہے۔

          مولانا مرحوم کی زندگی کے تقریباً ۳۰ سال محلہ جامہ بمبئی ۹ میں خطابت و افتاء کے فرائض انجام دینے میں گزرے۔ آپ کے دوصاحبزادے ہیں۔ بڑے صاحبزادے قاضی عبد القادر بٹائرڈ سکول ماسٹر اور چھوٹے قاضی فضل رسول مینوسپل کمیٹی ہیڈ کلرک ہیں۔

          شب قدر کی رات دوادرتین جنسری کی درمیانی رات کو ۱۳۴۹ھ؍۱۹۳۱ء میں ۶۵ یا ۷۰ برس کی عمر میں کوٹ نجیب اللہ (ہری پور ہزارہ) میں آپ کا وصال ہوا[3]

نوٹ:   مولانا شہا محمود احمد قادری زید مجدہ نے تذکرہ علمائے اہلسنت ۱۷۵ میں لکھا ہے کہ آپ کا بمبئی میں وصال ہوا جو درست نہیں ہے۔

اور اسی جگہ دفن ہوئے ، راقم ایک دفعہ فاتحہ خوانی کے لئے آپ کے مزار پر حاضر ہو ا تھا۔

 

 

 

 

 

[1] امیر شاہ قادری ، مولانا سید :تذکرہ علماء مشائخ سرحد (مطبوعہ پشاور ) ج ۲ ۔ ص ۳۰۶

[2] محمود احمد قادی ، مولانا شاہ : تذکرہ علمائے اہل سنت ، ص ۱۸۵

[3] امیر شاہ قادری ، مولاناسید: تذکرہ علماء و مشائخ سرحد ، ج ۲ ص ۳۰۷

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء