محمد وصی احمد محدّث سُورتی
۱۸۳۶ء/۱۲۵۲ھ......۱۹۱۶ء/۱۳۳۴ھ
سیّد محمد مبشر
پیدائش:
۱۲۵۲ھ/۱۸۳۶عیسوی، راند یر ضلع سورت، ہند وستان میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی مولانا محمد طیب سورتی ولد مولانا محمد طاہر سورتی سے حاصل کی۔
ہجرت:
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا اور جس میں مولانا محمد طیب سُورتی کے دو صاحبزادے اور رشتہ دار شہید ہوئے۔ بعد میں وہ اپنے دوصاحبزادوں مولانا وصی احمد، مولانا عبد اللطیف اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ حجازِ مقدّس نقل مکانی کر گئے۔ جہاں فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد اپنے آبائی وطن عراق میں قیام کیا۔ تین سال بعد عراق سے حجاز مقدس پہنچے اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری اور حج بیت اللہ کے بعد ہندوستان واپس آکر ضلع سورت میں مقیم ہو گئے۔ جدّہ میں والد مولانا محمد طیب اور سورت میں والدہ کے انتقال کے بعد مولانا وصی احمد اپنے برادرِ خرد کے ساتھ 18سال کی عمر میں دہلی پہنچے۔
آغاز تعلیم:
مسجدِ فتح پوری دہلی میں قیام کیا۔ اُس وقت مسجد فتح پوری میں حضرت مفتی محمد مسعود محدث دہلوی درس و تدریس میں مصروف تھے۔ اُن کے ہی مشورے پر مدر سۂ حُسین بخش میں داخلہ لیا اور علماء و فضلاء سے صرف و نحو، تفسیر و تراجم اور دیگر قرآنی علوم حاصل کیے اور ایک سال بعد ۱۲۷۹ھ میں مدرسۂ فیض عام کانپور میں داخلہ لیا اور تمام علوم میں فراغت حاصل کی۔
تعلیم طب:
لکھنؤ جھوائی ٹولہ کے معروف حکیم عبدالعزیز متوفی۱۳۲۹ھ کی کتابوں سے استفادہ شروع کیا اور بذریعہ خط و کتابت معلومات حاصل کرتے رہے۔ حکیم صاحب نے آپ کی رغبت کا اندازہ لگایا تو لکھنؤ طلب کرلیا جہاں آپ نے تقریباًچھ ماہ حکیم صاحب کے نائب کی حیثیت سے ان کے مطب میں خدمات انجام دیں اور سند حاصل کرکے واپس کانپور آگئے۔
بیعت و خلافت:
اویسِ دوراں حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی متوفی۱۳۱۳ھ سے دوران تعلیم بیعت ہوئے اور تکمیلِ ریاضت کے بعد خلافت سے سر فراز ہوئے۔ اِسی دوران اعلیٰ حضر ت عظیم البرکت مولانا احمد رضا خان سے تعلق استوار ہوا۔
دورۂ حدیث:
اپنے مرشد کے ایما پر حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری متوفی۱۲۹۷ھ سے حدیث کی سند حاصل کی۔
اساتذہ:
حضرت مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھی
حضرت مولانا احمد حسن کانپوری
حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی
حضرت مولانا محمد علی مونگیری
حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری
آغازِتدریس:
مدرسۂ فیضِ عام کانپور، فرنگی محل لکھنؤ اور مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت جہاں آپ نے چالیس سال دورۂ حدیث کرایا۔ مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت کا افتتاح اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان نے فرمایا اور اِس موقع پر تین گھنٹے علم حدیث پر تقریر فرمائی۔
اولاد:
ایک صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں۔
صاجزادے سلطان الواعظین مولانا عبد الاحد محدث پیلی بھیتی کو اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا شاہ احمد رضا خان سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ اعلیٰ حضرت نے بے مثال واعظ ہونے کی بنا پر سلطان الواعظین کا خطاب مرحمت فرمایا۔ بعدہٗ ایک شعر میں فرمایا:
اِک اِک وعظِ عبدالاحد پر
کیسے نتھنے پھلاتے یہ ہیں
معروف تلامذہ:
صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی متوفی ۱۳۶۷ھ
حضرت مولانا سیّد محمد محدث کچھو چھوی متوفی ۱۳۸۳ھ
ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری متوفی ۱۳۸۲ھ
پروفیسر مولانا سیّد محمد سلیمان اشرف بہاریمتوفی ۱۹۳۹ء
قطبِ مدینہ مولانا شاہ ضیاء الدین احمد مدنی متوفی ۱۴۰۱ھ
حضرت مولانا عبدا لحیٔ پیلی بھیتی متوفی ۱۹۴۰ئ
حضرت مولانا محمد شفیع بیسلپوری متوفی ۱۳۳۸ھ
مولانا عزیز الحسن پھپو ندوی متوفی ۱۲۶۲ھ
سید خادم حسین محدث علی پوری متوفی ۱۹۵۱ء
حضرت علامہ قاری غلام محی الدین شیر وی
مولانا فضلِ حق رحمانی
مولانا نثار احمد کانپوری متوفی۱۹۳۱ء
مولانا عبدالعزیز خان محدث بجنوری متوفی ۱۳۶۹ھ
مولانا عبد القدیر میاں پیلی بھیتیمتوفی ۱۳۸۴ھ
مولانا حافظ محمد احسن کانپوری
مولانا مصباح الحسن پھپوندوی متوفی ۱۳۸۴ھ
مولانا حافظ محمد اسماعیل محمود آبادی متوفی ۱۳۷۱ھ
مولانا مشتاق احمد کانپوری متوفی ۱۳۶۰ھ
مفتی عبد القادر لاہوری
مولانا محمد قمر علی ہزاروی
مولانا امداد حسین رامپوری
مولانا عبد السلام گھوسی
قاضی عبد الوحید عظیم آبادی
ابوالمساکین مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی متوفی ۱۳۶۴ھ
قاضی خلیل الدین حسن حافظ پیلی بھیتی متوفی۱۳۴۸ھ
مولانا حبیب الرحمن خان پیلی بھیتی متوفی ۱۹۴۳ء
مولانا عبدالحق کر گہنوی متوفی ۱۳۵۵ھ
مولانا عبدالحق محدث پیلی بھیتی
مولانا حافظ یعقوب علی خان متوفی ۱۳۵۷ھ
اور مولانا حکیم عبدالجبار خان متوفی ۱۹۵۱ء معروف ہوئے۔
تصانیف:
۲۵سے زائد کتبِ حدیث وفقہ کی شرح لکھی۔ جن میں معروف یہ ہیں:
۞ حاشیہ مدارک ۞ حاشیہ بیضاوی (قلمی)
۞ حاشیہ جلالین(قلمی) ۞ تعلیقات سنن نسائی
۞ حاشیہ شرح معانی الآثار ۞ شرح سنن ابی داؤد (قلمی)
۞ تعلیقات شروح اربعہ ترمذی شریف
۞ جامع الشواہد ۞ شرح مشکوٰۃ المصابیح(قلمی)
۞ انفع الشواہد ۞ حاشیہ شافعیہ
۞ التعلیق المجلی لما فی منیۃالمصلّی
۞ تعلیقات شرح ملا حسن
۞ حاشیہ میبذی
۞ الدرّۃ فی عقد الایدی تحت السرّۃ
۞ کشف الغمامۃ عن سنیتہ العمامہ
امام بقالی اور مکتوب اعلیٰ حضرت وغیرہ۔
معاصر:
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی متوفی ۱۳۴۰ھ
تاجدارِ گولڑہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی متوفی ۱۳۵۶ھ
حضرت مولانا ارشاد حسین رامپوری متوفی ۱۳۱۱ھ
حضرت مولانا احمد حسن کانپوری متوفی ۱۳۲۲ھ
حضرت مولانا عبد القادر بد ایونی متوفی ۱۳۱۹ھ
علامہ پیر سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پوری
ابوالذکاء سراج الد ین علامہ سلامت اللہ رامپوری
مولانا عبد العلی آسی مدراسی متوفی ۱۳۲۷ھ
حضرت مولانا دیدار علی محدث الوری متوفی۱۳۵۴ھ
حضرت شاہ جی محمد شیر میا ں پیلی بھیتی متوفی۱۳۲۴ ھ
مولانا شاہ عبدالکریم گنج مراد آبادی متوفی ۱۳۴۹ھ
مولانا حکیم خلیل الرحمن خان پیلی بھیتی۔
وصال:
۱۲؍اپریل ۱۹۱۶عیسوی بمطابق ۸جماد ی الاوّل ۱۳۳۴ھ یوم چہار شنبہ، بمقام پیلی بھیت۔
نماز جنازہ :
حجۃ الا سلام حضرت مولانا حامد رضا خان بریلوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔
تاریخ وفات:
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی نے قرآن حکیم کی درج ذیل آیتِ کریمہ سے تاریخِ وفات نکالی۔
یطاف علیھم بانیۃ من فضہ واکواب
۱۳۳۴ھ
مولانا ضیاء الدین پیلی بھیتی نے یہ منقبت ۱۳۲۴ھ میں حضرت محدث سورتی کی جلسۂ اہلسنت پوکھیرا ضلع مظفر پور بہار میں آمد کے موقع پر کہی تھی۔ جو ’’تذکرہ‘‘ کے عنوانِ تاریخی کے ساتھ تحفۂ حنفیہ پٹنہ میں شائع ہوئی۔
سنّت کے حامی
سنو میں لکھتا ہوں اسمائے سامی |
|
|
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
||
|
سنت کے حامی
سنو میں لکھتا ہوں اسمائے سامی
جو تشریف لاکر ہوئے دیں کے حامی
محدّث مفسّر فقیہوں میں نامی!
وصی احمد اُن کا ہے اسمِ گرامی
ہے تحدیث کی اُن پہ بے شک تمامی
شب و روز رہتے ہیں سنّت کے حامی
وہ تدریس میں فی زمانہ ہیں یکتا
وہ افتاء میں رکھتے نہیں مثل اپنا
ہے گرچہ کمال اُن کو ہر عمل و فن پر
مگر ہیں احادیث پر جان سے شیدا
شب و روز کرتے ہیں دیں کی حمایت
مٹاتے ہیں دنیا سے شرک و ضلالت
فیوض اُن کے جاری رہیں تا قیامت
رہیں وہ زمانے میں باصد کرامت
بڑھے عمر اُن کی رہیں وہ سلامت
ملے حشر میں عزّ و قرب و ریاست
وسیلے سے تیرے نبیﷺ کے الٰہی!
دُعا ہوئے مقبول اس پرگنہ کی!
(محمد وصی احمد محدّث سُورتی،انجمن ضیاء طیبہ)