حضرت مولوی مفتی غلام جان ہزاروی

حضرت مولوی مفتی غلام جان ہزاروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

بو المظفر اے کہ عبد المصطفیٰ    مصدر ایقان عالی دود ماں
باغلامان محمد نستبش          در شریعت رہبر پر و جواں
مفتیٔ اعظم زہے بے قیل قال  ایکہ در لاہور چول پیشنگاں

حضرت مولانا مفتی ابو المظفر عبد المصطفیٰ غلام جان ابن مولانا احمد جناب مولانا محمد عالم ۱۳۱۶ھ؍۱۸۹۶ء میں مقام او گرہ تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ میں پیدا ہوئے۔قرآن مجید اور فارشی نظم و نثر اور صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں اپنے والدسے پڑھیں ،اس کے بعد شوق علم میں دہلی اور سہار ن پور کی درس گاہوں مں بھی گئے ۔ مدرسہ عالیہ جامع مسجد آگرہ کے اساتذہ سے بھی کسب علم کیا ۔ مولانا غلام رسول (انہی ضلع گجرات) سے حمد اللہ اور زواہد ثلاثہ کا درس لیا۔ مینڈ ھو ضلع اعظم گڑھ اور گلاوٹی ضلع بلند شہر مین معقول کی کتابیں پڑھیں۔ٹونک میں حضرت علامہ حکیم سید برکات احمد سے ریاضی اور معقولات میں استفادہ کیا۔ ۱۳۳۵ھ میں مدرسہ عالیہ رامپورسے درجۂ تکمیل  پاس کیا مولانا شاہ سلامت اللہ رام پوری آپ پر بے حد شفق فرماتے تے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کا شہر ہ سن کر مرکز علم و عرفان بریلی شریف پہنچے اور شمس العلماء مولانا ظہور الحسن فارقی رام پوری اور صدر الشریعہ مولانا حکیم محمد امجد علی (مصنف بہار شریعت) سے درس نظامی کی آخری کتابیں پڑھ کر صحاح شہ کا دور ہ کیا ۔ ۱۳۳۷ھ کے جلسۂ دستار بندی میں امام اہل سنت امام احمد رضا بر یلوی نے دستار بندی فرمائی اور سند فضیلت عطا فرمائی۔ امام اہل سنت کے دست اقدس پر مرید ہوئے اور پھر خلافت سے نوازے گئے ۔فراغت کے بعد مدرسہ منظر الا سلام بریلی میں مدرس اور مسجد بی بی جی (بریلی) میں امام و خطیب مقرر ہوئے ۔حضرت مولانا خواجہ محمود تونسوی کی دعوت پر وہان سے مدرسہ سلیمانیہ تونسہ شریف جاکر کچھ عرصہ کا م کیا۔ایک سال مکھڈ شریف رہے، اس کے بعد خان محمد امیر کاں رئیس شہیلہ ضلع ہزارہ نے آپ کو بلا کر عہدئہ قضا پر مامور کیا لیکن کچھ دن بعد ہی آپ لاہور چلے گئے اور جامعہ نعمانیہ لاہور مین صدر مدرس اور مفتی مقرر ہوئے۔ ۱۳۴۵ھ میں بریلی شریف اور اجمیر شریف حاضری دیتے ہوئےحج و زیارت کی سعاد ت سے مشرف ہوئے ۔ شب بیداری یتیموں بیوائوں کی دستگیری اور اپنا کام خود کرنا آپ کے اوصاف تھے ۔ دن متین کی تبلیغ و ترویح کا جذبہ بدجۂ اتم موجود تھا۔ آپ کی تصانیف یہ ہیں:۔

۱۔   فتاویٰ غلامیہ
۲۔  نور العین فی سفر الحرمین
۳۔   سیف رٓحمان علیٰ رأس القادیانی
۴۔    دیوان غلامیہ
۵۔    نغمۂ شہادت (یہ ہنوز غیر مطبوعہ ہیں)
۶۔   القول المحتاط فی جوز الحیلۃ والا سقاط
۷۔   رسالہ اذان علی البقرو تعداد الجمعہ فی مساجد المصر ۔ (یہ طبع ہو چکی ہیں)

۲۵ محرم الحرام یکم اگست (۱۳۷۹ھ؍۱۹۵۹ء) کو کلمہ شریف اور صلوٰۃ و سلام کا ذکر کرتے ہوئے عین اس وقت جب مؤذن نے اذن ظہر کی آواز بلند کی ، آپ نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردی ۔ دوسرے دن غازی علم دین شہید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار کے جنوبی جانت دفن کئے گئے۔نماز جنازہ حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا البرکات سید احمد رحمہ اللہ نے پڑھائی۔

فاضل نو جوان حضرت مولانا مظفر اقبال سابق مدرس دار العلوم جامعہ نعمانیہ لاہور آپ کے جانشین ہیں ، مکرمی الحاج حکیم محمد موسیٰ امر تسری مدظلہ نے ’’معارف آگاہ مفتی اعظم‘‘ (۱۹۵۹ء) تاریخ عیسوی اور ’’فوت شد مفتی ٔ شد جہاں‘‘ تاریخ ہجری کہی ہے۔

(تذکرہ اکابرِاہلسنت)

تجویزوآراء