حضرت مفتی محمد صدرالدین خان دہلوی
حضرت مفتی محمد صدرالدین خان دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مفتی محمد صدر الدین خاں[1] صدر الصدور دہلوی: تمام علوم صرف،نحو، منطق،حکمت،ریاضیات،معانی،بیان،ادب،انشاء،فقہ،حدیث،تفسیر وغیرہ مین ید طولیٰ رکھتے تھے اور درس دیتے تھے آباء واجداد آپ کے کاشمیر کے اہل بیت علم و صلاح سے تھے مگر آپ کی ولادت دہلی میں ہوئی۔علوم نقلیہ فقہ وحدیث وغیرہ شاہ عبد العزیزی دہلوی اور ان کے بھائیوں سے حاصل کیے اور ان کی سندیں لیں اور فنون عقلیہ کو مولوی فضل امام خیر آبادی والد مولوی فضل حق سے اخذکیا اور شیخ محمد اسحاق دہلوی نے بھی آپ کو حدیث کی اجازت لکھ کر دی۔
آپ برے صاحبِ وجاہت وریاست اور اپنے زمانہ میں یگانۂ روزگاراور نادرۂ عصر تھے۔ریاست درس و تدریس خصوصاً افتائے ممالک محروسہ مغربیہ بلکہ شرقیہ و شمالیہ دہلی اور امتحان مدارس و صدارت حکومت دیوانی کی آپ پر منتہیٰ ہوئی بجز شاہ دہلی کے تمام اعیان واکابر اور علماء وعلماء خاص دھلی اور اس کے نواح کے آپ کے مکان پر حاضر ہوتے تھے۔طلباء تو واسطے تحصیل علم اور اہل دینا واسطے مشورت معاملات اور منشی لوگ بغرض اصلاحِ انشاء اور شعراء واسطے مشاعرہ کے آتے تھے۔ اس اخیر وقت میں ایسا فاضل باین جمیعت اور قوت حافظ وحسن تحریری و متانت تقرریر اور فصاحتِ بیان اور بلاغت معانی کے صاحب مروت واخلاق اور احسان دیکھا نہیں گیا۔طلباء مدرسہ دار البقاء جو جامع مسجد کے نیچے تھا اکثر طعام و لباس اور بعضے م ا ہوار جناب سے پاتے اور آپ سے اور دیگر علماء سے تحصیل علم کرتے تھے۔ ۱۲۷۳ھ میں دہلی کے غدر میں آپ کو سخت زخم چشم پہنچا کہ تعلق روزگار بھی ہاتھسے گیا اور تمام جائداد اوملاک بھی جوتیس سال کی ملازمت میں پیدا کی ہوئی تھی سرکار میں ضبط ہوگی بلکہ جہاد کے فتوےٰ کے اشتباہ میں چند ماہ تک نظر بند بھی رہے،چونکہ اصل میں بے قصور تھے،آخر کو رہائی پاکر لاہور میں تشریف لائے اور واسطے اپنے کتب خانہ مالیتی تین لاکھ روپیہ کے جو دہلی کی لوٹ میں نیلام ہوگیا تھا حضور لارڈ جان لارنس صاحب کے پاس جو اس وقت پنجاب کے چیف کمشنر تھے اور مولانا ممدوح کے دہلی میں برے مہرباں رہ چکے تھے مطالبہ کیا لیکن چونکہ جدئداد منقولہ کے نیلام کا واپس مہونا متعذر تھا اس لیے اپنے مطلب میں کامیاب نہ ہوئے لیکن اتنا ہوگیا کہ جائداد گیر منقولہ جو سرکار میں ضبط ہوگئی تھی،واگذار ہوگئی اور مولانا موصوف دہلی میں کانہ نشین ہوئے اور اپنی حیات کے باقی ایام کو وظائف و عبادات اور تدریس علوم دینیہ میں بسر کیا۔مؤلف حدقئق ہذا بھی ۱۲۷۶ھ میں جب مولانا موصوف بستی حضرت نظام الدین اولیاء میں اقامت گزیں تھے،ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور تیرہ ماہ تک ان کی خدمت میں مشرف رہ کر علوم نقلی و عقلی کا استفادہ کرتا رہا۔ اس وقت میں مولانا موصوف باوجود یکہ چوہتّر سال کے تھے مگر ذوقِ شعرو سخن میں جو انان عاشق مزاج سے زیادہ مذاق رکھتے تھے۔عربی،فارسی،اردو نہایت عمدہ شعر کہتے تھے،آزردہ تخلص تھا اور بمقتضاء اس کے ہمیشہ فرط عشق اوردلولۂ محبت سے آزردہ خاطر افسردہ طبع دیدہ گریاں سینہ بریاں رہتے تھے اور اشعار کے پڑھنے میں نہایت دلشگاف آواز اور لحنِ حزیں اور صورت و رد انگیزرکھتےتھے جس نے آپ کی زباں سے سخن موزوں سنا ہے وہی اس کیفیت کو جانتا ہے کہ کیا انشادِ شعر تھا یا ایجاد سحر،غالب و حسرتی اور مامن وغیرہ شعرائے دہلی نے آپ کی مدح و تعریف میں بڑے بڑے قصائدو اشعار تصنیف کیے ہیں،اور فضلائے زمانہ نے آپ کے تلمذ و شاگردی کو باعظ تفاخر تصور کیا ہے،بہت لوگ دور دراز سے علوم متداولہ اور فنون مروجہ حاصل کر کے آپ کی خدمت میں آتے اور ایک دو سبق یا کوئی مختصر کتاب پڑھر کر فراغت حاصل کرتے اور محصلین واہل فضیلت میں شمار کیے جاتے تھے۔[2] تصنیفات آپ نے بہت ہی تھوڑی کی اور اکثر عمر اپنی تدریس و افتاء میں بسر کی۔ رسالہ منتہیٰ المقال فی شرح حدیث لا تشد الرحال اور در المنضود فی حکم امرأۃ المفقود اور اجوبۂ کثیرہ استفتا آت آپ کے یادگار ہیں۔
اخیر عمر میں ایک دو سال مرض فالج میں مبتلا رہ کر اکاسی سال کی عمر میں یوم پنجشنبہ ۲۴؍ربیع الاول ۱۲۸۵ھ میں فوت ہوئے۔مولوی ظہور مخاطب بہ شمس الشعراء نے آپ کی تاریخ وفات حسبِ ذیل لکھی ؎
چہ مولانا ے صدر الدین کہ در عصر
امامِ اعظم آخر زماں بود
زہے صدر الصدور نیک محضر
بعدل و دا چوں نو شیرواں بود
بہ روزِ پنجشنبہ کر درحلت
کہ ایں عالمنہ جاے جاوداں بود
ربیع الاول و بست و چہارم
وداعِ اوسوئے دار الجنان بود
ظہور افسوس آں استاد ذیقدر
پدردرام ہمیشہ مہرباں بود
چراغش ۱۲۰۴ہست تاریخ ولادت
کنوں گفتم چراغِ ۱۲۸۵ دو جہاں بود
آپ نے رسالہ منتہیٰ میں ابن تیمیہ وابن وحزم پر جنہوں نے بحسب زعم خود بروئے حدیث لا تشد الرحال کے قبور انبیاء والیاء کی زیارت کے لیے سفر کو حرام لکھا ہے،بتقلید ایک جماعت فقہائ ومحدثین شافعیہ مچل ابن حجر مکی و تقی سبکی اور قسطلانی وغیرہ کے بری تشنیع کی ہے اور ان کے عقائد کی مذمت میں بعض تاریخ معتبرہ مثل بکری دنویری سے عمدہ عمدہ اقوال نقل کیے ہیں اور رسالہ مزکورہ کے دیباچہ میں اس کی تالیف کے سبب میں منجملہ دیگر مطالب کے لکھا ہے ومنھم من تمسک بروایۃ فقھیۃ نادرۃ فحدۃ زعمامنھم ان لکل جدیدۃ لذۃ کل بضاعتھم الطعن فی الائمۃ المجتھدین وجل صناعتھم القدح فی الاولیاء المقربین الصراط المستقیم والمحلی ماخذھم واساسھم وابن حزم رئیسہم وراسھم لا یھتدون الیٰ طریق الحق بل یترددونی فی تیہ بلاھادو لا دلیل وھم اضلو کثیرا وضلو عن سوائ السبیل وفئۃ منم یقلدون اٰبائھم فھم علیٰ اٰثارھم مقتدون ولوکان اٰبائھم لا یعقلون شیئا ولا یھتدون وبعضھم یستنبطون الاحکام عن الاحادایث والقراٰن ولا یعلمون شیئا من العلوم حتی علم اللسان وھم ازا وقعو فی معضلۃ عمیا وخبطوا فیھا خبطا عشواء والذین معھم یتھاشون عن الاتباع والتقلید ویقولون ان حٰذا الیس بسواء السبیل واذا رجعو الیٰ شھد ائھم ینقلبون قلوبھم بلا حجۃ ولا دلیل ولقد من اللہ سبحٰنہ علیٰ ھٰزہ الامۃ بوجود العلماء فی کل عصر الدین عضو فی العلم بنواحذھم ورموا عرض الاصباۃ بنواخذھم وصرفو فی تحصیل العلوم احمارھم واھیو الکسب الفضائل لیلھم وناھارم فالفو اوافادواصنفواواجادو وافطوبیٰ لمن راجعھم الیھم ونزل رباعھم ورأی الحق حقا ورزق اتباعھم وسحقاللقوم الذین یعلمون ولایعلمون وکفی بنا مستند اعلیٰ غوایۃ کبرائھم انھم حرمو السفرالیٰ زیادۃ قبور الانبیاء والا ولیاء متمسکین بحدیث لا تشد الرحال فاملیت علیھم فی شرح ما ینجیھم عن الضلال مع تفرق البال وتشتت الحال فظلت اعناقھم خاضعین وقالو ااٰمنا بما جاء نا من الحق المبین الخ۔
1۔ مفتی صدر الدین بن لطف اللہ،ولادت ۱۲۰۴ھ (نزہۃ الخواطر)(مرتب)
1۔ مولانا فقیر محمد جہلمی کے علاوہ سر سید،نواب یوسف علی خاں والئ رامپور،نواب صدیق حسن خاں بوھپالی،مولوی محمد قاسم نا نونوی اور مولانا رشید احمد گنگنوہی بھی آپ کے نامور شاگرد ہیں۔ (تذکرہ علمائے ہند)
مفتی محمد صدر الدین خاں دھلوی
مفتی محمد صدر الدین خاں[1] صدر الصدور دہلوی: تمام علوم صرف،نحو، منطق،حکمت،ریاضیات،معانی،بیان،ادب،انشاء،فقہ،حدیث،تفسیر وغیرہ مین ید طولیٰ رکھتے تھے اور درس دیتے تھے آباء واجداد آپ کے کاشمیر کے اہل بیت علم و صلاح سے تھے مگر آپ کی ولادت دہلی میں ہوئی۔علوم نقلیہ فقہ وحدیث وغیرہ شاہ عبد العزیزی دہلوی اور ان کے بھائیوں سے حاصل کیے اور ان کی سندیں لیں اور فنون عقلیہ کو مولوی فضل امام خیر آبادی والد مولوی فضل حق سے اخذکیا اور شیخ محمد اسحاق دہلوی نے بھی آپ کو حدیث کی اجازت لکھ کر دی۔
آپ برے صاحبِ وجاہت وریاست اور اپنے زمانہ میں یگانۂ روزگاراور نادرۂ عصر تھے۔ریاست درس و تدریس خصوصاً افتائے ممالک محروسہ مغربیہ بلکہ شرقیہ و شمالیہ دہلی اور امتحان مدارس و صدارت حکومت دیوانی کی آپ پر منتہیٰ ہوئی بجز شاہ دہلی کے تمام اعیان واکابر اور علماء وعلماء خاص دھلی اور اس کے نواح کے آپ کے مکان پر حاضر ہوتے تھے۔طلباء تو واسطے تحصیل علم اور اہل دینا واسطے مشورت معاملات اور منشی لوگ بغرض اصلاحِ انشاء اور شعراء واسطے مشاعرہ کے آتے تھے۔ اس اخیر وقت میں ایسا فاضل باین جمیعت اور قوت حافظ وحسن تحریری و متانت تقرریر اور فصاحتِ بیان اور بلاغت معانی کے صاحب مروت واخلاق اور احسان دیکھا نہیں گیا۔طلباء مدرسہ دار البقاء جو جامع مسجد کے نیچے تھا اکثر طعام و لباس اور بعضے م ا ہوار جناب سے پاتے اور آپ سے اور دیگر علماء سے تحصیل علم کرتے تھے۔ ۱۲۷۳ھ میں دہلی کے غدر میں آپ کو سخت زخم چشم پہنچا کہ تعلق روزگار بھی ہاتھسے گیا اور تمام جائداد اوملاک بھی جوتیس سال کی ملازمت میں پیدا کی ہوئی تھی سرکار میں ضبط ہوگی بلکہ جہاد کے فتوےٰ کے اشتباہ میں چند ماہ تک نظر بند بھی رہے،چونکہ اصل میں بے قصور تھے،آخر کو رہائی پاکر لاہور میں تشریف لائے اور واسطے اپنے کتب خانہ مالیتی تین لاکھ روپیہ کے جو دہلی کی لوٹ میں نیلام ہوگیا تھا حضور لارڈ جان لارنس صاحب کے پاس جو اس وقت پنجاب کے چیف کمشنر تھے اور مولانا ممدوح کے دہلی میں برے مہرباں رہ چکے تھے مطالبہ کیا لیکن چونکہ جدئداد منقولہ کے نیلام کا واپس مہونا متعذر تھا اس لیے اپنے مطلب میں کامیاب نہ ہوئے لیکن اتنا ہوگیا کہ جائداد گیر منقولہ جو سرکار میں ضبط ہوگئی تھی،واگذار ہوگئی اور مولانا موصوف دہلی میں کانہ نشین ہوئے اور اپنی حیات کے باقی ایام کو وظائف و عبادات اور تدریس علوم دینیہ میں بسر کیا۔مؤلف حدقئق ہذا بھی ۱۲۷۶ھ میں جب مولانا موصوف بستی حضرت نظام الدین اولیاء میں اقامت گزیں تھے،ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور تیرہ ماہ تک ان کی خدمت میں مشرف رہ کر علوم نقلی و عقلی کا استفادہ کرتا رہا۔ اس وقت میں مولانا موصوف باوجود یکہ چوہتّر سال کے تھے مگر ذوقِ شعرو سخن میں جو انان عاشق مزاج سے زیادہ مذاق رکھتے تھے۔عربی،فارسی،اردو نہایت عمدہ شعر کہتے تھے،آزردہ تخلص تھا اور بمقتضاء اس کے ہمیشہ فرط عشق اوردلولۂ محبت سے آزردہ خاطر افسردہ طبع دیدہ گریاں سینہ بریاں رہتے تھے اور اشعار کے پڑھنے میں نہایت دلشگاف آواز اور لحنِ حزیں اور صورت و رد انگیزرکھتےتھے جس نے آپ کی زباں سے سخن موزوں سنا ہے وہی اس کیفیت کو جانتا ہے کہ کیا انشادِ شعر تھا یا ایجاد سحر،غالب و حسرتی اور مامن وغیرہ شعرائے دہلی نے آپ کی مدح و تعریف میں بڑے بڑے قصائدو اشعار تصنیف کیے ہیں،اور فضلائے زمانہ نے آپ کے تلمذ و شاگردی کو باعظ تفاخر تصور کیا ہے،بہت لوگ دور دراز سے علوم متداولہ اور فنون مروجہ حاصل کر کے آپ کی خدمت میں آتے اور ایک دو سبق یا کوئی مختصر کتاب پڑھر کر فراغت حاصل کرتے اور محصلین واہل فضیلت میں شمار کیے جاتے تھے۔[2] تصنیفات آپ نے بہت ہی تھوڑی کی اور اکثر عمر اپنی تدریس و افتاء میں بسر کی۔ رسالہ منتہیٰ المقال فی شرح حدیث لا تشد الرحال اور در المنضود فی حکم امرأۃ المفقود اور اجوبۂ کثیرہ استفتا آت آپ کے یادگار ہیں۔
اخیر عمر میں ایک دو سال مرض فالج میں مبتلا رہ کر اکاسی سال کی عمر میں یوم پنجشنبہ ۲۴؍ربیع الاول ۱۲۸۵ھ میں فوت ہوئے۔مولوی ظہور مخاطب بہ شمس الشعراء نے آپ کی تاریخ وفات حسبِ ذیل لکھی ؎
چہ مولانا ے صدر الدین کہ در عصر
امامِ اعظم آخر زماں بود
زہے صدر الصدور نیک محضر
بعدل و دا چوں نو شیرواں بود
بہ روزِ پنجشنبہ کر درحلت
کہ ایں عالمنہ جاے جاوداں بود
ربیع الاول و بست و چہارم
وداعِ اوسوئے دار الجنان بود
ظہور افسوس آں استاد ذیقدر
پدردرام ہمیشہ مہرباں بود
چراغش ۱۲۰۴ہست تاریخ ولادت
کنوں گفتم چراغِ ۱۲۸۵ دو جہاں بود
آپ نے رسالہ منتہیٰ میں ابن تیمیہ وابن وحزم پر جنہوں نے بحسب زعم خود بروئے حدیث لا تشد الرحال کے قبور انبیاء والیاء کی زیارت کے لیے سفر کو حرام لکھا ہے،بتقلید ایک جماعت فقہائ ومحدثین شافعیہ مچل ابن حجر مکی و تقی سبکی اور قسطلانی وغیرہ کے بری تشنیع کی ہے اور ان کے عقائد کی مذمت میں بعض تاریخ معتبرہ مثل بکری دنویری سے عمدہ عمدہ اقوال نقل کیے ہیں اور رسالہ مزکورہ کے دیباچہ میں اس کی تالیف کے سبب میں منجملہ دیگر مطالب کے لکھا ہے ومنھم من تمسک بروایۃ فقھیۃ نادرۃ فحدۃ زعمامنھم ان لکل جدیدۃ لذۃ کل بضاعتھم الطعن فی الائمۃ المجتھدین وجل صناعتھم القدح فی الاولیاء المقربین الصراط المستقیم والمحلی ماخذھم واساسھم وابن حزم رئیسہم وراسھم لا یھتدون الیٰ طریق الحق بل یترددونی فی تیہ بلاھادو لا دلیل وھم اضلو کثیرا وضلو عن سوائ السبیل وفئۃ منم یقلدون اٰبائھم فھم علیٰ اٰثارھم مقتدون ولوکان اٰبائھم لا یعقلون شیئا ولا یھتدون وبعضھم یستنبطون الاحکام عن الاحادایث والقراٰن ولا یعلمون شیئا من العلوم حتی علم اللسان وھم ازا وقعو فی معضلۃ عمیا وخبطوا فیھا خبطا عشواء والذین معھم یتھاشون عن الاتباع والتقلید ویقولون ان حٰذا الیس بسواء السبیل واذا رجعو الیٰ شھد ائھم ینقلبون قلوبھم بلا حجۃ ولا دلیل ولقد من اللہ سبحٰنہ علیٰ ھٰزہ الامۃ بوجود العلماء فی کل عصر الدین عضو فی العلم بنواحذھم ورموا عرض الاصباۃ بنواخذھم وصرفو فی تحصیل العلوم احمارھم واھیو الکسب الفضائل لیلھم وناھارم فالفو اوافادواصنفواواجادو وافطوبیٰ لمن راجعھم الیھم ونزل رباعھم ورأی الحق حقا ورزق اتباعھم وسحقاللقوم الذین یعلمون ولایعلمون وکفی بنا مستند اعلیٰ غوایۃ کبرائھم انھم حرمو السفرالیٰ زیادۃ قبور الانبیاء والا ولیاء متمسکین بحدیث لا تشد الرحال فاملیت علیھم فی شرح ما ینجیھم عن الضلال مع تفرق البال وتشتت الحال فظلت اعناقھم خاضعین وقالو ااٰمنا بما جاء نا من الحق المبین الخ۔
1۔ مفتی صدر الدین بن لطف اللہ،ولادت ۱۲۰۴ھ (نزہۃ الخواطر)(مرتب)
1۔ مولانا فقیر محمد جہلمی کے علاوہ سر سید،نواب یوسف علی خاں والئ رامپور،نواب صدیق حسن خاں بوھپالی،مولوی محمد قاسم نا نونوی اور مولانا رشید احمد گنگنوہی بھی آپ کے نامور شاگرد ہیں۔ (تذکرہ علمائے ہند)
(حدائق الحنفیہ)