استاذ العلماء شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ بلوچ نعیمی شہید

استاذ العلماء شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ بلوچ نعیمی شہیدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد عبداللہ نعیمی بن محمد رمضان صاحب ۱۳۴۴ھ/ ۱۹۲۵ء میں بمقام چاہ بار محلہ خارانی (ایرانی بلوچستان) پیدا ہوئے۔

اگرچہ آپ اپنے خاندان کے پہلے عالم دین ہیں، تاہم آپ کے خاندان میں مذہبی رنگ موجود تھا۔ آپ کے والد ماجد درویش صفت، فقیر طبع اور صوم و صلوٰۃ کے پابند بزرگ تھے۔

۱۹۳۵ء میں آپ اپنے والد محترم کے ہمراہ آبائی وطن سے ہجرت کرکے ملیر (کراچی) میں آکر آباد ہوگئے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً دس سال تھی۔ جب آپ کی عمر بارہ سال کو پہنچی تو والد ماجد نے علاقہ ملیر کی ایک بستی میمن گوٹھ میں ایک برگزیدہ عالمِ دین و ممتاز خطیب حضرت مولانا الحاج حکیم اللہ بخش سندھی کے پاس تحصیل علم کے لیے بٹھایا، جہاں آپ نے قرآن مجید اور کافیہ تک کتابیں پڑھیں۔

اسی دوران والد ماجد کا وصال ہوگیا۔ آپ تن تنہا گھر کے کفیل تھے اس لیے گھریلو مسائل کچھ عرصہ کے لیے تعلیم میں حائل رہے۔

بعد میں آپ نے ملیر کینٹ (فوجی چھاؤنی) میں حضرت علامہ مولانا حافظ محمد بخش مدظلہ جن کا تعلق غالباً ضلع جہلم سے تھا، منطق، فلسفہ اور اصول کی کتب کے علاوہ مشکوٰۃ شریف اور جلالین بھی پڑھیں۔ علم میراث کی تعلیم حضرت مولانا الحاج محمد عثمان مکرانی خطیب پرانا گولیمار کے پاس حاصل کی۔

فنون کی تکمیل پر تاج العلماء حضرت مولانا محمد عمر نعیمی رحمہ اللہ کے زیرِ سایہ دارالعلوم مخزن عربیہ آرام باغ کراچی میں دورۂ حدیث کرکے ۱۹۶۰ء میں سندِ فراغت اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔

چونکہ آپ بچپن ہی سے درس و تدریس کا ذوق رکھتے تھے، اس لیے آپ حصولِ علم کے دوران ہی ۱۹۵۵ء میں صاحب داد گوٹھ میں قرآنی تعلیمات کا مدرسہ قائم کرکے تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

فراغت کے بعد آپ نے ۱۹۶۱ء میں دارالعلوم مجدّدیہ نعیمیہ کی بنیاد رکھی جس کا افتتاح تاج العلماء حضرت مولانا محمد عمر نعیمی رحمہ اللہ نے فرمایا۔

اسی دارالعلوم میں آپ تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ چنانچہ کثیرالتعداد علماء آپ سے اکتساب فیض کے بعد سندھ، بلوچستان، ایران، دوبئی اور مسقط وغیرہ مقامات پر علومِ اسلامیہ کی تعلیم و تدریس اور اشاعت و تبلیغ میں مصروف ہیں۔ آپ عرصہ پندرہ سال سے ملیر کھوکھرا پار کی مرکزی جامع مسجد غوثیہ میں خطیب ہیں۔ آپ کی تقریر نہایت سادہ اور موثر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو خصوصی انعامات سے نوازا ہے۔ آپ کا فتویٰ، تحقیقی، تدقیقی اور سائل کے لیے مکمل تسکین اور اطمینانِ قلبی کا باعث ہوتا ہے۔

ایوبی دور حکومت میں جب مشینی ذبیحہ کا فتنہ اٹھا، تو مفتیٔ اعظم سرحد حضرت مولانا شائستہ گل دامت برکاتہم العالیہ نے ملک بھر کے علماء کے فتاویٰ جمع کیے اس دوران جب حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ نعیمی کا تحقیقی فتویٰ دیکھا، تو بہت متاثر ہوئے اور اپنے صاحبزادے حضرت مولانا مفتی عبدالسبحان قادری مہتمم دارالعلوم قادریہ سبحانیہ (کراچی) سے آپ کے بارے میں استفسار فرمایا کہ یہ کون شخص ہے، جس کے فتوے نے میری زبردست راہنمائی کی، بلکہ آپ کے تسلی بخش جوابات کو دیکھ کر مولوی محمد یوسف بنوری نے بھی آپ کی تحقیق کی تعریف کی۔ آپ کا فتویٰ سندھ و بلوچستان میں بے حد مقبول ہے۔

اگرچہ آپ عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے، لیکن حضرت قائدِ اہل سنّت شاہ احمد نورانی صدیقی مدظلہ اور ان کے رفقاء کی معاونت کے لیے ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں۔ تحریک نظامِ مصطفےٰ میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا باوجودیکہ آپ ایسے مقام پر رہائش پذیر ہیں جو سیاسی مخالفین کا گڑھ ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں سابق وزیر قانون و تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ کا حلقۂ انتخاب رہا ہے۔ تحریک نظامِ مصطفےٰ کے دوران علاقہ کے مخالفین آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔ آپ پر سنگباری کی گئی۔ طلبا کو زدوکوب کیا گیا، لیکن آپ کے پائے استقلال میں جنبش تک نہ آئی اور آپ نے سیاسی مخالفین کی پرواہ کیے بغیر اپنا مشن جاری رکھا۔

آپ سلسلہ قادریہ میں پیرِ طریقت رہبرِ شریعت حضرت الحاج سید عبدالخالق شاہ مکرانی (مرحوم) سے بیعت ہیں جو پیر صاحب پگارا شریف کے مرکزی خلفاء میں سے تھے اور نقشبندیہ سلسلہ میں آپ کو حضرت الحاج سائیں عبداللہ سولنگی سندھ رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و خلافت کا شرف حاصل ہے۔ آپ کئی مرتبہ عمرہ کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ ۱۹۷۱ء میں آپ کو حج بیت اللہ شریف اور گنبدِ خضریٰ کی زیارت کی سعادت حضرت مفتیٔ اعظم ہند شہزادۂ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ مصطفےٰ رضا خاں بریلوی مدظلہ کے ہمراہ حاصل ہوئی۔ اس موقع پر خوش قسمتی سے حج اکبر کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ حج سے واپسی پر علماء اور عقیدتمندوں کا ہجوم تھا۔ اس موقعہ پر مولانا محمد اسلم نعیمی نے بطور تہنیت چند اشعار پیش کیے جو یہ ہیں    ؎

مراجعت ز حرم در وطن مبارک باد
صبا  بگفت چمن در چمن مبارک باد
خدا قبول کند ایں فریضۂ اکبر
جمال و جلوۂ شاہِ زمن مبارک باد
بصد خلوص و ادب عرض میکند اسلم
منم غلام تو مولائے من مبارک باد
حضور قبلۂ و کعبہ کجا مجالِ سخن
ولے معاف کن ایں سخن مبارک باد

حضرت مولانا مفتی محمد عبداللہ نعیمی با عمل عالم ہیں۔ زہد و تقویٰ، توکل  علی اللہ اور اتباع رسول علیہ السلام جیسے اوصافِ حمیدہ سے موصوف ہیں۔ تکالیف اور مصائب کے باوجود حق گوئی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ بھٹو دورِ حکومت میں جب چاند کے مسئلے پر اختلاف ہوا، تو آپ نے چاند کی شہادت کے سلسلے میں تحقیق کے لیے ۱۵ میل کا سفر پاپیادہ کیا۔ سیاسی مخالفین نے دیگر زیادتیوں کے علاوہ یہ مذموم حرکت بھی کی کہ آپ کو اپنی سواری دینے سے انکار کردیا۔

فروری ۱۹۷۸ء میں حضرت مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ناظم تنظیم المدارس (اہل سنّت) پاکستان نے کراچی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر آپ سے ملاقات کے دوران آپ کے تبحر علمی اور دارالعلوم کے انتظام و انصرام کے سلسلے میں آپ کی جدوجہد سے کافی متاثر ہوئے۔

[۱۔ حضرت مفتی صاحب کے یہ تمام کوائف محترم مولانا محمد اسلم نعیمی نے ارسال فرمائے، راقم ان کا ممنون ہے۔]

(تعارف علماءِ اہلسنت)

تجویزوآراء