حضرت مولانا یعقوب چرخی
حضرت خواجہ یعقوب بن عثمان چرخی قدس سرہ
چرخ (غزنی) (افغانستان) (۷۲۶ھ/ ۱۳۶۰۔۔۔۸۵۱ھ/ ۱۴۴۷ء) ہلفتو (اب ’’گلستان‘‘) نزد دو شنبہ، دارالحکومت تاجکستان
قطعۂ تاریخ وصال
ہوئی آپ سے اس طرح آبیاری |
|
مہک اُٹھا ہے گلشنِ نقشبندی |
(صاؔبر براری، کراچی)
آپ حضرتِ خواجہ بزرگ سید بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کے ارشد اصحاب میں سے ہیں لیکن چونکہ آپ کی تکمیل حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ سے ہوئی بدیں وجہ اُن ہی کے خلفاء میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ موضع چرخ علاقہ غزنی (افغانستان) میں ۷۶۲ھ میں پیدا ہوئی، پورا نام و نسب یوں ہے:
خواجہ یعقوب بن عثمان بن محمود بن محمد بن محمود الغزنوی ثم الچرخوی ثم السررزی المعروف بہ یعقوب چرخی
آپ نے اپنی تفسیر میں چند جگہوں پر اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اربابِ علم و مطالعہ میں سے تھے اور پارسا اور صوفی تھے۔ اُن کی ریاضت کا یہ حال تھا کہ ایک روز پڑوسی کے گھر سے پانی لائے، چونکہ پانی یتیم کے پیالہ میں تھا، اس لیے نہ پیا۔ آپ نے یہ رباعیاپنے والد بزرگوار سے پڑھی تھی ؎
جز فضلِ تو راہ کے نماید مارا |
|
جز جودِ تو بندگی کہ شاید مارا |
آپ نے جامع ہرات اور دیارِ مصر میں تعلیم حاصل کی۔ حضرت شیخ زین الدین خوانی (المتوفی ۸۳۳ تا ۸۳۴ یا ۸۳۸ھ) آپ کے ہم درس تھے۔ اور آپ نے حضرت مولانا شہاب الدین سیرامی رحمۃ اللہ علیہ (جو اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے) سے تلمذ کیا اور فتویٰ کی اجازت علمائے بخارا سے پائی۔
حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے آپ کو اُن سے بڑی عقیدت اور محبت تھی، جب آپ اجازتِ فتویٰ حاصل کرکے بخارا سے واپس چرخ جانے لگے تو ایک دن حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت عاجزی و انکساری سے عرض کیا: ’’میری طرف توجہ فرمائیں‘‘۔ حضرت خواجہ قدس سرہ نے فرمایا: کیا اس وقت جبکہ تم سفر کی حالت میں ہو؟ آپ نے عاجزی سے کہا: میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کیوں؟ آپ نے عرض کیا: اس لیے کہ آپ بزرگ ہیں اور عوام الناس میں مقبول ہیں، حضرت خواجہ قدس سرہ نے فرمایا کہ کوئی اچھی دلیل؟ ممکن ہے کہ یہ قول شیطانی ہو‘‘۔ آپ نے بڑے ادب و احترام سے کہا: صحیح حدیث میں ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ بندے کو اپنا دوست بناتا ہے اس کی محبت اپنے بندوں کے دل میں ڈال دیتا ہے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے تبسم فرماتے ہوئے کہا: ما عزیزانیم، اُن کے یہ فرمانے سے آپ کا حال دگرگوں ہوگیا۔ کیونکہ اس واقعہ سے ایک ماہ قبل اُنہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اُن سے فرماتے ہیں مریدان عزیزان شو، آپ یہ خواب بھول چکے تھے، جب حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ماعزیز انیم، تو آپ کو وہ خواب یاد آگیا۔
اس کے بعد آپ نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے التماس کی کہ میری طرف بھی توجہ فرمائیں، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’ایک شخص نے حضرت عزیزاں علیہ الرحمۃ والرضوان سے توجہ طلب کی تو انہوں نے فرمایا کہ ’’غیر توجہ میں نہیں رہتا، کوئی چیز ہمارے پاس رکھو تاکہ جب میں اُسے دیکھوں تو تم یاد آجاؤ‘‘۔
پھر حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے فرمایا کہ ’’تمہارے پاس تو ایسی چیز نہیں کہ ہمارے پاس رکھ جاؤ، لہٰذا ہمارا کلاہ ساتھ لے جاؤ، جب اسے دیکھ کر ہمیں یاد کرو گے تو ہمیں پاؤ گے اور اس کی برکت تمہارے خاندان میں رہے گی، پھر فرمایا: اس سفر میں مولانا تاج الدین دشتی کولکی رحمۃ اللہ علیہ سے ضرور ملنا کہ وہ ولی اللہ ہیں، پھر آپ نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت لی اور بخارا سے بلخ کی طرف چل پڑے۔ اتفاق سے انہیں کوئی ضرورت پیش آئی اور ایسا موقع آیا کہ وہ بلخ سے کولک کی طرف روانہ ہوئے اور اس سفر میں انہیں حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کا ارشاد یاد آیا جس میں انہوں نے حضرت مولانا تاج الدین دشت کولکی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کرنے کے لیے فرمایا تھا۔
آپ نے تلاشِ بسیار کے بعد حضرت مولانا تاج الدین دشتی رحمۃ اللہ علیہ کو پالیا۔ اس ملاقات اور مولانا دشتی رحمۃ اللہ علیہ کا جو رابطۂ محبت حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے تھا، نے آپ کے دل پر اس قدر اثر کیا کہ وہ دوبارہ بخارا کی طرف چل پڑے اور ارادہ کیا کہ جاکر حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے۔
بخارا میں ایک مجذوب تھے جن سے آپ (خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ) کو بڑی عقیدت تھی، آپ نے اُن کو سرِ راہ بیٹھے دیکھا تو اُن سے پوچھا: کیا میں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جاؤں؟ انہوں نے کہا جلدی جاؤ، اُس مجذوب نے اپنے سامنےزمین پر بہت سی لکیریں کھینچیں، آپ نے اپنے دل میں خیال کیا کہ میں ان لکیروں کو گنتا ہوں اگر مفرد ہوئیں تو میرے ارادے کی دلیل ہوں گی کیونکہ اِنَّ اللہَ فَرْدٌ وّیُحِبُّ الْفَرْ۔ (خدا ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے) چنانچہ لکیروں کو گنا تو وہ مفرد تھیں۔
اس واقعہ کے بعد آپ کا اشتیاق بڑھا کہ وہ خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں جائیں اور اُن کے مریدوں میں شامل ہوکر اُن کی نظرِ التفات سے مشرف ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت نصیب فرمائی اور آپ کو یقین ہوگیا کہ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کامل و مکمل ولی اللہ ہیں۔ غیبی اشاروں اور واقعات کے بعد آپ نے قرآن مجید سے فال نکالی تو یہ آیت سامنے آئی:
اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبِھُدَھُمْ اقْتَدِہْ۔ (پارہ ۷ سورہ انعام، رکوع ۱۰)
’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی، پس تو اُن کی ہدایت کی پیروی کر‘‘۔
شام کے وقت آپ اپنے مسکن فتح آباد میں حضرت شیخ سیف الدین الباخرزی (المتوفی ۶۵۸ھ) کے مزارِ مقدس کی طرف متوجہ ہوکر بیٹھے تھے کہ اچانک قبولِ الٰہی کا ایک کا ایک قاصد آپہنچا اور اُن کے دل میں باطنی بے قراری پیدا ہوئی، اُسی وقت حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی طر ف چل پڑے۔ جب حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی اقامت گاہ قصرِ عارفاں (حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے پہلے اس موضع کا نام ’’کوشکِ ہندواں‘‘ تھا پہنچے تو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سر راہ اُن کے منتظر تھے اور آپ سے بڑے لطف و احسان سے پیش آئے۔
نماز کے بعد آپ نے حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمتِ بابرکت میں درخواست کی کہ آپ ازراہِ کرم مجھے اپنے حلقۂ ارادت میں شامل فرماکر اپنی غلامی میں قبول فرمائیں، حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے:
العلم علمان، علم القلب فذلک علم نافع علم الانبیاء والمرسلین والعلم اللسان فذلک حجۃ اللہ علیٰ ابن آدم۔
’’علم دو ہیں، ایک قلب کا علم جو نفع بکش ہے اور یہ نبیوں اور رسولوں کا علم ہے۔ دوسرا زبان کا علم اور یہ بنی آدم پر حجت ہے‘‘۔
اُمید ہے کہ علم باطن سے تمہیں کچھ نصیب ہوگا۔اور فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے:
اذا جالستم اھل الصدق فاجلسوھم بالصدق فانھم جواسیس القلوب یدخلون فی قلوبکم وینظرون الیٰ ھممکن
’’جب تم اہلِ صدق کی صحبت میں بیٹھو تو اُن کے پاس صدق سے بیٹھو، کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتے ہیں، وہ تمہارے دلوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور تمہارے ارادوں اور نیتوں کو دیکھ لیتے ہیں‘‘۔
اور ہم مامور ہیں ہم خود کسی کو قبول نہیں کرتے۔ آج رات دیکھیں گے کہ کیا اشارہ ہوتا ہے، اُسی پر ہی عمل کیا جائے گا اور اگر انہوں نے تجھے قبول کیا تو ہم بھی قبول کرلیں گے۔
یہ رات آپ پر بڑی بھاری تھی، آپ کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ شاید حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ مجھے قبول نہ کریں۔ اگلے روز آپ نے فجر کی نماز حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ادا کی، نماز کے بعد حضرت خواجہ قدس سرہ نے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’مبارک ہو کہ اشارہ قبول کرنے کا آیا ہے۔ ہم کسی کو قبول نہیں کرتے اور اگر قبول کریں تو دیر سے کرتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ کوئی کس نیت سے آتا ہے اور کس وقت آتا ہے‘‘۔
اس کے بعد حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشائخ کا سلسلۂ طریقت حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ العزیز تک بیان فرمایا اور پھر آپ کو وقوفِ عددی میں مشغول کیا او رفرمایا:
’’یہ علم لدنی کا پہلا سبق ہے جو حضرت خواجہ خضر علیہ السلام نے حضرت خواجہ بزرگ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھایا تھا‘‘۔
شرفِ بیعت حاصل کرنے کے بعد آپ ایک عرصہ تک حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے اور اس دوران حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے تکمیل تعلیم و تربیت کرتے رہے، پھر حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو بخارا سے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی اور بوقتِ رخصت فرمایا:
’’ہم سے جو کچھ تمہیں ملا ہے اُس کو بندگانِ خدا تک پہنچاؤ تاکہ سعادت کا موجب بنے‘‘۔
پھر تین بار فرمایا: ترا بخدا سپرد یم (ہم نے تجھے خدا کے سپرد کیا) اور ساتھ ہی اشارۃ حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی پیروی کرنے کا حکم فرمایا۔
اس سپرد کرنے سے آپ کو بہت امید ہوگئی۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے:
ان اللہ تعالیٰ اذا ستودھا شیء حفظہ
’’جب کوئی چیز حوالۂ خدا کی جائے تو اللہ تعالیٰ اُس کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔
جب آپ بخارا سے چل کر شہر کش (اصفہان یا ماوراء النہر کا ایک گاؤں) میں پہنچے اور کچھ عرصہ مقیم رہے تو اسی اثنامیں حضرت خواجہ خواجگان خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کی خبر ملی آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور ساتھ ہی خوف بھی دامنگیر ہوا کہ مباداعالمِ طبیعت کی طرف پھر میلا ہوجائے۔ اور طلب کی خواہش نہ رہے۔ آپ نے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو دیکھا تو انہوں نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کیا اور یہ آیت پڑھی:
وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرسُل اَفَئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ (آل عمران ع۱۵)
’’اور محمد تو ایک رسول ہیں۔ اُن سے پہلے بہت رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائی یا شہید کردیے جائیں، تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘
چونکہ آپ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے محروم ہوگئے تھے لہٰذا خیال ہوا کہ درویشوں کے کسی دوسرے گروہ سے جاملیں اور اُن کے طریقہ میں مشغول ہوجائیں پھر آپ نے عالمِ روحانی میں حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ فرماتے ہیں:
قال زید بن الحارثہ الدین واحد
فرمایا زید بن حارثہ نے کہ دین ایک ہی ہے۔
اس سے آپ سمجھ گئے کہ اجازت نہیں ہے آپ نے صحابہ کرام میں سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے اور چونکہ ہمارے حضرت خواجگان قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم طالبوں کو اپنی فرزندی میں قبول فرماتے ہیں، پس اُن کے اصحاب اُن کے منہ بولے بیٹے ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
ایک دفعہ پھر آپ نے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کو عالمِ روحانی میں دیکھا تو اُن سے دریافت کیا کہ میں کون سا عمل کروں جس کے ہونے سے آپ کو قیامت میں پالوں، انہوں نے فرمایا کہ ’’شریعتِ محمدی پر عمل کرنے سے‘‘۔
ان تین بشارتوں سے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہوا جو آپ عالمِ حیات میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا وہ بفضلِ الٰہی
۱۔ قرآن حدیث پر عمل کرنے سے اور اُس عمل سے نتیجہ طلب کرنے سے۔
۲۔ تقویٰ و حدودِ شرعیہ کی رعایت ملحوظ رکھنے اور عزیمت پر سے۔
۳۔ طریقۂ اہل سنّت و جماعت پر چلنے سے اور بدعت سے پرہیز کرنے سے پایا۔
کچھ عرصہ موضع کش میں قیام کرنے کے بعد آپ بدخشاں چلے گئے۔ یہاں پہنچنے پر آپ کو چغانیاں سے حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ کا مکتوبِ گرامی ملا۔ جس میں انہوں نے آپ کو اپنی متابعت کا اشارہ کیا۔ آپ چغانیاں کو روانہ ہوگئے اور حضرت خواجہ عطار کی صحبت کا شرف حاصل کیا۔ آپ چند برس تک اُن کی صحبت میں رہے، حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ آپ پر بے حد لطف فرماتے تھے۔
جب حضرت خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ نے ۸۰۲ھ میں اس دارِ فانی سے عالمِ باقی کی طرف رحلت فرمائی تو اس کے بعد حضرت خواجہ محمد یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ چغانیاں سے واپس حصار آگئے اور حضرت خواجۂ خواجگان نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کی تعمیل کرنا چاہی کہ
’’جو کچھ ہم سے تمہیں پہنچا ہے اُسے بندگان خدا تک پہنچادینا اور مناسبِ حال حاضرین کو بطریقِ خطاب اور غائبین کو بذریعہ خط و کتابت تبلیغ کرنا‘‘۔
آپ کی بہت سی کرامات ہیں مگر بخوفِ طوالت ایک کرامت درج کی جاتی ہے کہ جب حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ آپ سے بیعت ہونے لگے تو آپ کے روئے مبارک پر کچھ چتیاں (داغ اور دھبے) دیکھ کر اُن کے دل میں کچھ کراہت پید اہوئی، آپ کو یہ خطرہ معلوم ہوگیا اور ایسی نورانی شکل میں نمودار ہوئے کہ بے اختیار اُن کا دل آپ کی طرف کھینچا گیا اور بیعت ہوگئے۔ تفصیل (خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں آئے گی)۔
آپ کی وفات حسرتِ آیات ۱۵؍ صفر ۸۵۱ھ/ ۱۴۴۷ء کو ہوئی۔ مزار مبارک ہلفتو نزد حصار میں ہے۔ آج کل روسی حکومت نے ہلفتو کا نام گلستان رکھ دیا ہے۔
آپ یعنی حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کبھی کبھی شعر بھی کہتے تھے۔ یہ رباعی آپ کی ہے:
تادر طلبِ گوہر کانی کانی |
|
تا زندہ ببوی وصل جانی جانی |
آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ جن کے نام اور تفصیل معلوم ہوسکی ہے، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ تفسیر یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ:
اس میں تسمیہ، تعوذ اور فاتحہ کے علاوہ آخری دو پاروں کی تفسیر موجود ہے۔ یہ ۸۵۱ ہجری میں مکمل ہوئی۔ کئی بار چھپ چکی ہے۔ ایک مرتبہ ۱۳۰۸ھ میں لکھنؤ سے چھپی اور ایک بار اسے حاجی عبدالغفار و پسران تاجران کتب ارگ بازار قندھار (افغانستان) نے ۱۳۳۱ھ میں مطبع اسلامیہ اسٹیم پریس لاہور سے چھاپا ہے۔
۲۔ رسالہ نائیہ:
اس کا موضوع شرح دیباچہ مثنوی معنوی (مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ) ہے اور اس کے آخر میں آپ نے حکایتِ بادشاہ اور کنیزک، داستانِ شیخ دقوقی اور شیخ محمد سررزی کا اضافہ کیا ہے۔ رسالۂ نائیہ جامی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ (ص۹۵ تا ۱۵۸) انجمن تاریخ افغانستان کابل نے ۱۳۳۶ ہجری میں شائع کیا ہے اور اس پر خلیل اللہ خلیلی نے حواشی اور مقدمہ تحریر کیا ہے۔
۳۔ انسیّہ:
یہ رسالہ بتصحیح جناب اعجاز احمد بدایونی ’’مجموعہ ستۂ ضروریہ‘‘ (مجموعہ رسائل حضراتِ نقشبندیہ) میں (ص۱۵ تا ۳۷) مطبع مجتبائی دہلی سے ۱۳۱۲ہجرجی میں چھپ چکا ہے۔ ۱۹۸۱ءمیں علامہ اقبال احمد فاروقی مالک مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور نے رسائلِ نقشبندیہ کا اردو ترجمہ شائع کیا جس میں رسالہ انسیہ ص۸۵ تا ۱۲۶ شامل کیا گیا۔ ۱۹۸۳ء میں یہ رسالہ بتصحیح و ترجمہ و مقدمہ محمد نذیر رانجھا، مرکز تحقیقاتِ فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد نے مکتبہ دائرہ ادبیات ڈیرہ اسماعیل خاں کے اشتراک کے ساتھ چھاپا۔ ہمارے پیشِ نظر آخری دونوں ایڈیشن ہیں۔ یہ رسالہ ان فصول پرمشتمل ہے۔ فضیلتِ دوامِ وضو، ذکرِ خفی، نفلی نمازیں، خاتمہ، بعض فوائد جو مصنف کو حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے خلیفہ خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے پہنچے۔
۴۔ شرح رباعی ابو سعید ابی الخیر رحمۃ اللہ علیہ:
مطبوعہ کے متعلق علم نہیں ہوا۔ کتابخانہ گنج بخش مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد کے مجموعہ ۱۴ رسائل خطی میں اس کا ایک قلمی نسخہ (ص۱۵۴ تا ۱۶۱) موجود ہے اس کا نمبر ۴۴۸۴ ہے۔ کاتب نے آخر میں اس کا نام ’’جمالیہ‘‘ لکھا ہے اس مجموعہ کے گیارہویں رسالے کے آخر میں تاریخ کتابت ۱۱۰۰ھ درج ہے اور تمام مجموعہ ایک خط میں تحریر ہے۔
۵۔ ابدالیہ:
اس کا موضوع ’’اثباتِ وجودِ اولیاء اور ان کے مراتب‘‘ ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پہلی بار محمد نذیر رانجھا نے کیا ہے جو اپریل ۱۹۷۸ء میں اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور کی جانب سے چھپ چکا ہے نیز موصوف ہی کا تصحیح کردہ فارسی متن مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد نے جون ۱۹۷۸ءمیں شائع کیا ہے۔ ہمارے پیشِ نظر دونوں ایڈیشن ہیں۔
۶۔ شرح اسماء اللہ:
اس کے دیباچے میں آپ نے لکھا ہے کہ اس سے پہلے علمائے طریقت نے اسماء اللہ کی عربی و فارسی میں متعدد شروح لکھی ہیں۔ میں نے اُن کے فوائد فارسی میں اکھٹے کیے ہیں تاکہ خاص و عام کو اس سے فائدہ پہنچے۔
مخطوطات:
۱۔ راولپنڈی، گولڑہ شریف، کتابخانہ موربار پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، خط تستعلیق، کتابت تیرھویں صدی ہجری۔ ۲۸ صفحہ، ۱۵ سطر۔
ب۔ اٹک، مکھڈ شریف، کتابخانۂ مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ (در ملک محمد صالح) خظ نستعلیق، کتابت گیارہویں صدی ہجری، ۲۲ص۔
۷۔ قرآن شریف کا تاجک زبان میں ترجمہ:
تاج زبان میں سب سے پہلے قرآن شریف کا ترجمہ پانچ سو سال قبل کیا گیا تھا۔ جو آپ نے یعنی خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا تھا ۱۹۸۲ء میں سودیت تاجکسان کے دارالحکومت دو شنبہ کے نواح میں واقع ایک مسجد کو اُن کا نام دیا گیا ہے۔
۸۔ رسالہ دربارۂاصحاب و علامات قیامت:
بخطِ نستعلیق ۱۳ویں ہجری، کاتب محمد بن واملا آدنیہ خواجہ التیرخانی سرای، بروز چہار شنبہ صفر، آغاز ناقص (مجموعہ مخطوطات نمبر ۵۴۷۸ بنیاد خاورشناسی تاشکند، نسخہ ہائی خطی (جلد۹ ص۱۷۸) زیر نظر محمد تقی دانش پژدہ، تہران ۱۳۵۸۔
ارشاداتِ قدسیہ:
۱۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہ کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ زین الدین خوانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ملک مصر میں مولانا شہاب الدین سیرامی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ہم سبق رہے ہیں۔ ایک دن آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کہتے ہیں کہ شیخ زین الدین رحمۃ اللہ علیہ حلِ وقائع اور خوابوں کی تعبیر کا شغل رکھتے ہیں اور اس بارے میں اہتمام رکھتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا، ’’ہاں درست ہے‘‘، پھر آپ ایک ساعت بے خود ہوگئے، آپ کا طریقہ یہ تھا کہ ساعت بساعت بے خود ہوجایا کرتے تھے۔ جب ہوش میں آئے تو آپ نے یہ بیت پڑھی ؎
چوں غلامِ آفتا بم از آفتاب گویم |
|
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیثِ خواب گویم |
۲۔ فرماتے تھے کہ شہر ہرات کے اوقاف میں سے تین جگہ کے سوا کوئی چیز نہیں کھا سکتے یعنی حضرت خواجہ عبداللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ، خانقاہ ملک میں اور مدرسہ غیاثیہ میں ان تینوں کے سوا کوئی اور جگہ کہ جہاں وقف میں شک نہ ہو نہیں ہے ۔ اسی واسطے ماوراء النہر کے اکابر قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم نے اپنے مریدوں کو ہرات کے سفر سے منع کیا ہے کیونکہ وہاں حلال کم ہے جب سالک حرام میں مبتلا ہوجاتا ہے تو عالمِ طبیعت کی طرف رجعتِ قہقری (سابقہ حالت کی طرف لوٹنا) کرتا ہے اور راہِ مستقیم کے سلوک سے منحرف ہوجاتا ہے۔
۳۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ’’تیرا ہاتھ ہمارا ہاتھ ہے جس کسی نے تیرا ہاتھ پکڑا، اُس نے ہمارے ہاتھ کو پکڑا ہے‘‘۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)
مولانا یعقوب بن عثمان چرخی قدس سرہ
آپ حضرت خواجہ بزرگ خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے اصحاب میں سے ہیں۔ چونکہ آپ کی تکمیل حضرت خواجہ علاء الدین عطار سے ہوئی۔ اس سبب سے ان ہی کے خلفاء میں شمار ہوتے ہیں۔
تحصیل علم:
آپ دراصل چرخ سے ہیں جو ولایت غزنی میں ایک گاؤں کا نام ہے۔ ابتدائے احوال میں کچھ مدت جامع ہرات میں اور کچھ مدت دیار مصر میں تحصیل علوم میں مشغول رہے ہیں۔ علوم ظاہری سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو سلوک کا خیال آیا۔ تو حضرت خواجہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جس کا قصہ آپ خودیوں بیان فرماتے ہیں:
’’جب اللہ تعالیٰ کی عنایت بغایت سے طلب کی خواہش اس فقیر کے دل میں پیدا ہوئی۔ تو خدا تعالیٰ کا فضل قائد و عصا کش کی طرح مجھ کو کشاں کشاں(کھینچ کر) حضرت خواجہ بزرگ کی خدمت میں لے گیا۔ میں بخارا میں ان کی صحبت میں حاضر ہوتا اور ان کے کرم عمیم سے توجہ پاتا۔ یہاں تک کہ خدائےبے نیاز کی ہدایت سے مجھے یقین ہوگیا۔ کہ حضرت خواجہ خواص اولیاء اللہ سے ہیں اور کامل مکمل ہیں۔ غیبی اشارات اور بہت سے واقعات کے بعد میں نے کلام اللہ شریف سے فال لیا تو یہ آیت نکلی۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے۔ پس تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔‘‘ (سورۃ انعام۔ رکوع ۱۰)
میں شام کے وقت فتح آباد میں جو اس فقیر کا مسکن تھا شیخ عالم سیف الحق والدین باخرزی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۵۱ھ) کے مزار کی طرف متوجہ بیٹھا تھا کہ اچانک خدا تعالیٰ کی قبولیت کا قاصد آپہنچا۔ اور مجھ میں بے قراری پیدا ہوئی۔ میں نے حضرت خواجہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا۔ جب میں موضع کوشک ہندواں (قصر عارفاں) میں جو آپ کا قیام گاہ تھا پہنچا۔ تو حضرت خواجہ کو راستے میں منتظر پایا۔ آپ لطف و احسان سے پیش آئے۔ اور نماز شام کے بعد صحبت کا شرف بخشا۔ آپ کی ہیبت مجھ پر اس قدر غالب ہوئی کہ دیکھنے کی مجال نہ رہی۔ آپ نے فرمایا ’’علم دو ہیں۔ ایک قلب کا علم اور یہ نبیوں اور رسولوں کا علم ہے۔ دوسرا زبان کا علم اور یہ بنی آدم پر حجت ہے۔ امید ہے کہ علم باطن سے تجھے حصہ ملے گا۔‘‘ پھر فرمایا کہ حدیث میں ہے۔
اذا جالستم اھل الصدق فجالسو ھم بالصدق فانھم جو اسیس القلوب ید خلون فی قلوبکم وینظرون الٰی ھممکم
جب تم اہل صدق کی صحبت میں بیٹھو تو ان کے پاس صدق سے بیٹھو۔ کیونکہ وہ دلوں کے جاسوس ہیں۔ تمہارے دلوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور تمہارے ارادوں کو دیکھ لیتے ہیں۔
قبولیت کا اشارہ:
فرمایا ! ہم مامور ہیں۔ اپنے آپ کسی کو قبول نہیں کرتے۔ آج رات دیکھیں گے کہ تیرے بارے میں کیا اشارہ ہوتا ہے۔ تاکہ اُس پر عمل کیا جائے۔ وہ رات مجھ پر ایسی سخت گزری کہ عمر بھر کوئی رات ایسی نہ گزری تھی۔ میں ڈرتا تھا کہ مبادارد کردیں۔ جب میں نے صبح کی نماز آپ کے ساتھ پڑھی۔ تو فرمایا کہ قبولیت کا اشارہ ہوا ہے۔ ہم کسی کو قبول نہیں کرتے۔ اگر کرتے ہیں تو دیر سے کرتے ہیں۔تاکہ دیکھیں کہ کوئی کس نیت سے آتا ہے اور کس وقت آتا ہے۔ پھر آپ نے اپنے مشائخ کا سلسلہ خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ تک بیان فرمایا۔ اور اس فقیر کو وقوف عددی میں مشغول کیا۔ اور فرمایا کہ یہ علم لدنی کا پہلا سبق ہے۔ جو خاصانِ خدا میں سے ایک بزرگ نے جو بقول مشہور حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی کو پڑھایا تھا۔ بعد ازاں میں ایک مدت تک حضرت خواجہ کی خدمت میں رہا۔ یہاں تک کہ آپ نے اس فقیر کو بخارا سے سفر کی اجازت دے دی۔ اور فرمایا کہ جو کچھ تجھے ہم سے ملا ہے وہ بندگانِ خدا تک پہنچا دینا تاکہ اس کی سعادت کا سبب ہو۔ اور رخصت کے وقت تین بار فرمایا۔ تُرا بَخُدا سپردیم (ہم نے تجھے خدا کے سپرد کیا)۔ اس سپرد کرنے سے بہت امید ہوگئی۔ کیونکہ حدیث میں ہے۔’’ان اللہ تعالیٰ اذا استودع شئی حفظہ۔‘‘ جب کوئی چیز حوالہ خدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ جب میں بخارا سے روانہ ہوکر شہر کش [۱] میں پہنچا اور کچھ مدت وہاں رہا تو حضرت خواجہ کی وفات کی خبر پہنچی۔ میرے دل پر رنج اور صدمہ ہوا اور بڑا خوف غالب ہوگیا کہ مبادا عالم طبیعت کی طرف پھر میلان ہوجائے اور طلب کی خواہش نہ رہے۔ میں نے حضرت خواجہ کی روحانیت کو دیکھا کہ آپ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور یہ آیت پڑھی۔ ’’وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَأىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ‘‘ (الِ عمران۔ ع ۱۵) اور محمدﷺ تو ایک رسول ہیں۔ اُن سے پہلے بہت رسول آ چکے۔ پھر کیا اگر وہ وصال فرماگئے یا شہید ہو گئے تو(کیا)تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔ چونکہ میں آپ کی صحبت سے محروم ہوگیا تھا۔ اس لیے خیال ہوا کہ درویشوں کے کسی دوسرے گروہ سے جا ملوں اور ان کے طریقہ میں مشغول ہوجاؤں۔ میں نے پھر حضرت خواجہ کی روحانیت کو دیکھا کہ فرماتے ہیں۔ قال زید بن الحارثہ الدین واحد۔ فرمایا !زید بن حارثہ نے کہ دین ایک ہی ہے۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ اجازت نہیں ہے۔ آپ نے صحابہ کرام میں سے حضرت زید بن حارثہ کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ حضرت زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسر خواندہ یعنی منہ بولے بیٹے تھے۔ ہمارے حضرات خواجگان اپنے مریدوں کو فرزندی میں قبول فرماتے ہیں۔ پس ان کے اصحاب ان کے منہ بولے بیٹے ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
[۱۔ یہ موضع دیہات اصفہان میں سے ہے۔ بعضے ماوراء النہر میں بتاتے ہیں۔]
ایک دفعہ اور میں نے حضرت خواجہ کو دیکھا اور پوچھا کہ میں آپ کو قیامت میں کس عمل سے پاؤں۔ فرمایا۔ تشریع سے یعنی شریعت پر عمل کرنے سے۔ ان تین بشارتوں سے اس ارشاد کی طرف اشارہ ہوا جو آپ عالمِ حیات میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے جو کچھ پایا وہ بفضلِ الٰہی قرآن و حدیث پر عمل کرنے سے اور اس عمل سے نتیجہ طلب کرنے سے اور تقویٰ و حدود شرعیہ کی رعایت ملحوظ رکھنے سے اور عزیمت پر اور طریقہ اہلِ سنت و جماعت پر چلنے سے اور بدعت سے پرہیز کرنے سے پایا۔
جب حضرت خواجہ نے فقیر کو بخارا سے سفر کی اجازت دی۔ تو اشارۃً حضرت خواجہ علاؤ الدین کی متابعت کا حکم دیا تھا۔ حضرت خواجہ کی وفات کے بعد میں موضع کش سے بدخشاں چلاگیا تھا۔ میں وہیں تھا کہ حضرت نے مجھے چغانیاں سے ایک خط لکھا اور اُس اشارۂ متابعت کو یاد دلایا۔ اس لیے میں چغانیاں میں چند سال آپ کی صحبت میں رہا۔ آپ سب پر بالخصوص اس فقیر پر بے حد لطف و کرم فرماتے تھے۔ جب آپ کا وصال ہوگیا تو میں نے چاہا کہ میں حضرت خواجہ بزرگ کے اس ارشاد کی تعمیل کروں کہ تجھے جو کچھ ہم سے پہنچا ہے اُسے بندگانِ خدا تک پہنچا دینا اور مناسب حال حاضرین کو بطریق خطاب اور غائبین کو بذریعہ کتابت تبلیغ کرنا۔ فقیر اپنے تئیں اس خدمت کا اہل نہیں سمجھتا۔ مگر اعتقاد یہ ہے کہ حضرت خواجہ کو اشارہ حکمت سے خالی نہ ہوگا۔‘‘
آپ کی کرامت حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کے حالات میں بیان ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
وصال مُبارک:
آپ کی وفات شریف ۵ صفر ۸۵۱ھ میں ہوئی۔ مزار مبارک قریہ ہلفتو میں ہے۔ جو حصار واقع ماوراء النہر کے مضافات میں سے ہے۔
ارشاداتِ عالیہ
۱۔حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کا بیان ہے کہ مولانا یعقوب چرخی شیخ زین الدین خوافی کے ساتھ ملک مصر میں مولانا شہاب الدین سیرامی کی خدمت میں ہم سبق رہے ہیں۔ ایک دن آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کہتے ہیں کہ شیخ زین الدین حل وقائع اور خوابوں تعبیر کا شغل رکھتے ہیں اور اس بارے میں اہتمام تام رکھتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ ہاں درست ہے۔ پھر آپ ایک ساعت بے خود ہوگئے۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ ساعت بساعت بے خود ہوجایا کرتے تھے۔ جب ہوش میں آئے تو آپ نے یہ بیت پڑھی۔
چو غلام آفتابم ہم از آفتاب گویم
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
۲۔ فرماتے تھے کہ شہر ہرات کے اوقاف میں سے تین جگہ کے سوا کوئی چیز نہیں کھا سکتے۔ یعنی خواجہ عبد اللہ انصاری قدس سرہ کی خانقاہ میں اور خانقاہ ملک میں اور مدرسہ غیاثیہ میں ۔ ان تینوں کے سوا کوئی اور جگہ کہ جہاں وقف میں شک نہ ہو نہیں ہے۔ اسی واسطے ماوراء النہر کے اکابر قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم نے اپنے مریدوں کو ہرات کے سفر سے منع کیا ہے۔ کیونکہ وہاں حلال کم ہے۔ جب سالک حرام میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ تو عالم طبیعت کی طرف رجعت قہقری (جلدی پستی کیطرف آتا ہے) کرتا ہے اور راہ مستقیم کے سلوک سے منحرف ہوجاتا ہے۔
حضرت مولانا یعقوب چرخی قدس سرہ صاحب تصانیف بھی ہیں۔ آپ نے قرآن مجید کے اخیر دو پاروں کی تفسیر لکھی ہے۔ جس کے مطالعہ سے بڑا ذوق شوق پیدا ہوتا ہے۔ رسالہ انسیہ بھی آپ کی تصنیف ہے۔ جس میں آپ نے حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ کے حالات درج کیے ہیں۔ (رسالہ انسیہ۔ نفحات۔ رشحات)
(مشائخِ نقشبندیہ)