حضرت مولوی غلام محی الدین بگوی
حضرت مولوی غلام محی الدین بگوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولوی غلام محی الدین بن حافظ نور حیات بن حافظ محمد شفا بن حافظ نور محمد بگوی: عالمِ اجل فاضلِ اکمل،فقیہ،محدث،صاحب کمالات صوری و معنوی تھے۔روز دو شنبہ ماہ محرم ۱۲۰۳ھ میں پیدا ہوئے آپ کو صغر سنی میں آپ کے والد ماجد جو ایک مقبول الٰہی اور صاحب کرامات تھے۔اپنے دیگر تینوں فرزندوں سے زیادہ پیار کرتے اور اکثر اوقات اپنے پاس رکھا کرتے تھے چنانچہ ان کا قول ہے کہ میں نے ایک رات کو سحر کے وقت دریا کے کنارے پر جاکر تہجد پڑھنے کا ارادہ کیا اور اپنے ہمراہ اٹھالیا اور دریا کے کنارے کپڑا بچھا کر اس کو لٹادیا اور خود وضو کر کے نوافل میں مشغول ہوا،میرے اور اس کے درمیان کچھ فاصلہ تھا اور رات اندھیری تھی کسی قدر دیر کے بعد مجھ کو یہ خیال گزرا کہ ایسا نہ ہو کہ کوی درندہ لرکے کو اذیت پہنائے،اپنے پاس لاکر لٹادں۔جب میں اس کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کو ایک سفید ریش مبارک صورت آدمی اپنی گود میں لیے بیٹھاہے۔میں نے اس کو کوئی بزرگ سمجھ کر کہا کہ آپ اس لڑکے کے حق میں دعا کریں کہ عالم با عمل ہو، اس نے جواب دیا کہ یہ ازل سے ہی عالم باعمل ہے اور اس سے لوگوں کو بہت فیض ہوگا۔یہ کہتے ہی آنکھوں سے غائب ہوگیا،سو آپ خدا نے ایسا ہی کیا۔آپ کے ہم عصروں کی روایت سے مشہور ہے کہ آپ حالت صغر سنی میں لڑکوں کے ساتھ نہ کھیلتے اور اکثر خاموش رہتے اور لڑکوں کو ہدایت کرتے تھے اور آپ کا خوف ورعب ہم پر مستولی رہتا تھا۔
جب آپ چار ماہ کے ہوئے تو آپ کو حافظ حسن کے پاس لیجاکر جو ایک کامل شخص تھے،قاعدہ شروع کرایا گیا۔بروایت حافظ حسن مشہور ہے کہ میں لڑکوں کے حق میں بڑا جبار تھا مگر انہوں نے مجھ سے کبھی مار نہیں کھائی،یہ لڑکوں مین خاموش بیٹھے رہتے تھے اور مجھ کو خیال ہوتا تھا کہ ان کو سبق یاد نہ ہوا ہوگا مگر جب میں کہتا تھا کہ سبق سناؤ تو یہ فوراً سبق سنادیتے۔آپ نے تھوڑے عرصے میں قرآن شریف ختم کرلیا تھا مگر حفظ نہیں کیا تھا لیکن چونکہ آپ بڑے خوش آواز تھے اس لیے جب رمضان آیا تو لوگوں نے آپ کے والد ماجد سے درخواست کی کہ اس رمضان میں غلام محی الدین سے قرآن شریف نوافل میں سنوانا چاہئے۔اس پر آپ سے آپ کے والد نے پوچھا کہ تم قرآن شریف سن سکو گے؟آپ نے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ ایک پارہ روز دور کرلیا کریں تو م مین سنادونگا پس اس طرح سے آپ نے اسی رمضان میں قرآن شریف حفظ کرلیا اور سنادیا۔آپ سے پوچھا گیا کہ آپ تمام دن میں یاد کیا کرتے تھے؟فرمایا نہیں صرف وقت چاشت تک ایک پارہ حفظ ہوجاتا تھا۔پھر آپ نے علم پڑھنا شروع کیا،صگر سنی میں یہ ذکاوت تھی کہ علمائے پنجاب کہتے تھے کہ اے لڑکے تم کو پنجاب میں کوئی تعلیم نہیں دے سکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ مع اپنے چھوتے بھائی مولوی احمد الدین کے دہلی کو روانہ ہوئے۔اس وقت مولوی احمد الدین کی عمر آٹھ سال کی تھی اور دسواں پارہ حفظ کرتے تھے مگر دہلی پہنچے تک انہوں نے بھی قرآن حفظ کرلیا پس آپ بارہ برس تک دہلی میں رہے۔اس عرسہ میں اگر چہ دونوں بھائیوں نے علم معقول ومنقول متفرق علماء سے پڑھا مگر حدیث کو مولوی محمد اسحاق سے پڑھا اور اس کی سند حضرت شاہ عبد العزیز کے پاس لے گئے،انہوں نے آپ سے علمِ حدیث میں بہت سے سوالات کیے جن کے جواب آپ نے ایسے عمدہ دیے کہ شاہ صاحب نہایت خوش ہوئے اور انہوں نے علمِ حدیث کی سند دیکر دعا فرمائی انشاء اللہ تعالیٰ آپ سے بڑا فیض ہوگا اور نصیحت کی کہ جب تم وطن میں جاؤ تو ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے لوگوں میں تفرقہ پڑے۔
جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو لاہور میں حکمیوں کی لال مسجد میں تقریباً ۲۰سال تک تدریس فرماتے رہے پھر بسبب بیماری کے کہ اعضاء مسترخی ہوگئے تھے،اپنے گھر موضع بُگا علاقہ بھیرہ میں چلے گئے جہاں تخمیناً تیرا چودہ سال بیمار رہے مگر اس بیماری میں بھی تدریس و تعلیم برابر جاری رکھی اور شب دو شنبہ ۲۹؍یا ۳۰؍شوال ۱۲۷۳ھ میں وفات پائی اور موضع بُگا میں مدفون ہوئے۔آپ کے دو صاحبزادے اس وقت زندہ موجود ہیں،ایک حاج الحرمین مولوی غلام محمد صاحب جو جامع مسجد لاہو رکے امام اور علامِ اجل ہیں،دوسرے مولوی عبد العزیز صاحب جو بھیرہ کی جامع مسجد کے امام ہیں۔تاریخ وفات آپ کی’’خورشید عالم‘‘ ہے۔
(حدائق الحنفیہ)