عارف با للہ حضرت مولانا غلام قادر بھیروی

عارف با للہ حضرت مولانا غلام قادر بھیروی قدس سرہ

          استاذ الا ساتذہ ، متقدئے اہل سنت حضرت مولانا عبد القادر المعروف بہ غلام قادرہاشمی ابن مولانا غلام حیدر رحمہما اللہ تعالیٰ ۱۲۶۵ھ؍۱۸۴۹ء میںبھیرہ ،ضلع سرگوداھ میںپیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مولانا غلام محی الدین بگوی (جون دنوں مسجد حکیماں ،اندرون بھائی دروازہ لاہور میںدرس حدیث پاک دیا کرتے تھے) اور ان ے چھوٹے بھائی مولانا احمد الدین بگوی سے حاصل کی ،مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے حضرت مولانا مفتی صدر الدین ، آرزدہ صدر الصدور دہلی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تکمیل علوم کے بعد لاہور تشریف لائے اور اندرون بھاٹی دروازہ ، اونچی مسجد ، میں خطیب مقرر ہوئے، ان کی عالمانہ تقریر کی کشش سے دور دور کے لوگ حاضر ہونے لگے ۔بیگم شاہی مسجد کی متولیہ مائیجیواں ااپ کے ارشادت سے اس قدرمتاثر ہویں کہااپنی مسجد کا خطیب مقرر کردیا، بعد ازاں مسجد کوتولیت بھی آپ ہی کے سپرد کردی[1]

          سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ سے بیعت ہوئے اور اجازت و خلافت سے بہرہ ور ہوئے ،آپ کے اور ادو اشغال میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اویسی نسبت کی بنا پر قادریت کا غلبہ تھا ۔ مشہور تاریخ گواور  تذکرہ نویس بزرگ مولانا غلام دستگیر نامی لکھتے ہیں:۔

’’آپ کو لاہورکا قطب سمجھا جاتا تھا[2]‘‘

          ۱۸۷۹ء میں اور نیٹل کالج ،لاہور میں عربی کے نائب استاد مقررہوئے اور دوسال تک طلباء کو علم و فضل سے فیضیاب کرتے رہے [3]

انہی دنون انگریزوںکو ایک فتوے کی ضرورت پیش آئی،متدین علماء نے صاف انکارکردیا ،کالج سے متعلق علماء سے رجو ع کیا گیا تاکہ وہ وظیفہ خوار ہونے کی بناپر انگریز کے منشا کے مطابق فتویٰ صادر کر دیں ، مولانا گلام قادر بھیر وی کے سامنے دستخط کرنے کے لئے فتویٰ پیش کیا گیا تو انہوں نے استعفاء پیش کردیا اور فرمایا:

’’ میں ملازمت سے دستبردار ہو سکتا ہوںلیکن غلط فتوے کی تائید نہیں کر سکتا۔‘‘

          چنانچہ آپ نے جامعہ نعمانیہ، لاہور میں درس و تدریس کا کام شرو کردیا اور تمام تر توجہ قرآن و حدیث کی تعلیم پر صرف کردی[4]

          لاہور کے سادہ لوح مسلمانوں کو ور غلانے کے لئے عیسائیوں اور مرزائیوں کے علاوہ دیوبندی ، وہابی ، نیچری اور شیعہ علماء نے سازشوں کے جال بچھا نے شروع کئے تو مولانا غلام قادر بھیر وی قدس سرہ نے تحریر و تقریر او وعظ و مناظرہ کے ذریعہ سب کے داتن کھٹے کردئے ۔ علمی دبدبے اور طبیعت کے جلال کے سبب کسی کو سامنے آنے کی جرأت کم ہی ہوتی تھی۔آپ نے مسجد میں مفسدین کا داخلہ بند کرلکھا تھا اور مسجد کی پیشانی پرایک پتھر نصب کروایا تھا جس پر یہ عبارت درج تھی:

’’ باتفاق انجمن حنفیہ وحکم شرع شریف قرار پایا کہ کوئی وہابی ، رافضی ، نیچری ، مرزائی مسجد ہذا میں نہ آئے اور خلاف مذہب حنفی کوئی بات نہ کرے ۔‘‘

فقیر غلام قادر عفی عنہ، متولی بیگم شاہی مسجد

          آج کل کے بعض ’’دانشور ‘‘ یہ تأثر دینے کی کوشش کر رہے ہیںکہ سنی وہابی اختلافات محض فروعی حیثیت رکھتاہے لہذا آپس میں رواداری کا ثبوت دینا چاہئے ۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ اہل سنت کو کافر و مشرک کہتے ہوئے نہیں تھکتے ، بارگاہ رسالت کے آداب کو پس پشت ڈال کر گستاخانہ روش اختیار کرتے ہیں، وہ کس رواداری کے مستحق ہو سکتے ہیں ؟مولانا غلام قادر بھیر وی قدس سرہ کی مسجد میںکوئی بد مذہب بغرض فساد داخل ہوجاتا تو اسے دھکے دے کر باہر نکلوادیتے ۔

          حقیقت یہ ہے کہ اگر علماء اہل سنت اس تصلب کا مظاہرہ نہ کرتے تو آج دین کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا ۔ پنجاب کے علماء میں سب سے پہلیمرزائے قادیانیکے خلاف آپ ہی نے فتویٰ دیا اور اس وقت مرزا کی تردید کی جب کہ اس نے ابھی  تک نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔

          پنجاب کے علماء کی غالب اکثریت آپ کے رشتہ تلمذ میں منسلک تھی ، چند تلامذہ کے نام یہ ہیں:۔

۱۔       امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری۔

۲۔      مولانا محمد عالم آسی امر تسری( مصنف الکاویہ علی الغاویہ)

۳۔      مولانا نبی بخش حلوائی (مصنف تفسیر نبوی وغیرہ)

۴۔      مولانا غلام احمد حافظ آبادی(سابق صدر مدرس جامعہ نعمانیہ ،لاہور)

۵۔      مولانا غلام حیدر قریشی پونچھوی۔

۶۔      قاضی ظفر الدین ۔

۷۔      صوفی غلام قادر چشتی سیالوی[5]۔

۸۔      حضرت مولانا محمد ضیاء الدین مدظلہ العالی ،مقیم مدینہ منورہ ، خلیفۂ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ۔

          مولوی حکیم عبد الحی لکھنوی لکھتے ہیں:

’’لم یکن لہ نظیر کثرۃ الدرس والافادۃ [6]‘‘

’’درس و افادہ کی کثرت میں کوئی ان کا مد مقابل نہ تھا‘‘

          حضرت مولاناغلام قادر بھیر وی قدس سرہ نے درس و تدیس اور رشد و ہدایت کی بے پایان مصرفیا ت کے باوجو د تصانیف کا گرانقدر ذخیرہ یادگار چھوڑا، تصانیف کے نام یہ ہیں :۔

۱۔       اسلام کی گیاہرکتابیں ( دینی تعلیم کا بہترین نصاب)

۲۔      الشوارق الصمدیہ، ترجمہ و تلخیص البوارق الحمدیہ (از مولانا شاہ فضل رسول بد ایونی)

۳۔      نماز حضوری ۔     

۴۔      ختما خواجگان ۔     

۵۔      شمس الحنفیہ بجواب نور الخفیہ (مسئلہ وحدۃ الوجود)  

۶۔      نور الربانی فی مدح المحبوب السجانی ۔     

۷۔      شمس الضحیٰ فی مدح خیرالوریٰ ۔

۸۔ نماز ضروری۔ 

۹۔ حقیقت انوار محمد یہ

۱۰۔ جوہر ایمانی

۱۱۔ عکازہ در صلوٰۃ جنازہ ۔

۱۲۔  فاتحہ خوانی ۔

          حضرت میاں شیر محمد شر قپوری قدس سرہ انگریزی خوان طبقے کو ’’تو اریخ حبیب الٰہ‘‘ اور اسلام کی گیارہ کتابیں پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔

          استاذ اساتذۃ العصر حضرت مولانا غلام قادر قریشی ہاشمی بھیر وی قدس سرہ العزیز ۱۹؍ربع الاول ، ۱۰؍اپریل ( ۱۳۲۷ھ؍۱۹۰۹ئ) کو اصل بحق ہوئے[7]او ر بیگم شاہی مسجد میں مھو استراح ابدی ہوئے نماز جنازہ میں خلق خدا کا ہجوم اس قدر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملتی تھی ۔مولانا کرم الدین ، رئیس بھیں ، ضلع جہلم فرماتے ہیں:۔

’’مولانا غلام قادر صاحب مرحوم کا جنازہ جب شہر لاہور میں اٹھایا گیا تو ہجو م خلائق اس قدر تھا کہ نماز جنازہ باہر پر پڈی میں پڑھی گئی ، کار خانوں کے مزدوروں نے اس روز مزدوری ترک کر کے شمولیت جنازہ کی ۔‘‘

          آپ کے شاگرد رشید مولانا محمد عالم آسی امر تسری نے تاریخ وفات کہی:

منبع فیض رب جلیل

درخلد بریں قبلۂ من[8]

          مولانا فتح محمد فاروقی حقیرؔ نے تاریخ وفات ۱۳۲۶ ھ قرار دیتے ہوئے قطعۂ تاریخ کہا ہے   ؎

تھے غلام قادر اک جو مولوی باصفا

تھے ستون دین احمد،بے ریائو با عمل

تھے عدو،لا مذہبوں کے،اہل مذہب کے تھے دوست

گوہر بحر علوم اور تھے مناظر بے بدل

تھا ربیع الاول اور انیسویں تاریخ تھی

چار شنبہ کا تھا دن جب آگئی ان کی اجل

دار فانی سے گئے ملک بقاکو جبکہ وہ

مرگ سے ان کی گیا سب مومنوں کا دل دہل

سال رحلت پوچھا ہاتف سے جو میں نے اے حقیرؔ

کان میںمیرے کہا ’’مغفور‘‘ اس نے بے خلل[9]

 

 

 

 

[1] محمد دین کلم،مؤرخ لاہور : تاریخ اولیائے چشت ، لاہور، ص ۲۳۲

[2] غلام دستگیر نامی،مولانا: بزرگان لاہور، ص ۱۸۱

[3] غلام مہر علی ،مولانا : الیواقیت المہریہ ، ص ۱۳۸

[4] اقبال احمد فارقی ، پیر زادہ : تذکرہ علمائے اہل سنت و جماعت،لاہور ، ص ۲۲۸

[5] اقبال احمد فارقی ، پیر زادہ : تذکرہ علمائے اہل سنت و جماعت،لاہور ، ص ۲۲۹

[6] عبد الحی لکھنوی ، حکیم مؤرخ : لزہۃ الخواطر ، ج ۸ ، ص ۳۴۹

 

[7] غلام دستگیر نامی ، پیر : بزرگان لاہور ، ص ۱۸۲

[8] کرم الدین ، دبیر ، مولانا : تازیانۂ عبرت (بار دوم ) ص ۸۔ ۱۲۷

[9] محمد امام الدین ، مولانا : ریاض النور (شیخ الہی بخش ، محمد جلال الدین ، لاہور ۱۳۳۳ھ) ص ۶۴

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء