حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی
حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہ الرحمۃ
استاذ العلما حضرت شاہ وصی احمد محدّث سورتی ۱۲۵۲ھ/ ۱۸۳۶ء، راندیر ضلع سورت، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والدِ گرامی مولانا محمد طیب سورتی سے حاصل کی۔ مدرسہ حسین بخش دہلی میں علما و فضلا سے صرف و نحو، تفسیر و تراجم اور دیگر علوم حاصل کیے۔ ۱۲۷۹ھ میں مدرسہ فیضِ عام، کانپور میں داخلہ لیا اور تمام علوم سے فراغت پائی۔ حکیم عبدالعزیز لکھنوی متوفّی ۱۳۲۹ھ/ ۱۹۱۱ء سے طب پر دسترس حاصل کی۔ دورانِ تعلیم حضرت شاہ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی متوفّٰی ۱۳۱۳ھ/ ۱۸۹۵ء نے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ مولانا احمد علی سہارنپوری سے حدیث کی سند حاصل کی۔ آپ نے ۲۵ سے زائد کتبِ حدیث و فقہ کی شرح لکھی جن میں تعلیقات سنن نسائی، حاشیہ شرح معانی الآثار، التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلی، حاشیہ میبذی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ۸؍جمادی الاوّل ۱۳۳۴ھ/ ۱۲؍اپریل ۱۹۱۶ء کو وصال ہوا۔
شیخ المحدثین وحید العصر حضرت مولانا شاہ وصی احمد ابن حضرت مولانا محمد طیّب قدس سرہما ۱۸۳۶ء میں بعہد معین الدین اکبر شاہ ثانی، راند یرضلع سورت میں پیدا ہوئے آپ کےاجداد مدینہ منورہ کے ساکن تھے، وہاں سے سولہویں صدی عیسوی میں شاہجہاں کے دور حکومت میں سورت کی بندرگاہ سےہندوستان پہونچے، آپ بعض بزرگوں نے سورت پہونچ کر شاہی فوج میں ملازمت کرلی، اور عنایت خاں ابن قاسم خاں گورنر بنگال کی سربراہی میں کلکتہ کےقرب وجوار میں پر تگیزیوں سے لڑائی لڑی۔
آپ کےدادا بزرگوار مولانا محمد قاسم ابن مولانا محمد طاہر نے راندیری میں سکونت پسند کی اور دسادۂ علم وہدایت بچھاکر مصروف تدریس وارشاد ہوئے، کفافِ عیال کےلیے کپڑوں کی تجارت کا پیشہ اختیار کیا،۔۔۔۔ تسمیہ کی رسم دادا بزرگوار نےادا کرائی، والد ماجد سے تحصیل علم میں مصروف ہوئے، ابھی آپ عمر کی اکیسویں۲۱ منزل میں تھے کہ ۱۸۵۷ھ کا ہنگامہ شروع ہوگیا، اور آپ کےخاندان کے متعدد افراد انگریزوں کےہاتھوں مارے گئے جس میں آپکے دو حقیقی بھائی بھی شامل تھے، آپ کےدادا بزگوار کا سامانِ تجارت جلاکر خاکستر کردیا گیا، اور مکان پر فوج نےقبضہ کرلیا، آپ اپنے والدین اور چھوٹے بھائی مولانا عبد اللطیف کے ساتھکرئی دنروپوش رہنے کے بعد کسی طرح عراق پہونچ گئے، تین سال کے بعد وہاں سےحج وزیارت کےلیے مکہ مکرمہ پہونچے، حج کےبعد چند ماہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے، پھر راندیر واپس آرہےتھے کہ والد ماجد نےسفر آخرت اختیار کیا، راندیر پہونچنے کے کچھ عرصہ بعد والدہ ماجدہ نے بھی داغ جدائی دی۔آپ کی والدہ ماجدہ مشہور زمانہ عالم و عارف حضرت مولانا خیر الدین محدث سورتیکی نواسی تھیں۔
والدہ کی رحلت کے بعد چھوٹے بھائی کو لے کر تحصیل وتکمیل علوم کی غرض سے دہلی کے مدرسہ حسین بخش میں پہونچے، اس کے بعد علی گڑھ میں استاذ العلماء مولانا محمد لطف اللہ کے حلقہ درس میں شریک ہوکر دونوں بھائیوں نے علوم و فنون کی تکمیل کی، ۱۸۶۵ء میں سہارنپور محشئ بخاری مولانا احمد علی المتوفی ۱۲۹۷ھ کے پاس پہنچے اور انکے درس حدیث میں شرکت کرکے سند واجازت حاصل کی، بعدہٗ حضرت مولانا لطف اللہ کےایماء و مشورہ سے گنج مراد آباد پہنچ کر حضرت مولانا شاہ فضل رحمان قدس سرہٗ سے بیعت وارادت کا تعلق قائم کیا، اور سند حدیث کے ساتھ سند خلافت بھی پیرو مرشد نے مرحمت فرمائی۔
مغربی علوم کے مضرات کے انسداد کےلیے حضرت مولانا فضل رحمان گنج مراد آبادی کےمشورہ سےعلماء کی ایک مختصر و فعال جماعت ملک کے مختلف گوشوں میں دورہ کرنے کےلیے آپ کی قیادت میں روانہ ہوئی، جس کے اراکین مولانا محمد علی واعظ دہلوی، مولانا شاہ احمد حسن کانپوری،مولانا سید محمد علی کانپوری (کانپوری صاحب مجلس ‘‘ندوۃ العلماء’’ کے قیام کے بعد پلٹا کھاکر دیوبندیت نوازہوگئے اور شامت اعمال سےپھر انکو توبہ کی توفیق بھی نہ ہوسکی) تھے، جب علماء کا یہ قافلہ جانے کے لیے تیار ہوا تو حضرت مولانا شاہ فضل رحمان کی موجودگی میں علماء کی ایک جماعت کامیابی وکامرانی کے لیے دیر تک بارگاہ الٰہی میں مصروف دعا رہی، تین ماہ سے زیادہ دنوں تک آپ مشرق میں ڈاھکہ، سلہٹ، چاٹگام ،میمن سنگھاور، کشور گنج، اور مغرب میں ملتان، لاہور، اورسیالکوٹ کا دورہ کرتے رہے، بنگال میں مولانا سید عبد الحئی اسلام آبادی (آپ کا ذکر گذر چکا ہے) اور پنجاب میں حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی وجہ سے کافی کامیابی ہوئی،۔۔۔ ۱۸۶۷ء کے نصف اول میں آپ اپنے مخلص پیر بھائی حکیم خلیل الرحمٰن پیلی بھیتی کی دعوت اور پیرو مرشد کے حکم سے علوم و فنون کی ترویج کےلیےپیلی بھیت تشریف لےگئے، حافظ الملک حافظ رحمت کاں شہید مرحوم کی بنائی ہوئی جامع مسجد میں نواب صاحب مرحوم کے نام پر مدرسہ حافظیہ قائم کیا گیا، اور آپ اس کے صدر مدرس مقرر ہوئے، ۱۳۰۱ھ میں جامع مسجد سے متصل کیا گیا، اور آپ اس کے صدر مدرس کے لیے خریدا، اسی سن میں جامع مسجد سے متصل ہی آپ نے ایک وسیع قطعۂ آراضی مدرسہ کے لیے خریدا، اسی سن میں علمائے رامپور، بد ایون ،اور پنجاب کی موجودگی میں امام العصر مولانا شاہ احمد رضا نے سنگ بنیاد رکھا اور تین گھنٹہ فن حدیث پر تقریرفرمائی، اس نئے مدرسہ کا نام مدرسۃ الحدیث رکھا گیا۔
علوم وفنون کے علاوہ آپنے مستقل چالیس برس حدیث شریف کا درس دیا، آپ کےدرس حدیث کی دور دور تک شہرت تھی، دہلی سہارنپور، کانپور ، رامپور، جون پور، علی گڑھ اور لاہور سےعلوم کی تحصیل کر کے طلبہ آپ کےدرس حدیث میں شرکت کےلیےپہنچتے تھے، نماز فجر کے بعد سے ظہر تک اور ظہر سے آدھی رات تک اور کبھی اس سےبھی زیادہ وقت تک درس جاری رہتا تھا، ہر وقت آپ با وضو رہتے تھےمگر دورانِ درس میں وضو کا خاص خیال فرماتے تھے، عشق رسول کریم ﷺکا یہ حال تھا کہ درس میں حضور ﷺکا نام نامی ادا کرنےکےبعد قدرے توقف فرماتےتھے،درس حدیث میں مولوی احمد علی سہارنپوری آپ کو اپنا جانشین کہتےتھے۔
آپ نےانتہائی سادہ، نیک، باوضع، اور با اخلاق مزاج پایا تھا، لباس سادہ استعمال کرتے تھےاور معمولی غذا استعمال کرتےتھے،طلبہ سےبے پناہ محبت کرتے تھے، غریب طلبہ کی مالی اعانت فرماتےتھے، عام مسلمانوں سے ہمدردی سے پیش آتےتھے ، آپ کو غرور، و تکبر، اور غیبت ،و بُرائی ،سےشدید نفرت تھی، تصوف سے خاص لگاؤ تھا، مگر خانقاہی زندگی اور ترک دینا سے ہمیشہ گُریزاں رہے، آپ کا دل مسجد و مدرسہ میں زیادہ لگتا تھا، آپ سنت کی پابندی کو سب سےبڑی کرامت اور فقیری فرماتے تھے۔
۱۳۳۴ھ۸جمادی الاخریٰ کو آپ کا انتقال ہوا مرض الموت اور تجہیز و تکفین کی خدمات میں آپ کےشاگرد رشید حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل محمود آبادی پیش پیش تھے۔
مدرسۃ الحدیث کے قریب مسجد کے احاطہ میں اس گنجینۂ فضل و کمال کو سپرد خاک کیا گیا فاضل بریلوی نے وفات کا مادۂ تاریخ آیت کریمہ یُطَاف عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِنْ فِضَّۃٍوَّاَکْوابِ کہاآپ کےتلمیذ مولانا سید مصباح الحسن کہتے تھےکہ حضرت کی تمنا تھی کہ میری موت حدیث پڑھاتے ہوئے آئے، چنانچہ بوقت وفات مشکوٰۃ شریف آپ کے سینے پر تھی اور اِھْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر روح نے جسم سے جدائی اختیار کی۔۔۔ حضرت مولانا سید سلیمان اشرف، چیرمین اسلامک اسٹڈیز مسلم یونیورسٹی علی گڈھ، مولانا مشتاق احمد کانپوری، مولانا نثار احمدمفتی اعظم آگرہ، مولانا مفتی عبدالقادر لاہور، ملک العلماء مولانا ظفر الدین،مولانا سید خادم حسین ابن پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری، مولانا سید مصباح الحسن پھپھوندوی، مولانا عبدالعزیز خان محدث بجنوری، صدر الشریعۃ مولانا امجد علی اعظمی، قطب مدینہ مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی،مولانا سید محمد محدث کچھوچھوی وغیرہ آپکےنامور تلامذہ میں سےتھے۔
تصانیف میں حاشیہ سُنن نسائی شریف پر (مطبوعہ مطبع نظامی) حاشیہ طحاوی (مطبوعہ مصر) تَعْلیقُ المجلّی شَرح مُنْیۃ المُصلّی (مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ) جلالین ومشکوٰۃ کے حواشی حضرت مولانا سردار احمد محدث لائل پوری آپ کی اہلیہ سے شائع کرانے کے وعدہ پر لے گئے تھے، پھر پتہ نہیں چلا کہ یہ حواشی کہاں ہیں اور کس کے پاس ہیں، ‘‘جامع الشواھد باخراج الوھابین عن المساجد’’، غیر مقلدوں کو مساجد سے نکالے جانے سے متعلق پہلی کتاب ہے۔
حضرت مولانا خیر الدین محمد زاہد سورتی دور آخر کےاُن باکمالوں میں تھے جو اپنے اسلاف کی سچی یادگار سمجھے جاتے تھے، آپنےحضرت مولانا محمد بن عبد ارلزاق سورتی سے اخذ علوم کیا، بعدہ حج وزیارت کےلیے سفر حجاز کیا، مدینہ طیبہ میں ایک عرصہ تک قیام کر کے شیخ محمد حیات سندھی سے حدیث کا درس لیا، واپس میں وطن آکر درس حدیث کا سلسلہ شروع کیا، اور پورے پچاس برس درس حدیث میں مصروف رہے،۔۔ مشہور زمانہ عالم، لغوی، ادیب مفسر،محدث، شاعر، صوفی علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی المتوفی ۱۲۰۵ھ (مدفون زبید شام) حجاز کو جاتےہوئے آپ کے مدرسہ میں ٹھہرے تھے، اور آپ سے کسب فیض کیا تھا، شواہد التجوید تصوف میں آپ کی عمدہ کتاب ہے، ۱۲۰۶ھ آپ کا سال وفات ہے۔
(تذکرہ علماء اہلسنت)